ضلع خیبر کے گاؤں میرداد خیل کے اکثر بچے پچھلے کئی ہفتوں سے پرائمری سکول میں ٹھیک سے پڑھ نہیں پا رہے۔ وہ سکول تو جاتے ہیں مگر بیشتر وقت فارغ بیٹھ کر گھر واپس آجاتے ہیں۔
جمیل خان اسی گاؤں کے رہائشی ہیں جنہیں قریباً دو سال قبل یہاں قائم گورنمنٹ پرائمری سکول نمبر1 میں عارضی ٹیچر تعینات کیا گیا تھا۔ وہ بتاتے ہیں کہ انہیں محکمہ تعلیم نے نوکری سے فارغ کر دیا ہے جبکہ ایک مستقل ٹیچر کا دوسرے سکول تبادلہ کر دیا گیا ہے۔
"اب یہاں 250 بچوں کو صرف دو اساتذہ پڑھا رہے ہیں۔ ظاہر ہے ان کے لیے پانچوں کلاسز کو بیک وقت پڑھانا ممکن نہیں ہے جس سے بچوں کا وقت ضائع ہوتا ہے۔"
صوبائی حکومت صرف جمیل خان ہی نہیں ضم اضلاع کے دو ہزار 900 عارضی اساتذہ کو ملازمت سے برخواست کر چکی ہے۔
واضح رہے کہ صوبے میں مجموعی شرح خواندگی 53 فیصد ہے جبکہ صوبے کے ضم قبائلی اضلاع میں یہ شرح 28 فیصد ہے۔ صوبے اور خاص طور پر قبائلی اضلاع میں شرح خواندگی نہ بڑھنے میں سب سے بڑی رکاوٹ اساتذہ کی کمی بتائی جاتی ہے۔
صوبے میں اساتذہ کی کتنی کمی ہے؟
ایلیمینٹری اینڈ سکینڈری ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ خیبر پختونخوا کی سرکاری ویب سائٹ بتاتی ہے کہ صوبہ بھر میں 27 ہزار 514 سے زیادہ سرکاری سکول ہیں جہاں تقریباً 43 لاکھ 81 ہزار بچوں کو ایک لاکھ 42 ہزار 623 سے زیادہ اساتذہ تعلیم دے رہے ہیں۔
تاہم رواں سال(24-2023ء) کی سکول شماری رپورٹ کے نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ خیبر پختونخوا کے بندوبستی(سیٹلڈ) اضلاع میں مجموعی طور پر28 ہزار 239 سرکاری سکول ہیں جن میں سے 185 غیرفعال یا بند پڑے ہیں۔
اس رپورٹ کے مطابق صوبے کے ضم شدہ اضلاع میں چھ ہزار 394 سرکاری سکول ہیں جن میں سے 358 غیر فعال یا بند پڑے ہیں۔
ضم شدہ اضلاع میں اساتذہ کی کل منظور شدہ اسامیاں 27 ہزار335 ہیں مگر صرف 19 ہزار 568 اساتذہ کام کر رہے جن میں 13 ہزار236 مرد اور چھ ہزار350 خواتین اساتذہ شامل ہیں۔
یعنی صوبے کو مجموعی طور پر بندوبستی اضلاع کے سرکاری سکولوں میں 23 ہزار سے زائد اور ضم شدہ قبائلی اضلاع میں سات ہزار 767 اساتذہ کی کمی کا سامنا ہے۔
عارضی اساتذہ کی فراغت اور احتجاج
جمیل خان کہتے ہیں کہ قبائلی اضلاع میں شرح خواندگی بڑھانے اور تعلیمی معیار بہتر کرنے کے لیے حکومت نے ستمبر 2022ء میں دو ہزار 900 مرد و خواتین اساتذہ کوعارضی طور پر بھرتی کیا تھا۔
"تاہم نو مہینے بعد(30 جون 2023ء کو) تمام عارضی اساتذہ کی ملازمت ختم کر دی گئی۔
جب احتجاج شروع ہوا تو ان ٹیچرز کو نو ماہ کی توسیع دے دی گئی لیکن 13 اگست کو ان سب کو تنخواہیں دیے بغیر دوبارہ فارغ کر دیا گیا۔ان میں سے کچھ نے مایوس ہو کر تعلیم کے شعبے کو چھوڑ دیا اور کچھ کہیں اور ملازمت کرنے لگ گئے۔"
فارغ ہونے والے اساتذہ مسلسل احتجاج کر رہے ہیں جنہوں نے 23 اکتوبر کو پشاور میں صوبائی اسمبلی کے سامنے بڑا احتجاجی مظاہرہ کیا اور دھرنا دیا۔
رحمت شاہ شیرانی بھی ان مظاہرین میں شامل تھے جو جنوبی ضلع ڈیر اسماعیل کی تحصیل درزندہ سے طویل سفرطے کرکے آئے تھے۔
انہوں نے گومل نیورسٹی سے اُردو میں ماسٹرز کیا اور دو سال سے سابق ایف آر درزندہ میں بطور عارضی ٹیچر پڑھا رہے تھے۔
وہ بتاتے ہیں کہ عارضی اساتذہ کو پورے تعلیمی سال کے لیے رکھا گیا لیکن انہیں پیرنٹ ٹیچر کونسلز (پی ٹی سی)کے فنڈز سے نو مہینے کی تنخواہ ملتی تھی کیونکہ چھٹیوں کے تین ماہ کی کوئی اجرت نہیں دی جاتی تھی۔
