'ہیر کی دھرتی' جھنگ میں تین قومی اور سات صوبائی نشستوں کے لیے انتخابات ہو ں گے۔
اس ضلعے میں رجسٹرڈ ووٹرز کی کل تعداد 17 لاکھ 53 ہزار 999 ہے جن میں نو لاکھ 36 ہزار 55 مرد اور آٹھ لاکھ 17 ہزار 944 خاتوں ووٹرز ہیں۔
ضلع جھنگ مجموعی طور پنجاب کے روایتی طرز سیاست یعنی تھانہ کچہری، زمنیوں کے جھگڑوں اور سرکاری ملازمین کے تقرر و تبادلوں کا عکس پیش کرتا ہے اور یہاں گدی نشین اور شخصیات سیاسی جماعتوں سے زیادہ با اثر شمار ہوتے ہیں۔ شہر میں عشروں سے فرقہ واریت کا اہم کردار رہا ہے۔
لیکن 2022ء میں اس ضلعے کی دو صوبائی نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخاب میں سیاسی پارٹیوں کا رنگ بہت نمایاں نظر آیا تھا جس میں تحریک انصاف سرفہرست تھی۔
این اے 108 میں تحصیل اٹھارہ ہزاری اور جھنگ کے کئی دیہات شامل ہیں جہاں سے گزشتہ عام انتخابات میں تحریک انصاف کے صاحبزادہ محبوب سلطان نے پیپلز پارٹی کے سید فیصل صالح حیات کو لگ بھگ ساڑھے چار سو ووٹوں سے شکست دی تھی۔
یہ حلقہ اس لحاظ منفرد ہے کہ اس میں دریائے جہلم اور چناب کے دونوں اطراف کے علاقے آتے ہیں جہاں زیادہ تر ووٹ ذات برادری کی بنیاد پر پڑتا ہے۔ اس حلقے میں بلوچ، سیال، سپرا،کھوکھر اور سید اکثریتی برادریاں ہیں جن پر پیروں، گدی نشینوں کے علاوہ مقامی زمینداروں کا بھی کافی اثر ہے۔
اس بار یہاں سےفیصل صالح حیات ن لیگ، تحریک انصاف کے محبوب سلطان آزاد، محمد حیدر شاہ پیپلز پارٹی، محمد رمضان تحریک لیبک اور محمد ریاض جے یو آئی کے امیدوار ہیں۔
مخدوم فیصل صالح حیات چھ بار جبکہ محبوب سلطان پہلے تین بار منتخب ہوچکے ہیں جن کے کزن صاحبزادہ نذیر سلطان کئی بار ایم این اے رہ چکے ہیں۔
اس نشست پر محبوب سلطان اور فیصل صالح حیات کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہوگا جو بنیادی طور دو سیاسی جماعتوں کے درمیان نہیں بلکہ اس علاقے کی دو بڑی گدیوں کے مابین ہے۔

مخدوم فیصل صالح درگا پیر شاہ جیونہ کے گدی نشین جبکہ صاحبزادہ محبوب سلطان درگا سلطان باہو سے وابستہ ہیں۔ جس کی وجہ سے یہاں دونوں کے مریدین کی بڑی تعداد اور مختلف برادریوں میں ان کا ذاتی اثر و رسوخ ہے۔
یہاں پیپلز پارٹی کے امیدوار سید حیدر شاہ سابق رکن اسمبلی اور چیئرمین پی سی بی سید ذاولفقار علی بخاری مرحوم کے پوتے ہیں اور شاہ جیونہ ہی کے رہائشی ہیں۔ ان کے خاندان کی پی پی کے ساتھ پرانی وابستگی ہے جن کی حلقے میں موجودگی کا زیادہ نقصان فیصل صالح کو ہو سکتا ہے۔
اس قومی نشست کے نیچے دو صوبائی حلقے پی پی125،پی پی 131 آتے ہیں۔
