گلاب بلوچ نے کراچی آواران شاہراہ پر جھاؤ کے واجہ باغ بازار میں مشروبات بیچنے کی دکان بنا رکھی ہے۔ آواران سے بیلہ، خضدار، کوئٹہ اور کراچی جانے والی گاڑیاں اور بسیں یہاں رکتی ہیں اور مسافر کچھ دیر سستانے اور پیاس بجھانے کے لیے گلاب کے گاہک بن جاتے ہیں۔
گلاب کی دکان کے سامنے ویگن سٹینڈ پر اڈہ مینجر اور مسافروں کے درمیان کرائے پر تکرار ہو رہی ہے۔ یہ لسبیلہ کے صنعتی مرکز حب چوکی جانے والے مسافر ہیں۔
اڈہ مینجر جھاؤ سے بیلہ تک کا چھ سو روپے کرایہ طلب کر رہا ہے۔ مسافروں کا موقف ہے کہ جھاؤ سے حب تک ڈھائی سو کلومیٹر کا کرایہ بارہ سو روپے ہے تو بیلہ تک 89 کلومیٹر کا کرایہ چھ سو روپے کیسے بنتا ہے؟ لیکن اڈہ مینجر کی دلیل ہے کہ سڑک بہت خراب ہے اس لئے چھ سو روپے ہی وصول کئے جائیں گے۔
گلاب کے لئے یہ تُو تُو میں میں سننا روزانہ کا معمول ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ سڑک کی خرابی کے باعث سفر کے دورانیے کی طوالت میں اضافے کی بنیاد پر یہاں زیادہ کرایہ وصول کیا جا رہا ہے۔
ٹرک ڈارئیور غلام نبی آواران سے پیاز لے کر کوئٹہ جا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے سڑک خراب ہونے کے باعث یہاں تک 54 کلومیٹر فاصلہ ایک دن سے زائد میں طے کیا ہے!
وہ بتاتے ہیں کہ پچھلے بیس سال سے اس سڑک کی مرمت نہیں ہوئی پھر اس سال مارچ میں آواران سے جھاؤ آنے والی سڑک پر سیڑھ ندی کا پل بھی ٹوٹ گیا۔ اس حادثے میں ایک ہی خاندان کے آٹھ افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔
واجہ باغ بازار میں سستانے کے لئے رکنے والے عبدالنبی نیابت آواران سے اپنی بیوی کو زچگی کے لیے کراچی لے گئے تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ انہیں حب چوکی سے بیلہ تک 159 کلومیٹر سفر طے کرنے میں دس گھنٹے لگے جبکہ یہ راستہ بمشکل دو گھنٹے کا ہے۔
آواران وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو کا آبائی علاقہ اور حلقہ انتخاب ہے۔ اس ضلعے کی آبادی دو لاکھ سے زیادہ ہے اور ان تمام لوگوں کو کہیں بھی جانے کے لئے جھاؤ-بیلہ روڈ سے ہی سفر کرنا پڑتا ہے جہاں سے روزانہ تقریباً تین سو بسیں اور ٹرک گزرتے ہیں۔
آواران میں ہر سال بڑی مقدار میں پیاز، تربوز، کھجور، جو اور گندم پیدا ہوتی ہے جس میں سے کچھ اجناس علاقے میں سٹوریج کی سہولت نہ ہونے کے باعث ضائع ہو جاتی ہیں اور باقی ملک بھر کی منڈیوں میں بھیج دی جاتی ہے۔
ان دنوں یہاں پیاز کا سیزن ہے۔
باغ بازار میں گڈز ٹرانسپورٹ کمپنی چلانے والے ملا صادق کہتے ہیں کہ خراب سڑک کی سزا کاشت کاروں کو مل رہی ہے۔ پیاز کی نقل و حمل پر فی بوری 600 روپے تک خرچہ آتا ہے اور اتنے پیسے خرچ کر کے بھی اسے بروقت منڈی نہیں پہنچایا جا سکتا۔ اٹھارہ سے انیس گھنٹے کے سفر میں پیاز ٹرکوں میں ہی خراب ہو جاتا ہے اور کاشت کاروں کو ان کی فصل کی پوری قیمت نہیں مل پاتی۔
