"میں انصاف کے سفر میں سب کچھ ہار چکا ہوں، عدالتوں نے میرا صبر توڑ دیا ہے۔ نو سال میں کیسوں پر 50 سے 60 لاکھ روپے خرچ ہو چکے ہیں۔ اب وسائل ہیں نہ امید، میرے پاس کوئی راستہ نہیں بچا۔ خودکشی کو حرام سمجھتا ہوں لیکن اگر مجھے کوئی اور راستہ چننا پڑا تو میرے بچوں کو انصاف ضرور دلوائیے گا۔"
یہ تھا نیسلے کے سابق ملازم محمد آصف جاوید کا ویڈیو پیغام جو انہوں نے خانیوال سے لاہور ہائیکورٹ پیشی پر روانگی سے پہلے 24 فروری کو 'ناانصافی کے نو سال' کے عنوان سے اپنے مزدور ساتھیوں اور میڈیا کے لیے فیس بک پر اپ لوڈ کیا تھا۔
اکتالیس سالہ محمد آصف جاوید نے 25 فروری 2025 کو لاہور ہائیکورٹ کے احاطے میں خود پر پٹرول چھڑک کر آگ لگالی۔ انہیں میو ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں وہ دو دن موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد دم توڑ گئے۔
وہ خانیوال کے مدینہ ٹاؤن میں کرائے کے مکان میں رہتے تھے۔ انہوں نے ملتان سے گریجوایشن کی، 2007ء میں خانیوال کی تحصیل کبیر والہ میں قائم نیسلے پلانٹ میں بطور پراسیس آپریٹر بھرتی ہوئے اور کچھ ماہ بعد مستقل کر دیے گئے۔
آصف جاوید کو فیکٹری انتظامیہ نے 2015ء میں سرکاری انکوائری کمیٹی میں پیش ہونے پر ملازمت سے برطرف کر دیا۔ لیبر کورٹ کے حکم کے باوجود نیسلے نے ان کی بحالی کے فیصلے پر عمل نہ کیا اور وہ تبھی سے انصاف کے لیے ٹھوکریں کھا رہے تھے۔

ہیومن ریسورسز کمپنی کے نام پر ٹھیکیدارہ نظام: عارضی بھرتی، من چاہی برطرفیاں اور جھگڑے
محمد حسین بھٹی 2015ء میں نیسلے فیکٹری کی سی بی اے یونین کے لیڈر اور صدر تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ آصف جاوید اگرچہ کبھی سی بی اے یونین کے عہدیدار نہیں رہے تاہم وہ یونین کی سرگرمیوں میں حصہ لیتے تھے اور ڈیلی ویج ملازمین کے حقوق کے لیے ہمیشہ آواز اٹھاتے رہے۔
یونین لیڈر بتاتے ہیں کہ بیشتر فیکٹریوں میں منیجمنٹ کے چند ملازمین مستقل ہوتے ہیں۔ باقی لیبر ہیومن ریسورسز کمپنی کے نام پر ٹھیکیداروں کے ذریعے عارضی (ڈیلی ویجز، روزانہ اجرت) بھرتی کی جاتی ہے تاکہ انہیں قانون کے مطابق حقوق اور مراعات نہ دینی پڑیں۔ اسے عرف عام میں 'ٹھیکیدارہ نظام' کہا جاتا ہے۔
ان کے بقول نیسلے فیکٹری میں بھی یہی رواج چلا آ رہا ہے۔ اگست 2014ء میں یہاں کے لیبر ٹھیکیدار محمد رمضان (محمد رمضان اینڈ سنز) فوت ہوئے تو کمپنی نئے کنٹریکٹر رانا محمد سمیع (کمیل ایچ آر سروسز پرائیویٹ لمیٹڈ) کو لے آئی۔
نئے ٹھیکدار نے چند ماہ بعد ہی پرانے ڈیلی ویجرز کا فیکٹری میں داخلہ بند کر دیا اور ان کی جگہ اپنے پسندیدہ بندے رکھنا شروع کر دیے۔ یونین نے اس معاملے پر فیکڑی انتظامیہ سے اختلاف کیا جس پر بےچینی بڑھی تو مزدوروں نے جلسے جلوس شروع کر دیے۔
محمد حسین بھٹی کے مطابق چھ اپریل 2015ء کی رات فیکٹری میں ان کے گروپ اور نئے ٹھیکیدار کی لیبر کے درمیان لڑائی شروع ہو گئی۔ درجنوں ورکر زخمی ہو ئے، دو تین کی ہڈیاں ٹوٹیں اور پلانٹ پر کام بند ہو گیا۔
"پولیس نے آکر معاملہ سنبھالا اور طے پایا کہ فیکٹری میں پرانی لیبر ہی کام کرے گی لیکن کمپنی نے ان مزدوروں پر دوبارہ گیٹ بند کر دیے۔ اس پر دوبارہ احتجاج شروع ہو گیا، آئے روز ٹھیکدار رانا سمیع اور ہمارے گروپ کے درمیان لڑائیاں ہونے لگیں۔"

