پنجاب میں انسولین موجود ہونے کے باوجود ملتان کے سرکاری ہسپتالوں میں نایاب

postImg

عدنان قریشی

postImg

پنجاب میں انسولین موجود ہونے کے باوجود ملتان کے سرکاری ہسپتالوں میں نایاب

عدنان قریشی

رؤف احمد شوگر کے مریض ہیں۔ وہ حضوری باغ روڈ پر رہتے ہیں اور اب اپنی زندگی کی سانسیں گن رہے ہیں۔

انہیں تین سال قبل زہریلے کیڑے نے پاؤں پر کاٹا تھا۔ زہر کو پھیلنے سے روکنے کے لیے ان کا آپریشن کیا گیا اور باقاعدگی سے انسولین لگانے کامشورہ دیا گیا جس کے بعد ان کاپاؤں ٹھیک ہوگیا اور وہ چلنے پھرنے لگے۔

گزشتہ چار ماہ سے شوگرکی زیادتی کے باعث ان کے پاؤں کا زخم ہرا ہوگیا ہے اور اس نے ان کی ٹانگ کو بھی لپیٹ میں لے لیا ہے۔

رؤف احمد چلنے پھرنے کے قابل نہیں رہے۔ حتیٰ کہ وہ خودکروٹ بھی نہیں بدل سکتے۔

ڈاکٹروں نے بتایا کہ ان کا زخم اب گینگرین  کی صورت اختیار کرچکا ہے یعنی مردہ ہو کر سڑنے لگا ہے۔ یہ صورت حال صرف ان مریضوں کو درپیش ہوتی ہے جو بروقت انسولین نہیں لگواتے۔

رؤف احمد انسولین کیوں استعمال نہیں کرتے؟

رؤف احمد گزشتہ پانچ سال سے باقاعدگی کے ساتھ انسولین استعمال کررہے تھے لیکن نومبر 2022ء میں انہیں سرکاری ہسپتال سے انسولین ملنا بند ہوگئی۔  

اڑسٹھ سالہ رؤف احمد محکمہ صحت سے ریٹائر ہوئے  اور کرائے کے مکان میں رہتے ہیں۔

وہ پانچ سال سے ذیابیطس کے مریض ہیں اور اس بیماری سے نجات کے لیے ڈاکٹروں کی ہدایت پر انسولین کاباقاعدگی سے استعمال کرتے رہے ہیں۔

رؤف احمد کے صاحبزادے بابر ایک پرائیویٹ کمپنی میں کام کرتے تھے۔کورونا وبا کے دوران ڈاؤن سائزنگ ہوئی توان کی نوکری بھی ختم ہوگئی۔

طبیعت خراب ہونے کے باعث ان کے والد کو چار ماہ سے پنشن نہیں ملی کیونکہ وہ خود بینک نہیں جاسکتے اور بینک عملہ کہتا ہے کہ وہ ذاتی طور پر پیش ہوں گے تو پنشن ملے گی۔ ''ہم کرائے کے مکان میں رہتے ہیں۔ محکمہ صحت میں والد صاحب کے کچھ دوست موجود ہیں لیکن اس کے باوجود ہم سرکاری ہسپتال میں انسولین حاصل نہیں کرسکے"۔

بابر بتاتے ہیں کہ بازار میں یہ انجکشن پہلے 700روپے میں مل جاتا تھا مگر اب اس کی قیمت ایک ہزار 150 روپے ہوگئی ہے۔ان کے والد کو مہینے میں تین انجکشنوں کی ضرورت ہوتی ہے۔

نسیم بی بی کی عمر 55 سال ہے۔وہ ملتان کے گنجان آباد علاقے ذکریا ٹاؤن میں اپنے بیمار خاوند اور چار بچوں کے ہمراہ کرایے کے مکان میں رہتی ہیں اور لوگوں کے گھروں میں کام کاج کرکے بیمار شوہر سمیت اپنی فیملی کا پیٹ پالتی ہیں۔ ان کی سب سے بڑی صاحبزادی میٹرک میں پڑھتی ہے جبکہ باقی تین چھوٹے بچے بھی زیر تعلیم ہیں۔

<p>گزشتہ چار ماہ سے کسی سرکاری ہسپتال میں انسولین دستیاب نہیں<br></p>

گزشتہ چار ماہ سے کسی سرکاری ہسپتال میں انسولین دستیاب نہیں

نسیم بی بی کے شوہر نذیراحمد کی سبزی کی دکان تھی جب انہیں ذیابیطیس ہوا تو وہ کام کاج کرنے کے قابل نہیں رہے اور اس مرض کے باعث وہ پانچ سال سے بے کار ہیں۔

نسیم بی بی نے بتایا کہ وہ خودبھی سات سال سے اسی مرض میں مبتلا ہیں۔جب وہ صحت مند تھیں تو انہیں سرکاری ہسپتالوں سے شوگر کنٹرول کرنے کے لیے انسولین بھی مل جاتی تھی لیکن اب گزشتہ چار ماہ سے کسی سرکاری ہسپتال میں انسولین دستیاب نہیں۔