2004ء تک کراچی، لسبیلہ اور دیگر اضلاع سے مکران جانے کے لیے آواران سے ہی گزر کر جانا پڑتا تھا۔ تاہم مشرف حکومت میں مکران کوسٹل ہائی وے مکمل ہونے کے بعد آواران کی بطور گزرگاہ اہمیت ختم ہو گئی اور اس کا مکران سے زمینی رابطہ ٹوٹ گیا۔
گزشتہ حکومت نے ستمبر 2021ء میں جھاؤ بیلہ 80 کلومیٹر سڑک کی تعمیر کے منصوبے کا سنگ بنیاد رکھا تھا۔ اس کے ساتھ وفاقی بجٹ میں ہوشاب (مکران ڈویژن) سے آواران تک 146 کلومیٹر شاہراہ بنانے کا اعلان بھی کیا گیا تھا جس سے آواران کے لوگوں کو امید ہوئی کہ اب انہیں سفر کی بہتر سہولت میسر آئے گی۔
تاہم جھاؤ سے حب تک اپنی مسافر ویگن چلانے والے عبیداللہ عمرانی کہتے ہیں کہ توقع تھی یہ منصوبہ چار سال میں مکمل ہو جائے گا مگر ایسا نہ ہو سکا۔ وقت کے ساتھ اس سڑک پر جگہ جگہ گہرے گڑھے بن چکے ہیں اور گاڑیوں کا نقصان ہو رہا ہے۔ اگر کوئی ٹرک الٹ جائے تو ٹریفک گھنٹوں بند رہتی ہے۔
جھاؤ بیلہ روٹ پر اس سڑک کی تعمیر کے انچارج سبطین شاہ نے بتایا کہ اس منصوبے کی تکمیل پر 10 ارب روپے خرچ ہونا تھے۔ یہ رقم 2021ء سے 2023ء تک کے بجٹ سے ادا کی جانا تھی لیکن مکمل ادائیگی نہ ہونے کے باعث تعمیراتی کام دو سال میں جھاؤ بیلہ لک پاس کی کٹائی اور چند کلومیٹر ڈھلائی سے آگے نہیں بڑھ سکا۔
یہ بھی پڑھیں
سڑک بن رہی ہے: گوادر میں ایکسپریس وے کی تعمیر پرانے شہر کے باسیوں اور مچھیروں کے لیے وبالِ جان
تعمیراتی کمپنی کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اب تک کمپنی کو ڈیڑھ ارب روپےکی ہی ادائیگی ہو سکی ہے۔ سکیورٹی کا مسئلہ بھی کام میں تعطل کی دوسری بڑی وجہ ہے کیونکہ سڑک کی تعمیر کے لئے جو ماحول درکار ہوتا ہے وہ میسر نہیں ہے۔
آواران کے ڈپٹی کمشنر جمعداد خان مندوخیل کا کہنا ہے کہ بیلہ جھاؤ شاہراہ کے لیے رقم جاری ہو گئی تو اس کی تعمیر دو سال میں مکمل ہو جائے گی۔ مستقبل میں آواران سی پیک کے مشرقی روٹ (سکھر لاڑکانہ گوادر) اور مغربی روٹ (کوئٹہ گوادر) کا جنکشن ہو گا۔ یہاں کاروبار، ترقی اور روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے اور امن و امان میں بہتری آئے گی۔
لسبیلہ کے رہائشی نادر علی آواران میں نیشنل بینک کی برانچ میں کام کرتے ہیں۔ انہیں پچھلے تین سال سے ہر ہفتے یا دو ہفتے بعد لسبیلہ اور آواران کے درمیان آنا جانا پڑتا ہے اور وہ ہر بار اس مشکل سفر کی کوفت اٹھانے سے پہلے کئی مرتبہ سوچتے ہیں۔ تاہم نوکری کی مجبوری ہر بار انہیں اس راہ پر لے جاتی ہے جس کے درست ہو جانے کا مستقبل میں انہیں کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔
تاریخ اشاعت 12 مئی 2023