کراچی میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 249 میں حالیہ ضمنی انتخاب میں ڈالے گئے ووٹوں کی شرح 2018 کے عام انتخابات کی نسبت قریباً نصف رہی مگر دونوں مواقع پر امیدواروں میں کانٹے کا مقابلہ دیکھنے کو ملا۔ 2018 میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے امیدوار فیصل واوڈا نے پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل این) کے صدر شہباز شریف کو 723 ووٹوں سے ہرایا تھا جبکہ حالیہ انتخاب کے عبوری نتائج کی رو سے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے امیدوار قادر خان مندوخیل نے پی ایم ایل این کے مفتاح اسماعیل کو 683 ووٹوں سے شکست دی۔
تاہم مفتاح اسماعیل نے اس عبوری نتیجے کو چیلنج کرتے ہوئے ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا مطالبہ کیا ہے جسے الیکشن کمیشن آف پاکستان نے منظور کر لیا ہے۔
اگرچہ کسی ایک ضمنی الیکشن کی بنیاد پر وسیع سیاسی اور انتخابی نتائج اخذ نہیں کیے جا سکتے خواہ اس میں امیدواروں کے مابین کتنا ہی سخت مقابلہ کیوں نہ ہوا ہو لیکن کراچی میں ہونے والے اس ضمنی انتخاب کے نتائج کو یکسر نظر انداز بھی نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ان سے پتا چلتا ہے کہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کی سیاست میں کیا ہو رہا ہے۔ اگر اس ضمنی انتخاب میں دکھائی دینے والے رجحانات زور پکڑتے ہیں تو یقینی طور پر آنے والے عام انتخابات میں شہر کا انتخابی منظر نامہ تبدیل ہو سکتا ہے۔
ذیل میں ان چھ رجحانات کا جائزہ لیا گیا ہے جو ضمنی انتخاب کے نتیجے میں سامنے آئے ہیں:
1: ریت کا قلعہ
2018 کے انتخابات میں این اے 249 میں فیصل واوڈا نے 35,349 ووٹ (ڈالے گئے کل ووٹوں کا 26.9 فیصد) حاصل کیے اور ملک میں اس وقت کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ کو شکست دی۔ لیکن ضمنی انتخاب میں واوڈا کی جماعت، پی ٹی آئی، نے عام انتخابات میں حاصل کردہ ہر 100 ووٹوں کے مقابلے میں صرف 25 ووٹ ہی حاصل کیے ہیں۔ نتیجتاً اس کے مجموعی ووٹ کم ہو کر 8,922 (یا ڈالے گئے کل ووٹوں کے 12.1 فیصد) پر آ گئے اور یوں اس انتخاب میں اس کی پوزیشن پانچویں رہی۔
اس حلقے میں بعض دوسری جماعتوں کے ووٹ بھی کم ہوئے ہیں مگر ان کی تعداد اتنی زیادہ نہیں جتنی کہ پی ٹی آئی کے کم ہونے والے ووٹوں کی ہے۔ کیا یہ کراچی میں اس جماعت کی انتخابی کامیابی کے خاتمے کا اشارہ ہے؟
2018 میں پی ٹی آئی نے اس شہر میں قومی اسمبلی کے 21 حلقوں میں سے 14 میں کامیابی حاصل کی تھی۔ پانچ دیگر حلقوں میں یہ دوسرے نمبر پر آئی اور بقیہ دو میں اس نے تیسری پوزیشن حاصل کی۔ اگر اور کچھ نہیں تو ضمنی انتخاب کا نتیجہ یہ ضرور ظاہر کرتا ہے کہ ڈھائی سال سے مرکز میں برسر اقتدار ہونے کے باوجود، یا پھر اسی وجہ سے، پی ٹی آئی کراچی کے ووٹروں میں اپنی مقبولیت کھو رہی ہے۔
2 : مقابلہ تو 'دلِ ناتواں' نے خوب کیا
تحریکِ لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) نے 2018 کے عام انتخابات میں این اے 249 میں ڈالے جانے والے کل ووٹوں کا 18.3 فیصد حاصل کیا حالانکہ یہ اس کا پہلا انتخابی معرکہ تھا۔
