لیاقت پور کی فوجی کالونی میں ہمسائے کیوں لڑ رہے ہیں؟

postImg

وحید رُشدی

postImg

لیاقت پور کی فوجی کالونی میں ہمسائے کیوں لڑ رہے ہیں؟

وحید رُشدی

خالد بدر تین دہائیوں سے رحیم یار خان کی تحصیل لیاقت پور کی فوجی کالونی میں مقیم ہیں اور اخبار بیچ کر گزر بسر کرتے ہیں۔

آج کل وہ اپنا گھر بیچ کر شہر کے کسی اور علاقے میں منتقل ہونا چاہتے ہیں مگر کوئی ان کا گھر خریدنے کو تیار نہیں ہے۔

 معاملہ یہ ہے کہ خالد کی گلی کئی ماہ سے سیوریج کے پانی میں ڈوبی ہوئی ہے۔ گندے پانی میں اترے بغیر مکینوں کا کہیں آنا جانا ممکن نہیں۔

"میونسپل کمیٹی کا عملہ کبھی کبھار عملہ سکر مشین سے پانی نکال کر لے جاتا ہے مگر گٹر چند منٹوں بعد دوبارہ ابلنے لگتے ہیں"۔

خالد بتاتے ہیں کہ گندے پانی کی وجہ سے محلے میں جھگڑے بڑھ رہے ہیں لوگ گندا پانی اپنے گھروں میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے گلی میں مٹی ڈال کر اس کا راستہ بدلنے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ پانی ارد گرد کے گھروں کا رخ کر لیتا ہے اور گلی کے مکین لڑنے مرنے پر اتر آتے ہیں۔

جوہڑ نما گلی کے تعفن اور آلودگی نے یہاں کے مکینوں کا ناک میں دم کر رکھا اور مچھر اور مکھیاں وبائی بیماریاں پھیلا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ باہر سے کوئی شخص یہاں آ کر رہنا پسند نہیں کرتا۔

یہ مسئلہ صرف خالد بدر یا فوجی کالونی کے باسیوں تک محدود نہیں۔شہر کے کئی علاقوں میں یہی صورتحال ہے۔ فوجی کالونی سے ملحق محلہ اسلام نگر شرقی و جنوبی کی کئی گلیاں گندے پانی کے نالوں کا منظر پیش کر رہی ہیں۔

مسلسل پانی کھڑا رہنے کی وجہ سے ان آبادیوں میں گھروں کی بنیادیں بھی کمزور ہو رہی ہیں۔علاقے کی پوش اور جدید سمجھی جانے والی ہاؤسنگ سکیم غربی کا چلڈرن پارک بھی پوری طرح گندے پانی میں ڈوبا ہوا ہے۔

2017ء کے آغاز میں اس وقت کے ایم پی اے میاں اسلام اسلم کی درخواست پر وزیراعلیٰ شہباز شریف نے لیاقت پور کو میگا سیوریج پراجیکٹ دینے کا اعلان کیا تھا جس پر 51 کروڑ 80 لاکھ روپے خرچ ہونا تھے۔

لاہور کی کمپنی پروگریسو انٹرنیشنل انجینئرز اینڈ کنٹریکٹرز نے یہ ٹھیکہ حاصل کر کے 24 جولائی 2017ء کو کام کا آغاز کیا۔ اس منصوبے کو 18 ماہ میں مکمل ہونا تھا اور ابتدائی طور پر اس کے لیے چھ کروڑ روپے جاری کیے گئے۔

اس منصوبے میں پرانے ڈسپوزل کی جگہ نئے کنووں اور تالابوں کی تعمیر کے علاوہ چک نمبر 20 عباسیہ کی حدود میں ایسوسی ایٹ کالج سے ملحقہ اراضی اور کچی منڈی میں نئے کنویں تعمیر کیے جانا تھے۔تاہم منصوبے میں اس بات کا کوئی ذکر نہیں ملتا کہ کنوؤں میں جمع ہونے والا پانی کہاں اور کیسے ڈسپوز آف کیا جائے گا۔

فنڈز کی فراہمی میں تعطل کے باعث اس منصوبے کی تکمیل کی مدت میں بار بار توسیع ہوتی رہی۔

<p>حکومتی اعلان کے مطابق 18 ماہ میں بن جانے والا یہ منصوبہ 5 سال سے زائد عرصہ گزر جانے کے بعد بھی مکمل نہیں ہو سکا <br></p>

حکومتی اعلان کے مطابق 18 ماہ میں بن جانے والا یہ منصوبہ 5 سال سے زائد عرصہ گزر جانے کے بعد بھی مکمل نہیں ہو سکا

محکمہ پبلک ہیلتھ کی طرف سے جنوری 2022ء میں جاری کردہ نوٹ کے مطابق پچھلے سالانہ ترقیاتی پروگرام میں اس منصوبے کی  تکمیل کی حتمی تاریخ 30 جون 2022ء مقرر کی گئی تھی مگر اس تاریخ کو گزرے بھی آٹھ ماہ ہونے کو ہیں۔

