فرانس کا شہر پیرس دنیا کے سب سے مقبول ترین سیاحتی مقامات میں سے ایک ہے۔ اب ذرا ایک لمحے کے لئے سوچئے کہ کوئی پیرس کو گوجرانوالہ میں دوبارہ تعمیر کرنا چاہے – ایک ایسے شہر میں جہاں آبادی کے بے ہنگم پھیلاؤ کے باعث شہری سہولیات کی صورتِ حال پہلے ہی بہت خراب ہے۔ لی پیرس نامی ہاؤسنگ سکیم کچھ ایسا ہی کرنے کا دعویٰ کر رہی ہے۔
جنوری 2021 میں کئی اخبارات میں اشتہارات چھپے جن میں یہ بتایا گیا کہ لی پیرس ہاؤسنگ سکیم 4800 ایکڑ زمین پر بنائی جا رہی ہے (اگرچہ ان میں یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ درحقیقت کس مقام پر بنے گی)۔
ان اشتہارات میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس ہاؤسنگ سکیم میں پیرس کے مقبول ترین مقامات کی نقلیں بنائی جائیں گی جن میں ایفل ٹاور کے علاوہ شانزا لیزے، فتح کا دروازہ اور شہر کا بڑا دروازہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ پیرس کے ایک طِبی مرکز کے اشتراک سے ایک بڑا ہسپتال، ڈزنی لینڈ کی طرز پر ایک تفریحی پارک، عالمی معیارات کے مطابق ایک تعلیمی ادارہ اور فرانسیسی ڈیزائن والی ایشیا کی سب سے بڑی مسجد بھی اس سکیم کا حصہ بتائی جا رہی ہے۔
ان اشتہارات میں اس سکیم کو وزیرِ اعظم عمران خان کے "مستقبل بین معاشی وژن" کی آواز پر قائم کردہ "پاکستان میں معاشی سرگرمیوں کی بحالی کا سب سے بڑا منصوبہ" بھی قرار دیا گیا ہے۔ ان دعوٰوں کے مطابق اس سکیم کے قیام کے نتیجے میں چالیس مختلف صنعتوں میں ترقی آئے گی، لاکھوں نئی ملازمت کے مواقع پیدا ہوں گے اور بیرونِ ملک سے آنے والی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوگا۔
اس سکیم میں پلاٹ لینے کے خواہش مند افراد کو بتایا گیا ہے کہ انھیں پہلے ایک لاکھ 25 ہزار روپے کے عوض ایک رجسٹریشن سرٹیفیکیٹ خریدنا ہو گا۔ صرف اس سرٹیفیکیٹ کے مالکان ہی پلاٹ الاٹ کرنے کے لئے کی جانے والی قرعہ اندازی میں حصہ لینے کے حق دار ہوں گے کیونکہ گوجرانوالہ سے 12 گنا چھوٹی اس سکیم میں پلاٹس کی تعداد محدود ہے۔
اشتہارات کے مطابق یہ سرٹیفیکیٹ لی پیرس بنانے والی کمپنی کو ایک لاکھ 40 ہزار روپے میں واپس کئے جا سکتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ قرعہ اندازی میں پلاٹ نہ ملنے کی صورت میں سرٹیفیکیٹوں کے مالکان انہیں واپس کر کے 15 ہزار روپے کا یقینی منافع کما سکتے ہیں۔ تاہم ان اشتہارات میں قرعہ اندازی کی کوئی تاریخ نہیں بتائی گئی۔
لی پیرس میں کام کرنے والے ایک شخص کا کہنا ہے کہ ان سرٹیفیکیٹوں کا مقصد اس سکیم میں پلاٹس کے "ممکنہ خریداروں" کی فہرست مرتب کرنا ہے۔ اپنا نام صیغۂ راز میں رکھنے کی شرط پر وہ کہتے ہیں کہ "ہم ایک معمولی سی قیمت پر یہ سرٹیفیکیٹ بیچ رہے ہیں کیونکہ 4800 ایکڑ پر اگر ہر کسی کو خریداری کا موقع دیا گیا تو امیدواروں کی تعداد بہت زیادہ ہو جائے گی"۔
ان سرٹیفیکیٹوں کے مالکان ایک لاٹری میں بھی شریک ہو سکیں گے جس میں سب سے بڑا انعام چھ کروڑ روپے رکھا گیا ہے۔ یہ لاٹری پہلے 31 مارچ 2021 کو ہونا تھی مگر اب اس کو غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کر دیا گیا ہے۔ لی پیرس کے مالکان کے مطابق یہ فیصلہ گوجرانوالہ میں کورونا وبا کے بڑھتے ہوئے مریضوں کی وجہ سے کیا گیا مگر اصل وجہ کچھ اور ہے۔