ضمنی انتخاب میں اسے یہ مسئلہ بھی درپیش تھا کہ پولنگ والے دن سے دو ہی ہفتے پہلے وفاقی حکومت نے اسے ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے کر اس کی سرگرمیوں پر پابندی لگا دی۔ فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کے مطالبے پر گزشتہ دنوں اس نے جو احتجاج کیے اس کے بعد وزارت داخلہ نے 15 اپریل 2021 کو ایک نوٹیفکیشن جاری کیا جس میں کہا گیا کہ وفاقی حکومت کے پاس اس بات پر یقین کرنے کی معقول وجہ موجود ہے کہ ٹی ایل پی دہشت گردی میں ملوث ہے اور یہ کہ اس نے ملک کے امن اور سلامتی کو خطرے میں ڈالا ہے۔
یہ دونوں باتیں الیکشن ایکٹ 2017 کے تحت کسی بھی سیاسی جماعت کو تحلیل کرنے کی معقول بنیاد بن سکتی ہیں۔ تاہم ایک سیاسی جماعت کو انتخاب کے لیے نا اہل قرار دینے کے لیے وفاقی حکومت کو ایک طویل طریقہ کار اختیار کرنا ہوتا ہے جس میں سپریم کورٹ سے بھی رجوع کرنا پڑتا ہے جبکہ یہ عمل شروع ہونے سے بہت پہلے الیکشن کمیشن نے این اے 249 میں ضمنی انتخاب کے لیے دوسرے امیدواروں کے ساتھ ساتھ ٹی ایل پی کے امیدوار کے کاغذات نامزدگی بھی منظور کر لیے تھے۔ الیکشن کمیشن کے پاس خود سے اس منظوری کو واپس لینے اور ٹی ایل پی کو انتخابات میں شرکت سے روکنے کا کوئی اختیار نہیں تھا۔
تاہم این اے 249 سے ملنے والی اطلاعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ مقامی انتظامیہ نے وفاقی حکومت کی جانب سے اس جماعت پر لگائی گئی پابندی کے حکم کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اسے جلسے جلوس نکالنے کی اجازت نہیں دی۔ اس کے باوجود اس نے 11,125 ووٹ حاصل کیے ہیں۔ یقیناً یہ 2018 میں اسے حاصل ہونے والے 23,981 ووٹوں کے مقابلے میں بہت کم ہیں تاہم حلقے میں ڈالے جانے والے مجموعی ووٹوں میں سے اسے ملنے والے ووٹوں کی شرح میں صرف تین فیصد ہی کمی آئی ہے اور یہ شرح 18.3 فیصد سے گر کر 15.1 فیصد پر آ گئی ہے۔
اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ انتخابی میدان میں ٹی ایل پی نے بھلے ہی پہلے سے بہتر کارکردگی نہ دکھائی ہو مگر اس کا ووٹ بینک ابھی بھی برقرار ہے۔
3: فرقہ وارانہ تقسیم
2018 کے عام انتخابات میں متحدہ مجلسِ عمل (ایم ایم اے) کے امیدوار نے این اے 249 میں 10,307 ووٹ حاصل کیے جن میں سے بیشتر ووٹ جمیعت علمائے اسلام (فضل الرحمان) کے تھے۔ ضمنی انتخاب میں ایم ایم اے نے اپنا امیدوار کھڑا نہ کرنے اور پاکستان مسلم لیگ نواز کی حمایت کرنے کا فیصلہ کیا جو اپوزیشن کے اتحاد پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ میں جمیعت علمائے اسلام (فضل الرحمان) کی سب سے بڑی اتحادی جماعت ہے۔
ایم ایم اے کا یہ ووٹ کہاں گیا؟
