43 سالہ لیڈی ہیلتھ ورکر تاج النسا تحصیل بشام کے دورافتادہ پہاڑی گاؤں لیلئی میں رہتی ہیں۔ وہ ایک جیپ ڈرائیور کو چار ہزار روپے کرایہ دے کر رورل ہیلتھ سنٹر (آر ایچ سی) میرہ پہنچی ہیں۔ یہاں انہیں اپنے محکمے کے ایک اجلاس میں شرکت کرنا تھی۔
تاج النسا نے کرائے کے لیے رقم اپنی پڑوسی سے ادھار لی ہے کیونکہ انہیں چھ ماہ سے تنخواہ نہیں ملی۔
وہ کہتی ہیں کہ ویسے تو چھ سال میں شاہد ہی کبھی وقت پر تنخواہ ملی ہو۔ لیکن اس بار تو لگتا ہے محکمے والے ہیلتھ ورکرز کی تنخواہیں ادا کرنا بھول ہی گئے ہیں۔
خیبر پختونخوا میں 3540 لیڈی ہیلتھ ورکر، 217 لیڈی ہیلتھ سپروائزر (ایل ایچ ایس) اور ان کے 189 ڈرائیور چھ مہینے سے تنخواہوں سے محروم ہیں۔
یہ ورکر جان ہتھیلی پر رکھ کر صوبہ بھر میں خاندانی منصوبہ بندی، ماں و بچے کی صحت اور پولیو مہم میں فرائض انجام دے رہے ہیں۔ کئی لیڈی ہیلتھ ورکر انسداد پولیو مہم کے دوران دہشت گردی کے واقعات میں قتل بھی کی جا چکی ہیں۔
تاج النسا بتاتی ہیں کہ وہ 2017ء میں آئی ایچ پی (انٹیگریٹڈ ہیلتھ پراجیکٹ)کے تحت بھرتی ہوئی تھیں۔ انہیں ہمیشہ سے ہی مہینوں بعد ایک یا دو تنخواہیں ملتی ہیں اور اس مرتبہ چھ ماہ سے تنخواہ بند ہے۔
"مہنگائی میں گزارا کرنا ویسے ہی مشکل ہے۔ بچوں کے سکول کی فیس ادا کرنے میں تاخیر ہو تو انتظامیہ انہیں گھر واپس بھیج دیتی ہے۔ دکاندار ادھار نہیں دیتے اور رشتہ داروں کا ایک لاکھ روپے قرض چڑھ گیا ہے۔
"ہم نے کئی مرتبہ بینک سے قرض لینے کا سوچا۔ اپنے شوہر سے مشورہ بھی کیا لیکن سود کے سے ڈر گئے۔ شوہر دیہاڑی دار آدمی ہیں۔ میں نے تو نوکری اسی لیے کی تھی خاوند کا ہاتھ بٹا سکوں۔"
محکمہ ہیلتھ کے ایل ایچ ڈبلیو پروگرام کے ریکارڈ کے مطابق 2014ء سے اگست2018ء تک تمام بھرتیاں آئی ایچ پی کے تحت ہوئی ہیں اور انہیں ریگولرائز نہیں کیا گیا۔
2014ء سے پہلے بھرتی ہونے والے تمام ورکر مستقل ہوچکے ہیں جن کی تنخواہیں 32 ہزار سے 39 ہزار کے درمیان ہیں۔
ملاکنڈ کی 29 سالہ لیڈی ہیلتھ ورکر عظمت آراء تین بچوں کی ماں ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ بھرتی کے موقع پر انہیں کہا گیا کہ پندرہ ماہ کی ٹریننگ کے بعد انہیں ریگولر کر دیا جائے گا۔
"اب نوکری کوآٹھ سال ہو گئے ہیں۔ اس دوران نہ تو کبھی بروقت تنخواہ ملی اور نہ ہی نوکری مستقل ہوئی۔ ہم انسداد ڈینگی و پولیو اور ہر قسم کی ویکسینیشن مہم سمیت کئی اضافی ڈیوٹیاں دیتے ہیں۔انتخابات میں پولیس کے فرائض بھی انجام دینا پڑتے ہیں، ڈیوٹی لی جاتی ہے۔
