کبیر والا میں 'گنگا الٹی بہنے لگی'، ڈیزائن کی خرابی سے کروڑوں مالیت کا سیوریج نظام ناکام

postImg

امین وارثی

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

کبیر والا میں 'گنگا الٹی بہنے لگی'، ڈیزائن کی خرابی سے کروڑوں مالیت کا سیوریج نظام ناکام

امین وارثی

loop

انگریزی میں پڑھیں

خانیوال سے 10کلومیٹر کے فاصلے پر پیر کبیر کے نام سے موسوم شہر کبیروالا میں سیوریج کے پانی کی نکاسی کا کوئی مناسب انتظام موجود نہیں اور یہ اس علاقے کا سب سے بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔

یہاں ککڑ ہٹہ روڈ کو سردار پور روڈ سے ملانے والی ایک کلومیٹر طویل کھچیاں والی گلی میں سال بھر گندا پانی کھڑا رہتا ہے۔ اسی لیے گلی کے دائیں بائیں  نصف سے زیادہ مکانوں کی بنیادیں ہل چکی ہیں۔

اگر ملحقہ گلیاں شامل کر لی جائیں تو متاثرہ علاقے میں دو سے ڈھائی ہزار گھر اس مسئلے سے متاثر ہو رہے ہیں جو پانچ سال سے حل طلب ہے۔

مقامی سماجی کارکن عاصم شہباز نے گزشتہ برس ڈپٹی کمشنر خانیوال اور کمشنر ملتان کو تحریری درخواستیں دیں کہ گندے پانی کے باعث ان کے گھر کی بیرونی دیواریں ٹوٹ رہی ہیں اور پورے علاقے میں سیکڑوں لوگوں کا بھاری نقصان ہو رہا ہے اس لیے سیوریج کے نظام کو درست کیا جائے۔ لیکن ان درخواستوں پر کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا۔

یہ علاقہ نواں شہر غربی کی حدود میں آتا ہے جہاں درجنوں گلیوں کا یہی حال ہے۔ میونسپل کمیٹی کبیروالا کا عملہ صفائی ایک طرف سے سیوریج لائن کو چالو کرتا ہے تو دوسری جانب سے گٹر ابلنے لگتے ہیں۔

ساڑھے تین لاکھ سے زیادہ آبادی والے شہر کا شاید ہی کوئی علاقہ ایسا ہو جہاں سیوریج کا مسئلہ نہیں ہے۔ شہر کے اکلوتے ڈسپوزل ورکس کی مین سیوریج لائن کے قریبی محلوں میں گندے اور بارش کے پانی کے نکاس کی صورت حال قدرے بہتر ہے۔ لیکن اس سے ہٹ کر شہر کی نصف سے زیادہ آبادی پر مشتمل علاقے اکثر گندے پانی کی زد میں رہتے ہیں۔

1985ء میں بلدیہ کبیروالا کے زیر انتظام بوائز ہائی سکول گراؤنڈ کے عقب میں جوئیاں والا کے نام سے پہلا ڈسپوزل سٹیشن قائم ہوا۔ سرکاری ریکارڈ کے مطابق اس وقت شہر کی آبادی 50 ہزار مشتمل تھی۔ جیسے جیسے شہر چاروں اطراف میں پھیلتا گیا، سیوریج کے مسائل بھی بڑھتے گئے۔

مشرف حکومت میں جب نیا بلدیاتی نظام متعارف کرایا گیا تو مہر ظفر احمد ہراج مرحوم تحصیل ناظم منتخب ہوئے۔ اس وقت حکومت پنجاب نے کبیروالا سمیت جنوبی پنجاب کی 21 تحصیلوں کے لیے سدرن پنجاب بیسک اربن سروسز پراجیکٹ کے نام سے ایک منصوبہ تیار کیا جسے ایشیائی ترقیاتی بینک کا مالی تعاون حاصل تھا۔

اس منصوبے کے تحت  2006ء میں کبیروالا میونسپلٹی نے سات کروڑ روپے کی لاگت سے سیوریج کا میگا پراجیکٹ شروع کیا۔ شہر سے تین کلومیٹر کے فاصلے پر قطعہ بدھو آنہ کے مقام پر 712 کنال رقبہ خرید کر ایک ڈسپوزل سٹیشن، ایک سکرینگ چیمبر، دو کلیکٹنگ ٹینک اور ایک پمپنگ چیمبر تعمیر کیا گیا اور شہر کے مختلف علاقوں میں سیوریج پائپ لائنیں بچھائی گئیں۔