ہوائی محل
مارچ 2021 میں گوجرانوالہ ڈویلپمنٹ اتھارٹی (جی ڈی اے) نے، جو کہ شہر میں نئی ہاؤسنگ سکیموں کی نگرانی کرنے والا حکومتی ادارہ ہے، عوام الناس کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ لی پیرس ایک جعلی اور غیر قانونی سکیم ہے اور اس کی لاٹری بھی فراڈ کے زمرے میں آتی ہے۔ جی ڈی اے نے ممکنہ سرمایہ کاروں کو متنبہ کیا کہ اس سکیم کے ساتھ کسی بھی قسم کا لین دین نہ کریں۔ سکیم مالکان کو بھی بتایا گیا کہ ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جا سکتی ہے۔
لاہور میں مقیم لی پیرس کے قانونی مشیر دعویٰ کرتے ہیں کہ انھوں نے ہاؤسنگ سکیم کے لئے ابتدائی اجازت حاصل کرنے کے لئے جی ڈی اے کو ایک درخواست جمع کروا دی ہے البتہ جی ڈی اے حکام نے سجاگ کو بتایا کہ انھیں لی پیرس کی طرف سے کبھی کوئی درخواست موصول نہیں ہوئی۔
19 مارچ 2021 کو سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) نے بھی ایک پریس ریلیز جاری کی جس کے مطابق لی پیرس کے مالکان کمپنیز ایکٹ 2017 کے مطابق عوام سے پیسے اکٹھے نہیں کر سکتے اور کسی قسم کی انعامی لاٹری بھی منعقد نہیں کر سکتے۔ اس پریس ریلیز میں ایس ای سی پی نے عام لوگوں کو بھی روکا کہ وہ اس غیر قانونی سکیم سے لین دین نہ کریں۔
لی پیرس کے قانونی مشیر اس انتباہ کو "بے بنیاد" سمجھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ لی پیرس ایس ای سی پی سے ساتھ باقاعدہ طور پر رجسٹرد ہے اور ان نے "ابھی تک کوئی پلاٹ بھی نہیں بیچا"۔ ان کے مطابق کمپنی "محض ایسے خریداروں کو رجسٹر کر رہی ہے جو مستقبل میں پلاٹ خریدیں گے" اور یہ قانونی طور پر کوئی جرم نہیں ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ بہت جلد ایس ای سی پی کو اس کی پریس ریلیز کے جواب میں ایک خط بھی لکھیں گے۔
لی پیرس سکیم میں ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ کسی کو ابھی تک یہ معلوم نہیں کہ یہ سکیم بنائی کہاں جائے گی۔ اس کی ویب سائٹ پر موجود اس کے مجاز پراپرٹی ڈیلرز کی فہرست میں شامل ایک ڈیلر بتاتے ہیں کہ یہ سکیم لاہور گوجرانوالہ جی ٹی روڈ پر کامونکی ٹول پلازہ کے مغرب میں بنائی جائے گی۔ مگر ان کے بتائے گئے علاقے میں کوڑے کے ڈھیر پڑے ہیں اور کسی ہاؤسنگ سکیم کا دور دور تک کوئی نام و نشان دکھائی نہیں دیتا۔
گجرانوالہ میں مقیم ایک شہری جو اکثر پراپرٹی میں پیسہ لگاتے رہتے ہیں کہتے ہیں کہ اس زمین کے مالکان سے ابھی تک لی پیرس کے مالکان نے رابطہ ہی نہیں کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ "اس زمین کے مالکان کو معلوم تک نہیں کہ یہاں کوئی رہائشی سکیم بننے جا رہی ہے"۔
لی پیرس کے مارکیٹنگ کے شعبے نے سجاگ کو بتایا کہ اس سکیم کا اصل مقام جان بوجھ کر خفیہ رکھا جا رہا ہے۔ اس شعبے میں کام کرنے والے ایک شخص کا کہنا ہے کہ جگہ کا اعلان اس لئے نہیں کیا جا رہا کیونکہ ایسا کرنے سے زمین کے مالکان کو زمین کی منہ مانگی قیمت کا مطالبہ کرنے کا موقع مل جائے گا۔