تپتی دھوپ ہو یا بارش، سخت سردی ہو یا برفباری، ہر طرح کے حالات میں ہم اپنے کمسن بچوں کو چھوڑ کر ڈیوٹی دیتے ہیں۔ لیکن ہمارے ساتھ محکمے کا طرزعمل انتہائی تکلیف دہ ہے۔"
سوات کی لیڈی ہیلتھ سپروائزر لبنیٰ بھی 2017 ء میں بھرتی ہوئی تھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ تمام سرکاری ملازمین کو تنخواہ وقت پر ملتی ہے اور وہ ریگولر بھی ہوجاتے ہیں اور مراعات بھی لیتے ہیں۔ لیکن لیڈی ہیلتھ ورکر کو 25 ہزار اور سپروائزر کو 30ہزار تنخواہ دی جاتی ہے۔ نہ اس کے علاوہ نہ کوئی مراعات ہیں اور نہ تنخواہ میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ گاڑی کے پٹرول اور مرمت کے پیسے بھی نہیں دیے جاتے۔
"چھ ماہ ہو گئے رشتہ داروں میں ایسا کوئی جس سے قرض نہ لیا ہو۔ عیدالاضحٰی پر جب لوگ اپنے پیسوں کی واپسی کا تقاضا کر رہے تھے تو مزید لوگوں سے اُدھار لے کرقرض چکانا پڑا۔"
لیڈی ہیلتھ ورکرز ایسوسی ایشن خیبر پختونخوا کے سیکرٹری اطلاعات شاہد خان بتاتے ہیں کہ یہ مسئلہ حل کرانے کے لیے صوبے کے گورنر غلام علی سمیت بہت سے حکام اور سیاست دانوں سے بات کی گئی ہے لیکن سب نے تسلی اور وعدوں کے سوا کچھ نہیں دیا۔ ملازمین کی ریگولرائزیشن کے لیے چار پانچ مرتبہ ہر ضلعے کے محکمہ صحت نے کاغذات طلب کیے لیکن اس معاملے میں بھی کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
یہ بھی پڑھیں
پنجاب کے محکمہ صحت کے غیر مستقل ملازمین کا لاہور میں احتجاج: 'ہمارا معاشی استحصال بند کیا جائے'۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ محکمے میں بطور ڈرائیور نوکری کررہے ہیں۔25 ہزار تنخواہ میں گزارا نہیں ہوتا اور یہ تنخواہ بھی بروقت نہیں ملتی۔ ان کا ایک بیٹا دو سال سے بیمار ہے جس کا مناسب علاج کرانے کے لیے بھی ان کے پاس وسائل نہیں ہیں۔
"بڑی پریشانی یہ ہے کہ 21 جون سے یہ پراجیکٹ ہی ختم ہو چکا ہے۔ اگر صوبائی حکومت نے اس میں توسیع نہ کی تو چار ہزار خاندانوں کے گھروں کے چولھے ٹھندے پڑ جائیں گے۔"
خیبر پختونخوا کے ڈائریکٹر آئی ایچ پی ڈاکٹر موسیٰ نے لوک سجاگ کو بتایا کہ انہوں نے حال ہی میں یہ سنبھالا ہے اور ان کی کوشش ہے کہ تمام ملازمین کو کچھ نہ کچھ تنخواہ مل جائے۔ پچھلے رمضان میں دو تنخواہیں ادا کی گئیں تھیں ار مزید تین جلد ادا کردی جائیں گی۔
وہ بتاتے ہیں کہ اس میں بنیادی مسئلہ فنڈز کی کمی کا ہے محکمہ خزانہ جتنی رقم جاری کرتا ہے تنخواہیں بھی اسی حساب سے دی جاتی ہیں۔گزشتہ حکومت کی طرح نگراں حکومت نے بھی آئی ایچ پی ملازمین کو صرف دس فیصد تنخواہ دینے کی پالیسی جاری رکھی ہے اور پالیسی تبدیل ہونے تک یہی صورتحال رہے گی۔
تاریخ اشاعت 28 جولائی 2023