یقیناً اس کے تمام ووٹ پاکستان مسلم لیگ نواز کو نہیں ملے اور ان سے ٹی ایل پی کو بھی فائدہ نہیں ہوا جو اس ضمنی انتخاب میں حصہ لینے والی واحد مذہبی جماعت تھی حالانکہ جمیعت علمائے اسلام (فضل الرحمان) گزشتہ دنوں میں اس کے موقف اور اقدمات کی حمایت بھی کر چکی ہے۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مذہبی ووٹر کسی بڑی سیاسی یا مذہبی وجہ کے بغیر فرقہ وارانہ حدود پار نہیں کرتا۔ مثال کے طور پر 2002 میں ایم ایم اے کو تمام فرقوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے ووٹ ملے تھے کیونکہ اس میں ان تمام فرقوں کی جماعتیں شامل تھیں۔ لیکن عام حالات میں چونکہ ٹی ایل پی بریلوی مسلک سے تعلق رکھنے والوں کی جماعت ہے اس لیے اسے جمعیت علمائے اسلام کے ووٹر کی حمایت نہیں مل سکتی کیونکہ اس ووٹر کا تعلق دیوبندی فرقے سے ہے۔
4: مستحکم ووٹ بینک
متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان نے جولائی 2018 میں ہونے والے عام انتخابات میں اس حلقے سے 13,534 ووٹ (یا ڈالے گئے کل ووٹوں کا 10.3 فیصد) حاصل کیے تھے۔ ضمنی انتخاب میں اسے 7,511 ووٹ (یا ڈالے گئے کل ووٹوں کا 10.2 فیصد) ملے۔
اگر حاصل کردہ ووٹوں کی شرح کو دیکھا جائے تو ایم کیو ایم کو اتنی ہی حمایت ملی جتنی اسے 2018 میں ملی تھی۔ چونکہ ضمنی الیکشن میں ووٹر ٹرن آؤٹ عام انتخابات کے مقابلے میں کم رہا اس لیے ایم کیو ایم کے ووٹوں میں کمی کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔ مستقبل قریب میں کراچی بھر میں یہی رجحان برقرار رہتا دکھائی دیتا ہے۔
5: سہانے خواب
پاک سر زمین پارٹی 2016 میں ایک نئی سیاسی جماعت کے طور پر سامنے آئی۔ اس کے سربراہ مصطفیٰ کمال ہیں جو 2005 سے 2010 تک کراچی کے میئر رہ چکے ہیں۔ اس کے بعد 2013 میں وہ ایم کیو ایم کے ٹکٹ پر سینیٹ کے رکن بھی منتخب ہوئے تھے۔
لیکن 2018 کے عام انتخابات میں پاک سر زمین پارٹی کی کارکردگی خاصی خراب رہی۔ کراچی میں قومی اسمبلی کی 21 نشستوں پر الیکشن لڑنے والے اس کے امیدواروں میں صرف مصطفیٰ کمال ہی 10 ہزار سے زیادہ ووٹ لے پائے تھے۔ انہوں نے کراچی وسطی کے حلقے این اے 253 سے الیکشن لڑا اور چوتھی پوزیشن پر آئے۔ دیگر حلقوں میں پاک سرزمین پارٹی کے 16 امیدوار ساتویں یا اس سے بھی نچلے نمبر پر رہے۔
عام انتخابات میں این اے 249 میں پاک سر زمین پارٹی کی امیدوار فوزیہ حمید نے بھی ساتویں پوزیشن حاصل کی تھی۔ انہوں نے 1,617 ووٹ (یا ڈالے گئے کل ووٹوں کا 1.2 فیصد) حاصل کیے۔ تاہم ضمنی الیکشن میں اس پارٹی کے امیدوار نے 9,227 ووٹ (یا ڈالے گئے کل ووٹوں کا 12.6 فیصد) حاصل کیے۔ درحقیقت پاک سر زمین پارٹی ان دو جماعتوں میں سے ایک ہے جن کے ووٹوں میں اس ضمنی انتخاب میں عام انتخابات کے مقابلے میں اچھا خاصا اضافہ ہوا ہے۔
اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اس مرتبہ خود مصطفیٰ کمال اس حلقے سے امیدوار تھے۔ پھر بھی یہ سوال برقرار رہتا ہے کہ انہوں نے کس جماعت کا ووٹ توڑا؟
اس کا ایک جواب یہ ہو سکتا ہے کہ اس حلقے میں اردو بولنے والے ان لوگوں نے ضمنی انتخاب میں پاک سر زمین پارٹی کو ووٹ دیا جنہوں نے 2018 میں پی ٹی آئی کو ووٹ دیا تھا مگر اب وہ اس سے مایوس ہو چکے ہیں۔
