تیسری زچگی سے قبل جمنا بائی کے شوہر شنکر بھیل انہیں تحصیل ہیڈکوارٹر اسلام کوٹ لائے تو ڈاکٹروں نے بتایا کہ ان کا کیس پیچیدہ ہے اس لیے یہاں زچگی نہیں ہو سکتی، ان کا آپریشن ہو گا جس کے لیے انہیں 40 کلومیٹر دور ڈسٹرکٹ ہسپتال (ڈی ایچ کیو) مٹھی لے جانا ہو گا۔
شنکربھیل تھرپارکر کے گاؤں ملھو میں رہتے اور پانچ سات سو روپے دیہاڑی کماتے ہیں۔ آپریشن کا سن کر وہ پریشان ہو گئے۔ لیکن کوئی چارہ نہ پا کر ایک رشتہ دار سے ادھار رقم لے کر وہ کسی نہ کسی طرح جمنا کو مٹھی لے گئے جہاں ڈی ایچ کیو میں ایک دن انتظار کے بعد کامیاب آپریشن کے ذریعے بچے کی پیدائش عمل میں آئی۔
شنکر بھیل زچہ بچہ کی صحت وسلامتی پر خوش ہونے کے ساتھ دل برداشتہ بھی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ پیسے والے لوگ تو نجی ہسپتالوں میں علاج کرا لیتے ہیں مگر ان جیسے غریب لوگ بہت پریشان ہوتے ہیں۔آپریشن اگر اسلام کوٹ ہسپتال میں ہو جاتا تو وہ گھر کا کھانا کھا سکتے تھے جو مٹھی میں انہیں خرید کر کھانا پڑا جبکہ سفر کے کرائے خرچے اور تکلیف الگ تھی۔
شنکر بھیل کے مطابق صرف جمنا بائی ہی نے تکلیف نہیں جھیلی ۔ اسی روز مزید پانچ خواتین کو بھی زچگی کے لیے ٹی ایچ کیو اسلام کوٹ سے مٹھی ریفر کیا گیا۔یہاں سب اسی صورت حال سے دوچار ہیں۔
ضلع تھرپارکر کی تحصیل اسلام کوٹ تھر کول فیلڈ کی وجہ سے الگ پہچان رکھتی ہے۔ اسلام کوٹ کو ماڈل سٹی بھی کہا جاتا ہے۔ مگر اس شہر کا واحد سرکاری ہسپتال کئی مسائل کا شکار ہے۔
ڈھائی لاکھ کی آبادی پر مشتمل اسلام کوٹ اور نواحی علاقوں کو ستمبر 2012ء میں سندھ حکومت نے تحصیل کا درجہ دیا تھا۔ ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر مٹھی کے جنوب مشرق میں واقع تیس ہزار آبادی کے شہر اسلام کوٹ کو اس کا تحصیل ہیڈکوارٹر بنایا گیا۔
اُس وقت وہاں ایک دیہی مر کز صحت (آر ایچ سی) کام کر رہا تھا۔ علاقے کایہ واحد سرکاری ہسپتال یہاں 1986ء میں قائم کیا گیا تھا۔تحصیل بننے کے دو سال بعد اسی آر ایچ سی کو تحصیل ہسپتال (ٹی ایچ کیو)کا درجہ دے دیا گیا۔
2016 ء میں 60 بستروں کے ٹی ایچ کیو ہسپتال کی نئی عمارت کی تعمیر شروع ہوئی۔ مگر اسلام کوٹ کے لوگوں کی مشکلات کم نہ ہوئیں۔یہ عمارت ابھی تک نا مکمل ہے اور یہ ہسپتال 37 سال پرانی عمارت میں کام کر رہا ہے۔
شہر میں چند نجی طبی مراز اور اینگرو تھر کول کے تعاون سے قائم ہونے والا ہسپتال بھی موجود ہیں۔ مگر یہاں مخصوص لوگ ہی علاج کرا سکتے ہیں۔عوام کے لیے یہاں ٹی ایچ کیو ہی واحد سرکاری ہسپتال ہے۔
2019 ء میں اس ہسپتال کا انتظام سندھ حکومت نے انٹی گریٹڈ ہیلتھ سروسز (آئی ایچ ایس) کے حوالے کر دیا تھا۔چند ماہ قبل ریٹائر ہونے والے ایم ایس ڈاکٹر نھچل داس الزام عائد کرتے ہیں کہ اس ادارے نے ہسپتال کو تباہ کر دیا ہے اور یہاں بجٹ خرچ نہیں کیا۔ آئی ایچ ایس کو ایک کروڑ 58 لاکھ روپے سالانہ گرانٹ ملتی تھی جس میں سے ہسپتال انتظامیہ کو صرف ڈیڑھ لاکھ دیے جاتے تھے۔"
