دو بچے دھاگے سے بندھی لوہے کی ایک کنڈی کو ایک جوہڑ میں پھینک کر مچھلیاں پکڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دونوں کی عمریں پانچ سال کے لگ بھگ ہیں اس لئے انہیں معلوم نہیں کہ کوڑا کرکٹ سے اٹے اس جوہڑ میں مچھلیوں کی موجودگی قریب قریب نا ممکن ہے۔
لیکن کچرے سے روٹی روزی کی تلاش ان خانہ بدوش بچوں کی تربیت کا ایک بنیادی جز ہے۔
وہ لاہور کے جنوبی سرے پر کاچھا نامی گاؤں میں واقع ایک نیم آباد نِجی رہائشی سکیم میں بنی ہوئی تقریباً 120 جھونپڑیوں کی بستی میں رہتے ہیں جہاں ان جیسے کئی سو بچے کوڑے کے ڈھیروں کے درمیان پل بڑھ رہے ہیں۔ان میں عبدالغفور کی آٹھ بیٹیاں اور ایک بیٹا بھی شامل ہیں۔
رنگ دار تہبند اور سفید قمیض پہنے درمیانی عمر کے عبدالغفور سرمئی رنگ کی گرم چادر اوڑھے بانس سے بنی ایک عارضی ترازو پر پرانے کپڑوں کے چیتھڑے تول رہے ہیں۔ ان سے چند فٹ کے فاصلے پر ایک گانٹھ میں استعمال شدہ گتا بندھا پڑا ہے اور اس کے ساتھ ہی ایک بڑی بوری میں پلاسٹک کی پرانی بوتلیں رکھی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 'ہم باپ دادا کے وقتوں سے کوڑا بیچنے کا کام کر رہے ہیں'۔
چالیس سالہ اکبر علی بھی یہاں ایک جھونپڑی میں رہتے ہیں۔ وہ لوگوں کے گھروں سے کوڑا اٹھا کر اس میں سے کباڑیوں کو بیچنے کے لائق اشیا علیحدہ کرتے ہیں جن میں پلاسٹک اور دھات سے بنی ہوئی چیزیں، تاریں، لکڑی کا کاٹھ کباڑ، ردی کاغذ، گتا، شیشہ اور پھٹے پرانے کپڑے شامل ہوتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ وہ اور جھونپڑیوں کے دیگر باسی لاہور کے کئی جنوبی علاقوں – مثلاً نشتر کالونی، ماڈل ٹاؤن ، موچی پورہ ، ٹاؤن شپ اور گرین ٹاؤن وغیرہ -- میں گھر گھر جا کر کوڑا اکٹھا کرتے ہیں اور اس میں سے دوبارہ استعمال ہو جانے والی اشیا کو علیحدہ کر کے بیچتے ہیں۔ اسی طرح کی جھونپڑیوں میں رہنے والے لوگ لاہور کے باقی حصوں میں بھی موجود ہیں جو روزانہ سیکڑوں ٹن کوڑا اکٹھا کرتے ہیں تاکہ اس میں سے کارآمد چیزیں نکال کر انہیں بیچ سکیں۔ اس کوڑے کے ناکارہ حصے ان بستیوں کے اندر اور ارد گرد بڑے بڑے ڈھیروں کی شکل میں جمع ہوتے رہتے ہیں اور اپنے ارد گرد کی فضا اور زمین کو آلودہ کرتے رہتے ہیں۔
ترک کمپنی نے 2020 میں لاہور میں روزانہ 9,832 ٹن کوڑا اکٹھا ہونے کا تخمینہ لگایا ہے جبکہ اس کی حقیقی مقدار اس اندازے سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔
لاہور کے ایف سی کالج یونیورسٹی میں شہری منصوبہ بندی کے استاد ڈاکٹر امداد حسین کے مطابق عبدالغفور اور اکبر علی جیسے لوگوں کی عدم موجودگی میں اس طرح کے کوڑے کرکٹ کے ڈھیرشہر میں ہر جگہ جمع ہونے لگیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 'لاہور میں کئی آبادیاں ایسی ہیں جہاں سے کوڑا اٹھانے کے لئے کوئی حکومتی یا غیر حکومتی ادارہ موجود نہیں۔ ان آبادیوں میں رہنے والے لوگ ماہانہ دو سو سے تین سو روپے فی گھر ان کوڑا اکٹھا کرنے والے خاندانوں کو دے کر اپنے گھروں کا کوڑا اٹھواتے ہیں'۔
ڈاکٹر امداد حسین کے بقول اگر یہ خانہ بدوش موجود نہ ہوں تو اس کوڑے کو اٹھانے والا کوئی نہ ہو۔
