بلوچ کسان: سرداروں کا ششک ٹیکس تو ختم ہوئے 50 سال ہو گئے لیکن لینڈ سیٹلمنٹ ابھی تک نہیں کی گئی

postImg

شبیر رخشانی

postImg

بلوچ کسان: سرداروں کا ششک ٹیکس تو ختم ہوئے 50 سال ہو گئے لیکن لینڈ سیٹلمنٹ ابھی تک نہیں کی گئی

شبیر رخشانی

دلدار خان کنڈی آج کل بہت پریشانی اور مایوسی کا شکار ہیں۔ انہوں نے اپنی 24 ایکڑ زمین پر تربوز اُگا رکھا تھا جو بارشوں اور ژالہ باری سے تباہ ہو گیا ہے۔ وہ اسی فصل سے اپنے سال بھر کے بیشتر اخراجات پورے کرتے تھے اس لئے اب انہیں سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ آنے والے دنوں میں گھر کیسے چلائیں گے۔

دلدار بلوچستان کے جنوبی ضلعے آواران کی تحصیل جھاؤ میں رہتے ہیں اور وہیں کاشت کاری کرتے ہیں۔ حالیہ بارشوں میں ان جیسے بہت سے کسانوں کی فصل تباہ ہو گئی ہے لیکن انہیں حکومت کی جانب سے اس کا کوئی ازالہ یا معاوضہ نہیں مل سکتا کیونکہ ان لوگوں کے پاس اپنی زمین کے مالکانہ حقوق نہیں ہیں۔

جھاؤ میں ابھی تک سرکاری سطح پر زرعی اراضی کا بندوبست/ حد بندی (لینڈ سیٹلمنٹ) نہیں ہوئی اس لئے یہاں کے زمیندار ہر طرح کی سرکاری مراعات سے محروم ہیں۔

دلدار خان کہتے ہیں کہ سبسڈی والی سرکاری کھاد کی قیمت 1800 روپے فی بوری ہے جو انہیں 3400 روپے میں خریدنا پڑتی ہے۔ یہی حال بیج کا ہے۔ اگر حکومت بارشوں کے متاثرین کی امداد کا فیصلہ کر لے تو تب بھی انہیں کچھ نہیں ملے گا۔

خضدار میں قلات ڈویژن کے سیٹلمنٹ افسر ظفر بنگلزئی کے مطابق جھاؤ کی اراضی کسی شخص، ادارے یا حکومت کے نام نہیں ہے۔ عام طور پر لوگ کئی نسلوں سے اپنی مخصوص زمینوں پر کاشت کاری کرتے چلے آ رہے ہیں اور جو جہاں بیٹھا ہے وہ اس زمین کا مالک سمجھا جاتا ہے۔

یہاں کی زمین کی ملکیت کے حوالے سے حکومت کے پاس بھی کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔ کسی زمین کے کسی فرد کی ملکیت میں ہونے کا واحد ثبوت ایک اقرار نامہ ہوتا ہے جسے 'قبض' کہتے ہیں اور یہی زمین کی خریدو فروخت کی 'تسلیم شدہ دستاویز' سمجھی جاتی  ہے۔ علاوہ ازیں یہاں حکومت کسی کسان سے مالیے یا کسی اور مد میں کوئی وصولی بھی نہیں کرتی۔

جھاؤ میں بندوبست اراضی کا مسئلہ کئی دہائیاں پرانا ہے۔ حاجی شہر کے رہائشی اور مقامی سردار میر نصیب اللہ میروانی بتاتے ہیں کہ جھاؤ کی زمینوں پر مالکانہ حقوق کے لیے چار قبائل دعویدار ہیں جن میں میروانی، حملانی، تمرانی (یہ تینوں بزنجو قبیلے کے ذیلی شاخیں ہیں) اور گوارانزئی شامل ہیں۔ ماضی میں ان چاروں قبائل کے سردار ان علاقوں کے کسانوں سے 'ششک' یعنی فصل کا چھٹا حصہ وصول کیا کرتے تھے۔