پبلک ہیلتھ کے اپنے ریکارڈ کے مطابق عملی طور پر یہ سکیم 40 فیصد بھی مکمل نہیں ہو سکی۔ محکمے کے افسروں کی کارکردگی کا اندازہ اس طرح بھی لگایا جا سکتا ہے کہ حکومت اب تک اس منصوبے کے لیے 24 کروڑ روپے جاری کر چکی ہے مگر اس میں سے 19 کروڑ 80 لاکھ روپے پہ خرچ کیے گئے ہیں۔

 لیاقت پور شہر میں سیوریج سسٹم کی لائنیں 40 سے 60 سال پرانی ہیں جن میں بعض ریت مٹی سے بھر چکی ہین تو کچھ گَل کر ناکارہ ہو گئی ہیں۔

میونسپل کمیٹی لیاقت پور کے چیف سینیٹری انسپکٹر ملک عبداللطیف نے سجاگ کو بتایا کہ پرانا ڈسپوزل ورکس ناکارہ ہو چکا ہے اور شہر بھر کے سیوریج کے اخراج کے لیے کوئی جگہ باقی نہیں بچی۔

"پہلے ڈسپوزل ورکس کے ارد گرد کی زرعی زمینوں کو سیراب کرنے کے لیے سیوریج کا پانی فروخت کیا جاتا تھا مگر اب وہاں رہائشی منصوبوں پر کام ہو رہا ہے اور جو زمینیں باقی ہیں وہاں سبزیاں کاشت کی جاتی ہیں ہے جن کو سیوریج کا پانی لگانے پر پنجاب فوڈ اتھارٹی نے پابندی عائد کر رکھی ہے"۔

ملک لطیف بتاتے ہیں کہ بارشوں کے موسم میں صورت حال زیادہ گھمبیر ہو جاتی ہے۔ پرانے ڈسپوزل ورکس پر پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ختم ہونے کی وجہ سے سارا گندا پانی ملحقہ غوثیہ کالونی، ملک ٹاون، اقلیتی آبادیوں، حکیم آباد کے بوائز پرائمری سکول، اقلیتی قبرستان اور مندر میں داخل ہو جاتا ہے۔

 ان کا کہنا ہے کہ نئی سکیم میں 75 ہارس پاور کی دو موٹریں لگائی گئی ہیں۔ ان میں سے ایک گزشتہ چھ ماہ سے خراب ہے جس کی وجہ سے پورے شہر کا لوڈ ایک موٹر پر آ چکا ہے۔ نئے منصوبے میں ایک جنریٹر خریدا گیا تھا مگر وہ بھی ناکارہ پڑا ہے۔

میونسپل کمیٹی لیاقت پور کے سب انجینئر وقاص سلیم کا کہنا ہے کہ میگا سیوریج منصوبے سے فی الحال ان کے ادارے کا کوئی تعلق نہیں۔ "جب یہ سکیم مکمل ہو گی تو تبھی اسے میونسپل کمیٹی کے حوالے کیا جائے گا"۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر اس منصوبے کے لیے فنڈ بروقت جاری کر دیے جاتے تو یہ کب کا مکمل ہو چکا ہوتا۔

<p>پبلک ہیلتھ کے ریکارڈ کے مطابق عملی طور پر سیوریج سکیم 40 فیصد بھی مکمل نہیں ہو سکی<br></p>

پبلک ہیلتھ کے ریکارڈ کے مطابق عملی طور پر سیوریج سکیم 40 فیصد بھی مکمل نہیں ہو سکی

 ویسے تو پینسٹھ ہزار نفوس پر مشتمل اس شہر کے تمام بازاروں، مارکیٹوں اور گلی محلوں میں یہی صورتحال دیکھنے کو ملتی ہے۔ لیکن رشید آباد، غوثیہ کالونی، اسلام نگر، مہاجر و فوجی کالونی، محلہ شیخ مظہر حسین، ریسٹ ہاوس روڈ،  واپڈا روڈ، قصاب مارکیٹ، کرسچن کالونی،چک 87 بینک روڈ، کچی منڈی شمالی و جنوبی پھاٹک روڈ، غلہ منڈی اور عقب تھانہ سٹی میں یہ خرابی زیادہ نمایاں ہے۔

 گزشتہ چار سال تک صوبائی اسمبلی کے رکن رہنے والے چوہدری مسعود احمد محکمہ پبلک ہیلتھ کو اس منصوبے کی سست روی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔

"منصوبہ مکمل نہ ہونے کی وجہ سے شہر میں کروڑوں کی لاگت سے نئی تعمیر ہونے والی سڑکیں برباد ہو رہی ہیں۔بیشتر تعلیمی اداروں کے اردگرد سیوریج کا پانی جمع ہے جو طلبہ و طالبات کی جسمانی و ذہنی صحت پر منفی اثرات مرتب کر رہا ہے"۔

 ان کا کہنا ہے کہ میونسپل کمیٹی میں حال ہی میں بھرتی ہونے والے سینیٹری ورکرز گھر بیٹھے تنخواہیں لے رہے ہیں۔ بلدیہ کے پاس وینچ مشینیں موجود ہیں لیکن چلانے کے لیے عملہ نہیں۔