لیکن ان خانہ بدوشوں کے ساتھ حکومت کا رویہ بہت ہی ناقص ہے۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے تحقیق کار اور سماجی کارکن محمد صابر، جن کا اپنا تعلق بھی کوڑا اکٹھا کرنے والے خانہ بدوش خاندان سے ہے، کہتے ہیں کہ حکومتی اہل کار کئی بار ان لوگوں کو محض اس لئے گرفتار کر لیتے ہیں کہ وہ کوڑے کے ڈھیروں سے قابلِ استعمال اشیا نکالنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بچوں کے تحفظ کا صوبائی ادارہ کوڑا اکٹھا کرنے والے خانہ بدوش بچوں کو ان کے والدین کی مرضی کے برعکس اپنی زیرِ نگرانی لے لیتا ہے اور ان کے والدین کے خلاف بچوں کو نظر انداز کرنے کے مقدمے درج کرا دیتا ہے جس سے ناصرف ان خاندانوں کی آمدن متاثر ہوتی ہے بلکہ انہیں غیر ضروری طور پر تھانے کچہریوں کے چکر بھی لگانے پڑتے ہیں۔
محمد صابر کہتے ہیں کہ اس کے برعکس 'حکومت کو کوئی ایسا نظام بنانا چاہئے جس سے یہ لوگ کوڑا ٹھکانے لگانے کے سرکاری انتظام کا باقاعدہ حصہ بن جائیں'۔ ایسے نظام کے نتیجے میں ناصرف لاہور جیسے تیزی سے پھیلتے ہوئے شہر کو بہت بڑی تعداد میں 'کوڑا ٹھکانے لگانے والے کارکن مل جائیں گے بلکہ ان کارکنوں کو ایسی مالی اور معاشی سہولتیں بھی دی جا سکتی ہیں جن سے انہیں اپنے بچوں کو کام پر لگانے کے بجائے تعلیم دلانے کی ترغیب ملے'۔
کاغذی کارروائیاں
لاہور میں سرکاری سطح پر کوڑا اٹھانے کا کام لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کے سپرد ہے جو دو ٹھیکیدار کمپنیوں اور اپنے عملے کے ذریعے شہر سے کوڑا اٹھا رہی ہے۔ اس کمپنی نے کوڑے کو دوبارہ قابلِ استعمال بنانے کے منصوبے بھی بنا رکھے ہیں لیکن ان پر عمل درآمد دعووں اور وعدوں تک ہی محدود ہے۔
کمپنی کے ڈپٹی جنرل مینیجر (آپریشنز) محمد آصف اقبال کہتے ہیں کہ 'ہم نے ایک سیمنٹ فیکٹری کو تجویز پیش کی ہے کہ وہ لاہور کے کوڑے کا کچھ حصہ بطور ایندھن استعمال کرے'۔ ان کے مطابق ان کی کمپنی کا اسی فیکٹری کے ساتھ ماضی میں ایک معاہدہ موجود رہا ہے جس کے تحت وہ لاہور کے کوڑے کا پینتیس فیصد حصہ اپنے استعمال میں لاتی رہی ہے۔
یہ معاہدہ 2011 میں کیا گیا اورلاہورویسٹ مینجمنٹ کمپنی کے دعوے کے مطابق اسکے تحت روزانہ ایک ہزار ٹن کوڑا ڈی جی سیمنٹ نامی فیکٹری کو ساٹھ روپے فی ٹن کی قیمت پر فراہم کیا جانا تھا تاہم اس معاہدے کے بارے میں شائع شدہ کئی نیوز رپورٹس کے مطابق ڈی جی سیمنٹ کے پاس روزانہ پچیس ٹن سے زیادہ کوڑا استعمال کرنے کی گنجائش ہی نہیں تھی۔ مزید برآں یہ معاہدہ ابتدائی طور پر پندرہ سال کے لئے کیا گیا تھا لیکن محمد آصف اقبال کے اپنے بیان کے مطابق اب اس پر عمل درآمد نہیں ہو رہا۔
اسی طر ح ایک نِجی کاروباری ادارے سیف گروپ آف کمپنیز نے لاہور میں محمود بوٹی کے مقام پر کوڑے سے کھاد بنانے کا ایک پلانٹ بھی لگایا ہے جس میں 540 ٹن تک کوڑے کو روازنہ کی بنیاد پر کھاد میں تبدیل کرنے کی اہلیت موجود ہے لیکن یہ پلانٹ بھی اب بند پڑا ہے۔ محمد آصف اقبال کا کہنا ہے کہ 'اس کی تیار کردہ کھاد کو مارکیٹ میں لانے کے لئے محکمہ زراعت سے منظوری چاہئے۔ جیسے ہی یہ منظوری مِل جائے گی تو یہ کھاد بننا اور مارکیٹ میں ملنا شروع ہو جائے گی'۔
لاہور آخر کتنا کوڑا پیدا کرتا ہے؟
لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کے اعداد و شمار کے مطابق لاہور میں روزانہ 5500 ٹن کوڑا پیدا ہوتا ہے۔ کمپنی کے اپنے دعوے کے مطابق اس کا پچاسی فیصد حصہ سرکاری طور پر مخصوص کی گئی جگہوں پر تلف کیا جاتا ہے لیکن شہر کی سڑکوں، گلیوں اور گندے نالوں میں موجود لاکھوں ٹن کوڑے سے یہ تاثر ملتا ہے کہ یا تو کمپنی اتنا کوڑا تلف نہیں کرتی جتنا کہ وہ دعویٰ کرتی ہے یا پھر شہر میں پیدا ہونے والے کوڑے کی مقدار سرکاری طور پر بتائی جانے والی مقدار سے کہیں زیادہ ہے۔
عالمی بینک کی طرف سے 2007 میں جاری کی گئی ایک رپورٹ اس دوسرے امکان کی تصدیق کرتی دکھائی دیتی ہے۔ اس کے مطابق تیرہ سال پہلے ہی لاہور میں کوڑے کی پیداوار 5000 ٹن روزانہ تک پہنچ چکی تھی جس میں سے 3800 ٹن کوڑا سرکاری طور پر جمع کیا جا رہا تھا اگرچہ اس میں سے صرف 800 ٹن کوڑا سرکاری طور پر مختص جگہوں پر پھینکا جارہا تھا جبکہ باقی کا کوڑا یا تو جلایا جا رہا تھا یا گندے نالوں میں پھینکا جا رہا تھا اور یا پھر دریائے راوی اور دوسری کھلی جگہوں پر بغیر کسی احتیاطی تدبیر کے پھیلایا جا رہا تھا۔
تین سال بعد 2010 میں جب پنجاب حکومت کے کہنے پر استنبول کی میونسپلٹی نے لاہور میں پیدا ہونے والے کوڑے کا تخمینہ لگایا تو اس نے کہا کہ شہر میں روزانہ 5500 سے 6000 ٹن کوڑا پیدا ہوتا ہے جس کا 70 فیصد کے قریب حصہ سرکاری طور پر مختص جگہوں پر تلف کیا جاتا ہے جبکہ باقی شہر کے اندر ہی پڑا رہتا ہے۔
استنبول میونسپلٹی نے یہ بھی کہا کہ '2020 میں لاہور کی بڑھتی ہوئی آبادیکی وجہ سے شہر میں پیدا ہونے والے کوڑے کی مقدار تقریباً 9832 ٹن تک پہنچنے کا امکان ہے جبکہ 2030 تک یہ مقدار 15580 ٹن تک پہنچ جائیگی'۔
اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کی ایک رپورٹ میں اس تیزی سے بڑھتے ہوئے کوڑے سے متعلق مسائل پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا گیا ہے کہ 'پاکستان کو درپیش سب سے بڑے مسائل میں سے ایک خطرناک مسئلہ کوڑے کے انتظام و انصرام کے لئے مؤثر قانون سازی اور مناسب پالیسی کا نہ ہونا' ہے۔
لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کا بجٹ
لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کی ویب سائٹ پر دستیاب اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ ان قوانین اور پالیسیوں کے ساتھ ساتھ اس کے پاس کوڑے کو اکٹھا کرنے کے لئے مناسب تعداد میں سامان بھی موجود نہیں۔ مثال کے طور پر شہر بھر میں کوڑا جمع کرنے کے لئے 2556 دھاتی ڈبے (bin) لگائے گئے ہیں جن میں سے ہر ایک تقریباً تین فٹ چوڑا، تین فٹ گہرا اور چھ فٹ لمبا ہے۔ ان میں سے 126 کو مرمت کی ضرورت ہے اور 276 چوری ہو گئے ہیں۔ یعنی شہر کے سترہ لاکھ پچاسی ہزار گھرانوں، ہزاروں دکانوں اور سیکڑوں فیکٹریوں کے لئے محض 2154 ایسے بِن موجود ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ایک بِن کم از کم 828 گھرانوں کا کوڑا جمع کرنے کے لئے استعمال ہو رہا ہے۔
دوسری طرف اگر لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کے بجٹ کو دیکھا جائے تو یہ 08-2007 میں صرف ڈھائی ارب روپے تھا لیکن 16-2015 میں بڑھ کر 12.9 ارب روپے ہو چکا تھا جبکہ 2019-20 میں کمپنی نے پنجاب حکومت سے 15 ارب روبے کا بجٹ طلب کیا۔ اگر کمپنی کے اپنے اعداد ا شمار کو درست مان لیا جائے – جن کے مطابق یہ لگ بھگ 4500 ٹن کوڑا روزانہ سمیٹ رہی ہے -- تو پچھلے تیرہ سال میں ایک ٹن کوڑہ جمع اور تلف کرنے پر اس کے اخراجات میں پانچ گنا سے زیادہ اضافہ ہو گیا ہے۔