منصوبے کے ابتدائی دنوں میں مقامی سیاسی نمائندے اور میونسپلٹی افسر کہا کرتے تھے کہ اس کی تکمیل کے بعد کبیروالا کے کسی گلی محلے میں گندا پانی نظر نہیں آئے گا اور نکاسی آب کے مسائل ختم ہو جائیں گے۔ لیکن نتائج اس کے بالکل برعکس نکلے۔

جب بھی بارش ہوتی ہے تو کبیروالا کے شرقی اور غربی علاقے تالاب کا منظر پیش کرتے ہیں۔

"ماہرین" نے الٹی گنگا کیسے بہائی؟

میونسپل کمیٹی کے ایک سب انجنیئر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس منصوبے کا  ڈیزائن ہی غلط تھا۔ سیوریج لائنیں پانی کے قدرتی بہاﺅ کے مخالف سمت میں ڈالی گئیں۔ جو ڈسپوزل سٹیشن شہر کے مغربی حصے میں تعمیر ہونا چاہیے تھا اس کے لیے زمین مشرقی حصے میں خریدی گئی۔

ملک بھر میں پانی کا قدرتی بہاﺅ مشرق سے مغرب کی طرف ہے۔ اسی اصول کے تحت یہاں کا نہری نظام کام کرتا ہے۔ میگا پراجیکٹ کے ماہرین نے نکاسی آب کا رخ  مغرب سے مشرق کی طرف کر دیا اور جوئیاں والا ڈسپوزل ورکس بند کر کے پورے شہر کو اس منصوبے کے ساتھ منسلک کر دیا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ اس منصوبے کی ناکامی کی ایک اور بڑی وجہ یہ ہے کہ ڈسپوزل سٹیشن پر پانی جمع کرنے کے لیے بنائے گئے تالابوں سے نکاسی کا بندوبست نہیں تھا۔ ان تالابوں کے بھرنے پر اضافی پانی کا نکاس نہیں ہوتا جس سے ڈسپوزل سٹیشن پر بھی گندے پانی کا سیلاب آیا رہتا ہے۔ اس طرح شہر میں بھی پانی کی نکاسی رک جاتی ہے اور سیوریج سے جڑے متعدد مسائل سر اٹھاتے ہیں۔ شہری تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق احتجاجاً کبھی سڑک بلاک کرتے ہیں اور کبھی جلوس نکالتے ہیں۔

ماہ رمضان میں کھچیاں والی گلی کے سیکڑوں مکینوں نے احتجاجاً ملتان روڈ بلاک کر دی تھی۔ اس موقع پر اُس وقت کے اسسٹنٹ کمشنر اور ایڈمنسٹریٹر میونسپل کمیٹی خرم حمید نے مظاہرین سے مذاکرات کیے جس کے بعد گلی کی پائپ لائنیں صاف کر دی گئیں۔ لیکن یہ مسئلے کا عارضی حل تھا۔

کبیر والا کے شہری ترقیاتی کاموں کے معیار سے بھی ناخوش ہیں۔ مقامی رہائشی محمد حسین روفی کا کہنا ہے کہ پچھلے دس پندرہ برس میں نکاسی آب اور گلیوں نالیوں کی پختگی کے منصوبوں پر خرچ ہونے والے  کروڑوں روپے بےکار گئے۔ماڈل ٹاؤن، بستی حسین آباد اور وارڈ نمبر 11 کی گلیوں میں نکاسی آب بہتر بنانے کے لیے پبلک ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ نے نئی سیوریج لائنیں ڈالی تھیں لیکن ان کا لیول ٹھیک نہیں تھا۔ یہ ایک کروڑ سے زائد مالیت کا منصوبہ تھا جو ناکام ہو گیا۔

کبیروالا میونسپلٹی کے موجودہ ایڈمنسٹریٹر اور اسسٹنٹ کمشنر کبیروالا محسن عالم نے بتایا کہ انتظامیہ دستیاب وسائل کے مطابق نکاسی آب کے مسائل حل کرتی رہتی ہے۔ جو کچھ ماضی میں ہوا اس کی ذمہ داری موجودہ انتظامیہ پر نہیں ڈالی جا سکتی۔

میونسپل کمیٹی کے سب انجینئر الزام عائد کرتے ہیں کہ ایس پی بس پراجیکٹ بنیادی طور پر کرپشن کا شکار ہوا اور اس کو غلط سمت میں ڈیزائن کر کے بھاری کمیشن کھایا گیا۔ اب اس منصوبے کی مدت بھی مکمل ہو گئی ہے اور کبیروالا کو نئے سیوریج سسٹم کی ضرورت ہے۔

