بھارت کے عام انتخابات انتخابی امور کے ماہرین کے لیے ایک گورکھ دھندے سے کم نہیں۔
پہلے تو ان انتخابات کا حجم ہی دماغ کو گھما کر رکھ دیتا ہے۔ دنیا کے ہر چھٹے بالغ فرد کا نام بھارت کی انتخابی فہرستوں میں درج ہے۔ یہ پاکستان کی انتخابی فہرستوں سے ساڑھے سات گنا بڑی ہیں۔ لگ بھگ ایک ارب بھارتی ووٹر آج کل سیکڑوں پارٹیوں کے نامزد ہزاروں امیدواروں میں سے اپنی پسند کے امیدوار چن رہے ہیں۔ چننے کا یہ عمل سات مرحلوں میں مکمل ہو گا جن میں سے اب تک دو ہو چکے ہیں۔
اب اس دیوہیکل عمل کو بھارت کے طول و عرض میں ہمہ وقت جاری اور باہم پیکار ان متعدد سیاسی عملوں سے ضرب دے لیں جن میں سے کسی کا محور ذات پات ہے تو کسی کا مذہب، طبقہ، زبان، نسل یا معاشی نظریات ہیں تو آپ ایک ایسی بھول بھلیاں میں پہنچ جائیں گے جس سے باہر نکلنے کا راستہ سجھائی نہیں دیتا۔
لیکن بھلا ہو ایک مربوط اور مضبوط انتخابی نظام کا جو ہمیں اتنا ڈیٹا فراہم کر دیتا ہے کہ آپ انتخابی تاریخ سے ایسا کچھ نہ کچھ ضرور کشید کر سکتے ہیں جو اور کچھ نہیں تو آپ کو موجودہ صورت حال کی ایک بہتر تصویر ضرور پیش کر سکتا ہے۔
تو یہ ہے وہ تصویر۔
پاکستان کی طرح بھارت میں بھی انتخابات اس سسٹم کے تحت ہوتے ہیں جسے انگریزی میں فرسٹ پاسٹ دی پوسٹ (جو سب سے آگے) کہا جاتا ہے۔ اس نظام میں ایک حلقے کے تمام امیدواروں میں سے سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے کو کامیاب قرار دے دیا جاتا ہے خواہ اس کے ووٹ، ڈالے گئے کل ووٹوں کی اکثریت سے کتنے ہی کم کیوں نہ ہوں۔
یوں ایک پارٹی کو کتنے ووٹروں نے ووٹ دیا اور وہ کتنی سیٹیں جیت پائی، ان دونوں میں تناسب سیدھا نہیں رہتا۔
مثال کے طور پر اترپردیش کی بہوجن سماج پارٹی نے 2014ء کے انتخابات میں دو کروڑ تیس لاکھ ووٹ حاصل کیے لیکن وہ لوک سبھا (قومی اسمبلی) کی کوئی ایک بھی سیٹ نہیں جیت پائی تھی جبکہ بنگال کی ترنمول کانگرس نے اس سے بیس لاکھ کم ووٹ لیے اور لوک سبھا کی کل 543 میں سے 34 سیٹوں پر کامیاب ٹھہری تھی۔
لیکن اس غیر یقینی میں بھی چند باتیں یقینی ہوتی ہیں۔ انتخابی ڈیٹا کے تجزیے سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر ایک پارٹی تیس فیصد سے کم ووٹ حاصل کرتی ہے تو اس کے حاصل کردہ ووٹوں اور جیتی سیٹوں کی تعداد میں تناسب متعین نہیں کیا جا سکتا ہاں اگر اسے تیس فیصد سے زائد ووٹروں کی حمایت حاصل ہو جائے تو یہ تقریباً یقینی ہو جاتا ہے کہ اسے اسمبلی میں سادہ اکثریت (272 سیٹیں) مل جائے گی۔
وزیراعظم نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی 2014ء اور 2019ء میں لوک سبھا کی اکثریتی سیٹوں پر کامیاب ہوئی تھی جبکہ ان انتخابات میں ان کی پارٹی نے ڈالے گئے کل ووٹوں کا بالترتیب 31 اور 37 فیصد حاصل کیا تھا۔
ڈیٹا سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی پارٹی ڈالے گئے کل ووٹوں کے 40 فیصد سے زیادہ حاصل کر لے تو اسے لوک سبھا میں دو تہائی اکثریت (373 سیٹیں) حاصل ہونا تقریباً یقینی ہوتا ہے جس سے اس کے لیے قانون سازی سے بڑھ کر آئینی ترامیم کرنے کا راستہ بھی ہموار ہو جاتا ہے۔
