کچے کے علاقے کے پکے ڈاکووں کا نیا ڈیجیٹل جال: اب اغوا برائے تاوان آن لائن ہے

postImg

بلال حبیب

postImg

کچے کے علاقے کے پکے ڈاکووں کا نیا ڈیجیٹل جال: اب اغوا برائے تاوان آن لائن ہے

بلال حبیب

صادق آباد کے شیر ساہی کو جون 2022ء میں ایک ناواقف نمبر سے مسلسل فون کالز موصول ہو رہی تھیں۔ 

کال کرنے والے شخص کا کہنا تھا کہ "آپ زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں، ہمارے پاس ایک استعمال شدہ ٹریکٹر ہے جسے ہم کسی زمیندار کو ہی فروخت کرنا چاہتے ہیں، کوئی شوروم ہمیں مناسب قیمت نہیں دے رہا"۔

فون کال میں انہیں پیشکش کی گئی کہ اگر وہ ٹریکٹر خریدنا چاہیں تو مناسب داموں میں اس کا سودا ممکن ہے۔

شیر ساہی کو کالر کی طلب کی گئی قیمت مناسب لگی تو وہ کار میں بیٹھ کر ٹریکٹر کا سودا کرنے سندھ کے شہر کشمور کے نواحی علاقے میں پہنچ گئے۔

وہ ٹوکن منی کے طور پر 10 ہزار روپے ساتھ لے گئے تھے۔

شیر ساہی خود بھی زمیندار ہیں تاہم انہوں نے صحافت کو اپنا پیشہ بنایا ہوا ہے۔ وہ گزشتہ ایک سال سے پاکستان ٹیلی وژن کے نمائندے کے طور پر کام کر رہے ہیں۔

ان کی 36 ایکڑ مشترکہ آبائی زمین ہے جس سے ان کا گھر چلتا ہے۔

کشمور میں ساہی کی ملاقات کال کرنے والے شخص سے ہوئی جو انہیں ٹریکٹر دکھانے راجن پور کے کچے کے علاقے کی جانب لے گیا۔

شیر ساہی جیسے ہی کچے میں پہنچے، انہیں اغوا کر لیا گیا اور ان کی کار کو سڑک کنارے چھوڑ کر ڈاکو انہیں اپنی گاڑی میں بٹھا کر لے گئے۔ 

اغوا کاروں نے شیر ساہی کے اہل خانہ سے ان کی رہائی کے بدلے 10 لاکھ روپے تاوان مانگا۔ رابطے کے لیے اغوا کار شیر ساہی کا ہی موبائل استعمال کرتے تھے۔ انہوں نے تین چار مرتبہ ساہی کی ان کے گھر والوں سے بات بھی کروائی۔

شیر ساہی کے بھائی شاہد محمود نے ان کے اغوا کا مقدمہ درج کروایا تو علاقائی اور قومی میڈیا ان کی خبر نمایاں طور سامنے لایا۔ ان کے اغوا پر صحافیوں نے مظاہرے بھی کیے جس سے پولیس پر ان کی بازیابی کے لیے دباؤ بڑھ گیا۔ 

تاہم پولیس کی کسی کارروائی سے پہلے ہی اغوا کاروں نے سات جولائی 2022ء کی رات شیر ساہی کو رہا کر دیا اور انہیں ضلع کشمور سے ملحقہ سڑک پر چھوڑ گئے۔

شیر ساہی کچھ فاصلے تک پیدل چلنے کے بعد موٹروے ایم فائیو پر پہنچے جہاں سے ان کا رابطہ موٹر وے پولیس سے ہوگیا اور وہ اپنے گھر پہنچ گئے۔ 

شیر ساہی کے مطابق اغوا کاروں نے ان کو گھاس پھونس سے بنی جھونپڑیوں میں رکھا تھا اور ان کی جگہ تین مرتبہ تبدیل کی گئی۔ جگہ تبدیل کرتے وقت اغوا کار شیر ساہی کے آنکھوں پر پٹی باندھ دیتے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ اغوا کار جو زبان بولتے تھے وہ انہیں سمجھ نہیں آتی تھی۔

کچے کا علاقہ جرائم کا پکا گڑھ

جنوب کی جانب پنجاب کے آخری ضلعے رحیم یار خان سے ملحقہ دریائی علاقہ کچہ کہلاتا ہے۔ یہ علاقہ اغوا کاروں کے لیے محفوظ پناہ گاہ سمجھا جاتا ہے کیونکہ یہاں ہر طرف خودرو جھاڑیاں، دلدل اور کیچڑ پھیلا ہے۔ یہاں کچھ علاقے جزیرہ نما ہیں جہاں چاروں طرف پانی ہونے کی وجہ سے صرف کشتی یا موٹر بوٹ کے ذریعے ہی رسائی ممکن ہے۔