اس کی ایک اہم وجہ کمپنی کے انتظامی اخراجات اور اس کی مالی بد انتظامی ہیں۔ ایک حالیہ آڈٹ رپورٹ کے مطابق پچھلے دس سال میں کمپنی نے تین ارب روپے صرف گاڑیوں کی مرمت پر خرچ کر دیے۔ اسی طرح اس نے 2016 میں اس نے چالیس لیپ ٹاپ بھی خریدے جن میں سے ہر ایک کی قیمت ایک لاکھ بیس ہزار روپے تھی۔ اڑتالیس لاکھ روپے کا یہ خرچہ کرتے ہوئے صوبائی مکحمہ پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ کے اعتراضات کو بھی نظر انداز کردیا گیا۔
کوڑے کے ماحول پر اثرات
لاہور میں کوڑے کو سائنسی بنیادوں پر تلف کرنے کے لئے شہر کے شمال مشرق میں لکھو ڈہر کے مقام پر ایک جگہ مختص کی گئی ہے لیکن اس کے باوجود کوڑا کی ایک بڑی مقدار مختلف کھلی جگہوں پر پھینکی جا رہی ہے جن میں دریائے راوی اور شہر سے گذرنے والے نالے بھی شامل ہیں۔
ان کھلی جگہوں میں سے ایک کاچھا کے علاقے میں رنگ روڈ کے ساتھ ساتھ بنی ایک گہری کھائی ہے جو سینکڑوں فٹ لمبی اور کئی فٹ چوڑی ہے۔ اس کے دونوں کناروں پر دور دور تک کوڑے کے اونچے اونچے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ اس بات کا غالب امکان ہے کہ جلد ہی یہ سارا کوڑا اس کھائی میں دفن کر دیا جائے گا۔
لاہور میں بہت سا کوڑا جلا دیا جاتا ہے جس سے ماحول پر بدترین اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
شہر کے اندر اور ارد گرد کئی مقامات پر قریب قریب ہر روز کوڑے کو آگ لگا دی جاتی ہے تاکہ اسے اٹھانے اور مناسب طریقے سے تلف کرنے پر ہونے والی محنت اور اخراجات سے بچا جا سکے۔ کئی زیرِ تعمیر رہائشی سکیموں کے خالی پلاٹ بھی کوڑا پھینکنے کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں۔ جب ان پلاٹوں پر تعمیر شروع ہوتی ہے تو اس کوڑے کو اٹھانے کے بجائے اسے آگ لگا دی جاتی ہے کیونکہ پلاٹ مالکان دوسروں کے پھینکے ہوئے کوڑے کو ہٹانے پر پیسے نہیں خرچنا چاہتے۔ اسی طرح کئی نجی رہائشی سکیموں نے اپنے کوڑے کی تلفی کے لئے کنکریٹ کے بڑے بنکر بنا رکھے ہیں جن میں کوڑا جمع ہوتا رہتا ہے۔ جب یہ بنکر بھر جاتے ہیں تو کوڑے سے نجات حاصل کرنے کے لئے ان کے اندر آگ لگا دی جاتی ہے۔
عالمی بینک کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے یہ مسئلہ لاہور تک محدود نہیں بلکہ پوری دنیا کے مجموعی کوڑے کا کم از کم 33 فیصد یا تو کھلی جگہوں پر پھینک دیا جاتا ہے یا جلا دیا جاتا ہے جو کچھ دوسری وجوہات سمیت فضائی آلودگی پیدا کرنے میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہ فضائی آلودگی اب دنیا بھر میں اموات اور معذوری کی چوتھی اہم وجہ بن چکی ہے۔
لیکن لاہور میں یہ مسئلہ دنیا کے کئی دوسرے حصوں کی نسبت زیادہ خطرناک شکل اختیار کر چکا ہے۔ ورلڈ ائیر کوالٹی، جو فضائی آلودگی کا جائزہ لینے والی ایک بین الاقوامی تنظیم ہے، نے اپنی 2018 کی رپورٹ میں لاہور کو دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں نویں نمبر پر رکھا جبکہ اس کی 2019 کی رپورٹ میں لاہور کا بارہواں نمبر تھا۔
یہ رپورٹ لوک سجاگ نے پہلی دفعہ 27 نومبر 2020 کو اپنی پرانی ویب سائٹ پر شائع کی تھی۔
تاریخ اشاعت 19 مئی 2022