پینتالیس سالہ میاں عبدالغفار ڈسٹرکٹ ہیڈ کواٹر ہسپتال ننکانہ صاحب کے ڈائلیسز وارڈ میں شدید درد سے کراہ رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ڈائلیسز کے دوران انہیں خون پتلا کرنے والا ضروری انجیکشن 'ہائپورین' نہیں لگایا گیا۔
ڈائلیسز کے دوران ہائپورین انجیکشن نہ لگایا جائے تو ڈائلیسز مشین میں خون جمنے لگتا ہے اور مریض کو سخت تکلیف سے گزرنا پڑتا ہے۔ خون کے لوتھڑے جسم میں منتقل ہونے سے دماغ کی شریان پھٹنے کا اندیشہ بھی ہوتا ہے۔
عبدالغفار کہتے ہیں کہ ہسپتال میں کافی عرصہ سے ہائپورین دستیاب نہیں ہے ۔ وہ کسی نہ کسی طرح ادھار پکڑ کر ڈائلیسز میں یہ ٹیکہ لگوا لیتے تھے۔ اس مرتبہ ان کے پاس پیسے نہیں تھے تو تو مجبوراً ٹیکے کے بغیر ڈائلیسز کرایا۔ اس لیے ان کی حالت خراب ہے۔
میاں عبدالغفار ننکانہ صاحب کے نواحی علاقے واربرٹن کے رہائشی ہیں۔وہ گاڑیوں کے ٹائروں کو پنکچر لگا کر اپنے تین بچوں اور بیوی کے لیے روزی روٹی کما تے تھے۔ اس دوران انہیں گردوں کا مرض لاحق ہو گیا۔
عبدالغفار بتاتے ہیں کہ ہائپورین انجیکشن سرکاری ہسپتال میں مفت مل جاتا تھا۔ اب بازار سے بہت مہنگا ملتا ہے۔ جن کے پاس خریدنے کی استطاعت نہیں ہے انہیں ڈائیلسز کے دوران درد کے ساتھ ذہنی اذیت کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔
ہسپتال کے ریکارڈ کے مطابق ڈائلیسز وارڈ میں کل 28 مشینیں ہیں۔ یہاں روزانہ ایک سو مریضوں کے ڈائلیسز کئے جاتے ہیں۔ تاہم خون کو پتلا کرنے والا انجیکشن دستیاب نہ ہونے سے مریضوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
ڈائلیسز وارڈ کے ٹیکنیشن محمد طیب کے مطابق کورونا وائرس کی وبا کے دوران 'ہائپورین' کی قلت ہوئی تھی۔ انجیکشن ابھی تک نہیں مل رہا۔اس ٹیکے کی قیمت سات سو روپے ہے لیکن بلیک مارکیٹ میں یہ 1800 سے دو ہزار روپے کا بک رہا ہے۔
ڈاکٹر محمد افضال سندھیلہ ڈی ایچ کیو ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ہائپورین انجیکشن کمپنی سے ہی نہیں مل رہا۔ انہوں نے مستحق مریضوں کو لوکل پرچیز سے ٹیکہ مہیا کرنے کے احکامات دیے ہیں۔
ڈی ایچ کیو ہسپتال ننکانہ میں مسئلہ صرف ہائپورین انجیکشن کا نہیں ہے۔ ذیابیطس کی انسولین سمیت بہت سی ادویات کی عدم دستیابی اور خراب مشینری کے باعث بھی مریضوں کو مشکلات درپیش ہیں۔ڈی ایچ کیو ہسپتال کا سالانہ بجٹ 8 کروڑ 16 لاکھ روپے ہے اوریہاں روزانہ آؤٹ ڈور میں ڈھائی سو کے قریب مریض آتے ہیں۔
پینسٹھ سالہ محمد بوٹا پرانا ننکانہ کے رہائشی ہیں۔ انہیں تین سال قبل ذیابیطس کا مرض تشخیص ہوا۔ وہ بتاتے ہیں کہ پہلے تو ڈاکٹروں نے دوائیں تجویز کیں جو وہ باقاعدگی سے استعمال کرتے رہے مگر ان کا شوگر لیول بڑھتا ہی چلا گیا۔
وہ کہتے ہیں کہ جب وہ اپنا چیک اپ کرانے کے لیے ڈی ایچ کیو ہسپتال گئے تو وہاں ڈاکٹر نے کہا کہ انہیں ادویات کے ساتھ انسولین بھی لگوانا پڑے گی اور ساتھ میں پرچی تھما دی۔ انہوں نے یہ تلقین بھی کی کہ بازار سے انسولین خرید کر فوری ڈوز لگوا لیں۔