پی پی 125 شاہ جیونہ اور نواحی علاقوں پر مشتمل یہ نشست 2018ء میں آزاد امیدوار تیمور بھٹی نے جیتی تھی جبکہ پیپلز پارٹی کے سید علی اکبر دوسرے اور تحریک انصاف کے غلام احمد گاڈی تیسرے نمبر پر نظر آئے تھے۔
اب یہاں ن لیگ سے مخدوم فیصل صالح حیات، تحریک انصاف سے غلام احمد گاڈی اور آزاد امیدوار تیمور بھٹی سر فہرست امیدوار ہیں۔ اس بار یہ حلقہ تمام امیدواروں کے لئے انتہائی مشکل ثابت ہوگا تاہم فیصل صالح حیات، تیمور بھٹی اور غلام احمد گاڈی کے مابین سخت مقابلے کی توقع کی جا رہی ہے۔
اس حلقے میں بھٹی، بلوچ، سپرا، سید، کھوکھر اور سیال اکثریتی برادریاں ہیں۔ امیدواروں میں سے تیمور خان کا تعلق بھٹی برادی ہے اور امکان ہے کہ بھٹی برادری اس بار بھی ان کو سپورٹ کرے گی۔
یہاں غلام احمد گاڈی بلوچ برادری سے تعلق رکھتے ہیں جنہیں برادری کے ساتھ محبوب سلطان اور پارٹی ووٹ کی حمایت بھی حاصل ہے جبکہ شاہ جیونہ فیصل صالح حیات کا آبائی علاقہ ہے جہاں ان کے مریدوں کی بڑی تعداد رہتی ہے جس کا انہیں زیادہ فائدہ ہو سکتا ہے۔
پی پی 131 میں زیادہ تر تحصیل 18-ہزاری کا علاقہ شامل ہے جہاں سے پچھلی بار آزاد امیدوار فیصل حیات جبوآنہ پی ٹی آئی کے محمد اعظم چیلہ کو ہرا کر تحریک انصاف میں شامل ہو گئے تھے۔
لیکن 2022ء میں پارٹی انحراف پر فیصل جبوآنہ کو اس نشست سے ہاتھ دھونا پڑے جس پر ضمنی الیکشن ہو ا تو تحریک انصاف کے اعظم چیلہ نے انہیں بڑے مارجن سے ہرا دیا تھا۔

اس بار ن لیگ سے فیصل جبوانہ، تحریک انصاف سے محمد اعظم چیلہ آزاد، پیپلز پارٹی سے مراتب علی شاہ و دیگر امیدوار ہیں۔ لیکن یہاں چیلہ اور جبوآنہ خاندان روایتی حریف ہیں جو دہائیوں سے ایک دوسرے کے خلاف الیکشن لڑتے آ رہے ہیں۔
اب بھی مقابلہ فیصل جبوآنہ اور میاں اعظم چیلہ کے درمیان ہو گا جن میں سے جبوآنہ کو فیصل صالح حیات اور ن لیگ کی حمایت حاصل ہے اور اعظم چیلہ کو محبوب سلطان اور پی ٹی آئی کی حمایت پر بھروسا ہے۔
اس صورت حال کے پیش نظر اس حلقے میں برادریوں کا ووٹ فیصلہ کن کردار ادا کرے گا جن کی حمایت حاصل کرنے کے لیے دونوں امیدوار پورا زور لگا رہے ہیں۔
این اے 109 میں زیادہ حصہ جھنگ شہر کا اور کچھ دیہی علاقہ شامل ہے جہاں سے پچھلی بار تحریک انصاف کی غلام بی بی بھروانہ کامیاب ہوئی تھیں۔ جبکہ آزار امیدوار محمد احمد لدھیانوی دوسرے اور شیخ وقاص اکرم تیسرے نمبر پر آئے تھے۔
اس بار یہاں تحریک انصاف کے شیخ وقاص اکرم آزاد، ن لیگ کے محمد یعقوب اور راہ حق پارٹی (سابق اہلسنت والجماعت) کے محمد احمد لدھیانوی، پیپلز پارٹی کے سید حیدر علی اور عابدہ حسین کی بیٹی صغریٰ امام آزاد امیدوار ہیں۔
