پتنگ اڑانے کے لیے استعمال ہونے والی دھاتی ڈور گلے میں پھرنے سے فیصل آباد کے 22 سالہ آصف اشفاق کی المناک موت کے دس روز بعد بھی ان کے گھر افسوس کے لیے آنے والوں کا تانتا بندھا ہوا ہے۔
آصف کے بھائی یاسر اشفاق نے لوک سجاگ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وہ عصر کی نماز پڑھ کر ابھی گھر پہنچے ہی تھے کہ انہیں کال آ گئی کہ آصف کے گلے پر ڈور پھر گئی ہے۔
"میں جب ڈجکوٹ روڈ پہنچا تو دیکھا اس کی گردن ایسے کٹی ہوئی تھی کہ جیسے اسے چھری سے ذبحہ کیا گیا ہو۔ اس کا پورا جسم اور کپڑے سر سے پاوں تک خون میں بھیگے ہوئے تھے۔"
انہوں نے بتایا کہ پوسٹ مارٹم کے بعد ڈاکٹرز نے آصف کی گردن پر ٹانکے لگا دیئے تھے تاکہ وہ جسم کے ساتھ جڑی رہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ اب بھی اکثر رات کو سوتے میں انہیں اپنے بھائی کی موت کا وہ منظر نظر آتا ہے جس میں گلے پر ڈور پھرنے کے بعد وہ سڑک پر تڑپ رہا تھا۔
یاسر کے مطابق ان کے بھائی کی عید الفطر کے بعد شادی طے تھی لیکن اس کی موت کے بعد سے ان کی والدہ گہرے صدمے میں ہیں اور بہت کم کسی سے گفتگو کر پاتی ہیں۔
آصف کی المناک موت کے بعد وزیر اعلی پنجاب مریم نواز شریف اپنے والد اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کے ہمراہ تعزیت کے لیے ان کے گھر آئی تھیں۔
انہوں نے پولیس کو دھاتی تار بنانے، بیچنے اور خریدنے والوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کا حکم دیا تھا۔
سٹی پولیس آفیسر کیپٹن (ر) محمد علی ضیاء نے بتایا ہے کہ پنجاب امتناع پتنگ بازی آرڈیننس 2001ء کے تحت کریک ڈاون جاری ہے۔
انہوں نے بتایا کہ آصف کی موت کا باعث بننے والی ڈور سے پتنگ اڑانے والے مبینہ ملزموں کو گرفتار کیا جا چکا ہےجبکہ یکم فروری سے 30 مارچ تک امتناع پتنگ بازی ایکٹ 2001ء کے تحت دو ہزار 634 مقدمات درج کر کے دو ہزار 644 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔
"ان میں پتنگ بازی کرنے والوں کے علاوہ پتنگ اور ڈور فروخت کرنے والے850 دکاندار اور آن لائن ڈور و پتنگیں فروخت کرنے والے 36 افراد بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ پتنگ اور ڈور بنانے والی 11 فیکٹریاں سیل کر کے آٹھ مشینیں بھی قبضہ میں لی گئی ہیں۔"
پتنگ بازی کی روک تھا م کے لیے پولیس کی جاری کاروائیوں کے باوجود موٹر سائیکل پر سفر کرنے والے شہریوں کے ذہنوں پر یہ خوف چھایا رہتا ہے کہ کہیں وہ آسمان پر اڑتی اس موت کا نشانہ نہ بن جائیں۔
اس وجہ سے اب ہر دوسرے موٹر سائیکل پر ڈور سے بچاو کے لیے لوہے کی سیفٹی وائرز لگی نظر آتی ہے۔
تقریباً دو عشرے قبل گلے پر ڈور پھرنے سے شہریوں کی اموات اور زخمی ہونے کے واقعات کے باعث عدالت کے حکم پر پنجاب حکومت نے پتنگ بازی پر پابندی لگا دی تھی لیکن اس کے باوجود اب بھی ہر سال درجنوں شہری اس خونی کھیل کا شکار ہو جاتے ہیں۔
پنجاب امتناع پتنگ بازی آرڈیننس 2001ء کے تحت پتنگ بازی، پتنگ بنانے، بیچنے اور اس مقصد کے لیے دھاتی ڈور، تندی یا تیز مانجھے سے تیار کوئی دوسرا دھاگہ یا کوئی اور نقصان دہ مواد استعمال کرنے پر زیادہ سے زیادہ تین سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا مقرر ہے۔
اس حوالے سے پراسکیوٹر جنرل پنجاب سید فرہاد علی شاہ نے پنجاب حکومت کو یہ تجویز دی ہے کہ اس قانون میں انسداد دہشتگردی کی دفعات بھی شامل کی جائیں تاکہ ملزموں کو کڑی سے کڑی سزائیں دی جا سکیں۔
ڈسٹرکٹ بار فیصل آباد کے رکن اور سینئر قانون دان امتیاز احمد وینس ایڈووکیٹ کے مطابق پتنگ بازی پر پابندی کے حوالے سے ماضی میں کی جانے والی قانون سازی میں بہتری کی گنجائش موجود ہے لیکن اس میں انسداد دہشت گردی کی دفعات شامل کرنا مناسب نہیں ہے۔
پنجاب امتناع پتنگ بازی آرڈیننس 2001ء میں حکومت نے 2009ء میں ترمیم کر کے پتنگ بازی کی اجازت اور ریگولیشن کو لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 2001ء کے تحت بننے والی بلدیاتی حکومتوں کے ماتحت کر دیا تھا۔
