'کراچی شہر کی مادری زبان بلوچی ہے'، کراچی لٹریچر فیسٹیول میں بلوچی ادب کے رنگ

postImg

اشرف بلوچ

postImg

'کراچی شہر کی مادری زبان بلوچی ہے'، کراچی لٹریچر فیسٹیول میں بلوچی ادب کے رنگ

اشرف بلوچ

"کراچی مائی کلاچی کا آباد کیا ہوا شہر ہے، جن کی مادری زبان بلوچی تھی، یوں کراچی کی مادری زبان بلوچی ہے۔"

میزبان نے ان جملوں کے ساتھ کراچی لٹریچر فیسٹیول کے تیسرے روز بلوچی زبان و ادب پر سیشن کا آغاز کیا تو ہال سامعین سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔

"بلوچی زبان و ادب کے فروغ میں کراچی کا کردار" کے موضوع پر اس سیشن کو سننے کے لیے بلوچ طلبا سمیت ہر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔

کراچی لٹریچر فیسٹیول کا انعقاد 14 سال پہلے 2010ء میں ہوا تھا۔ ابتدائی برسوں میں اس فیسٹیول میں اُردو ادب حاوی رہا جس پر گفتگو انگریزی میں ہوتی تھی۔

گزشتہ چند سال سے دیگر ملکی زبانوں کے ادب کو بھی گفتگو کا حصہ بنایا جا رہا ہے، جن میں بلوچی بھی شامل ہے۔

گزشتہ سال بلوچی زبان و ادب پر "رنگ کھینچے تھے داغ کھائے تھے: بلوچی ادب کا سفر" کے عنوان سے ایک سیشن رکھا گیا تھا جس میں بلوچی زبان کے نامور شاعر منیر مومن، افضل مراد اور زاہدہ رئیسی مدعو تھے۔ اس نشست کی میزبانی انسانی حقوق کے کارکن و شاعر وحید نور نے کی تھی۔

رواں سال اس سیشن میں بلوچستان یونیورسٹی میں بلوچی ڈپارٹمنٹ کے چیئرمین رحیم مہر، بلوچی زبان کے استاد، شاعر و ادیب  اے آر داد اور ہانی بلوچ بطور مقرر مدعو تھے۔ اس بار بھی سیشن کی میزبانی وحید نور کر رہے تھے۔

اس موقع پر شرکا کا کہنا تھا کہ بلوچی میں تحریر کا آغاز 50ء کی دہائی کے آس پاس کراچی میں ہوا اور اس کی ترقی و ترویج بھی یہیں سے ہوئی۔ "اومان" کے نام سے پہلا بلوچی رسالہ بھی کراچی سے ہی شائع ہوتا تھا۔ پہلی مرتبہ محمد حسین کلاتکی نے بلوچی زبان میں ڈرامے لکھے۔ سید ہاشمی نے بلوچی زبان بولنے والوں سے درخواست کی کہ وہ بلوچی میں لکھیں۔ بلوچستان کے ادباء گل خان نصیر، آزاد جمال دینی و دیگر کا ٹھکانہ کراچی ہی تھا اور ان کی ادبی پرداخت بھی کراچی میں ہی ہوئی۔ بلوچی میں جتنا بھی اشاعتی کام ہوا ہے، وہ زیادہ تر کراچی سے ہی ہوا ہے۔

بلوچی زبان و ادب کے سب سے بڑے ذخیرے پر مبنی' سید ہاشمی ریفرنس لائبریری' ملیر میں قائم ہے، جہاں ملک بھر سے لوگ آ کر حوالہ جاتی لٹریچر تلاش کرتے ہیں۔
ڈاکٹر رحیم مہر نے دوران سیشن اور بعدازاں لوک سجاگ سے گفتگو میں بتایا کہ بلوچوں کی اولین سیاسی اور علمی تحریک کا آغاز کراچی سے ہوا تھا۔ 1910ء میں کراچی میں مولانا محمد عثمان بلوچ کی سربراہی میں مدرسہ احرارالاسلام کی بنیاد رکھی گئی۔

اس مدرسے کے قیام کا بنیادی مقصد مذہبی تعلیم دینا تھا۔اس کے لیے بلوچی میں جو لٹریچر چھاپا گیا اس میں مذہبی تعلیمات کے ساتھ سیاسی موضوعات پر بھی توجہ دی گئی۔

میر غلام محمد نورالدین نے 1925ء میں بلوچ لیگ کے نام سے ایک سیاسی و سماجی پلیٹ فارم کی بنیاد رکھی۔اس تنظیم نے 1930ء میں "نظام" کے نام سے ایک کتابی سلسلہ شروع کیا، جس نے بلوچ سیاست کے ساتھ ساتھ بلوچ صحافت کی بھی بنیاد رکھی۔

یوں بلوچستان کے مسائل کو اجاگر کرنے کا بنیادی کام کراچی سے شروع ہوا۔ دوسری طرف جب کراچی میں صحافت، سیاست و سماجی کاموں کا آغاز ہوا تو اس میں زیادہ تر لوگوں کا تعلق ادب سے تھا جس میں یوسف عزیز مگسی، محمد حسین عنقا اور ان کے رفقا شامل تھے جنہوں نے بعدازاں 1940 میں بلوچ لٹریری کمیٹی بنائی۔

اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے پروفیسر اے آر داد نے بتایا کہ تقسیم ہند کے بعد ایک بہت بڑا کردار مولوی خیر محمد ندوی کا ہے، جنھیں بابائے بلوچی کہا جاتا ہے۔ انھوں نے دی بلوچ ایجوکیشنل سوسائٹی کے نام 1948ء میں ایک ادارہ قائم کیا جس کا مقصد بلوچوں میں علم و آگاہی کا ماحول پروان چڑھانا تھا۔