آصف جاوید کا جرم: فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کے سامنے سچ کیوں بولا؟
اس دوران فیکٹری منیجمنٹ نے احتجاجی مزدوروں کے خلاف فوجداری مقدمات درج کرانا شروع کر دیے۔ مجموعی طور پر 13 ایف آئی آر درج کرائی گئیں جن میں سے چار میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعات بھی شامل تھیں۔
صدر سی بی اے یونین بتاتے ہیں کہ 11 ستمبر 2015ء کو نیسلے فیکٹری کے گیٹ پر ورکروں کے مابین فائرنگ ہوئی جس سے کئی کارکن زخمی ہوگئے۔
اس واقعے کی تحقیقات کے لیے کمشنر ملتان نے ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی تشکیل دی جس میں ایڈیشنل ڈسٹرکٹ کلکٹر، ایس پی(انویسٹیگیشن) خانیوال، اسسٹنٹ کمشنرز خانیوال و کبیر والا اور ڈسٹرکٹ لیبر افسر شامل تھے۔
"آصف جاوید فائرنگ کے واقعہ کے عینی شاہد تھے اور یہیں سے ان کی بدقسمتی کا آغاز ہوا۔ ان کا قصور بس یہ تھا کہ وہ سچ کی گواہی کے لیے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کے اجلاس میں موجود تھے۔ اگلے روز ہی انتظامیہ نے انہیں شوکاز نوٹس جاری کیا اور پھر ملازمت سے برخاست کر دیا۔"
عدالتی ریکارڈ کے مطابق 23 ستمبر 2015ء کو جاری ہونے والے شوکاز نوٹس میں فیکٹری انتظامیہ نے آصف جاوید پر الزام عائد کیا کہ وہ منیجمنٹ کی اجازت کے بغیر غیرقانونی طور پر فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے اور ٹھیکیدارہ لیبر کی نمائندگی کی۔
آصف جاوید نے شوکاز نوٹس کے جواب میں الزامات کی تردید کی اور بتایا کہ وہ صرف فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی کارروائی دیکھنے گئے تھے، ان کا مقصد بدامنی پھیلانے والوں کی حمایت کرنا ہرگز نہیں تھا۔
"فیکٹری انتظامیہ نے ان کی وضاحت قبول نہیں کی اور یکطرفہ انکوئری کے بعد 11 جولائی 2016ء کو انہیں فارغ کر دیا۔جبکہ انہی الزامات پر ہمارے ایک اور ساتھی نے معافی مانگ لی تو انہیں ملازمت پر برقرار رکھا گیا۔"