میں کبھی نشتر ہسپتال،کبھی شہباز شریف ہسپتال اور کبھی سول ہسپتال کے چکر لگاتی ہوں لیکن ہر جگہ'انسولین دستیاب نہیں' کا بورڈ لگا ہوا ہے"۔

نشتر روڈ پر واقع اسلام فارمیسی کے مالک عبدالمنان نے بتایاکہ پچھلے چار ماہ میں انسولین کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے اور اس کے باوجود انسولین دستیاب نہیں۔ "ہمارے پاس روزانہ بہت سے مریض آتے ہیں اور انسولین نہ ملنے پر مایوس لوٹ جاتے ہیں۔'' عام طور پر ہیومولن، انسوگیٹ اور مسٹرڈ کمپنیوں کی انسولین استعمال ہوتی ہیں جو اب مارکیٹ میں نہیں مل رہیں۔

پاک یورو جرنل آف میڈیکل اینڈ لائف سائنس کی 2020ء کی رپورٹ کے مطابق ملتان اور مظفر گڑھ میں ایک ہزار 150 افراد کا طبی معائنہ کیا گیا تو ان میں سے 45 فیصد لوگ ذیابیطس کے مریض تھے۔ اس سٹڈی میں 45 سے 60 سال کی عمر کی عورتوں اور مردوں کو شامل کیا گیا تھا۔

ملتان میں انسولین غائب

ضلع ملتان کے تمام سرکاری ہسپتالوں میں پچھلے چار ماہ سے انسولین موجود نہیں ہے۔ ان میں نشترہسپتال، شہباز شریف ہسپتال، شجاع آباد اور جلالپور پیر والہ کے تحصیل ہیڈکوارٹرز ہسپتال شامل ہیں۔

ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹرز ہسپتال کا نام شہباز شریف ہسپتال ہے۔

یہاں سے حاصل کیے گئے اعدادوشمار کے مطابق یہاں روزانہ 130سے 150 مریض انسولین لینے آتے تھے۔ نشتر ہسپتال روزانہ آنے والے مریضوں کی تعداد ڈیڑھ سے دو ہزار کے درمیان تھی۔ اب 15یہی مریض انسولین لینے کی غرض سے ملتان کی تحصیل شجاع آباد/ جلال پور کے تحصیل ہیڈ کوارٹرز اور گردونواح کے رورل ہیلتھ سنٹرز کا بھی روزانہ چکر کاٹتے ہیں لیکن انہیں انسولین نہیں ملتی۔

ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر ملتان ڈاکٹر فاروق احمد مانتے ہیں کہ ملتان کے کسی سرکاری ہسپتال میں انسولین دستیاب نہیں ہے۔

ڈاکٹر فاروق کہتے ہیں کہ پنجاب میں تمام سرکاری ہسپتالوں کو انسولین کی فراہمی "نووا" نامی دوا ساز کمپنی کرتی ہے جس کی ڈیلنگ ڈائریکٹر جنرل صحت پنجاب کرتے ہیں۔ کھپت اتنی زیادہ ہے کہ یہ کمپنی تنہا طلب پوری نہیں کر پا رہی۔

<p>نشتر ہسپتال روزانہ ڈیڑھ سے دو ہزار کے درمیان  مریض انسولین لینے آتے تھے <br></p>

نشتر ہسپتال روزانہ ڈیڑھ سے دو ہزار کے درمیان  مریض انسولین لینے آتے تھے

انہوں نے بتایا کہ اگر کوئی دوسری کمپنی انسولین امپورٹ کرنے کی کوشش کرتی ہے تو مذکورہ کمپنی اس کے خلاف کیس کر دیتی ہے جس کی وجہ سے غریب عوام کو مشکلات کا سامنا ہے۔

ڈاکٹر فاروق کا کہنا ہے کہ کہ ڈائریکٹر ہیلتھ پنجاب کو صورتحال سے آگاہ کردیا گیا ہے اور ملتان سمیت پنجاب بھر میں سرکاری ہسپتالوں کے لئے انسولین کی فراہمی کی کوششیں جاری ہیں۔

لیکن محکمہ پنجاب پرائمری ہیلتھ کے ایڈیشنل ڈائریکٹر میڈیکل سٹوریج اینڈ کنٹرول ( ڈی اینڈ سی) ڈاکٹر عاصم، ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر کی بات سے بالکل متفق نہیں۔

 ڈاکٹر عاصم پنجاب بھر کے ہسپتالوں کو انسولین سمیت ادویہ بھیجنے کے معاملات کے انچارج ہیں۔

ان کا دعویٰ ہے کہ "مجھے ملتان سے محکمہ صحت اور ہسپتالوں کی انتظامیہ کی جانب سے انسولین کی کوئی ڈیمانڈ موصول نہیں ہوئی"۔