1948ء میں جب ریڈیو پاکستان کی بنیاد رکھی گئی تو اس وقت مختلف زبانوں میں نشریات شروع ہوئیں مگر ان میں بلوچی شامل نہیں تھی۔ مولانا خیر محمد ندوی نے ایک وفد کے ساتھ ریڈیو کے ڈائریکٹر سے ملاقات کی اور بلوچی زبان میں نشریات کی درخواست کی۔ اس پر ریڈیو پاکستان کے ڈائریکٹر نے ان سے کہا کہ کیا بلوچی میں تحریر کی صورت میں کوئی ایسا مواد موجود ہے جس پر ہم ریڈیو میں پروگرام کر سکیں؟ جواب میں مولوی خیر محمد ندوی نے بلوچی میں "اومان" کے نام سے ایک رسالہ نکالا، جو 1951ء سے 1967ء تک جاری رہا۔

ہانی بلوچ بلوچی زبان میں خواتین کی صحت اور خصوصاً زچگی کے مسائل پر کتاب لکھنے والی پہلی مصنفہ ہیں۔ ان  کا کہنا تھا کہ 1920ء سے 1970ء کا دور بلوچی لٹریچر کی ترقی کا دور ہے جب کراچی بلوچ ادب و سیاست کا مرکز کہلاتا تھا۔ اسی لیے لیاری کو بلوچی ادب کی ماں کا درجہ دیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ اس دور میں بلوچ خواتین نے بھی بلوچی موسیقی اور لٹریچر میں اہم کردار ادا کیا۔ ریڈیو پاکستان آنے کے فوری بعد ہی بلوچ خواتین نے تحریریں لکھنا شروع کر دی تھیں۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

تربت میں عطا شاد لٹریری فیسٹیول عام ادبی میلوں سے کیسے مختلف تھا

"1951ء میں جب عبداللہ بلوچ نے ریڈیو پاکستان کے لیے ڈراما لکھنا شروع کیا تو ان کی اہلیہ شیرین بلوچ نے بھی ان کے ساتھ مل کر اہم کردار ادا کیا۔ انھوں نے ڈرامے میں کام کرنے کے بعد دو رسالے بھی نکالے۔ اسی طرح ڈاکٹر داؤد، ڈیلی بیگ اور ولی محمد نے اپنی خواتین کے ساتھ مل کر بلوچی زبان کی ترقی و ترویج کے لیے کام کیا"۔

ایک سوال کے جواب میں ہانی بلوچ نے کہا کہ بلوچی ادب میں خواتین کے فعال کردار کے لیے بلوچ مردوں کا تعاون ضروری ہے۔

"بانل دشتیاری نے بلوچی زبان کی ترقی کے لیے کافی خدمات سر انجام دیں۔ وہ ایک گھریلو خاتون ہونے کے ساتھ بہت اچھی لکھاری اور ڈراما نویس بھی تھیں جنہیں ان کے شوہر اسرار عارفی کا تعاون حاصل تھا۔ آج ادب اور سیاست میں بلوچ خواتین جو کردار ادا کر رہی ہیں، وہ بھی بلوچ مردوں کی مثبت سوچ اور تعاون کی وجہ سے ہی ممکن ہوا ہے"۔

تاریخ اشاعت 3 مارچ 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

اشرف بلوچ کا بنیادی تعلق گریشہ ضلع خضدار سے ہے۔ کراچی یونیورسٹی سے شعبہ سوشیالوجی میں ایم اے کیا ہے اور وہیں سے ایم فل کر رہے ہیں۔ وقتاً فوقتاً بلوچستان کے سیاسی و سماجی اور تعلیمی مسائل پر لکھتے رہتے ہیں۔

گندم: حکومت خریداری میں سنجیدہ نہیں، کسانوں کو کم قیمت ملنے کا خدشہ

thumb
سٹوری

گولاڑچی کے بیشتر کسان اپنی زمینوں کے مالک کیوں نہیں رہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceرضا آکاش

مسکان مسیح کے والدین کی "مسکان" کس نے چھینی؟

معذوروں کے چہرے پر خوشیاں بکھیرتے کمپیوٹرائزڈ مصنوعی اعضا

thumb
سٹوری

کیا قبائلی اضلاع میں سباون سکولز انشی ایٹو پروگرام بھی فلاپ ہو جائے گا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceخالدہ نیاز
thumb
سٹوری

ضلع میانوالی کے سرکاری کالجوں میں طلباء کی تعداد کم کیوں ہو رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceفیصل شہزاد

ڈیجیٹل امتحانی نظام، سہولت یا مصیبت؟

سندھ: ہولی کا تہوار، رنگوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا

thumb
سٹوری

پانی کی تقسیم پر آگ کا کھیل: ارسا آرڈیننس، سندھ، پنجاب کی تکرار کو جھگڑے میں بدل سکتا ہے

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

وادی تیراہ میں کھاد کی ترسیل اور امن و امان کے درمیان کیا تعلق ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

پاکستان کے دریاؤں کے 'نئے مالک' سے ملیے! ارسا ایکٹ 1992ء اور ارسا آرڈیننس 2024ء کا ایک تقابلی جائزہ

arrow

مزید پڑھیں

عبداللہ چیمہ، کلیم اللہ

آزاد کشمیر: مظفر آباد کی بیکری جہاں خواتین کا راج ہے

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.