تباہ کن بارشیں: 'ہنگامی صورتحال سے نبٹنے کے لیے بھاری مشینیں تو موجود ہیں لیکن ایندھن بھروانے کے لئے پیسے نہیں'

postImg

سید زاہد جان

postImg

تباہ کن بارشیں: 'ہنگامی صورتحال سے نبٹنے کے لیے بھاری مشینیں تو موجود ہیں لیکن ایندھن بھروانے کے لئے پیسے نہیں'

سید زاہد جان

رفیع اللہ، اپر دیر کے نواحی علاقے قمرگئی کے رہائشی ہیں۔ یہ پہاڑی علاقہ ہے اور ان کا گھر پہاڑ کے دامن میں، روخان نالہ کے قریب واقع تھا۔ کچھ عرصہ پہلے، انہوں نے اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی سے دو منزلہ پکا مکان بنوایا تھا، جو حالیہ بارشوں اور لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے ملبے تلے دب کر تباہ ہو گیا۔

رفیع اللہ بتاتے ہیں،  بارشوں میں لینڈ سلائیڈنگ کا خدشہ بڑھ جاتا ہے اس بار بھی جب وارننگ جاری ہوئی توعلاقے کے تمام افراد اپنے گھروں کو چھوڑ کر محفوظ مقامات پر منتقل ہو گئے۔جس سے جانی نقصان سے تو محفوظ رہے لیکن ان کے مکان زمین بوس ہو گئے۔

’’کچھ سالوں سے بارشیں بہت زیادہ ہونے لگی ہیں، اسی لئے لینڈ سلائیڈنگ بھی پہلے سے کہیں زیادہ ہونے لگی ہے۔ موجودہ مقام پر پہاڑ سرکنے سے یہاں دوبارہ گھر تعمیر کرنا ممکن نہیں ہے، نہ ہی میرے پاس اتنا سرمایہ ہے، اسی لئے میں اپنے خاندان سمیت کسی رشتہ دار کے گھر میں عارضی طور پر رہائش پذیر ہوں۔‘‘

وہ مزید کہتے ہیں حادثے کے بعد ضلعی انتظامیہ کے افسران نے نقصان کا جائزہ لے کر سروے رپورٹ بنائی تھی لیکن حکومت کب بے گھر افراد کی مالی مدد کرے گی اس کا کچھ پتہ نہیں۔

بارشوں اور سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے نقصانات کی تفصیلات دیکھ کر یہ واضح ہوتا ہے کہ اس قدرتی آفت نے کتنی تباہی مچائی ہے۔

محکمہ موسمیات کے مطابق دیر شہر میں 12 اپریل سے 25 اپریل تک پندرہ دنوں میں 468 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی۔  بارشوں کا یہ سلسلہ سیلاب کی شکل اختیار کر گیا۔ اپر دیر کے بالائی علاقوں میں سیلابی ریلوں اور لینڈ سلائیڈنگ سے مکانوں، فصلوں اور سڑکوں کو شدید نقصان پہنچا اور بڑی حد تک جانی و مالی نقصان ہوا۔
    
اپر دیر کی ضلعی انتظامیہ کے اعداد و شمار کے مطابق بارہ سے بائیس اپریل یعنی 10 دنوں میں اپر دیر کی چھ تحصیلوں؛ دیر، براول، کلکوٹ، واڑی، لرجم اور شرینگل  میں مجموعی طورپر میں 37مکانات مکمل طور پر، جبکہ 168جزوی طورپر ، پانچ سکول، چار مرکزی سڑکیں اور تین پلوں کو نقصان پہنچا جبکہ پانچ افراد جاں بحق، آٹھ زخمی اور 37 مویشی ہلاک ہوئے۔

لوئر دیر ضلعی انتظامیہ کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سیلاب اور بارشوں سے47 مکان مکمل طور پر تباہ ہوئے، جبکہ 719 مکانوں کو جزوی طور پر نقصان پہنچا، اس کے علاوہ ایک سکول اور دوپلوں کو بھی نقصان پہنچا۔ جبکہ سیلابی ریلوں ، لینڈ سلائیڈنگ اور مکانات کی چھتیں گرنے سے 14 قیمتی انسانی جانیں ضائع ہوئیں جبکہ چھ افراد زخمی ہوئے اور 39 مویشی ہلاک ہوئے۔