غلام بی بی بھروانہ نے بھی اس نشست پر کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے لیکن وہ اس بار چنیوٹ سے آزاد حثیت میں الیکشن لڑ رہی ہیں۔
اس حلقے میں الیکشن پر ذات برادری زیادہ اثر انداز نہیں ہوتی بلکہ مذہبی عنصر اور سیاسی شخصیات کی ذاتی گروپ بندی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ یہاں ایک عرصے تک محمد احمد لدھیانوی کی جماعت کو خاصی حمایت حاصل رہی اور وہ رکن اسمبلی بھی بنے۔
2018ء کے بعد یہاں فرقہ واریت کے عنصر میں کمی آئی اور خاص طور 2022ء کے ضمنی الیکشن میں سیاسی جماعتوں کی مقبولیت سر چڑھ کر بول رہی تھی۔
شیخ وقاص اکرم اور ان کے والد شیخ محمد اکرم دونوں یہاں سے رکن قومی اسمبلی رہ چکے ہیں۔ شیخ اکرم صوبائی نشست پر امیدوار ہیں جن کا شہر میں ایک مضبوط سیاسی گروپ ہے اور اب تحریک انصاف کا ووٹ ان کے لیے کارآمد ثابت ہوسکتا ہے۔

ن لیگ کے شیخ محمد یعقوب اور ان کی اہلیہ راشدہ یعقوب شیخ پہلے بھی رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہو چکے ہیں۔ شیخ یعقوب اب قومی اور ان کی اہلیہ بھی صوبائی نشست پر ن لیگ ن کی امیدوار ہیں۔ یہ دونوں میاں بیوی یہاں ذاتی ووٹ رکھتے ہیں۔
اس قومی حلقے میں شیخ وقاص اکرم، شیخ محمد یعقوب اور مولانا محمد احمد لدھیانوی کے مابین سخت مقابلہ دیکھنے کو ملے گا۔
تاہم سیٹلائٹ ٹاؤن جھنگ کے رہائشی اور ن لیگ کے ضلعی سیکرٹری اطلاعات کنور محمد علی دعویٰ کرتے ہیں کہ ضلع جھنگ کی کوئی نشست ان کی پارٹی نہیں ہارے گی۔ ان کے نزدیک جیت کی اس سے بڑی وجہ کیا ہو سکتی ہے کہ یہاں ہاکی سٹیڈیم، کالجز سے لے کر حویلی بہادر شاہ پاور پلانٹس تک تمام ترقیاتی کام مسلم لیگ ن کے دور میں ہوئے ہیں۔
پی پی 126 سے 2018ء میں مہر اسلم بھروانہ آزاد الیکشن جیت کر پی ٹی آئی میں شامل ہوئے تھے لیکن 2022ء میں منحرف ہو گئے تھے۔ جس پر ضمنی انتخاب میں تحریک انصاف کے مہر نواز بھروانہ منتخب ہو گئے تھے۔
اب یہاں ن لیگ کے مہر اسلم بھروانہ تحریک انصاف کے نواز بھروانہ، پیپلز پارٹی کے محمد مصطفیٰ اور راہ حق پارٹی کے شیخ حاکم علی نمایاں امیدوار ہیں۔
اس حلقےمیں اسلم بھروانہ اور نواز بھروانہ دونوں ایک ہی برادری سے تعلق رکھتے ہیں لیکن یہاں پیر سیال شریف کے مریدین بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ اس حلقے کی دوسری بڑی برادری بلوچ اور سپرا ہیں جن میں سے سپرا برادری کی اکثریت نواز بھروانہ کے ساتھ ہے۔
دیکھنا یہ ہو گا کہ پیر سیال شریف اور بلوچ برادری اپنا وزن کس پلڑے میں ڈالتے ہیں۔