حالیہ انتخابات میں مودی کا نعرہ ہے "اب کی بار، 400 پار" یعنی اس دفعہ وہ 400 سے زائد سیٹیں جیتنا چاہتے ہیں تاکہ اپنی پارٹی کی منشا اور منشور کے مطابق جو چاہیں کر سکیں۔ اس کے لئے انہیں پچھلے انتخابات میں حاصل کل 37 فیصد ووٹوں میں بس پانچ کا اور اضافہ کرنا ہے۔
بظاہر تو یہ ناممکن دکھائی نہیں دیتا لیکن ذرا ٹھہریے۔ پانچ فیصد اضافے کا مطلب ہے کہ جن ووٹروں نے 2019ء میں مودی کی حمایت کی تھی نہ صرف وہ قائم رہیں بلکہ ان میں کم از کم تین کروڑ کا اضافہ بھی ہو۔ موجودہ حالات میں یہ کافی کٹھن ہے کیونکہ لوگ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بےروزگاری سے پریشان ہونے کے ساتھ ساتھ مذہبی نفرت کی سیاست سے بھی تنگ آ چکے ہیں۔ مودی نے بابری مسجد کے ساتھ تعمیر کئے گئے جس رام مندر کا حال ہی بہت دھوم دھام سے افتتاح کیا ہے اسے عوام میں اتنی پذیرائی نہیں ملی جس کی بی جے پی کو توقع تھی۔
بھارتی ووٹروں کا موجودہ حالات سے غیر مطمعن ہونا کوئی محض اندازہ نہیں ہے کیونکہ اس کا اشارہ ایک اور صورت میں بھی مل رہا ہے اور وہ ہے کم ٹرن آؤٹ۔ ووٹنگ کے اب تک مکمل ہونے والے دو مرحلوں میں ٹرن آؤٹ گذشتہ انتخابات کی نسبت تقریباً پانچ فیصد پوائنٹ کم رہا ہے۔
بھارت میں ٹرن آؤٹ عام طور پر 60 فیصد کے آس پاس ہی رہا ہے، کبھی ایک آدھ پوائنٹ زیادہ تو کبھی اتنا ہی کم لیکن مودی کے سربراہی میں ہونے والے پہلے انتخابات (2014ء) میں ٹرن آؤٹ چھلانگ لگا کر تاریخ کی بلند ترین سطح 66.4 پر پہنچ گیا تھا جو اس سے پہلے ہونے والے انتخابات سے 8.3 فیصد پوائنٹ زیادہ تھا۔ مودی لہر 2019ء کے انتخابات میں بھی ٹھنڈی نہیں پڑی تھی اور اس نے ایک فیصد کے مزید اضافے سے اپنا ہی ریکارڈ توڑ دیا تھا۔
اس بات میں کچھ زیادہ شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ ٹرن آؤٹ میں ان تاریخی اضافوں کا تمام فائدہ مودی کی بی جے پی کو ہی ہوا تھا کیونکہ ان انتخابات میں ڈالے گئے کل ووٹوں میں دیگر تمام ہی پارٹیوں کا فیصد حصہ نہ صرف بڑھ نہیں پایا تھا بلکہ کم ہوا تھا۔
تو اب جبکہ ٹرن آؤٹ کم ہو رہا ہے تو کیا اس کا تمام نقصان بھی بی جے پی ہی کو ہو گا؟ یعنی کیا صرف بی جے پی کے مایوس ہو جانے والے ووٹر ہی ووٹ نہیں ڈال رہے؟
ایسا بالکل ممکن ہے۔ ہاں اگر بی جے پی اس نقصان کو دیگر علاقائی پارٹیوں پر منتقل کرنے میں کامیاب ہو گئی تو ٹرن آؤٹ میں کمی کا اسے اتنا ہی فائدہ ہو سکتا ہے جتنا اس میں اضافے کا ہوا تھا۔
1991ء سے 2019ء تک ہونے والے آٹھ عام انتخابات میں بھارت کی علاقائی پارٹیوں نے ڈالے گئے کل ووٹوں کا اوسطاً 49 فیصد حاصل کیا جبکہ باقی 51 فیصد دو قومی پارٹیوں – کانگریس اور بی جے پی – میں تقسیم ہوتا رہا۔ یہ اعداد و شمار بھارت کے عوام کی اپنی ریاست کی ہیت کے بارے میں اجتماعی سوچ کی عکاسی کرتے ہیں۔ گویا وہ جتنی اہمیت علاقائی (صوبائی) سیاست کو دیتے ہیں چاہے وہ جن بھی خطوط پر استوار ہو اتنی ہی وہ قومی سیاست کو دیتے ہیں۔
مودی کی بی جے پی اس توازن کو برباد کرنے کے درپے ہے یا یوں کہہ لیں کہ اس اجتماعی سیاسی فیصلے کو مرکزیت کے حق میں بدلنا چاہتی ہے۔