"میں نے ڈاکٹر سے کہا کہ انسولین خریدنے کی میری سکت نہیں ہے۔ مجھے ہسپتال سے ہی انسولین لے دیں تو ڈاکٹر نے بتایا کہ ہسپتال میں انسولین ختم ہو چکی ہے۔ وہ کچھ نہیں کر سکتے۔"
ڈی ایچ کیومیں انسولین کی عدم دستیابی کے باعث یہاں ذیابیطس کے نئے مریضوں کی رجسٹریشن روک دی گئی ہے۔ پہلے سے رجسٹرڈ مریضوں کو بھی بازار سے انسولین خریدنے کی ہدایت دی جا رہی ہے۔
ریکارڈ کے مطابق ڈی ایچ کیو میں ذیابیطس کے 125 مریض رجسٹرڈ ہیں۔ انہیں ہر پندرہ روز بعد فی کس انسولین کا ایک وائل (بڑا ٹیکہ) فراہم کیا جاتا ہے۔مریض اب یہ ٹیکہ مارکیٹ سے 12 سے 15 سو روپے میں خریدنے پر مجبور ہیں۔
ہسپتال کے فارمیسی انچارج آصف علی بتاتے ہیں کہ گذشتہ سال ہر ماہ 200 انسولین کے حساب سے بجٹ رکھا گیا تھا۔ اس وقت ہسپتال میں ذیابیطس کے 70 مریض رجسٹرڈ تھے۔ تعداد میں اضافے سے انسولین دو ماہ قبل اپریل میں ہی ختم ہو گئی تھی۔
وہ کہتے ہیں کہ ہسپتال کو انسولین کی فراہمی پرائمری اینڈ سکینڈری ہیلتھ کیئر اتھارٹی کرتی ہے اور بجٹ ڈی ایچ کیو ہسپتال مہیا کرتا ہے۔ ہسپتال انتظامیہ کو مریضوں کی تعداد سے آگاہ کر دیا ہے۔
بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ ڈی ایچ کیو کی ڈیجیٹل ایکسرے مشین بھی کئی ماہ سے خراب پڑی ہے اور مریض خوار ہو رہے ہیں۔
ایکسرے انچارج راؤ ظفر بتاتے ہیں کہ یہاں روزانہ لگ بھگ دو سو ایکسرے ہوتے تھے مجبوراً اب مریضوں کوباہر بھیجنا پڑ رہا ہے۔ ڈیجیٹل ایکسرے کی سرکاری فیس 150 روپے ہے۔ یہی ایکسرے مریضوں کو نجی لیبارٹری سے 1500 روپے میں پڑ رہا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ایکسرے مشین کو متعدد بار ٹھیک کرایا جا چکا ہے لیکن یہ چند ماہ بعد ہی خراب ہو جاتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں
'اسے لاہور لے جائیں': ننکانہ صاحب کا ضلعی ہسپتال ہر چوتھے مریض کو دوسرے شہروں کے ہسپتالوں میں کیوں ریفر کر دیتا ہے؟
ایم ایس ڈاکٹر افضال کہتے ہیں کہ ڈیجیٹل ایکسرے مشین میں فنی خرابی تھی جس کے پارٹس لاہور بھجوا دیے ہیں اور امید ہے کہ یہ جلد ہی ٹھیک ہو جائے گی۔
ڈی ایچ کیو میں دل کے وارڈ کی صورت حال بھی کچھ مختلف نہیں ہے۔ ننکانہ صاحب کے محمد شعیب بتاتے ہیں کہ دل کے مرض میں مبتلا ان کی والدہ دو روز ہسپتال داخل رہیں لیکن انہیں ایک دن بھی ہسپتال کے سٹور سے دوا نہیں ملی۔
انہوں نے کہا کہ سرکاری ہسپتال غریبوں کا سہارا ہوتے ہیں مگر یہاں ضلعے کے سب سے بڑے ہسپتال میں دوا ہی نہیں ہے۔
چیف ایگزیکٹو آفیسر ہیلتھ ننکانہ ڈاکٹر اظہر امین بتاتے ہیں کہ ہسپتال میں ادویات اور مشینری کا مسئلہ رواں ماہ بجٹ ریلیز ہونے پرحل ہو جائے گا۔ ذیابیطس انسولین کی فراہمی بھی اگست ہی میں شروع کر دی جائے گی۔
ان کا کہنا ہے کہ صوبے بھر کے لیے رواں ہفتے 24 ہزار انسولین منگوا لی گئی ہیں۔ لیبارٹری ٹیسٹ رپورٹ ایک ہفتے میں آنی ہے۔اس کے بعد مریضوں کو انسولین مہیا کر دی جائے گی۔
تاریخ اشاعت 24 اگست 2023