پچھلے تین سال سے امجد علی خان آزاد جموں و کشمیر کے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں ایسی متعدد درخواستوں کی پیروی کر رہے ہیں جن میں بجلی پیدا کرنے والے دو مقامی منصوبوں، نیلم جہلم ہائیڈروپاور پراجیکٹ اور کوہالہ ہائیڈروپاور پراجیکٹ، پر کئی اعتراضات اٹھائے گئے ہیں۔
ان میں سے دوسرے منصوبے پر کاغذی کارروائیاں 2011 سے چل رہی ہیں۔ 2015 میں اس کا سنگِ بنیاد بھی رکھا جا چکا ہے۔ اس کے تحت آزاد جموں و کشمیر کے صدرمقام مظفرآباد کے نزدیک کوہالہ کے مقام پر دریائے جہلم میں ایک پن بجلی گھر لگایا جائے گا جس سے 11 سو 24 میگاواٹ بجلی پیدا ہوگی۔
اگرچہ ابھی تک اس منصوبے کا تعمیراتی کام شروع نہیں ہوا لیکن مظفرآباد کے مقامی لوگ اس کی افادیت کے بارے میں بہت سے شکوک و شبہات کا شکار ہیں۔ دراصل ان میں سے کئی ایک نے 2018 سے اس کے مختلف سماجی، ماحولیاتی اور مالیاتی پہلوؤں کو آزاد جموں و کشمیر کی اعلیٰ عدلیہ کے سامنے چیلنج بھی کر رکھا ہے۔ امجد علی خان انہی لوگوں کے وکیل کے طور پر کام کر رہے ہیں۔
وہ مظفرآباد سے تعلق رکھنے والے ایک تجربہ کار قانون دان ہیں اور تین دہائیوں سے زیادہ عرصے سے مختلف عدالتوں میں پیش ہوتے چلے آ رہے ہیں۔ وہ بدعنوانی کی روک تھام کے لیے بنائے گئے وفاقی ادارے قومی احتساب بیورو کے وکیل کے طور پر بھی کام کر چکے ہیں۔ وہ اپنے موکلوں کی طرف سے دی گئی عدالتی درخواستوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کوہالہ ہائیڈروپاور پراجیکٹ کی منصوبہ بندی میں ہر سطح پر وسیع پیمانے پر بدعنوانی کی گئی ہے۔ ان کے بقول اس جیسے "بڑے منصوبے صرف اور صرف افسر شاہی اور حکومتی نمائندوں کو اربوں روپے کی خورد برد کا ذریعہ فراہم کرنے کے علاوہ کوئی معنی نہیں رکھتے"۔
ان کے اس دعوے کی تائید حکومتی اداروں میں پائی جانے والی مالی بدعنوانی کے خلاف کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل-پاکستان کی جانب سے وفاقی حکومت کو لکھے گئے خطوط سے بھی ہوتی ہے۔
ان میں سے 5 ستمبر 2011 کو وفاقی کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کو لکھے گئے ایک خط میں کہا گیا کہ کوہالہ ہائیڈروپاور پراجیکٹ کی تعمیر کا ٹھیکہ بغیر کسی بولی کے چین سے تعلق رکھنے والے ایک نجی کاروباری ادارے، چائنا انٹرنیشنل واٹر اینڈ الیکٹرک کمپنی، کو دو ارب 20 کروڑ امریکی ڈالر کے عوض دیا گیا ہے جو کہ پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی آرڈی ننس 2002 اور پبلک پرکیورمنٹ رولز 2004 کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
یہ آرڈی ننس اور رولز وفاقی حکومت کو اس بات کا پابند بناتے ہیں کہ وہ کسی بھی سرکاری منصوبے کا ٹھیکہ دیتے وقت ایک سے زیادہ کمپنیوں کو بولی دینے کی دعوت دے اور تمام بولیوں کا موازنہ اور مقابلہ کرنے کے بعد انہیں منظور یا مسترد کرنے کا فیصلہ کرے۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل-پاکستان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بولی کے بغیر دیے گئے اس ٹھیکے کے نتیجے میں حکومتِ پاکستان چینی کمپنی کو بجلی کے پیدا کردہ ہر یونٹ پر دو پیسے اضافی سرچارج ادا کرے گی جس کی وجہ سے سرکاری خزانے کو آئندہ تیس سال میں 57 کروڑ 70 لاکھ روپے (یا ایک کروڑ 92 لاکھ روپے سالانہ) کا نقصان ہو گا۔
حکومتی حلقے ان الزامات کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ کوہالہ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ سے حکومتِ پاکستان کا کچھ لینا دینا نہیں۔ ان کے مطابق یہ حکومتِ آزاد جموں و کشمیر کا منصوبہ ہے اور اسی حکومت نے چائنا انٹرنیشنل واٹر اینڈ الیکٹرک کمپنی کے ساتھ اس کی تعمیر کا معاہدہ کیا ہے۔
اس لیے اس پر پاکستان کی وفاقی حکومت کے لیے بنائےگئے پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی آرڈی ننس 2002 اور پبلک پرکیورمنٹ رولز 2004 کا اطلاق نہیں ہوتا۔
