"کسان پیکج اشتہار کے سوا کچھ نہیں، حکومت نے ہمیں بے یارومددگار چھوڑ دیا"، سیلاب سے متاثرہ کسانوں کا شکوہ

postImg

بلال حبیب

postImg

"کسان پیکج اشتہار کے سوا کچھ نہیں، حکومت نے ہمیں بے یارومددگار چھوڑ دیا"، سیلاب سے متاثرہ کسانوں کا شکوہ

بلال حبیب

محمد طارق نے اپنی زندگی میں پہلی بار آٹا خریدا ہے جس کے لیے انہیں آٹھ کلومیٹر سفر طے کرنے کے بعد چار گھنٹے تک قطار میں لگنا پڑا۔

پچاس سالہ محمد طارق جنوبی پنجاب کے ضلع رحیم یار خان کے قصبے احسان پور کے ایک کاشت کار ہیں۔ ان کی 15 ایکڑ زرعی ملکیتی زمین ہے۔

ان کے بقول پچھلے برسوں میں ان کے پاس اتنی گندم ہوتی تھی کہ سال کے آخر میں وہ ضرورت پڑنے پر دوسروں کو بھی دے دیتے تھے لیکن سیلاب نے انہیں اس قدر معاشی نقصان پہنچایا ہے کہ اس سال انہیں آٹا خریدنے کے لیے لائن میں لگنا پڑ رہا ہے۔

اگست 2022ء میں آنے والے والے سیلاب کی وجہ سے محمد طارق کی 12 ایکڑ رقبے پر کاشت کپاس اور گنے کی فصل بھی شدید متاثر ہوئی جس سے ان کے مطابق انہیں نو لاکھ روپے کا نقصان ہوا۔

محمد طارق کہتے ہیں کہ اب تو حالات اس قدر تنگ ہیں کہ بیوی بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے انہیں تمام جمع پونجی سمیت گھر میں رکھی ہوئی گندم بھی فروخت کرنا پڑ گئی۔

رحیم یار خان کی تحصیل خان پور سے تعلق رکھنے والے جام اصغر علی کی بھی 15 ایکڑ فصلیں سیلاب میں برباد ہوگئیں تھیں اور آج کل ان کے حالات بھی محمد طارق سے مختلف نہیں ہیں۔

جام اصغر کی خوش قسمتی ہے کہ ان کے گھر میں ابھی تک کھانے کے لیے گندم موجود ہے لیکن معاشی طور پر وہ بھی اس قدر تنگ ہو چکے ہیں کہ انہیں اگلی فصل کے اخراجات پورے کرنے میں بہت مشکل پیش آرہی ہے۔

"میں مقررہ نرخوں پر کھاد کے حصول کے لیے پچھلے ایک ماہ سے ضلع بھر میں خوار ہو رہا ہوں لیکن یوریا اور ڈی اے پی کھاد کہیں سے نہیں مل رہی"۔

وہ بتاتے ہیں کہ یوریا کھاد کی اصل قیمت 2,450 روپے ہے جو اس وقت مارکیٹ میں 3,300 روپے میں مل رہی ہے جبکہ ڈی اے پی کی اصل قیمت 10,500 روپے ہے جو 13 ہزار روپے تک بلیک میں فروخت ہو رہی ہے۔

جام اصغر نے نئی فصل کے اخراجات پورے کرنے کے لیے زرعی ترقیاتی بینک سمیت کئی بینکوں سے قرض کے حصول کے لیے بھی کوشش کی ہے لیکن وہ اس میں بھی تاحال کامیاب نہیں ہوسکے۔

جام اصغر کو یہ بھی خدشہ ہے کہ اگر وہ حکومت کی اعلان کردہ سکیموں کے تحت زرعی قرض لینے کی کوشش بھی کریں گے تو شاید انہیں ناکامی کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔ ان کے بقول اس قرضے کے حصول کا طریقہ کار اتنا طویل اور پیچیدہ ہے کہ کسان تھک ہار کر بیٹھ جاتا ہے۔

جام اصغر اور محمد طارق کو شکوہ ہے کہ سیلاب کی آفت کے بعد حکومت نے انہیں بے یارومدد گار چھوڑ دیا ہے۔

<p>کسان پیکیج کے مطابق گندم کے تصدیق شدہ بیج کے 12 لاکھ تھیلے کسانوں کو مفت فراہم کیے جانے تھے <br></p>

