جوڈیشیل کمپلیکس سے جوڈیشیل ٹاور تک: کیا ملتان کی عدالتیں شہر کی بھول بھلیوں سے نکل پائیں گی؟

postImg

عدنان قریشی

postImg

جوڈیشیل کمپلیکس سے جوڈیشیل ٹاور تک: کیا ملتان کی عدالتیں شہر کی بھول بھلیوں سے نکل پائیں گی؟

عدنان قریشی

ملتان کی کچہری 1849ء میں قائم کی گئی تھی۔ یہ دراصل ڈپٹی کمشنر کا دفتر تھا اور اس زمانے میں وہی تمام مقدمات کے فیصلے کیا کرتا تھا۔ اس کے نو سال بعد یہاں پہلا کمشنر تعینات ہوا تو یہ دونوں افسران مقدمات سننے اور فیصلے سنانے لگے۔

اب 174 سال بعد کچہری تو وہیں ہے لیکن مقدمات کی نوعیت اور سائلین کی تعداد ظاہر ہے کہ بے تحاشہ بڑھ چکی ہے۔ مختلف مقدمات اپنی نوعیت کے اعتبار سے مختلف عدالتوں میں سنے جاتے ہیں۔ پرانی کچہری میں گنجائش کیونکہ محدود تھی اس لیے ایک ایک کر کے یہ عدالتیں شہر کے مختلف علاقوں میں علیحدہ علیحدہ عمارتوں میں قائم ہوتی رہیں۔

اب یہ ایک دوسرے سے اتنے فاصلے پر ہیں کہ اگر کسی وکیل یا سائل کو دو جگہ پیش ہونا ہو تو ان کا زیادہ وقت درمیانی فاصلہ ناپنے میں گزر جاتا ہے۔ گردونواح سے آئے سائلین کے لیے انصاف کے دروازے تک پہنچنا خود ایک کٹھن مرحلہ بن چکا ہے۔ شہر گنجان ہے اور ٹریفک کا اژدہام ہر راستہ روکے کھڑا ہے۔

جوڈیشیل کمپلیکس مسئلے کا حل کیوں ثابت نہ ہوا؟

2005ء میں حکومت نے تمام عدالتوں کو ایک بڑے کمپلیکس میں یکجا کرنے کے لیے نیو جوڈیشیل کمپلیکس تعمیر کرنے کا منصوبہ بنایا۔ جس کے لیے پرانی کچہری سے 17 کلومیٹر دور متی تل روڈ پر 791 کنال اراضی مختص کی گئیں۔ یہاں نئی عدالتیں، وکلا کے چیمبرز، ججز کی رہائش گاہیں، دفاتر، بار رومز، پارکنگ اسٹینڈز اور عملے کے دفاتر بنائے جانے تھے۔

2008ء میں اس کی تعمیر شروع ہوئی۔ یہاں پر 2017ء تک کل 55 کمرے تعمیر کیے گئے تھے جن میں سے 25 عدالتوں اور باقی اسٹاف اور ریکارڈ روم کے لیے مخصوص تھے۔

ابھی وکلا کے چیمبرز اور پارکنگ کے لیے مختص 67 کنال اراضی پر تعمیراتی کام نہیں ہوا تھا کہ 2017ء میں چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے عدالتوں کو پرانی کچہری سے یہاں منتقل کرنے کا حکم جاری کر دیا۔ عدالتی ریکارڈ کی منتقلی رات کو کی جاتی رہی تا کہ دن میں عدالتی امور متاثر نہ ہوں۔

لیکن وکلا نے نیو جوڈیشل کمپلیکس منتقل ہونے سے انکار کر دیا اور ڈسٹرکٹ بار نے احتجاج شروع کر دیا۔ ایک احتجاج کے دوران نئی عمارت میں توڑ پھوڑ بھی کی گئی۔

اس واقعہ کے بعد سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار خود ملتان پہنچ گئے اور بارز کے عہدیداران سے ملاقات کی۔

عہدیداروں نے انہیں بتایا کہ کمپلیکس میں کسی قسم کی سہولتیں موجود نہیں۔ وکلاءکے چیمبرز ہیں نہ ہی بار روم۔ اور نہ سائے کا کوئی بندوبست ہے۔ یہاں تک کے کمپلیکس میں پانی اور واش روم کی بھی سہولت موجود نہیں۔

ڈسٹرکٹ بار ملتان کے صدر سید وحید رضا بخاری نے لوک سجاگ کو بتایا کہ اب تک جوڈیشل کمپلیکس متی تل میں چار عدالتوں کے بلاک تعمیر کیے گئے ہیں جن کا آپس میں کوئی ربط نہیں۔ ایک سے دوسرے بلاک تک کا پیدل راستہ تقریباً آٹھ سو میٹر ہے۔

چیف جسٹس نے جائزہ لینے کے بعد منتقلی کو رکوا دیا۔

اب نیو جوڈیشل کمپلیکس میں 15 کے قریب سپیشل کورٹس ہی کام کرتی ہیں جن میں اینٹی کرپشن، ایف آئی اے، نیب، بینکنگ، کنزیومر، ڈرگ، ماحولیات، اور انکم ٹیکس ٹربیونل کورٹس شامل ہیں۔