ماہرین موسمیاتی تبدیلی کو اس صورت حال کی بنیادی وجہ قرار دیتے ہیں، جس سے آنے والے وقت میں مزید مشکلات پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔

محکمہ موسمیات خیبر پختونخوا کے ڈائریکٹر، ڈاکٹر محمد فہیم نے لوک سجاگ کو بتایا کہ بے موسم بارشیں، میدانی و پہاڑی علاقوں میں درجہ حرارت میں شدت، دراصل موسمیاتی تبدیلی کے واضح اشارے ہیں۔آنے والے دنوں میں، ان میں مزید شدت آئے گی خصوصا پہاڑی و بالائی علاقے اس موسمیاتی تغیر کے منفی اثرات کا زیادہ شکار ہوں گے۔ اس تبدیلی کے محرکات میں جنگلات کی کٹائی ، پہاڑی علاقوں میں کنکریٹ کے پکے مکانات ، شہری و بالائی علاقوں میں درختوں کی کٹائی اور  نئے درخت نہ لگانا سب شامل ہے۔

وہ بتاتے ہیں، اگر ہم پچھلے کئی سالوں میں ہونے والی بارشوں کا موازنہ کر لیں تو ماضی اور حال میں ہمیں نمایاں فرق نظر آتا ہے۔ رواں برس خیبرپختونخوا میں اپریل میں پچھلے 59 سالوں میں سب سے زیادہ بارش  174.9 ملی میٹر ریکارڈ کی گئی جبکہ 1965 میں 158.6 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی تھی۔یعنی ان چھ دہائیوں میں یہ سب سے زیادہ گیلا اپریل تھا۔ ایک دن میں سب سے زیادہ بارش 91 ملی میٹر تھی، جو 14 اپریل کو دیر اور 20 اپریل کو سوات کے مالم جبہ میں ریکارڈ کی گئی۔

’’موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے بچنے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ لوگوں کی جان و مال کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔ حکومت اور متعلقہ اداروں کو مل کر ان مسائل کا حل نکالنا ہو گا۔‘‘

مقامی انتظامیہ اور حکومت کو ان نقصانات کا ازالہ کرنے اور مستقبل میں اس طرح کی آفات سے بچنے کے لئے فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ڈیڑھ مہینہ پہلے ہونے والی بارشوں سے ہونے والی لینڈ سلائیڈنگ کا ملبہ تک نہیں اٹھایا گیا۔

باغ کلے ہاتن درہ، دیر شہر سے مغرب کی جانب 40 کلومیٹر کے فاصلے پر ایک چھوٹا سا گاؤں ہے، اجمیر خان کا تعلق اسی گاؤں سے ہے،  انہوں نے لوک سجاگ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا، اپریل میں ہونے والی بارشوں کے نتیجے میں دیر کے تمام نواحی علاقے جیسا کہ باغ کلے ہاتن درہ، سرپو کلے, گٹ خوڑ , گوما خوڑ, علاقہ شدت ,ظلم کوٹ ,سرکو ,میرا خان، لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے دیر شہر سے کٹ چکے ہیں، مہینہ بھر گزر جانے کے بعد بھی رابطہ سڑکوں سے بھاری پتھر تک نہیں ہٹائے گئے۔

’’دیر شہر کے نواحی علاقوں میں بسنے والے لوگ، صحت اور دیگر سہولیات کے لئے روزانہ کی بنیادوں پر شہر جاتے ہیں لیکن سڑکوں پر پڑے ملبے کی وجہ سے گھروں میں اشیائے ضروریہ کی فراہمی بہت مشکل ہو چکی ہے جبکہ علاج معالجے کے لیے شہر جانے والے لوگ بھی پریشان ہیں۔‘‘