لیکن منصوبے سے متعلق کچھ دیگر حقائق کی روشنی میں اقتصادی رابطہ کمیٹی کا یہ دعویٰ درست معلوم نہیں ہوتا۔
ایک تو یہ منصوبہ چین-پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کا حصہ ہے جو بنیادی طور پر چین اور پاکستان کی حکومتوں کے درمیان ایک اعلیٰ سطحی معاہدے کا نتیجہ ہے۔ سی پیک کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ اس کے تحت بنائے جانے والے مختلف منصوبوں کے لیے درکار غیرملکی کرنسی (یا زرِمبادلہ) چین کے سرکاری اور نجی مالیاتی اداروں کی طرف سے پاکستانی حکومتی اداروں کو ایک قرض کے طور پر دی جاتی ہے جس کی واپسی کے لیے حکومتِ پاکستان ریاستی ضمانت (sovereign guarantee) فراہم کرتی ہے۔ یعنی اگر حکومتی ادارے کسی وجہ سے یہ قرض واپس نہ کر سکیں تو ریاست اس قرض کی ادائیگی کرنے کی پابند ہو گی۔ کوہالہ ہائیڈروپاور پراجیکٹ کے لیے بھی پاکستان نے یہ ریاستی ضمانت فراہم کی ہے۔
دوسرا یہ کہ پاکستان نے اقوامِ متحدہ کے موسمیاتی تبدیلیوں کے فریم ورک کے تحت کوہالہ ہائیڈروپاور پراجیکٹ کو ایک ایسے منصوبے کے طور پر رجسٹرڈ کرایا ہے جس پر تعمیل کی ذمہ داری وفاقی حکومت کے ادارے واٹر اینڈ پاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (واپڈا) کو دی گئی ہے۔ اس رجسٹریشن کی بنیاد پر حکومتِ پاکستان نے اقوامِ متحدہ میں یہ دعویٰ کر رکھا ہے کہ یہ ایک ماحول دوست منصوبہ ہے جو ماحول دشمن کاربن کے فضا میں اخراج کو کم کرنے میں ایک اہم کردار ادا کرے گا۔ لہٰذا اس کی وجہ سے پاکستان کو کاربن کے بین الاقوامی لین دین میں مثبت مالی فائدہ دیا جانا چاہیے اور چونکہ یہ منصوبہ وفاقی حکومت کی زیر نگرانی بنایا جا رہا ہے اس لیے یہ مالی فائدہ بھی اسی حکومت کو ہی ملنا چاہیے۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق اسی رجسٹریشن کی وجہ سے اس منصوبے کے تعمیراتی ڈیزائن کے اخراجات بھی واپڈا نے ادا کیے ہیں۔ اس مد میں ایک آسٹریلوی کمپنی، ایم ای ایس انٹرنیشنل، ایک فرانسیسی کمپنی ، سوگریح، ایک برطانوی کمپنی، سکاٹ ولسن اور دو پاکستانی کمپنیوں، مرزا ایسوسی ایٹس اور انجنئرنگ کنسلٹنٹ، کو مجموعی طور پر واپڈا کی طرف سے 54 کروڑ 50 لاکھ روپے کی ادائیگیاں کی گئی ہیں۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کا یہ بھی کہنا ہے اگر اس منصوبے کا ٹھیکہ حکومتِ آزاد جموں و کشمیر نے اپنے طور پر دیا ہے تو اس دستاویز پر حکومتِ پاکستان کے دستخط کیوں موجود ہیں جس کی بنا پر چائنا انٹرنیشنل واٹر اینڈ الیکٹرک کمپنی کو پاکستانی حدود میں کام کرنے کا حق دیا گیا ہے۔
ان تمام عوامل کی بنیاد پر ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے اپنے خطوط میں بار بار یہ بات کہی ہے کہ یہ منصوبہ دراصل واپڈا اور ایک دوسرے حکومتی ادارے، پرائیویٹ پاور اینڈ انفراسٹرکچر بورڈ، کی زیرِ نگرانی بنایا اور تعمیر کیا جا رہا ہے۔ اس لیے حکومتِ پاکستان کے لیے لازم ہے کہ اس پر عمل درآمد کے دوران پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی آرڈی ننس 2002 اور پبلک پرکیورمنٹ رولز 2004 کی مکمل پابندی یقینی بنائے۔
بعض حکومتی عہدے دار ان اعتراضات کا براہِ راست جواب دینے کے بجائے کہتے ہیں کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل-پاکستان کے سربراہ سید عادل گیلانی اپوزیشن جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز کے بہت قریب ہیں اس لیے ان کی تنظیم کسی بھی دوسری حکمران پارٹی کی مبینہ بدعنوانی کی نشان دہی کرنے کے لیے تو بہت سرگرم رہتی ہے لیکن پاکستان مسلم لیگ نواز کے دورِ حکومت کے بارے میں تقریباً چپ ہو جاتی ہے۔ اس الزام کے ثبوت کے طور پر وہ کہتے ہیں کہ پاکستان مسلم لیگ نواز کی گزشتہ حکومت نے پہلے سید عادل گیلانی کو وزیرِاعظم کی انسپکشن ٹیم کا کنسلٹنٹ مقرر کیا اور پھر اپریل 2017 میں انہیں سربیا میں پاکستان کا سفیر لگا دیا۔
قانونی بے ضابطگیاں
