نارووال میں روزانہ صبح سویرے سیکڑوں نوجوان پاسپورٹ دفتر کے باہر جمع ہو جاتے ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں پاسپورٹ فیس کی رسیدیں ہوتی ہیں اور وہ دفتر میں داخلے کے لیے لمبی قطاروں میں کھڑے ہو کر اپنی باری کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔
یہ تمام لوگ جنوبی کوریا جانے کے خواہش مند ہیں جنہیں پاسپورٹ بنوانے کے لیے دن بھر یا بعض اوقات کئی کئی روز انتظار کرنا پڑتا ہے۔
جنوبی کوریا نے غیرملکیوں کو لاٹری کے ذریعے ورک پرمٹ دینے کا ایک پروگرام شروع کر رکھا ہے جسے 'کورین ویزا لاٹری' بھی کہتے ہیں۔
اس پروگرام کے تحت ویزا لینے کے لیے پہلے ایک آن لائن ویزا فارم بھرنا پڑتا ہے جس کے ساتھ پانچ سو روپے فیس جمع کرانا ہوتی ہے۔ درخواست دینے والوں کی اہلیت کی جانچ کے بعد لاٹری کے ذریعے لوگ منتخب کیے جاتے ہیں۔
لاٹری میں جب کسی فرد کا نام نکل آئے تو اسے ایک تحریری امتحان دینا ہوتا ہے جس میں شرکت کے لیے ایک مقررہ تاریخ تک کوریا کے سفارت خانے کو درکار دستاویزات، پاسپورٹ اور بینک ڈرافٹ کے ذریعے 28 ڈالر فیس جمع کروائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ کوریا جانے کے لیے روزمرہ بول چال کی حد تک کورین زبان سے واقفیت کا ہونا بھی لازمی ہے۔
ضلع نارووال سے لوگوں کی بڑی تعداد ویزا لاٹری کے لیے درخواستیں دیتی ہے اور ان میں بہت سےلوگ اس لاٹری کے لیے منتخب بھی ہو چکے ہیں۔
ویزا لاٹری سکیم سے کسی کو بیرون ملک روزگار ملے نہ ملے اس کی بدولت نارووال میں بہت سے لوگوں کے روزگار اور کاروبار ضرور پھل پھول رہے ہیں۔
ان میں کمپیوٹر کی دکانیں اور کوریا کی زبان سکھانے والی اکیڈمیاں خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ پاسپورٹ اور شناختی کارڈ بنوانے والے ایجنٹوں اور فارم بھرنے میں مدد دینے والوں کی بھی چاندی ہو گئی ہے۔
ملک سے بھاگ نکلنے کی معیشت
نارووال شہر کے علاوہ ضلعے کے 1400 سے زیادہ دیہات کے لوگ بھی پاسپورٹ کے دفتر آتے ہیں۔ بہت بڑی تعداد میں یہ لوگ اکثر کئی روز اپنی باری کے انتظار میں دفتر کے باہر ڈیرے ڈالے رہتے ہیں۔
پاسپورٹ کے حصول کے لیے قطار میں کھڑے 32 سالہ کلیم اللہ نے بتایا کہ وہ تحصیل شکرگڑھ کے گاؤں سکروڑ سے آئے ہیں اور دو روز سے یہیں موجود ہیں۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ جو لوگ ایجنٹوں سے مک مکا کر لیتے ہیں وہی دفتر کے اندر جا پاتے ہیں جبکہ باقی لوگوں کو طویل انتظار کرنا پڑتا ہے۔
کورین ویزا لاٹری سکیم کی وجہ سے روزانہ سیکڑوں لوگ پاسپورٹ بنوانے کے لیے پاسپورٹ آفس آتے ہیں
پاسپورٹ دفتر میں داخلے کا انتظار کرنے والے متعدد دیگر لوگوں نے بھی سجاگ کو بتایا کہ دفتر کے عملے کی ملی بھگت سے کام کرنے والے ایجنٹ لوگوں کا کام کروانے کے عوض پانچ سے دس ہزار روپے رشوت وصول کرتے ہیں۔
پاسپورٹ آفس کے باہر دھکم پیل اور لڑائی جھگڑا بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ ایسے بہت سے واقعات میں لوگ زخمی بھی ہوئے ہیں جبکہ دفتر کے دروازوں کھڑکیوں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔
لوگ یہ الزام بھی عائد کرتے ہیں کہ پاسپورٹ بنوانے کے علاوہ وصول کرنے کے لیے بھی ایجنٹوں اور عملے کو پانچ سو سے ہزار روپے تک رشوت دینا پڑتی ہے۔
جب ان شکایات کے حوالے سے نارووال میں ریجنل پاسپورٹ آفس کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر غلام رسول پاشا سے بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ ویزا لاٹری سکیم کی وجہ سے روزانہ سیکڑوں لوگ پاسپورٹ بنوانے کے لیے آتے ہیں۔ چونکہ ہمارے دفتر میں اس مقصد کے لیے صرف ایک پراسیس سسٹم ہے اس لیے کم وقت میں لوگوں کی بڑی تعداد کو بھگتانا مشکل ہوتا ہے۔ اس کے باوجود زیادہ سے زیادہ لوگوں کے پاسپورٹ بنانے کے لیے دفتر کا عملہ اپنی ڈیوٹی ختم ہونے کے بعد بھی رات بارہ بجے تک کام کرتا رہتا ہے۔
انہوں نے اس الزام کی تردید کی کہ پاسپورٹ دفتر کا عملہ ایجنٹوں کی ملی بھگت سے رشوت لے کر لوگوں کے کام کرتا ہے۔
ویزا لاٹری کے لیے سب سے پہلے آن لائن درخواست دینا پڑتی ہے۔ چونکہ بیشتر لوگوں کے پاس کمپیوٹر نہیں ہوتا یا وہ آن لائن درخواست دینے کے طریقے سے واقف نہیں ہوتے اس لیے وہ مارکیٹ کا رخ کرتے ہیں جہاں اس کام میں مدد دینے کے لیے بہت سے دکانیں کھل گئی ہیں۔ ان دکانوں پر دو سو سے پانچ سو روپے لے کر لوگوں کے درخواست فارم بھرے جاتے ہیں۔ کوریا کا ویزا حاصل کرنے کے خواہش مند لوگ دیگر متعلقہ کاموں میں مدد اور رہنمائی کے لیے بھی ادائیگی کرتے ہیں۔
آئیے کورین سیکھیئے!