اس علاقے کی سرحدیں ضلع راجن پور، بلوچستان اور صوبہ سندھ سے ملتی ہیں۔ یہاں کئی دہائیوں سے ڈاکوؤں کے مختلف گروہ متحرک ہیں۔

چند سال پہلے اس علاقے میں چھوٹو گینگ سرگرم تھا۔ مارچ 2016ء کے آخری ہفتے میں پنجاب بھر کی پولیس نے اس گینگ کے خلاف آپریشن کیا۔ اٹھارہ روز تک جاری رہنے والی کارروائی میں پولیس کے سات اہلکار شہید ہوئے جبکہ ڈاکوؤں نے 24 اہلکاروں کو یرغمال بنا لیا۔ پنجاب پولیس کو فوج سے مدد طلب کرنا پڑی جس کے بعد اپریل میں چھوٹو گینگ نے ہتھیار ڈال کر گرفتاری دے دی۔ 

اس آپریشن کے بعد کچے میں ڈاکوؤں کے گروہ کچھ عرصہ تو غائب رہے لیکن جلد دوبارہ متحرک ہو گئے اور تاحال پنجاب پولیس کے لیے درد سر بنے ہوئے ہیں۔

اس وقت کچے میں سلطو شر گینگ، راھب شر گینگ، علی عربو گینگ، اندھڑ گینگ اور باشو شر گینگ سرگرم ہیں۔ 

سمارٹ فون اور سوشل میڈیا: نیا جال لائے پرانے شکاری 

اس مرتبہ ڈاکو لوگوں کو اغوا کرنے کا نیا طریقہ استعمال کر رہے ہیں۔ اب انہوں نے سمارٹ فون لے لیے ہیں اور اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ بھی بنا لیے ہیں۔ 

پہلے وہ لڑکیوں کی آواز میں لوگوں کو کال کر کے دوستی و شادی کا جھانسہ دیتے ہیں یا کسی انعامی سیکم یا سستی گاڑیوں، موبائل فون یا مشینری کی پیشکش کرتے ہیں یا کسی منافع بخش کاروبار میں شرکت کی دعوت دیتے ہیں اور پھر ان کو کچے کے قریبی علاقوں میں ملاقات کے بہانے بلا کر اغوا برائے تاوان کر لیتے ہیں۔ 
اس کو ہنی ٹریپ کہا جاتا ہے۔

ان وارداتوں میں اضافہ 2021ء سے دیکھنے میں آیا ہے۔

<p>کچے کے وہ علاقے جو ڈاکوؤں کی پناہ گاہیں ہیں، امیج: بشکریہ رحیم یار خان پولیس<br></p>

کچے کے وہ علاقے جو ڈاکوؤں کی پناہ گاہیں ہیں، امیج: بشکریہ رحیم یار خان پولیس

حال میں ہنی ٹریپ میں آئے کچھ لوگ پولیس کی بروقت کاروائی سے اغوا ہونے سے بچ گئے۔ لودھراں کے طارق اور شاہنواز بھی ایسے ہی خوش قسمت لوگوں میں شامل ہیں۔

جنوری 2023ء دو دوست طارق اور شاہ نواز سستا مزدا ٹرک خریدنے کے جھانسے میں آکر کچے کی طرف جا رہے تھے۔ اس دوران سندھ پنجاب بارڈر پر رحیم یار خان پولیس نے ان کی گاڑی کو روکا اور تمام افراد کے شناختی کارڈ چیک کیے۔ 

طارق کے کارڈ پر لودھراں کا پتہ دیکھ کر پولیس نے پوچھ گچھ کی تو معلوم ہوا کہ جن لوگوں نے طارق کو بلایا ہے وہ انہیں نہیں جانتے۔ پولیس نے معلومات لے کر تحقیقات کیں تو معلوم ہوا کہ طارق اور ان کے ساتھی اغوا کاروں کے چنگل میں پھنسنے کو تھے۔

'کیا ڈاکو ریاست سے طاقتور ہیں؟'

ڈی پی او رحیم یار خان اختر فاروق کا کہنا ہے کہ ان کے ضلع میں ہنی ٹریپ ہونے والوں کا تعلق پورے ملک سے ہے۔ 

انہوں نے بتایا کہ پولیس سندھ پنجاب بارڈر پر ہر گاڑی کو چیک کرتی ہے اور مسافروں کو اغوا کاروں کے طریقہ کار سے آگاہ کرتی ہے۔ 