اس سکیم کے ناقدین کا کہنا کہ یہ حکومت کی جانب سے تعمیرات اور پراپرٹی کے شعبوں کو ٹیکس میں دی گئی چھوٹ سے فائدہ اٹھانے کے ایک طریقے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اس ضمن میں وہ اکتوبر 2020 میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی جانب سے رہائشی اور تعمیراتی شعبوں سے تعلق رکھنے والے کاروباری اداروں کو نیا پاکستان ہاؤسنگ سکیم میں شامل ہونے کے لئے دی گئی دعوت کی طرف اشارہ کرتے ہیں جس کے نتییجے میں انھیں ٹیکس میں چھوٹ ملے گی اور ان سے ان کی آمدن کے ذرائع کے بارے میں بھی تحقیقات نہیں کی جائیں گی۔
لی پیرس کے مالکان نے بھی اشتہارات میں یہ اعلان کیا ہے کہ یہ سکیم نیا پاکستان ہاؤسنگ سکیم کے ساتھ اشتراک میں بن رہی ہے۔ ان کے مطابق اس سکیم کا 20 فیصد حصہ نیا پاکستان ہاؤسنگ سکیم کو وقف کیا جائے گا جس پر اس سکیم میں دیے گئے قواعد و ضوابط کے تحت کم آمدنی والے لوگوں کے لئے 40 ہزار گھر بنائے جائیں گے۔
تاہم اس اشتراک کے بارے میں کوئی بھی مستند دستاویز یا اعلان کہیں دستیاب نہیں ہے۔
سکیم کے ناقدین کے مطابق اس کا اجرا اس لئے بھی کیا جا رہا ہے کہ اس کے مالک، شیخ محمود اقبال، بنکوں سے لئے گئے 17 ارب روپے کے قرضے ادا نہیں کر پا رہے۔ ان کے مطابق یہ سکیم ان قرضوں کی ادائیگی کے لئے بنایا گیا ایک فن کارانہ منصوبہ ہے۔
شیخ محمود اقبال گوجرانوالہ کے مشہور صنعت کار اور ماسٹر ٹائلز نامی کمپنی کے چیف ایگزیکٹو ہیں۔ کچھ دن پہلے ان کی اپنے بھائی شیخ مقصود اقبال کے ساتھ فون پر ہونے والی ایک مبینہ گفتگو بھی سامنے آئی جس میں وہ یہ تسلیم کر رہے ہیں کہ لی پیرس اس لئے بنا رہے ہیں کہ قرضوں کی وجہ سے خود پر پڑنے والے معاشی دباؤ کو ختم کر سکیں۔
لی پیرس کے قانونی مشیر نے اس بات کی تائید یا تردید نہیں کی کہ آیا فون کال میں شیخ محمود اقبال اور شیخ مقصود اقبال کی ہی آوازیں ہیں۔
شیخ مقصود اقبال بھی ماسٹر سٹی نامی ایک ہاؤسنگ سکیم کے مالک ہیں جو خود بھی تنازعات میں گھری رہی ہے۔ جون 2020 میں جی ڈی اے نے اس سکیم میں پائی گئی مختلف قانونی بے ضابطگیوں کا جرمانہ وصول کرنے کے لئے اس کے کچھ پلاٹ نیلام بھی کئے۔
حکومتی اداروں کے ہاتھ کیوں بندھے ہوئے ہیں؟
بےضابطگیوں کے الزامات اور حکومتی اداروں کے انتباہ کے باوجود کئی لوگ لی پیرس کے رجسٹریشن سرٹیفیکیٹ خرید رہے ہیں۔ اس کے بارے میں کئی چہ میگوئیوں کے باوجود اب تک ہزاروں کی تعداد میں یہ سرٹیفیکیٹ بیچے جا چکے ہیں جس کی سب سے بڑی وجہ اس کی جانب سے چلائی جانے والی ایک بھرپور اشتہاری مہم ہے۔
یہ مہم 25 جنوری 2021 کو اس وقت شروع ہوئی جب میڈیا کے مختلف اداروں نے تفصیلی اشتہارات شائع کئے جن میں وزیرِ اعظم عمران خان کی ایک بڑی تصویر لگائی گئی تھی اور لی پیرس کو نیا پاکستان ہاؤسنگ پراجیکٹ کا حصہ ظاہر کیا گیا تھا۔