چونکہ کوریا کا ویزا لینے کے لیے کورین زبان سے واقفیت شرط ہے اس لیے شہر میں جا بجا ایسی اکیڈمیاں کھل گئی ہیں جو لوگوں کو یہ زبان سکھاتی ہیں اور اس کے عوض پانچ سے 30 ہزار روپے ماہانہ فیس وصول کرتی ہیں۔ تاہم ایسی بیشتر اکیڈمیوں میں پڑھنے کا ماحول اور تدریسی معیار انتہائی ناقص ہے جہاں لوگوں کو زمین پر بیٹھ کر سبق لینا پڑتا ہے جبکہ انہیں پڑھانے والے اساتذہ بھی زبان کے ماہر نہیں ہوتے۔
کورین زبان سیکھنے کے لیے لوگ ان اکیڈمیوں میں 5 سے 30 ہزار روپے ماہانہ فیس ادا کر رہے ہیں
ڈومالہ گاؤں کے 35 سالہ محمد سلیم کا گھرانہ مناسب روزگار نہ ہونے کی وجہ سے شدید مشکلات کا شکار ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کے پاس نہ تو بچوں کو پہنانے کے لیے اچھے کپڑے ہیں نہ ہی وہ ان کے لیے مناسب خوراک کا انتظام کر سکتے ہیں۔ کسی کے مشورے پر انہوں نے ایک ہزار روپے قرض لے کر کوریا ویزا لاٹری کے لیے آن لائن درخواست دی تھی۔ خوش قسمتی سے لاٹری میں ان کا نام نکل آیا جس کے بعد انہوں نے اپنی بھینس فروخت کرکے پاسپورٹ بنوایا، کوریا کے ویزے کا ٹیسٹ دینے کے لیے 10 ہزار روپے فیس جمع کروائی اور اب ایک اکیڈمی کو 30 ہزار روپے دے کر کورین زبان سیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
قصبہ نورکوٹ کے رہائشی 25 سالہ محمد ابراہیم اور 30 سالہ ناصر محمود بیروزگار ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ کوریا جا کر اچھا روزگار پائیں اس مقصد کے لیے انہوں نے کوریا کی ویزا لاٹری سکیم میں حصہ لیا ہے۔ ان کہنا ہے کہ پاسپورٹ بنوانے اور کوریا کی زبان سکھانے والی اکیڈمیوں میں داخلے پر بھاری رقم خرچ کرنے کے باوجود وہ نہیں جانتے کہ آیا ان کے لیے کوریا جانا ممکن ہو گا یا نہیں۔
چندرکے راجپوتاں نامی گاؤں کے محمد عبداللہ کہتے ہیں کہ شہر میں کورین زبان سکھانے والی جو اکیڈمیاں کام کر رہی ہیں وہ نہ تو حکومت سے مںظور شدہ ہیں، نہ ان میں اچھے اساتذہ ملتے ہیں اور نہ ہی ان کے جاری کردہ سرٹیفکیٹ کی کوئی اہمیت ہے۔ عبداللہ کا کہنا ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ روزگار کے لیے بیرون ملک جانے کے خواہش مند لوگوں کو ہنر سکھانے کے ساتھ متعلقہ غیرملکی زبانوں کی تعلیم بھی دے۔
یہ بھی پڑھیں
کس کا ہے جرم کس کی خطا سوچنا پڑا: انجانے میں یا غلطی سے پاک-انڈیا سرحد پار کرنے والے نارووال کے باسیوں کی درد بھری داستاں۔
غیررجسٹرڈ اور غیرمعیاری اکیڈمیوں کے مسئلے کے بارے میں نارووال میں محکمہ تعلیم کے چیف ایگزیکٹو آفیسر محمد اقبال چودھری سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ وہ غیرملکی زبانوں کا کورس کروانے والی اکیڈمیوں کو چیک کرنے کا اختیار نہیں رکھتے۔ "کوریا کی زبان سکھانے والی اکیڈمیوں کی کارکردگی اور معیار کا جائزہ لینا ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی ذمہ داری ہے"۔
دوسری جانب نارووال کے ڈپٹی کمشنر اور ڈسٹرکٹ ایجوکیشن اتھارٹی کے چیئرمین محمد اشرف یقین دہانی کراتے ہیں کہ کورین زبان سکھانے والی غیرقانونی اکیڈمیوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ ان اکیڈمیوں کو اپنی رجسٹریشن کروانے کو کہا جائے گا اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو ان سے ٹیکس بھی وصول کرے گا۔
تاریخ اشاعت 14 فروری 2023