دیگر عدالتیں اپنی پرانی عمارتوں میں ہی قائم ہیں اور عدالتوں کے یکجا نہ ہونے سے جڑے مسائل بھی جوں کے توں ہیں۔

یک نہ شُد دو شُد

2021ء میں چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ مسٹر جسٹس قاسم خان نے پرانی ضلع کچہری سے ملحقہ ملتان پولیس لائن سے 32 کنال رقبہ لے کر ڈسٹرکٹ بار کے حوالے کیا اور اس پر ایک نیا ڈسٹرکٹ کورٹس ٹاور تعمیر کرنے کے احکامات جاری کر دیے۔

مئی 2022ء میں اس کی تعمیر شروع ہوئی۔

ڈسٹرکٹ کورٹس ٹاور 11 منزلہ ہوگا جس میں دیوانی، فوجداری، فیملی اور پروبیٹ مقدمات کے لیے 80 کورٹ رومز، وسیع انتظارگاہ، آسانی سے نقل و حرکت کے لیے ایلیویٹرز، ایسکلیٹرز، سیڑھیاں، عدالتی چیمبرز، ججوں کے لیے پارکنگ، کانفرنس/میٹنگ روم، کتب خانہ، کیفے ٹیریا، مسجد اور ڈیڑھ سو سے زائد قیدیوں کو زیر سماعت رکھنے کے لیےبخشی خانہ کے علاوہ سی سی ٹی وی کیمرے، آگ بجھانے کے آلات اور انٹرنیٹ وغیرہ کی سہولیات موجود ہوں گی۔ پارکنگ بیسمنٹ میں ہو گی۔

یہ ٹاور پانچ ارب روپے کی لاگت سے مکمل ہو گا اور اسے 36 ماہ (مئی 2022ء سے) میں مکمل کرکے ڈسٹرکٹ بار کے حوالے کیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

تاریخ پہ تاریخ: ملتان میں 50 سال سے زیرِ سماعت مقدمات کا مقدمہ

وحید بخاری کہتے ہیں کہ ٹاور میں نئی عدالتیں بننے سے ججز کی تعداد میں بھی اضافہ ممکن ہوگا جس کے ثمرات عوام تک پہنچیں گے۔

"وکلا اور سائلین عدالتوں میں بروقت پہنچ پائیں گے۔ بعض اوقات ان کی پیشی والے دن وکیل کے پاس زیادہ کیسز ہوتے ہیں۔ وہ دوسری عدالت سے کام نپٹانے اور کئی کلومیٹر سفر کرنے کے بعد پہنچتے ہیں تو اگلی پیشی پڑ چکی ہوتی ہے۔"

ہائی کورٹ بار کے سیکرٹری جنرل مہر حسیب قادر کے مطابق اس وقت ملتان بار کے سات ہزار 742 ممبران رجسٹرڈ ہیں۔ان کے مطابق ملتان کی سول و سیشن عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کی تعداد 43 ہزار سے زائد ہے۔

وحید بخاری سمجھتے ہیں کہ جس رفتار سے آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے اور مقدمات کی تعداد بڑھ رہی، موجودہ حل بھی جلد ناکافی ہو جائے گا۔

"مستقبل میں نیو جوڈیشل کمپلیکس ہی وکلا کو سہارا دے گا"۔

تاریخ اشاعت 16 جون 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

عدنان قریشی کا تعلق ملتان سے ہے۔ گذشتہ 20 سال سے مختلف اخبارات اور ٹی وی چینلز میں انویسٹی گیشن رپورٹنگ کرتے ہیں۔

thumb
سٹوری

پنجاب حکومت کسانوں سے گندم کیوں نہیں خرید رہی؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاحتشام احمد شامی
thumb
سٹوری

الیکٹرک گاڑیاں اپنانے کی راہ میں صارفین کے لیے کیا رکاوٹیں ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود

سوات: نادیہ سے نیاز احمد بننے کا سفر آسان نہیں تھا

thumb
سٹوری

پسنی: پاکستان کا واحد "محفوظ" جزیرہ کیوں غیر محفوظ ہوتا جا رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceملک جان کے ڈی

پنجاب: فصل کسانوں کی قیمت بیوپاریوں کی

چمن: حکومت نے جگاڑ سے راستہ بحال کیا، بارشیں دوبارہ بہا لے گئیں

thumb
سٹوری

بھٹہ مزدور دور جدید کے غلام – انسانی جان کا معاوضہ 5 لاکھ روپے

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد

ہندؤں کا ہنگلاج ماتا مندر، مسلمانوں کا نانی مندر"

thumb
سٹوری

نارنگ منڈی: نجی سکولوں کے طالب علموں کے نمبر زیادہ کیوں آتے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمعظم نواز

ای رکشے کیوں ضروری ہیں؟

لاہور میں کسان مظاہرین کی گرفتاریاں

thumb
سٹوری

گلگت بلتستان: انس کے سکول کے کمپیوٹر کیسے چلے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنثار علی
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.