پی پی 127 بھی جھنگ شہر کا حلقہ ہے جہاں سے راہ حق پارٹی کے معاویہ اعظم کامیاب ہوئے تھے اور انہوں نے شیخ وقاص اکرم کے بھائی شیخ شیراز کو شکست دی تھی۔
اب اس حلقے سے ن لیگ کی راشدہ یعقوب شیخ، تحریک انصاف کے شیخ محمد اکرم، راہ حق پارٹی کے محمد احمد لدھیانوی، پیپلز پارٹی کے ناصر عباس سمیت 36 امیدوار ہیں۔ ان میں سے راشدہ یعقوب شیخ، شیخ محمد اکرم اور محمد احمد لدھیانوی فرنٹ رنر بتائے جاتے ہیں۔

اس نشست پر امیدوار محمد احمد لدھیانوی کی جماعت کے سابق رکن اسمبلی معاویہ اعظم جو مولانا محمد اعظم طارق کے صاحبزادے ہیں اس بار اپنی جماعت سے ناراض ہیں۔ انہوں نے اپنے بھائی محمد انس کو قومی اور صوبائی دونوں حلقوں سے میدان میں اتارا ہے۔
ان کےعلاوہ حق نواز جھنگوی کے صاحبزادے مولانا مسرور نواز بھی آزاد امیدوار کے طور پر الیکش لڑ رہے ہیں۔
پی پی 128 تحصیل جھنگ اور شور کوٹ کے علاقوں پر مشتمل ہے اور یہاں سے 2018ء میں تحریک انصاف کے کرنل (ر) غضنفر عباس شاہ آزاد امیدوار مہر خالد سرگانہ کو ہرا کر کامیاب ہوئے تھے۔
اب اس حلقے میں ن لیگ کے مہرخالد سرگانہ، تحریک انصاف کے غضنفر عباس شاہ، پیپلز پارٹی کے محمد آصف و دیگر امیدوار ہیں۔ جہاں خالد سرگانہ اور غضنفر شاہ کے درمیان ٹکر کا مقابلہ ہو گا۔
غضفر عباس شاہ یہاں سے دو مرتبہ منتخب ہوچکے ہیں اور انہیں صاحبزادہ امیر سلطان اور سید برادری کی حمایت حاصل ہے۔ مہر خالد سرگانہ یہاں سے تین بار رکن اسمبلی بن چکے ہیں اور انہیں ن لیگ اور سیال برادری کے ووٹ کا کافی فائدہ ہوسکتا ہے۔
این اے 110 میں شورکوٹ، احمد پور سیال کے زیادہ تر علاقے آتے ہیں جہاں سے تحریک انصاف کے صاحبزادہ محمد امیر سلطان نے آزاد امیدوار محمد آصف معاویہ کو ہرایا تھا۔
اس بار آصف معاویہ مسلم لیگ ن اور صاحبزادہ امیر سلطان تحریک انصاف کے آزاد امیدوار ہیں جن کے مابین کانٹے دار مقابلے کی توقع کی جا رہی ہے۔ اس نشست پر پیپلز پارٹی کے عمر آفتاب اور آزاد امیدوار صائمہ اختر بھروانہ بھی میدان میں موجود ہیں۔
امیر سلطان کے والد صاحبزادہ نذیر سلطان یہاں سے کئی بار رکن قومی اسمبلی اور ایک بار ضلع ناظم بھی رہ چکے ہیں۔ سلطان باہو کے گدی نشین خاندان کا فرد ہونے کی وجہ سے ان کا علاقے میں بڑا اثر ہے۔ اس کے علاوہ کاٹھیا اور راجپوت برادریاں بھی ان کے ساتھ کھڑی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں

فیصل آباد شہر میں اب کی بار ووٹر کس کے ساتھ کھڑا ہو گا، برادری یا پارٹی ؟
ن لیگ کے آصف معاویہ کا تعلق سیال برادری سے ہے جو گزشتہ الیکشن میں صوبائی نشست پر تحریک انصاف کے غضنفر عباس شاہ سے ہار گئے تھے تاہم مذہبی حلقوں میں خاصا اثر رکھتے ہیں۔ یہان سیال برادری کا ووٹ تقیسم ہونے کا امکان ہے کیونکہ یہاں سابق ایم این اے صائمہ اختر بھروانہ(سیال) بھی الیکشن لڑ رہی ہیں۔