پی ٹی آئی نے اس ضمنی انتخاب میں 2018 کے عام انتخابات کی نسبت 14.8 فیصد کم ووٹ لیے ہیں۔ غالب امکان ہے کہ ان ووٹوں کا بڑا حصہ پاک سر زمین پارٹی کی جانب منتقل ہوا جس نے اس ضمنی انتخابات میں عام انتخابات کے مقابلے میں 11.1 فیصد زیادہ ووٹ حاصل کیے۔
اگر ہم اس عام مفروضے پر یقین کریں کہ 2018 میں پی ٹی آئی اردو بولنے والوں کی سیاسی ہمدردیاں حاصل کرنے میں کامیاب رہی تھی تو یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ یہی ووٹر اب پاک سر زمین پارٹی کا رخ کر رہا ہے۔ تاہم صرف ایک ضمنی الیکشن کے نتائج کی بنیاد پر یہ نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ پی ٹی آئی سے نکلنے والا ووٹ ہمیشہ پاک سر زمین پارٹی کو ہی فائدہ پہنچائے گا۔
6: غیر متوقع نتیجہ
سوشل میڈیا پر این اے 249 میں پی پی پی کی انتخابی کارکردگی کے حوالے سے کچھ ایسی تنقید دیکھنے کو مل رہی ہے کہ اس نے اپوزیشن اتحاد کو کمزور اور حکومت کو مضبوط کرنے کا صلہ پایا ہے۔ اس مضمون میں اس تنقید کو صحیح یا غلط ثابت کرنے کی گنجائش نہیں لیکن اگر انتخابی اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ کسی بھی انتخاب میں کسی بھی جماعت کی فتح کا حقیقی دارو مدار مقامی عوامل پر ہوتا ہے۔
ان عوامل میں سب سے پہلا یہ ہے کہ عام اور ضمنی انتخابات دونوں میں اس حلقے سے پی پی پی کے امیدوار قادر خان مندو خیل تھے جو پختون ہیں۔ چونکہ اس حلقے میں پختونوں کی بڑی آبادی ہے اس وجہ سے انہیں اپنے حریفوں پر برتری حاصل تھی۔
ڈان اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق قادر خان مندو خیل 2018 میں عام انتخابات سے چند ہی ہفتے پہلے اس حلقے میں منتقل ہوئے تھے۔ بعدازاں انہوں نے یہاں خاصا کام کیا اور کوویڈ وبا کے دوران لوگوں کی مدد کر کے مقامی سطح پر اپنی حمایت بڑھائی۔ انہوں نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ "عام انتخابات کے بعد میں لوگوں کے درمیان رہا اور انہیں مدد دی جبکہ الیکشن جیتنے اور ہارنے والے دوسرے امیدوار کہیں نظر نہ آئے"۔
2018 سے پہلے قادر خان مندو خیل نے 2002 میں کراچی ہی سے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر سندھ اسمبلی کے لئے انتخاب لڑا تھا مگر وہ کوئی خاص کارکردگی دکھانے میں ناکام رہے۔
اسی طرح کے چند دیگر عوامل نے بھی ان کی اچھی کارکردگی میں کردار ادا کیا ہے۔ ان میں ایم ایم اے کا اس مقابلے سے واضح طور پر باہر ہونا خاص طور پر اہم ہے۔ اگرچہ ایم ایم اے اپنے حامیوں کو مذہبی نعروں پر اکٹھا کرتی ہے تاہم اس کی بڑی انتخابی طاقت پختون ووٹر ہیں۔ چونکہ اس نے ضمنی انتخاب میں اپنا امیدوار کھڑا نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا اس لیے دوسرے امیدواروں کو پختون ووٹ اپنے حق میں متحرک کرنے کا موقع مل گیا۔ ایسا لگتا ہے کہ قادر خان مندوخیل نے یہ کام دوسروں کی نسبت زیادہ کامیابی سے کیا اور بڑی تعداد میں پختون ووٹ اپنی جانب راغب کرنے میں کامیاب رہے۔