لاہور میں قائم آلٹرنیٹو لا کولیکٹو (اے ایل سی) نامی غیرسرکاری تنظیم سے منسلک وکیل سید غضنفر بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں اور ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ماحولیاتی آلودگی پر مسلسل نظر رکھتے ہیں۔ وہ اس سلسلے میں مختلف عدالتوں میں متعدد درخواستیں بھی دائر کر چکے ہیں جن میں سے کچھ پر کارروائی چل بھی رہی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی آرڈی ننس 2002 کے دوسرے سیکشن میں کہا گیا ہے کہ 'پبلک پروکیورمنٹ' کی اصطلاح ایسی تمام مشینری، اشیا اور خدمات یا ایسے تمام منصوبوں پر لاگو ہوتی ہے جن پر مکمل یا جزوی طور پر حکومتی خزانے سے خرچہ کیا گیا ہو۔ ان کے مطابق اس تعریف کی رو سے کوہالہ ہائیڈروپاور پراجیکٹ کی تعمیر میں اس آرڈی ننس پر عمل درآمد لازمی ہے کیونکہ اس کے تعمیراتی ڈیزائن کے تمام اخراجات حکومتِ پاکستان کے ادارے واپڈا نے برداشت کیے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
زرعی زمین کا متنازعہ حصول: بی آر بی نہر سے لاہور کو پانی کی فراہمی کھٹائی میں پڑ گئی۔
سید غضنفر مزید کہتے ہیں کہ "اس منصوبے میں ایک نجی چینی کمپنی کو پاکستانی کے ایک عوامی اثاثے یعنی پانی سے توانائی پیدا کرنے کی صلاحیت کو استعمال کرنے کی اجازت دی جا رہی ہے اور اس استعمال سے پیدا کردہ بجلی کی قیمت کی شکل میں اس منصوبے سے مالی فائدہ بھی حاصل کیا جائے گا"۔ ایک عوامی اثاثے کا یہ استعمال اور اس سے ہونے والا مالی فائدہ دونوں ہی، ان کے مطابق، پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی آرڈی ننس 2002 کے دوسرے سیکشن کی رو سے 'پبلک پروکیورمنٹ' کے دائرہِ کار میں آتے ہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پبلک پرکیورمنٹ رولز 2004 سے استثنیٰ صرف پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی کی سفارش پر ہی دیا جا سکتا ہے لیکن اس کے لیے لازمی شرط یہ ہے کہ یہ استثنیٰ 'قومی مفاد' کا تحفظ کرنے کے لیے ناگزیر ہونا چاہیے۔ تاہم وہ وضاحت کرتے ہیں کہ اقتصادی رابطہ کمیٹی نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی نے اس منصوبے کو استثنیٰ دینے کی سفارش کی ہے یا یہ کہ اس منصوبے کو دیے گئے استثنیٰ کے بغیر 'قومی مفاد' کا تحفظ ممکن نہیں۔
امجد علی خان بھی اسی طرح کرائے کے بجلی گھروں پر چلنے والے ایک مقدمے کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کا فیصلہ کرتے ہوئے سپریم کورٹ آف پاکستان نے 30 مارچ 2012 کو واضح طور پر کہا کہ حکومتِ پاکستان کسی بھی ایسے منصوبے کی ریاستی ضمانت (sovereign guarantee) نہیں دے گی جو مشکوک اور غیر ضروری معاہدوں کے نتیجے میں وجود میں آیا ہو یا اس کا ٹھیکہ کسی بولی کے بغیر دیا گیا ہو۔ ان کے الفاظ میں، ایسے منصوبوں کے بارے میں ریاستی ضمانت فراہم کرنا نہ صرف سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم کی خلاف ورزی ہے بلکہ قومی احتساب بیورو کے 1999 میں بنائے گئے قواعد کے تحت ایسے منصوبے ہی غیرقانونی ہیں۔
وہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے 3 اکتوبر 2012 کو اس وقت کے وزیرِ اعظم کے پرنسپل سیکرٹری ایوب قاضی کو لکھے گئے ایک خط کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وزیرِ خزانہ عبدالحفیظ شیخ کو بارہا باور کرایا گیا کہ کوہالہ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کی تعمیر کا معاہدہ بہت سے وفاقی قوانین اور قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کیا گیا ہے۔ لیکن وہ افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ واپڈا، پرائیویٹ پاور انفراسٹراکچر بورڈ اور مختلف وفاقی وزارتوں سمیت اس معاہدے میں ملوث کسی بھی حکومتی ادارے یا افراد کے خلاف ابھی تک کوئی کارروائی نہیں کی گئی بلکہ حکومت سرے سے اس منصوبے میں بے قاعدگیوں کا اعتراف کرنے پر ہی تیار نہیں۔
تاریخ اشاعت 16 دسمبر 2021