یہ بھی پڑھیں

postImg

بارشوں اور لینڈ سلائڈز سے خیبر پختونخوا میں زیادہ جانی نقصان کیوں ہوتا ہے؟

تحصیل چیئرمین دیر رفیع اللہ خان نے لوک سجاگ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا، بارشوں اور سیلاب کے دوران، تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن کا عملہ ہمہ وقت تیار رہتا ہے۔لیکن قدرتی آفات کی صورت میں جب اتنے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلتی ہے تو فنڈز کی کمی کی وجہ سے شدید مشکلات کا سامناکرنا پڑتا ہے۔

’’پچھلے دو سالوں سے دیر سمیت صوبہ بھر کے تمام ٹی ایم ایز کو ترقیاتی سکیموں و دیگر صفائی ستھرائی اور ایمرجنسی کیلئے فنڈز مکمل طور پر بند ہے۔‘‘

وہ مزید کہتے ہیں، اس بار بارشوں سے جب ہنگامی صورتحال پیدا ہوئی تو ہرممکن کوشش کی کہ ٹی ایم ایز کے لیے فنڈز جاری ہوجائیں لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔

’’تحصیل انتظامیہ کے پاس لیںڈ سلائیڈنگ یا ایسی ہی ہنگامی صورتحال سے نبٹنے کے لیے بھاری مشینیں تو موجود ہیں لیکن ان میں ایندھن بھروانے کے لئے پیسے نہیں ہیں، اسی لیے وہ زنگ آلود ہو رہی ہیں۔‘‘

ڈپٹی کمشنر دیر عرفان علی نے بارشوں ,سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ سے ہونے والے نقصانات کے بارے میں لوک سجاگ کو بتایا کہ اپردیر میں نقصان کی تفصیلات کی سروے رپورٹ مرتب کر لی گئی ہے۔ہماری کوشش ہے کہ جیسے ہی سروے مکمل ہو جائے, تو رپورٹ صوبائی حکومت کو ارسال کریں گے ۔تاہم حکومت نے بارشوں اور سیلاب سے جاں بحق ہونے والے افراد کے لواحقین کو دس دس لاکھ روپے کے چیک تقسیم کیے ہیں۔

تاریخ اشاعت 28 مئی 2024

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

سید زاہد جان کا تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع دیر سے ہے اور وہ گزشتہ باٸیس سال سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔

thumb
سٹوری

خیبرپختونخوا میں وفاقی حکومت کے ہائیڈرو پاور پراجیکٹس کس حال میں ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
thumb
سٹوری

ملک میں بجلی کی پیداوار میں "اضافہ" مگر لوڈ شیڈنگ کیوں ہو رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

سولر توانائی کی صلاحیت: کیا بلوچستان واقعی 'سونے کا اںڈا دینے والی مرغی" ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceحبیبہ زلّا رحمٰن
thumb
سٹوری

بلوچستان کے ہنرمند اور محنت کش سولر توانائی سے کس طرح استفادہ کر رہے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشبیر رخشانی
thumb
سٹوری

چمن و قلعہ عبداللہ: سیب و انگور کے باغات مالکان آج کل کیوں خوش ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceحضرت علی
thumb
سٹوری

دیہی آبادی کے لیے بجلی و گیس کے بھاری بلوں کا متبادل کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعزیز الرحمن صباؤن

اوور بلنگ: اتنا بل نہیں جتنے ٹیکس ہیں

thumb
سٹوری

عبدالرحیم کے بیٹے دبئی چھوڑ کر آواران کیوں آ گئے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشبیر رخشانی
thumb
سٹوری

"وسائل ہوں تو کاشتکار کے لیے سولر ٹیوب ویل سے بڑی سہولت کوئی نہیں"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

لاہور کے کن علاقوں میں سب سے زیادہ بجلی چوری ہوتی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود

بلوچستان: بجلی نہ ملی تو لاکھوں کے باغات کوڑیوں میں جائیں گے

thumb
سٹوری

خیبر پختونخوا میں چھوٹے پن بجلی منصوبوں کے ساتھ کیا ہوا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.