"اب سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 2001ء کو 2013ء میں منسوخ کر دیا گیا تھا جس کی وجہ سے پنجاب امتناع پتنگ بازی آرڈیننس 2001ء ناقابل عمل ہو چکا ہے۔"
انہوں نے بتایا کہ ترمیمی آرڈیننس کے تحت پتنگ بنانے والے، تاجر یا پتنگوں یا پتنگ بازی کے سامان کے بیچنے والوں کی ڈسٹرکٹ کوآرڈینیشن آفیسر کے پاس رجسٹریشن ضروری ہے۔ اس کے علاوہ پتنگ اڑانے کے لیے مطلوبہ جگہ کے استعمال سے پہلے یونین ناظم سے پیشگی اجازت حاصل کرنا ضروری ہے حالانکہ اس وقت پنجاب میں بلدیاتی نمائندے موجود ہی نہیں ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ قانون میں مخصوص مدت کے لیے ڈسٹرکٹ ناظم کو پتنگ بازی پر پابندی ختم کرنے کی اجازت ہے لیکن بلدیاتی نظام نہ ہونے کی وجہ سے عملی طور پر پتنگ بازی کی اجازت دینے اور اس کی ریگولیشن کا کوئی نظام موجود نہیں ہے۔
امتیاز احمد بتاتے ہیں کہ قانون میں موجود اس طرح کی خامیوں کے باعث زیادہ تر ملزموں کو گرفتاری کے اگلے ہی روز یا تو ضمانت مل جاتی ہے یا کیس ڈسچارج ہو جاتا ہے۔
"شہریوں میں یہ تاثر بھی عام پایا جاتا ہےکہ پتنگ بازی اور دھاتی ڈور کے استعمال پر پابندی اس لیے بھی غیر موثر ثابت ہو رہی ہے کہ پولیس ملازمین نے اس پابندی کو رشوت لینے کا ذریعہ بنایا ہوا ہے اور زیادہ تر افراد کو گرفتاری کے بعد پیسے لے کر چھوڑ دیا جاتا ہے۔"
پولیس ترجمان ملک شاہد نے ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔ انہوں نے لوک سجاک کو بتایا ہے کہ پتنگ اور ڈور بنانے یا اس کی فروخت میں ملوث افراد کے خلاف ان کا محکمہ زیرو ٹالرنس کی پالیسی پر عمل کر رہا ہے۔
"ایک روز قبل ہی ریجنل پولیس آفیسر نے پتنگ اور ڈور بنانے والے ایک ملزم سے رشوت لینے کے الزام پر تھانہ غلام محمد آباد کے ایس ایچ او سمیت پوار تھانہ معطل کرکے ان کے خلاف مقدمہ درج کروا یا ہے۔"
انہوں نے بتایا کہ معطل ہونے والوں میں ایس ایچ او کے علاوہ دو چوکی انچارج، چھ سب انسپکٹر، دس اےایس آئی، دس حوالدار، 57 کانسٹیبل ، دس لیڈی کانسٹیبلز اور چار ڈرائیور شامل ہیں۔
ملک شاہد کے مطابق اس کے علاوہ بھی گزشتہ چند ہفتوں میں رشوت لینے والے متعدد پولیس اہلکاروں کے خلاف شکایات پر محکمانہ کاروائی کی گئی ہے۔ مزید کوئی پولیس اہلکار رشوت لینے میں ملوث ثابت ہوا تو اس کے خلاف بھی سخت کاروائی کی جائے گی۔
یہ بھی پڑھیں
ضلع فیصل آباد بچوں پر تشدد کے واقعات میں سرفہرست کیوں ہے؟
پولیس کی جانب سے جاری حالیہ کاروائیوں کے باوجود شہریوں میں یہ مطالبہ زور پکڑ رہا ہے کہ پتنگ بازی کے لیے استعمال ہونے والی قاتل ڈور کا استعمال روکنے کے لیے حکومتی سطح پر مزید سخت اقدامات کئے جائیں۔
فیصل آباد کے معروف صنعتکار چوہدری سلامت علی نے بتایا ہے کہ دھاتی ڈور بیرون ملک سے کسٹم حکام کی ملی بھگت سے درآمد کی جاتی ہے۔
"کسٹم کی یہ کالی بھیڑیں دھاتی ڈور کو فش نیٹ اور فشنگ راڈ میں استعمال کرنے والی ڈوری کے طور پر کسٹم کلیرنس دے کر لوگوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔"
"پتنگ بازی پر عائد پابندی کو کامیاب بنانے کے لیےسب سے پہلے دھاتی ڈور کی بیرون ملک سے غیر قانونی درآمد اور فروخت میں ملوث افراد کے خلاف کاروائی ضروری ہے اس کے بغیر یہ خونی کھیل روکنا ممکن نہیں ہے۔"
انہوں نے تجویز دی کہ پتنگ بازی روکنے کے لیے حکومت ہر یونین کونسل میں محلہ کمیٹیاں بنا سکتی ہے جو کہ اپنے اپنے علاقے میں پتنگ بازی کی روک تھام کو یقینی بنانے کے لیے زیادہ موثر ثابت ہو سکتی ہیں۔
وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح پولیس کی گھروں میں دخل اندازی اور رشوت ستانی کے واقعات میں بھی کمی آئے گی اور لوگوں کو خود اپنی سماجی ذمہ داری کا احساس بھی دلایا جا سکے گا۔
"اس حوالے سے والدین کا کردار سب سے اہم ہے اگر وہ اپنے بچوں کے شوق کی حوصلہ افزائی کرنے کی بجائے سختی سے انہیں روکیں تو اس خونی کھیل سے جڑی تمام تر معاشی سرگرمیاں اپنی موت آپ مر جائیں گی۔"
تاریخ اشاعت 4 اپریل 2024