1972ء میں جھاؤ میں میر عبدالکریم بزنجو کی سربراہی میں ششک کے خلاف کسانوں کی تحریک اٹھی جو بلوچستان بھر میں پھیل گئی۔ اس وقت صوبے میں نیشنل عوامی پارٹی کی حکومت تھی جو ختم ہوئی تو ذوالفقار علی بھٹو کی وفاقی حکومت نے ایک آرڈیننس کے ذریعے ششک کا خاتمہ کر دیا۔ اس کے بعد 1973ء میں صوبائی اسمبلی نے ششک منسوخی ایکٹ کی منظوری تو دے دی مگر اراضی کے مالکانہ حقوق اور بندوبست کے لیے قانون سازی نہ ہو سکی۔

1983ء میں حکومت نے پہلی بار تحصیل جھاؤ میں بندوبست اراضی کا اعلان کیا۔ جس روز سرکاری حکام حدبندی  کے لیے جھاؤ آئے، اسی روز عبدالکریم بزنجو کو قتل کر دیا گیا۔ اس قتل کا الزام سردار الم خان تمرانی، شیردل تمرانی اور ان کے ساتھیوں پر عائد کیا گیا۔حد بندی کا کام رک گیا۔ تمام ملزم چار سال بعد قید سے رہا ہو گئے لیکن اس کے بعد نہ تو زمینوں کی حد بندی دوبارہ زیرغور آئی اور نہ ہی کاشت کاروں نے دوبارہ یہ مطالبہ کیا۔

قصبہ لنجار کے کسان صالح بزنجو کے مطابق کاشت کاروں کو خوف ہے اگر حد بندی ہوئی تو یہ زمینیں ان کے ہاتھ سے نکل جائیں گی اور سردار پھر غالب آجائیں گے۔ اس لیے میر عبدالکریم کے قتل کے بعد انہوں نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔

مگر دلدار خان کو اس بات سے اتفاق نہیں کہ کسان کسی ڈر کے مارے زمینوں کی حد بندی نہیں کراتے۔ ان کا کہنا ہے کہ ڈرنا انہیں چاہئے جو زمینوں پر ناجائز طور سے قابض ہیں۔ وہ اپنی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کے پاس جو 24 ایکڑ اراضی ہے وہ ان کے والد نے میر نصیب اللہ کی وراثتی جائیداد سے خریدی تھی جس کا ان کے پاس ثبوت بھی موجود ہے۔

نصیب اللہ کہتے ہیں کہ یہ موجودہ وزیراعلیٰ کے خاندان کا گھڑا ہوا 'سیاسی بیانیہ' ہے کہ کسان حد بندی سے خوفزدہ ہیں۔ وزیراعلیٰ کے پاس تمام اختیارات موجود ہیں لیکن وہ حد بندی نہیں کروا رہے۔

دوسری جانب آواران کے ڈپٹی کمشنر جمعداد خان مندوخیل 'وسائل کی کمی' کو بندوبست اراضی نہ ہونے کی وجہ قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ صرف آواران کا نہیں بلکہ پورے صوبے کا مسئلہ ہے۔ اس کام کے لئے بہت سے وسائل اور افرادی قوت چاہئے جو صوبے میں دستیاب نہیں ہیں۔

آواران کے ڈپٹی ڈائریکٹر زراعت نواز علی اس دعوے کو مسترد کرتے ہیں کہ جن کسانوں کے پاس مالکانہ حقوق نہیں ہیں انہیں تباہ ہونے والی فصل کا معاوضہ نہیں دیا جا رہا۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

چھوٹے ڈیمز: کوہلو کی زرعی امیدوں پر موسمیاتی تباہی نے پانی پھیر دیا

ان کا کہنا ہے کہ کاشتکاروں کی مدد کے لئے محکمے کی فیلڈ ٹیمیں گھر گھر جا کر رجسٹریشن کرتی ہیں اور اس کا زمین کی ملکیت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ مالکانہ حقوق سے محروم زمیندار بھی حکومتی سبسڈی سے مستفید ہو رہے ہیں اور رواں سال محکمے نے جھاؤ کے کسانوں میں بلا تخصیص پندرہ ہزار بوری گندم کا بیج تقسیم کیا ہے۔