شاید اسی وجہ سے پی ٹی آئی نے بھی اردو بولنے والے امیدوار کے بجائے ایک پختون امجد اقبال آفریدی کو میدان میں اتار ا تھا۔ لیکن اس کی یہ حکمت عملی ناکام رہی کیونکہ اس طرح حلقے میں اردو بولنے والے اس کے حامیوں میں ضمنی انتخاب کے لئے خاطر خواہ گرم جوشی پیدا نہ ہو سکی۔
پی ٹی آئی کا حکومت میں ہونا بھی امجد آفریدی کے خلاف گیا اور یہ پی پی پی کی 2018 کے انتخابات کے مقابلے میں زیادہ ووٹ حاصل کرنے کی دوسری بڑی وجہ ہو سکتی ہے۔
این اے 249 میں بہت سی آبادیاں پانی اور نکاسی آب جیسی بنیادی شہری سہولیات سے محروم ہیں۔ ہر انتخاب کے موقع پر امیدوار یہ مسائل حل کرنے کا وعدہ کرتے ہیں۔ آخری مرتبہ یہ وعدہ کرنے اور اسے پورا نہ کرنے والی شخصیت پی ٹی آئی کے امیدوار فیصل واوڈا تھے۔ ان علاقوں کے لوگوں نے ضمنی انتخاب میں ان کی جماعت کو ووٹ دینے سے پہلے یقیناً دو مرتبہ سوچا ہو گا۔
اسی طرح این اے 249 کے باسیوں کی بڑی تعداد محنت کش اور نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھتی ہے جو پی ٹی آئی کی ڈھائی سالہ حکومت میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور معاشی سرگرمیاں ماند پڑنے سے بری طرح متاثر ہوا ہے۔ اس لیے اس طبقے کے ووٹروں کا پی ٹی آئی کے امیدوار کو مسترد کرنا سمجھ میں آتا ہے۔
ضمنی انتخاب کے دوران پی ٹی آئی کے اندرونی اختلافات نے بھی اس کی مشکلات میں اضافہ کیا۔ امجد آفریدی کی امیدوار کی حیثیت سے نامزدگی کو سندھ اسمبلی میں پارٹی کے رکن اور ضمنی الیکشن میں ٹکٹ کے ایک دوسرے امیدوار ملک شہزاد اعوان نے کھلے عام مسترد کیا تھا۔ انہوں نے بطور احتجاج صوبائی اسمبلی کی نشست سے مستعفی ہونے کی دھمکی بھی دی تھی۔ تاہم سندھ کے گورنر عمران اسماعیل سے ملاقات کے بعد وہ اپنے مطالبے سے دستبردار ہو گئے لیکن اس وقت تک ضمنی انتخاب میں صرف ایک مہینہ رہ گیا تھا۔
شہزاد اعوان کا امجد آفریدی سے بہتر امیدوار ہونے کا دعویٰ اس حقیقت پر مبنی تھا کہ این اے 249 میں ہندکو بولنے والی ہزارہ وال برادری کی اتنی بڑی تعداد بستی ہے جو شہزاد اعوان کو 2018 میں صوبائی اسمبلی کی نشست پر کامیاب کرانے کے لیے کافی تھی۔ اگرچہ پی ٹی آئی نے آفریدی۔اعوان تنازعے کو حل کر لیا مگر اس کا امکان کم ہی ہے کہ ہندکو بولنے والے ووٹر مکمل طور پر امجد آفریدی کی حمایت کرنے پر راضی ہو گئے ہوں۔
دوسری جانب پی پی پی کو ایسے کسی اندرونی اختلاف کے نتیجے میں اپنے ووٹ ٹوٹنے کا ڈر نہیں تھا۔ لہٰذا ایک ایسے حلقے میں جہاں مجموعی رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد 339,591 ہے اس کا اپنے ووٹوں میں عام انتخابات میں حاصل کردہ ووٹوں کے مقابلے میں 8,920 ووٹوں کا اضافہ کر لینا کوئی ایسے اچنبھے کی بات نہیں خاص طور پر ایک ایسی جماعت کے لیے جو 2008 سے صوبہ سندھ پر مسلسل حکمرانی کر رہی ہے۔
تاہم آئندہ کسی انتخاب میں پڑنے والے ووٹوں کی شرح زیادہ ہونے اور دوسری سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کے درمیان نئی صف بندیوں کی موجودگی میں پی پی پی شاید دوبارہ ایسی کارکردگی نہ دکھا پائے۔
یہ رپورٹ لوک سجاگ نے پہلی دفعہ 7 مئی 2021 کو اپنی پرانی ویب سائٹ پر شائع کی تھی۔
تاریخ اشاعت 2 ستمبر 2021