'وہ مقدمہ تو جیت گیا مگر کمپنی کے نامی گرامی وکیل عدالتوں پر بھاری ثابت ہوئے'
آصف جاوید نے ایک ہفتے ہی میں اپنی برطرفی کو نیشنل انڈسٹریل ریلیشنز کمیشن (این آئی آر سی/ لیبر کورٹ) ملتان بنچ میں چیلنج کر دیا۔ تقریباً تین سال بعد 25 مئی 2019ء کو وہ کیس جیت گئے، این آئی آر سی نے ان کی برطرفی کو ناانصافی قرار دیتے ہوئے انہیں ایک ماہ میں ملازمت پر بحال کرنے کا حکم دے دیا۔
تاہم نیسلے نے اس فیصلے کے خلاف تین جون کو لاہور میں این آئی آر سی کے فل بنچ میں اپیل دائر کر دی جو 23 نومبر 2020ء کو تین رکنی بنچ نے خارج کر دی۔ کمپنی نے یہ فیصلہ تسلیم کرنے کی بجائے اسے لاہور ہائیکورٹ میں چیلنچ کر دیا۔
آصف جاوید کے والد اسلم ندیم پنجاب ہائی وے ڈیپارٹمنٹ کے ریٹائرڈ کلرک ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ آصف کی دو بیوائیں اور چھ بچے ہیں۔ ملازمت بحالی اور انصاف کے چکر میں ان کے بیٹے کی تمام جمع پونجی خرچ ہو گئی تھی۔
پہلے آصف کو گاڑی اور پھر اپنا گھر بیچنا پڑا، رقم عدالتوں کچہریوں میں لگ گئی۔ اب وہ کرائے کے مکان میں رہتے تھے جس کا کئی ماہ سے کرایہ بھی نہیں دے پا رہے تھے۔ بچوں کی تعلیم چھوٹ گئی اور نوبت فاقوں تک آ گئی تھی۔
"میں اپنی پنشن سے بچوں کو راشن ہی دلا پاتا تھا۔ ہم نے بہت سمجھایا کہ بس کر دو سرمایہ داروں سے جیتنا بہت مشکل ہے۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں مزدوروں کو حق دینے کی بجائے نامی گرامی وکلاء رکھ لیتی ہیں جن سے جج بھی متاثر ہوتے ہیں لیکن وہ نہیں مانا۔"
ان کا کہنا تھا کہ آصف نے اپنی ملازمت کی بحالی کے لیے ناصرف فیکٹری انتظامیہ کو کئی بار درخواستیں دیں بلکہ پاکستان میں نیسلے کے چئیرمین سے بھی اپیل کی جس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ ان تمام مشکلات کے دوران بھی وہ مزدور ساتھیوں کے لیے ہر فورم پر آواز اٹھاتے رہے۔

'لاہور ہائیکورٹ میں پانچ سال تاریخیں ہی ملتی رہیں، اس سلوک نے اسے توڑ دیا'
والد کے بقول آصف جاوید کو یقین تھا کہ جس دن لاہور ہائیکورٹ میں کیس کی سماعت ہوئی وہ وہاں بھی سرخرو ہوں گے۔ افسوس! ہائیکورٹ میں کیس کو پانچ سال تک لٹکایا جاتا رہا اور صرف تاریخیں ہی ملتی رہیں۔
"کمپنی تاخیری حربے استعمال کر رہی تھی۔ 25 فروری کو بھی ہائیکورٹ میں آصف جاوید کو آٹھ اپریل یعنی 42 روز بعد کی پیشی ملی۔ اس سلوک نے اسے توڑ کر رکھ دیا اور انہوں نے خود پر پٹرول چھڑک کر آگ لگا لی۔"
آصف جاوید کی بیوگان زنیرہ اور اقصیٰ کہتی ہیں کہ انہوں نے مشکل حالات میں گزارہ کیا ہے لیکن انہیں اپنے شوہر کی مزدوروں کے حقوق کے لیے جدوجہد پر فخر ہے۔
خودسوزی کے اس واقعے پر غور کے لیے پیر 10 مارچ کو پنجاب اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے محنت و انسانی وسائل کا اجلاس ہوا جس میں مرحوم آصف جاوید کی بیوہ زنیرہ، آصف کے والد، نیسلے کے نمائندے اور دیگر شریک تھے۔
چیئرمین کمیٹی امجد علی جاوید نے ہدایت کی کہ نیسلے انتظامیہ مرحوم آصف جاوید کی ملازمت فوری بحال کرے تاکہ ان کے اہلِ خانہ کو مراعات اور پنشن دی جا سکے۔
یہ بھی دیکھیں

مزدور انصاف مانگتا ہے، عدالت تاریخ دے دیتی ہے
انہوں نے کمپنی کو اس معاملے کے قانونی تصفیے اور معاوضے کی رقم سے متعلق ایک ہفتے میں جواب دینے کے احکامات دیے۔ ساتھ ہی محکمہ محنت کو بھی ہدایت کی کہ وہ غمزدہ خاندان کو ورکرز ویلفیئر فنڈ، ای او بی آئی اور سوشل سکیورٹی دینے کے امکانات کا جائزہ لے۔
تاہم آصف جاوید کی بیوہ زنیرہ بتاتی ہیں کہ قائمہ کمیٹی کے اجلاس کو اب کئی روز گزر چکے لیکن نیسلے انتظامیہ نے ان سے کوئی رابطہ نہیں کیا۔
"اگر واجبات نہ ملے تو ہم بھی بچوں سمیت آصف جاوید کی راہ اپنانے پر مجبور ہو جائیں گے۔"
تاریخ اشاعت 19 مارچ 2025