" پچھلے نو ماہ سے نہ صرف ہماری تنخواہیں بند ہیں بلکہ محکمہ تعلیم نے نوکریوں سے برخواست کرنے کا حکم بھی جاری کر دیا ہے۔ اب ہم غیر یقینی صورتحال سے سخت پریشان ہیں۔ میرا گھر قرض پر چل رہا ہے اور احتجاج کے لیے بھی رقم ادھار لے کر آیا ہوں۔"
پی ٹی سی ٹیچر ز ایسویشن کے صدر ڈاکٹر عاطف خان بتاتے ہیں کہ صوبے میں پچھلے کئی سال سے نئے اساتذہ بھرتی نہیں کیے گئے جبکہ صوبائی حکومت ہزاروں اساتذہ کی کمی کا اعتراف کرتی ہے۔ ایسے میں ان لوگوں کو فارغ کرناسمجھ سے بالاتر ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ عارضی اساتذہ کو ماہانہ 25 ہزار روپے تنخواہ دی جاتی ہے وہ بھی سال کے نو ماہ۔ حالانکہ صوبے میں مزدور کی کم از کم ماہانہ اُجرت 36 ہزار روپے مقرر ہے۔
"عارضی اساتذہ کے تین ماہ کے پیسے کاٹنا بہت بڑی زیادتی ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ ان ٹیچرز کی اُجرت بڑھائی جائے اور انہیں پورے سال کی تنخواہیں دی جائیں۔"
انہوں نے لوک سجاگ کو بتایا کہ محکمہ تعلیم نئی بھرتیوں میں انہیں ترجیح دے۔
"یہ نہ صرف تربیت یافتہ ٹیچر ہیں بلکہ انہوں نے ضم اضلاع میں انتہائی مشکل حالات میں تعلیمی خدمات سرانجام دی ہیں۔"
محکمہ تعلیم خیبر پختونخوا کے ڈائریکٹر برائے منصوبہ بندی و ترقی شہاب خان نے لوک سجاگ کو بتایاکہ احتجاجی اساتذہ کے ساتھ مذاکرات میں انہیں بتا دیا گیا ہےکہ 30 دن کے اندار ان کے بقاجات ادا کر دیے جائیں گے اور مدت ملازمت میں بھی مزید نوماہ توسیع کی جائے گی۔
"پالیسی کے مطابق عارضی ملازمت میں دو مرتبہ توسیع کے اختیارات سیکرٹری تعلیم کے پاس ہیں لیکن تیسری بار توسیع طویل عمل ہوتا ہے جس کو جلد مکمل کر لیا جائے گا۔
تاہم ان کا کہنا ہے کہ ان دو ہزار 165 لوگوں کی مستقلی سے متعلق وہ کچھ نہیں کہہ سکتے۔
تعلیمی ایمرجنسی اور تعلیم کارڈ
وزیراعلیٰ علی امین خان گنڈا پور نے صوبے میں تعلیم کے فروغ کے لیے نئے تعلیمی سال سے 'تعلیمی ایمرجنسی اور تعلیم کارڈ کے اجراء' کا اعلان کر رکھا ہے۔
ابتدائی طور پر تعلیم کارڈ کے اجراء کا آغاز نو پسماندہ اضلاع کوہستان اپر، کوہستان لوئر، کولئی پالس، تورغر، چترال اپر، چترال لوئر، ٹانک اور اپر و لوئر جنوبی وزیرستان سے کیا جا رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں
مردان کے گورنمنٹ گرلز سکول کے مالک کو غصہ کیوں آتا ہے؟
تعلیم کارڈ کے تحت سرکاری سکولوں میں داخلہ لینے والے بچوں کو ایک ہزار روپے فی کس ماہانہ وظیفہ دیا جائے گا۔جبکہ نجی سکولوں میں بچے مفت داخلہ لے سکیں گے۔ ابتدائی طور پر نو اضلاع کے 40 ہزار بچے مستفید ہوں گے۔
پالیسی کے تحت مفت درسی کتب کی فراہمی، وظائف اور پہلے سے موجود تمام سہولیات بھی تعلیم کارڈ میں یکجا کردی جائیں گی۔ اس کارڈ کو پائیدار بنیادوں پر چلانے کے لیے وزیراعلیٰ نے تین ارب روپے سے ایجوکیشن ایمرجنسی انڈومنٹ فنڈ قائم کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔
ادھر صوبائی وزیر تعلیم فیصل خان ترکئی نے بھی 24 اکتوبر کو اعلان کیا ہے کہ صوبے میں اساتذہ کی کمی ہر صورت پوری کی جائے گی جس کے لیے بہت جلد 17 ہزار اساتذہ بھرتی کیے جائیں گے۔
ان کے بقول ریگولر، ایڈہاک اور بذریعہ پیرنٹس ٹیچرز کونسل اساتذہ کی تعیناتی کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔
شرح خواندگی اور تعلیمی معیار بہتر کرنے کے لیے حکومتی اعلانات اپنی جگہ تاہم ان پر کتنا عمل ہو پاتا ہے یہ وقت ہی بتائے گا۔
تاریخ اشاعت 1 نومبر 2024