میونسپل کمیٹی کبیروالا کے چیف آفیسر رحمان لطیف سیوریج کے مسائل حل کرنے کے لیے تجویز دیتے ہیں کہ اس نظام کو اپ گریڈ کر کے تین حصوں میں تقسیم کر دیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

'گندے بدبودار پانی کی وجہ سے ہم لوگ رات کو سو نہیں سکتے': نارووال میں سیوریج سسٹم نہ ہونے سے شہریوں کی زندگی اجیرن

شہر کی نصف آبادی شرقی اور نصف غربی سمت کے علاقوں میں منقسم ہے۔ نواں شہر غربی کے علاقے موضع مان والا، ککڑ ہٹہ روڈ، سردار پور روڈ، بستی حسین آباد، رحیم ٹاﺅن، ماڈل ٹاﺅن، چاہ وریام والا، تکبیر ٹاون، ملتان روڈ، سرکاری ہسپتال، بوائز ڈگری کالج اور سول کورٹس کے ڈسپوزل ورکس الگ سے بنانے کی ضرورت ہے۔ یہاں نئی ٹرنک لائنیں ڈالی جائیں۔ ان کا رخ مولا پور راجباہ روڈ کی طرف کر کے نیا ڈسپوزل ورکس تعمیر کیا جانا چاہیے۔

اسی طرح جھنگ روڈ اور اس کے آس پاس کی آبادیوں کے لیے مخدوم پور روڈ پر نئے ڈسپوزل ورکس تعمیر کرنے کی ضرورت ہے۔

ان کے مطابق چیچہ وطنی چھوٹی سی تحصیل ہے۔ وہاں 18 ڈسپوزل ورکس ہیں جبکہ کبیر والا بڑا شہر ہے جس کے لیے ایک ڈسپوزل ورکس ناکافی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ میونسپل کمیٹی کی طرف سے تجاویز مرتب کر کے حکام بالا کو بھجوائی گئی ہیں۔

کبیروالا میں پبلک ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کے سب ڈویژنل آفیسر انجنیئر فیضان علی بخاری  بھی سمجھتے ہیں کہ سدرن پنجاب بیسک اربن سروسز پراجیکٹ  کے تحت تعمیر ہونے والے  سیوریج سسٹم کی مدت مکمل ہو چکی ہے۔ انہوں ںے بتایا ہے کہ پبلک ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے کبیروالا میں نئے سیوریج سسٹم کے لیے تخمینہ حکومتی اداروں کو بھجوایا جا چکا ہے۔

تاریخ اشاعت 31 جولائی 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

امین وارثی کا تعلق خانیوال کے نواحی شہر کبیر والا سے ہے گزشتہ بیس سال سے صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔

thumb
سٹوری

گیس لیکج اور سلنڈر پھٹنے کے بڑھتے ہوئے واقعات: "توانائی کے متبادل ذرائع انسانی زندگیاں بچا سکتے ہیں"

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود

بجلی کے لیے اربوں روپے کے ڈیم ضروری نہیں

thumb
سٹوری

کروڑہ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ: ترقی یا مقامی وسائل کی قربانی؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

کیا زیتون بلوچستان کی زراعت میں خاموش انقلاب ثابت ہو گا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعاصم احمد خان
thumb
سٹوری

سولر سسٹم اور لیتھیم بیٹری: یک نہ شد دو شد

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعبداللہ چیمہ
thumb
سٹوری

بلوچستان کی دھوپ اور قیمتی ہوائیں ملک کو کیسے گرین توانائی کا حب بنا سکتی ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعاصم احمد خان

پاکستان کے پانی کی کہانی

thumb
سٹوری

"ہمارا روزگار، ماحول، زمین سب تباہ کرکے بڑے شہروں کو بجلی دینا کوئی ترقی نہیں۔"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

زرعی ٹیوب ویلوں کی شمسی توانائی پر منتقلی میں تاخیر: "ہر بار کہتے ہیں فنڈز نہیں آئے، نام اگلی لسٹ میں ہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceدانیال بٹ
thumb
سٹوری

پولیس سے چھپتے افغان طلبہ، ڈگری ادھوری رہنے کا خوف، نہ کوئی ہاسٹل نہ جائے پناہ

arrow

مزید پڑھیں

دانیال عزیز
thumb
سٹوری

سوات کی توروالی کمیونٹی ورلڈ بینک سے کیا چاہتی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسہیل خان
thumb
سٹوری

"لگتا تھا بجلی، پنکھا ہمارے مقدر میں ہی نہیں، اچھا ہوا کسی کو تو غریبوں کی تکلیف یاد آئی"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.