"کچے کے اہم داخلی راستوں، چیک پوسٹوں اور مختلف مقامات پر ہنی ٹریپ سے متعلق فلیکس اور بینر آویزاں کیے گئے ہیں۔ اس بارے میں لوگوں کو خبردار کرنے کے لیے سوشل میڈیا پر بھی آگاہی مہم چلائی جارہی ہے"۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

بلوچستان کے کان کن زندگی یا روز گار میں سے ایک کا انتخاب کرنے پر کیوں مجبور ہیں؟

اختر فاروق کے مطابق "رواں ماہ میں ہی پولیس نے آٹھ پولیس مقابلوں میں سات ڈاکوؤں کو ہلاک کیا جن میں سے تین ڈاکو اندھڑ گینگ کے سرگرم رکن تھے۔ اس دوران تین ریکارڈ یافتہ ڈاکو گرفتار بھی ہوئے۔ رواں ماہ ہنی ٹریپ کے ذریعے اغوا کیے گئے 10 مغویوں کو بازیاب کروایا گیا جبکہ 63 سے زیادہ لوگوں کو جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے پیشگی معلومات کی بنا پر اغوا ہونے سے بچا لیا گیا۔''

رحیم یار خان پولیس کے ترجمان سیف علی کے مطابق ماضی میں ڈاکو اغوا برائے تاوان کی وارداتیں گن پوائنٹ پر کرتے تھے اور مغویوں کو شہری علاقوں سے یا کچے کے قریبی علاقوں سے اٹھا کر لے جاتے تھے۔ تاہم جب پولیس نے ان کے خلاف کارروائیاں کیں تو ڈاکوؤں نے ہنی ٹریپ کا طریقہ اپنا لیا۔

ایک سینئر پولیس اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پہ بتایا کہ بہت سے واقعات میں مغویوں کے ورثا نے پولیس کو مطلع کیے بغیر ڈاکووں کو تاوان ادا کر کے اپنے لوگوں کو رہا کروایا ہے۔

سابق ایم پی اے چودھری آصف مجید ان ڈاکوؤں کے خلاف پولیس کی کارکردگی کو تسلی بخش قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ رحیم یار خان کے لوگوں میں کچے کے ڈاکووں کا خوف کم ہوا ہے۔

تاہم سماجی ورکر ایڈوکیٹ فرحان عامر کا خیال ان سے مختلف ہے۔ 

وہ کہتے ہیں کہ "کیا یہ المیہ نہیں کہ اس قدر بڑی تعداد میں کارروائیوں کے باوجود پولیس، انتظامی ادارے، حکومت اور ریاست ڈاکوؤں کا مکمل قلع قمع کرنے میں ناکام ہیں؟ پولیس گزشتہ 30 سال سے ان ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کرتی چلی آ رہی ہے لیکن اغوا کی وارداتیں ختم نہیں ہو سکیں، کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ڈاکو ریاست سے زیادہ طاقتور ہیں؟''

فرحان کہتے ہیں کہ ڈاکوؤں نے کچے کو علاقہ غیر بنایا ہوا ہے اور مقامی لوگ ان سے خوفزدہ ہیں۔

تاریخ اشاعت 26 جنوری 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

بلال حیب رحیم یا ر خان کے رہائشی ہیں۔ وہ گذشتہ 16سال سے انگریزی اردو پرنٹ، الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا میں کام کر رہے ہیں۔

thumb
سٹوری

خیبر پختونخواہ میں ایڈز کے مریض کیوں بڑھ رہے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

نئی نہریں نکالنے کے منصوبے کے خلاف سندھ میں احتجاج اور مظاہرے کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار
thumb
سٹوری

پنجاب: محکمہ تعلیم میں 'تنظیم نو' کے نام پر سکولوں کو'آؤٹ سورس' کرنے کی پالیسی، نتائج کیا ہوں گے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد

برف کے پہاڑؤں پر موت کا بسیرا ہے، مگر بچے بھی پالنے ہیں

thumb
سٹوری

سموگ: یہ دھواں کہاں سے اٹھتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceآصف ری ، عبدالل

پرانی کیسٹس،ٹیپ ریکارڈ یا فلمی ڈسک ہم سب خرید لیتے ہیں

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

thumb
سٹوری

سوات میں غیرت کے نام پر قتل کے روز بروز بڑھتے واقعات، آخر وجہ کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوقار احمد

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

thumb
سٹوری

سندھ زرعی یونیورسٹی، جنسی ہراسانی کی شکایت پر انصاف کا حصول مشکل کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

خیبر پختونخوا، 14 سال گزر گئے مگر حکومت سے سکول تعمیر نہیں ہو سکا

thumb
سٹوری

فصائی آلودگی میں کمی کے لیے گرین لاک ڈاؤن کے منفی نتائج کون بھگت رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.