انہوں نے لوک سجاگ کو بتایا کہ ملتان میں نشتر ہسپتال کے سوا تمام (نان ٹیچنگ) ہسپتالوں کو ان کا محکمہ انسولین فراہم کرتا ہے۔ تاہم اگر سپیشلائزڈ ہیلتھ کے تحت کوئی ادادرہ جیسے نشتر ہسپتال بھی ان سے رابطہ کرے تو وہ انکار نہیں کرتے۔
"پچھلے جون میں ان کے محکمے نے انسولین کی آٹھ لاکھ وائلز ( ٹیکے) خریدی تھیں جس میں سے آٹھ ہزار وائلز اب بھی سٹاک میں موجود ہیں"۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

نشتر ہسپتال جانے والے مریضوں پر ٹریفک کی نشتر زنی اور ایمبولینس میں تڑپتے مریض

ڈاکٹر عاصم نے بتایا کہ ملتان میں انسولین کی کمی کے بارے میں ان کے پاس ڈی ایچ او، ایم ایس سمیت کسی عہدے دار نے رابطہ نہیں کیا۔

" سرکاری ہسپتالوں کی ڈیمانڈ آئے تو ہم کسی بھی وقت انسولین بھیجنے کو تیار ہیں"۔

انہوں نے بتایا کہ نیا سٹاک اگلے دو تین روز میں مل جائے گا۔

انسولین نہ ملے تو مریض کیا کریں؟

نشتر میڈیکل یونیورسٹی کے سینئر ڈاکٹر عمران کہتے ہیں کہ شوگر ہر انسان کے جسم میں موجود ہوتی ہے۔ نارمل شوگر فاسٹنگ (نہار منہ) کے ساتھ 110 اور کھانا کھانے کے دو گھنٹے بعد تک اس کی سطح 160 ہونی چاہیے۔ اگر یہ اس سے تجاوز کرتی ہے تو یہ خطرے کی علامت ہے۔

شوگر کی زیادتی سے آنکھوں کا موتیا، فالج، ہارٹ اٹیک، جلد کی بیماری اور گردوں کے موذی امراض ہو سکتے ہیں اور یہ صورت حال جان لیوا بھی ثابت ہوسکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جن مریضوں کو معالج کی جانب سے انسولین تجویز کی گئی ہے وہ اسے باقاعدہ استعمال کریں، ماہانہ بنیادوں پر پیشاب اور خون کا ٹیسٹ ضرور کرائیں اور ساتھ ہی بلڈ پریشر 130/80 سے تجاوز نہ ہونے دیں۔

ڈاکٹر عمران رفیق کہتے ہیں کہ انسولین کی عدم موجودگی میں مریض کوچاہیے کہ وہ اپنی خوراک میں سبزیوں اور ترشاوہ پھلوں کااستعمال زیادہ کرے۔ مرغن اور فاسٹ فوڈ کے استعمال سے دریغ کرے اور چلنے پھرنے کو اپنی زندگی کا لازمی حصہ بنائے۔ اسی صورت میں اس موذی مرض کو دور رکھا جا سکتا ہے۔

تاریخ اشاعت 3 مارچ 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

عدنان قریشی کا تعلق ملتان سے ہے۔ گذشتہ 20 سال سے مختلف اخبارات اور ٹی وی چینلز میں انویسٹی گیشن رپورٹنگ کرتے ہیں۔

thumb
سٹوری

ماحول دوست الیکٹرک رکشوں کے فروغ کے لیے کون سے اقدامات کی ضرورت ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود

مردوں کے راج میں خواتین کو شناختی کارڈ بنانے کی اجازت نہیں

سینٹ کے پیچیدہ طریقہ انتخاب کی آسان ترین وضاحت

فیصل آباد: کرسمس کے بعد ایسٹر پر بھی مسیحی ملازمین تنخواہوں سے محروم

گندم: حکومت خریداری میں سنجیدہ نہیں، کسانوں کو کم قیمت ملنے کا خدشہ

thumb
سٹوری

گولاڑچی کے بیشتر کسان اپنی زمینوں کے مالک کیوں نہیں رہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceرضا آکاش

مسکان مسیح کے والدین کی "مسکان" کس نے چھینی؟

معذوروں کے چہرے پر خوشیاں بکھیرتے کمپیوٹرائزڈ مصنوعی اعضا

thumb
سٹوری

کیا قبائلی اضلاع میں سباون سکولز انشی ایٹو پروگرام بھی فلاپ ہو جائے گا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceخالدہ نیاز
thumb
سٹوری

ضلع میانوالی کے سرکاری کالجوں میں طلباء کی تعداد کم کیوں ہو رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceفیصل شہزاد

ڈیجیٹل امتحانی نظام، سہولت یا مصیبت؟

سندھ: ہولی کا تہوار، رنگوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.