انہوں ںے الزام لگایا کہ پانی کھینچنے والی سکر، جیٹنگ ( پانی کے بہاؤ میں رکاوٹ بننے والی اشیا کو پریشر سے صاف کرنے والی مشین) اور دیگر مشینری میں استعمال ہونے والا ڈیزل خوردبرد کیا جا رہا ہے۔

مقامی سماجی کارکن سجاد حسین فرید نے سجاگ کو بتایا کہ لیاقت پور میں پبلک ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کا کوئی مستقل ایس ڈی او تعینات نہیں ہے۔ جیسے ہی سیوریج پراجیکٹ کے لیے فنڈ ریلیز ہوتے ہیں یہاں کسی ایس ڈی او کو بھیج دیا جاتا ہے جو فنڈ ختم ہونے کے بعد اپنا تبادلہ کروا لیتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ محکمے کے افسروں نے اس میگا سکیم کی غلط منصوبہ بندی کی اور "زون بی" کی سیوریج لائن کی نکاسی کے  لیے جو ڈیزائن بنایا وہ پانی کے قدرتی بہاؤ سے الٹ ہے۔

"جن شہری آبادیوں میں پہلے سے سیوریج لائن موجود نہیں، انہیں نئے پراجیکٹ میں بھی نظرانداز کر دیا گیا سکیم کے تینوں مجوزہ حصوں پر بیک وقت کام شروع کیا گیا جس کی وجہ سے کوئی ایک زون بھی مکمل نہیں ہو سکا"۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

ساہیوال کے کسان سیوریج کو نہری پانی میں ملانے پر راضی نہیں، دیہات میں سیوریج نظام کا منصوبہ کیسے ناکام ہوا؟

وہ کہتے ہیں کہ ٹھیکیداروں کو قواعد کے برعکس ایڈوانس ادائیگیاں کر دی جاتی ہیں۔ اس منصوبے کے ٹھیکیدار کے پاس ٹیکنیکل ٹیم ہی نہیں تھی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ چھ کروڑ روپے کی لاگت سے پانچ ہزار 600 فٹ طویل پائپ لائن بغیر کسی منصوبہ بندی کے ڈسپوزل ورکس سے نہر ٹو آر عباسیہ مالی والے پل کی طرف بچھا دی گئی۔ اس لائن کے راستے میں آنے والی زرعی زمینوں کے مالکان نے منصوبے کے خلاف حکم امتناعی لے کر رکھا ہے۔ جب تک اس کا فیصلہ نہیں ہوتا یہ لائن چالو  نہیں ہو سکے گی۔

محکمہ پبلک ہیلتھ لیاقت پور کے سب انجینئر ملک یاسر میگا سیوریج پراجیکٹ کے نگران ہیں۔ انہوں نے منصوبے کی تکمیل میں تاخیر کی وجہ فنڈز کی عدم فراہمی کو قرار دیا۔ وہ کہتے ہیں کہ نگران حکومت نے بھی آتے ہی ترقیاتی منصوبوں کے فنڈز مکمل طور پر روک دیے ہیں۔"تاہم ٹھیکیدار محکمہ پبلک ہیلتھ سے تعاون کر رہا ہے"۔

سب انجینئر کا کہنا تھا کہ اس منصوبہ کی مد میں رکھی گئی مکمل رقم ریلیز ہو جاتی تو منصوبہ بروقت مکمل ہو جاتا اور لوگوں کو مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔

تاریخ اشاعت 4 مارچ 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

وحید رُشدی, لیاقت پور، ضلع رحیم یار خان سے تعلق رکھنے والے صحافی اور سماجی کارکن ہیں۔ علاقائی اور سیاسی و سماجی مسائل پر لکھتے ہیں۔

پرانی کیسٹس،ٹیپ ریکارڈ یا فلمی ڈسک ہم سب خرید لیتے ہیں

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

thumb
سٹوری

سوات میں غیرت کے نام پر قتل کے روز بروز بڑھتے واقعات، آخر وجہ کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوقار احمد

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

thumb
سٹوری

سندھ زرعی یونیورسٹی، جنسی ہراسانی کی شکایت پر انصاف کا حصول مشکل کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

خیبر پختونخوا، 14 سال گزر گئے مگر حکومت سے سکول تعمیر نہیں ہو سکا

thumb
سٹوری

فصائی آلودگی میں کمی کے لیے گرین لاک ڈاؤن کے منفی نتائج کون بھگت رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

آن لائن گیمز سے بڑھتی ہوئی اموات کا ذمہ دار کون؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

سندھ میں ایم ڈی کیٹ دوبارہ، "بولیاں تو اب بھی لگیں گی"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار

میڈ ان افغانستان چولہے، خرچ کم تپش زیادہ

ہمت ہو تو ایک سلائی مشین سے بھی ادارہ بن جاتا ہے

جدید کاشت کاری میں خواتین مردوں سے آگے

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.