اگلے دو مہینوں میں لی پیرس نے سوشل میڈیا پر اشتہارات کا ایک نیا سلسلہ شروع کیا جن میں سوشل میڈیا کی مشہور سخصیات اپنے رجسٹریشن سرٹیفیکیٹ دکھاتی اور عام لوگوں کو بھی لی پیرس کا حصہ بننے کی ترغیب دیتی نظر آئیں۔ لاہور کی ایک اشتہار ساز کمپنی کو بھی یہ کام سونپا گیا کہ وہ مختلف ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارمز پر پیسے دے کر لی پیرس کے ایسے اشتہارات چلوائے جو نیوز رپورٹس کی طرح لگیں۔
یہ بھی پڑھیں
لاہور سنٹرل بزنس ڈسٹرکٹ: متنازعہ زمین کو عدالتی فیصلہ آنے سے پہلے کیسے نیلام کیا جا رہا ہے۔
اس مہم کی موجودگی میں ممکن ہی نہیں کہ جی ڈی اے اور ایس ای سی پی کے نوٹس لوگوں کی نظر میں بھی آ سکیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ حکومت کے یہ دونوں ادارے اس سکیم کے خلاف مزید اقدام اٹھانے میں کیوں ناکام رہے ہیں؟
جی ڈی اے کے ایک عہدہ دار سجاگ کو بتاتے ہیں کہ ان کا محکمہ لوگوں کو خبردار کرنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتا۔ وہ کہتے ہیں کہ "ہم ایس ای سی پی کے علاوہ پاکستان ایکٹرونک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا)، پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی (پی ایچ اے) اور لی پیرس کے مالکان کو خطوط لکھ چکے ہیں۔ اس سے زیادہ ہم کچھ نہیں کر سکتے"۔
ایس ای سی پی میں بھی ایسی ہی صورتحال ہے۔ اس کے لاہور کے دفتر میں کام کرنے والے ڈپٹی رجسٹرار محمد کمیل کہتے ہیں کہ "ہم نے لی پیرس نوٹس بھیج دیا ہے مگر اس سے زیادہ ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ اس سے اگلے اقدام قومی احتساب کمیشن (نیب) اور وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) جیسے قانون نافذ کرنے والے ادارے ہی اٹھا سکتے ہیں مگر وہ صرف کسی متاثرہ شخص سے شکایت موصول ہونے پر ہی ایسا کرتے ہیں‘۔
اس سوال کے جواب میں کہ کیا ایس ای سی پی ان اداروں کو شکایت کرے گی ان کا کہنا ہے کہ ان کے ادارے کا کام یہ یقینی بنانا ہے کہ نجی کاروباری ادارے ملکی قوانین اور قواعد و ضوابط پر عمل کریں، ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنا نہیں۔
اس قانونی اور انتظامی تذبذب کا مطلب یہ ہے کہ حکومتی ادارے ایسی غیر قانونی رہائشی سکیموں میں لوگوں کا مال ڈوبنے سے روکنے کے لئے کوئی اقدام نہیں اٹھانا چاہتے۔
تاہم لاہور میں مقیم ایک وکیل اسامہ خاور کا کہنا ہے کہ اگر حکومت چاہے تو ہر قسم کی کارروائی کر سکتی ہے۔ ’اگر پیمرا تمباکو کی اتنی بڑی صنعت ہونے کے باوجود سگریٹ نوشی کے اشتہارات پر پابندی لگا سکتی ہے تو پھر وہ اس معاملے میں کارروائی کیوں نہیں کرتی؟‘ ان کے مطابق ایس ای سی پی سمیت دیگر اداروں کے پاس اتنے اختیارات موجود ہیں کہ وہ اس قسم کی سکیموں کے خلاف کارروائی کر سکیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ درحقیقت نیب اور ایف آئی اے جیسے ادارے ماضی میں کئی افراد اور کاروباری اداروں کے خلاف بغیر کسی شکایت کے اندراج کر کے ازخود کارروائی کر چکے ہیں لہٰذا اس معاملے میں بھی وہ ایسا کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔
یہ رپورٹ لوک سجاگ نے پہلی دفعہ 4 اپریل 2021 کو اپنی پرانی ویب سائٹ پر شائع کی تھی۔
تاریخ اشاعت 22 جنوری 2022