کسان پیکیج کے مطابق گندم کے تصدیق شدہ بیج کے 12 لاکھ تھیلے کسانوں کو مفت فراہم کیے جانے تھے

حکومت پنجاب کے مطابق رحیم یار خان سمیت جنوبی پنجاب کے مختلف اضلاع میں شدید سیلاب اور بارشوں سے تقریباً نو لاکھ ایکڑ زرعی اراضی پر کھڑی فصلیں تباہ ہو گئیں جبکہ سینکڑوں گائے بھینسیں، اونٹ اور بھیڑ بکریوں کا بھی نقصان ہوا۔

وفاقی حکومت نے اکتوبر 2022ء کے آخر میں جنوبی پنجاب سمیت ملک کے سیلاب متاثرہ کسانوں کی مدد کے لیے 600 ارب روپے کے مراعاتی پیکج (کسان پیکج ) کا اعلان کیا تھا۔

اس پیکج میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں چھوٹے کسانوں کو آٹھ ارب روپے سے زیادہ کی مالی مدد فراہم کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔

حکومت نے یہ اعلان بھی کیا تھا کہ کسانوں کو 18 سو ارب روپے کے قرضے دیے جائیں گے جو کہ پچھلے سال کے مقابلے میں 400 ارب روپے زیادہ بڑی رقم ہے۔

کسان پیکج میں کیا ملے گا

کھاد کی قیمتوں میں کمی اور مناسب مقدار میں یوریا کی دستیابی کو یقینی بنایا جائے گا۔

ٹیوب ویلوں کو شمسی توانائی سے چلانے کا پروگرام شروع کیا جائے گا۔ بجلی کے بلوں کی قسطیں بھی اسی پیکج کا حصہ ہیں۔

پانچ سال تک پرانے سیکنڈ ہینڈ ٹریکٹر درآمد کرکے کسانوں کو فراہم کیے جائیں گے۔

ڈی اے پی کھاد کا تھیلا 11 ہزار 250 روپے میں دستیاب ہو گا۔

گندم کے تصدیق شدہ بیج کے 12 لاکھ تھیلے کسانوں کو مفت فراہم کیے جائیں گے۔

یوریا پر سبسڈی کے طور پر 30 ارب روپے مختص کیے جائیں گے۔

وزیر اعظم شہباز شریف نے کسانوں سے وعدہ کیا تھا کہ اس پیکج پر عمل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔ اس کی بدولت زراعت چار سے چھ مہینے میں توانا ہو جائے گی جس سے ملکی معیشت کو بہت فائدہ ہو گا۔

کسانوں کا کہنا ہے کہ 'کسان پیکج' کے اعلان کو چار ماہ ہوچکے ہیں لیکن ابھی تک انہیں امداد، بلاسود قرضے یا بیج، کھاد، بجلی، ڈیزل یا کسی بھی دوسری چیز پر کسی بھی قسم کی سبسڈی نہیں مل رہی۔

ضلع رحیم یار خان کے ڈپٹی ڈائریکٹر زراعت حسیب اکبر کے مطابق کسان پیکج ایک بہت بڑا پیکج ہے جس کے تحت ڈی اے پی کھاد پر 25 سو روپے فی بوری اور  گندم کے بیج پر سبسڈی مل رہی ہے۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ اس پیکج کے تحت اعلان کردہ دیگر اقدامات پر ابھی تک عمل درآمد ہوتا نظر نہیں آیا۔ 

<p>کسان تنظیموں کے مطابق پیکیج کے حوالے سے حکومت تاحال اپنا کوئی وعدہ پورا نہیں کر سکی<br></p>

کسان تنظیموں کے مطابق پیکیج کے حوالے سے حکومت تاحال اپنا کوئی وعدہ پورا نہیں کر سکی

محمود الحق بخاری کاشت کار ہونے کے ساتھ آل پاکستان کسان فاؤنڈیشن نامی غیر سرکاری تنظیم کے چیئرمین بھی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب اس پیکج کا اعلان ہوا تو کسانوں میں ایک بار امید ضرور جاگی تھی کہ شاید ان کے نقصان کا کچھ نہ کچھ ازالہ ہوجائے گا لیکن حکومت تاحال اپنا کوئی وعدہ پورا نہیں کر سکی۔