سابق ایم ایس کے اس دعوے کی تصدیق یا تردید نہیں ہو سکی۔جولائی 2021 میں صوبائی حکومت نے یہ ہسپتال آئی ایچ ایس سے واپس لے کر پیپلز پرائمری ہیلتھ انیشی ایٹو (پی پی ایچ آئی) کے سپرد کر دیا۔
سر کاری ریکارڈ کے مطابق اب اس ہسپتال میں ڈاکٹروں کی 21 پوسٹیں ہیں مگر صرف آٹھ ڈاکٹر کام کر رہے ہیں۔ یہاں 30 مریضوں کے لیے بستر موجود ہیں جبکہ کنسلٹنٹس کی دس اور میڈیکل افسروں کی پانچ اسامیاں برسوں سے خالی ہیں۔
ڈاکٹر عبدالستار لنجو ٹی ایچ کیو ہسپتال میں سینئر میڈیکل افسر ہیں۔وہ بتاتے ہیں کہ او پی ڈی میں روزانہ پانچ سو مریض آتے ہیں۔ رش کے باعث ان ڈور میں 50 مریض داخل کرنا پڑتے ہیں۔
ہستال کی او پی ڈی میں دو سو مریضوں اور ان ڈور میں صرف دس مریضوں کو داخل کرنے کی گنجائش ہے۔جبکہ اس وقت یہاں حکومت کے دو ڈاکٹر اور پی پی ایچ آئی کے چار یعنی مجموعی طور پر صرف چھ ڈاکٹر کام کر رہے ہیں۔
ایک سینئر ڈاکٹر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس ہسپتال میں کوئی سپیشلسٹ ڈاکٹر ہے نہ سرجن اور نہ ہی گائناکالوجسٹ ۔آٹھ ماہ سے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کا تقرر نہیں ہو سکا۔ عمارت اتنی بوسیدہ ہےکہ ڈر رہتا ہے کہیں گر ہی نہ پڑے۔
یہ بھی پڑھیں
'اسے حیدرآباد لے جائیں': مٹِھی کا اعلیٰ درجے کا ہسپتال عام بیماریوں کا علاج کیوں نہیں کر پا رہا؟
وہ کہتے ہیں کہ او پی ڈی میں روزانہ ایک ڈاکٹر کے پاس اوسطاً ڈیڑھ سو مریض ہوتے ہیں۔ مریض کا اچھی طرح معائنہ کرنے کاوقت بھی نہیں ملتا ۔ڈاکٹر تیس سے چالیس سیکنڈ ہی میں مریض کو فارغ کر کے بھیج دیتے ہیں۔
پی پی ایچ آئی کے ایڈمن افسر عبدالحفیظ بھٹی بتاتے ہیں کہ ڈاکٹروں، پیرامیڈیکل اہلکاروں اور انتظامی عملے سمیت ہسپتال کا سٹاف 90 ارکان پر مشتمل ہے۔ نئی عمارت مکمل نہ ہونے کے باعث ہسپتال کو اپ گریڈ کرنے کا کام معطل ہے۔
ہسپتال کی نئی عمارت پر 29 کروڑ 20 لاکھ روپے خرچ ہوں گے مگر کسی کو نہیں معلوم کہ یہ کام کب مکمل ہو گا۔تعمیراتی کام کی نگرانی محکمہ صحت کا شعبہ پلاننگ کررہا ہے تاہم پلاننگ افسر وجے کمار نے بار بار رابطہ کرنے کے باوجود کوئی موقف نہیں دیا۔
اس شعبے کے ایک اہلکار نے نام نہ بتانے کی شرط پر کہا کہ اس منصوبے کی رقم قسطوں میں جاری ہو رہی ہے اور تاخیر کی دوسری وجہ ٹھیکیدار کی سست روی ہے۔
ایڈیشنل ڈی ایچ او تھرپارکر ڈاکٹر چہنو بتاتے ہیں کہ تحصیل ہسپتال مکمل ہونے میں ابھی دو سال لگیں گے۔ تاہم انہیں نئے ہسپتال کے کل رقبے کا بھی اندازہ نہیں ہے۔
10 اکتوبر 2022ء کو تھر میں وزیراعظم کو اس وقت کے وزیراعلیٰ سندھ نے بریفنگ میں کہا تھا کہ 176 کروڑ ڈالر تھرپارکر کے انفراسٹرکچر پر خرچ کیے گئے ہیں مگر یہاں لوگ صحت کی بہتر سہولیات کے لیے ترس رہے ہیں۔
تاریخ اشاعت 13 ستمبر 2023