تاہم دلدار خان اس دعوے کی تردید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کی زمین مرکزی شاہراہ پر واقع ہے۔ انہوں نے بھی بیج کے لئے درخواست دی تھی لیکن نہ تو کوئی اہلکار ان سے پوچھنے آیا اور نہ ہی بیج ملا۔

میر نصیب اللہ کا کہنا ہے کہ زمین کی حد بندی اور الاٹمنٹ نہ ہونے سے کاشت کار ایک دوسرے کے ساتھ اراضی کے تنازعات میں الجھ رہے ہیں، طاقتور کمزور کی زمین پر قبضہ کرتا جا رہا ہے، قابضین اور کیسوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔

آواران میں وکالت کرنے والے شہباز طارق ایڈووکیٹ اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سول جج آواران کی عدالت میں زیادہ تر مقدمات کا تعلق جھاؤ سے ہے اور ان میں 80 فیصد تک مقدمات کا تعلق غیرتصفیہ شدہ زمینوں سے ہے۔

تاریخ اشاعت 13 مئی 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

شبیر رخشانی کا تعلق بلوچستان کے علاقے جھاؤ آواران سے ہے۔ مختلف صحافتی اداروں دنیا نیوز، روزنامہ آزادی آن لائن نیوز پیپر حال احوال کے ساتھ کام کر چکے ہیں۔

"کوئلے نے ہمارے گھڑے اور کنویں چھین کربدلے میں زہر دیا ہے"

thumb
سٹوری

بلوچستان 'ایک نیا افغانستان': افیون کی کاشت میں اچانک بے تحاشا اضافہ کیا گل کھلائے گا؟

arrow

مزید پڑھیں

سجاگ رپورٹ
thumb
سٹوری

بجلی بنانے کا ناقص نظام: صلاحیت 45 فیصد، پیداوار صرف 24 فیصد، نقصان اربوں روپے کا

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعبداللہ چیمہ
thumb
سٹوری

باجوڑ کا منی سولر گرڈ، چار سال بعد بھی فعال نہ ہو سکا، اب پینلز اکھاڑنا پڑیں گے

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشاہ خالد
thumb
سٹوری

گوادر کول پاور پلانٹ منصوبہ بدانتظامی اور متضاد حکومتی پالیسی کی مثال بن چکا

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعاصم احمد خان
thumb
سٹوری

اینٹی ریپ قوانین میں تبدیلیاں مگر حالات جوں کے توں: "تھانے کچہری سے کب کسی کو انصاف ملا ہے جو میں وہاں جاتا؟"

arrow

مزید پڑھیں

ماہ پارہ ذوالقدر

'کوئلے کے پانی نے ہمیں تباہ کردیا'

thumb
سٹوری

آئے روز بادلوں کا پھٹنا، جھیلوں کا ٹوٹنا: کیا گلگت بلتستان کا موسمیاتی ڈھانچہ یکسر بدل رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceفہیم اختر
thumb
سٹوری

بپھرتے موسموں میں پگھلتے مسکن: کیا برفانی چیتوں کی نئی گنتی ان کی بقا کی کوششوں کو سہارا دے پائے گی؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشازیہ محبوب
thumb
سٹوری

تھر،کول کمپنی"بہترین آبی انتظام کا ایوارڈ" اور گوڑانو ڈیم میں آلودہ پانی نہ ڈالنےکا حکومتی اعلان

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

سندھ میں ڈھائی لاکھ غریب خاندانوں کے لیے مفت سولر کٹس

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

سولر کچرے کی تلفی: نیا ماحولیاتی مسئلہ یا نئے کاروبار کا سنہری موقع؟

arrow

مزید پڑھیں

لائبہ علی
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.