"زرعی پیکج صرف ایک اشتہاری پیکج تھا جو اشتہاروں میں چلا اور اس میں کسانوں کو کچھ نہیں ملا۔ وزیر اعظم نے وعدہ کیا تھا کہ بجلی کے ٹیوب ویل پر انہیں 13 روپے فی یونٹ فلیٹ ریٹ ملے گا جبکہ اس وقت کسان تقریباً 24 روپے فی یونٹ بل بھر رہا ہے"۔

انہوں نے بتایا چار ماہ ہوگئے لیکن نہ تو درآمدہ ٹریکٹر کی پالیسی سامنے آئی ہے نہ ہی کسی ٹیوب ویل کو شمسی توانائی پر منتقل کیا گیا ہے۔

محمود بخاری کہتے ہیں کہ زرعی قرضہ اب بھی زرضمانت کے عوض ملتا ہے اور اس پر شرح سود بھی اتنی ہی ہوتی ہے جتنی عام بینک وصول کرتے ہیں۔" ظلم یہ ہے کہ اس مرتبہ یوریا کھاد مہنگے داموں بھی دستیاب نہیں اور کسان اسے بلیک ریٹ پر خریدنے پر مجبور ہے۔''

یہ بھی پڑھیں

postImg

سبسڈی چور واٹس ایپ گروپ: 'کھاد پر دی جانے والی حکومتی امداد جعل سازوں کی جیبوں میں جا رہی ہے'۔

دسمبر 2022ء میں وفاقی وزیر برائے نیشنل فوڈ سکیورٹی اینڈ ریسرچ طارق بشیر چیمہ نے کہا تھا کہ وزیر اعظم کسان پیکج میں پیش رفت کا جائزہ لینے کے لیے پندرہ روزہ اجلاس منعقد کر رہے ہیں۔

کسان بچاؤ تحریک پاکستان کےچیئرمین چودھری محمد یاسین تحصیل صادق آباد میں 250 ایکڑ زمین کے مالک ہیں جن کا کہنا ہے کہ حکومت نے انہیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔

"پیکج ایک فراڈ تھا جس کے خلاف کسان تنظیمیں بارہا احتجاج ریکارڈ کروا چکی ہیں"۔

کسان خوشحال آرگنائزیشن کے مرکزی چیئرمین شہزاد سلیمی چک 117 پی کے زمیندار ہیں جو 70 ایکڑ رقبے پر کاشتکاری کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت اگر کسی سہولت کا اعلان کرتی ہے تو دوسری طرف ہر دوسرے دن پیٹرول اور ڈیزل بھی مہنگا کر دیتی ہے۔ اسی طرح حکومت نے کھادوں پر سبسڈی تو دے دی ہے لیکن مارکیٹ میں کھاد کی دستیابی یقینی بنانے کے لیے کچھ نہیں کیا گیا۔

تاریخ اشاعت 8 مارچ 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

بلال حیب رحیم یا ر خان کے رہائشی ہیں۔ وہ گذشتہ 16سال سے انگریزی اردو پرنٹ، الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا میں کام کر رہے ہیں۔

thumb
سٹوری

خیبر پختونخواہ میں ایڈز کے مریض کیوں بڑھ رہے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

نئی نہریں نکالنے کے منصوبے کے خلاف سندھ میں احتجاج اور مظاہرے کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار
thumb
سٹوری

پنجاب: محکمہ تعلیم میں 'تنظیم نو' کے نام پر سکولوں کو'آؤٹ سورس' کرنے کی پالیسی، نتائج کیا ہوں گے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد

برف کے پہاڑؤں پر موت کا بسیرا ہے، مگر بچے بھی پالنے ہیں

thumb
سٹوری

سموگ: یہ دھواں کہاں سے اٹھتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceآصف ری ، عبدالل

پرانی کیسٹس،ٹیپ ریکارڈ یا فلمی ڈسک ہم سب خرید لیتے ہیں

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

thumb
سٹوری

سوات میں غیرت کے نام پر قتل کے روز بروز بڑھتے واقعات، آخر وجہ کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوقار احمد

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

thumb
سٹوری

سندھ زرعی یونیورسٹی، جنسی ہراسانی کی شکایت پر انصاف کا حصول مشکل کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

خیبر پختونخوا، 14 سال گزر گئے مگر حکومت سے سکول تعمیر نہیں ہو سکا

thumb
سٹوری

فصائی آلودگی میں کمی کے لیے گرین لاک ڈاؤن کے منفی نتائج کون بھگت رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.