پی پی 129 شور کوٹ سے پچھلی بار تحریک انصاف کے میاں آصف کاٹھیا جیتے تھے جبکہ آزاد امیدوار مادھولال حسین دوسرے اور خالد غنی چوہدری تیسرے نمبر پر آئے تھے۔
اس بار یہاں سے خالد غنی ن لیگ، محمد آصف کاٹھیا تحریک انصاف ، شہباز علی پیپلز پارٹی، محمد اقبال جماعت اسلامی، محمد اسلم تحریک لبیک اور مادھولال حسین پاکستان مسلم لیگ اور میاں قمر حیات کاٹھیا آزاد امیدوار ہیں۔
اس حلقے میں آصف کاٹھیا، خالد غنی چوہدری اور میاں مادھو لال اور میاں قمر حیات کاٹھیا بہتر پوزیشن میں لگ رہے ہیں۔ آصف اور قمرحیات دونوں ایک ہی برادری سے ہیں اور دونوں دو دو مرتبہ اس حلقے سے منتخب ہو چکے۔ پچھلی بار کی طرح اب بھی کاٹھیا برادری کا ووٹ تقسیم ہو گا لیکن اس بار آصف کاٹھیا کو صاحبزادہ امیر سلطان کی حمایت بھی حاصل ہے۔
ن لیگ کے خالد غنی چوہدری پہلے ایک بار اس حلقے سے منتخب ہو چکے ہیں اس بار انہیں محمد آصف معاویہ کی وجہ سے سیال برادری کی حمایت بھی حاصل ہو گئی۔ جبکہ میاں مادھولال علاقے ڈب کلاں میں ایک بڑا مضبوط ووٹ بینک رکھتے ہیں۔
پی پی 130 احمد پور سیال میں تحریک انصاف کے رانا شہباز احمد جیتے تھے اور آزاد امیدوار میاں عون عباس رنر اپ تھے۔
اس بار عون عباس کے انتقال کے بعد ان کے کزن امیر عباس سیال ن لیگ، رانا شہباز تحریک انصاف، عابد حسین پیپلز پارٹی، اعجاز علی جماعت اسلامی، محمد رمضان مصطفیٰ تحریک لبیک کے امیدوار ہیں۔
اس علاقے میں راجپوت، سیال، سید، بلوچ اور کھوکھر اکثریتی برادریاں ہیں۔ لیکن سیال برادری کے آزاد امیدوار بھی میدان میں ہیں جس کا سابق ممبر قومی اسمبلی عون عباس سیال مرحوم کے کزن امیر عباس کو نقصان ہو سکتا ہے۔
رانا شہباز احمد کو راجپوت برادری کے علاوہ سلطان باہو کی گدی نشینوں کی حمایت حاصل ہے اور وہ فرنٹ رنر نظر آتے ہیں۔
گڑھ مہاراجہ کے رہائشی تحریک انصاف کے کارکن رانا شاہد کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کو جتنا مرضی دیوار سے لگا لیں جھنگ کے بیشتر قومی و صوبائی حلقے وہی جیتے گی اور اس کی ایک جھلک لوگ 2022ء کے ضمنی الیکشن میں دیکھ چکے ہیں۔
تاہم پیپلز یوتھ آرگنائزیشن سنٹرل پنجاب کے رہنما فہیم عباس راہی دونوں مخالف پارٹیوں کے دعووں کو نہیں مانتے۔ وہ کہتے ہیں کہ جو سیاسی پارٹیاں سمجھتی ہیں کہ جھنگ سے پیپلز پارٹی کا صفایا کر دیا گیا ہے تو ان کی خوش فہمی 8 فروری کو دور ہو جائے گئی اور انہیں جھنگ میں سرپرائز ملے گا۔
تاریخ اشاعت 1 فروری 2024