مودی کی بی جے پی اپنے پہلے انتخابات (2014ء) میں علاقائی پارٹیوں کو کچھ زیادہ زد نہیں پہنچا سکی تھی۔ اس کے ووٹ بینک میں 12 فیصد پوائنٹ کا اضافہ ہوا تھا جبکہ کانگرس کو نو فیصد پوائنٹ اور علاقائی پارٹیوں کو تین کا گھاٹا اٹھانا پڑا تھا۔ دہلی کے نئے سلطان نے 2019ء کے انتخابات سے پہلے اپنی توپوں کا رخ بھارت کی 28 ریاستوں کے حکمران مقامی راجوں اور رانیوں کی طرف کر دیا تھا۔ مودی کی سربراہی میں ہونے والے ان دوسرے انتخابات میں بی جے پی کا ووٹ بینک چھ فیصد پوائنٹ بڑھا تھا جبکہ علاقائی پارٹیوں کا اتنا ہی کم ہو گیا تھا۔
اس کے بعد سے علاقائی پارٹیوں پر تابڑ توڑ حملے مودی کی حکمت عملی کا بنیادی ستون بن گئے۔
جاری انتخابات سے پہلے مودی حکومت نے سب ہی علاقائی پارٹیوں کے لیڈروں پر کرپشن اور دیگر جرائم میں ملوث ہونے کے لا تعداد مقدمے قائم کیے اور ان کی پکڑ دھکڑ کا سلسلہ پوری قوت سے شروع کر دیا۔ بی جے پی چاہتی ہے کہ دیگر پارٹیوں کے ووٹر خوف زدہ یا دلبرداشتہ ہو کر گھر ہی بیٹھ جائیں تاکہ جتنے ووٹ اس کے کم ہوں اتنے یا اس سے زیادہ ان کے بھی کم ہو جائیں اور نتیجتاً وہی فاتح قرار پائے۔
یہ بھی پڑھیں
مخصوص نشستوں کی اگر مگر اور بنتے بگڑتے نمبر: کونسی پارٹی کہاں حکومت بنا پائے گی اور کیسے؟
لیکن یہ سب کچھ کرنے کے بعد بھی مودی حکومت کو خطرے سے باہر قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اسے ایک اور چیلنج کا بھی سامنا ہے اور وہ ہے نیا ووٹر۔ 2014ء کی انتخابی فہرستوں میں 11 کروڑ 70 لاکھ نئے ووٹروں کا ریکارڈ ساز اضافہ ہوا تھا پھر ٹرن آؤٹ نے بھی ریکارڈ توڑے تھے ان دونوں کے نتیجے میں ان انتخابات میں پچھلے انتخابات (2009ء) کی نسبت 13 کروڑ 70 لاکھ زیادہ لوگوں نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا تھا۔ ان میں سے 9 کروڑ 30 لاکھ نے مودی کی حمایت کی تھی۔ کانگریس نہ صرف اپنے 2009ء والے ووٹروں کو اپنی جانب مائل کرنے میں ناکام ہوئی تھی بلکہ ان میں سے ایک کروڑ 20 لاکھ نے اس سے مونہہ موڑ لیا تھا۔ البتہ علاقائی پارٹیاں مودی کے سامنے سینہ سپر رہی تھیں اور انہوں نے اپنے مجموعی ووٹ بینک میں پانچ کروڑ 80 لاکھ کا اضافہ کیا تھا۔
2019ء کی انتخابی فہرستوں میں سات کروڑ 80 لاکھ نئے ووٹروں کا مزید اضافہ ہوا۔ اس بار کانگرس تو اپنی پچھلی پوزیشن پر ڈٹی رہی لیکن علاقائی پارٹیاں پسپا ہوئیں اور ڈالے گئے ووٹوں میں ان کا حصہ 1984ء کے بعد اپنی کم ترین سطح (43 فیصد) پر آ گیا۔
جاری انتخابات میں مزید پانچ کروڑ 80 لاکھ ووٹروں کا اضافہ ہوا ہے۔
پچھلے دو انتخابات میں مودی کی بی جے پی نے جن 15 کروڑ نئے ووٹروں کو اپنی جانب ہانکا ہے، کیا وہ اب بھی انہیں اپنے دام میں رکھ پائے گی؟ کیا علاقائی پارٹیاں مودی حکومت کے پے در پے حملوں کے سامنے ڈھیر ہو جائیں گی یا زیادہ شدت سے جوابی حملہ کریں گی؟ کیا راہل گاندھی کی 'بھارت جوڑو یاترا' کانگرس کو دوسرا جنم دے پائے گی؟
ان سوالوں کے جواب تو 4 جون کو ہی مل پائیں گے جب انتخابات کے نتائج کا اعلان ہو گا۔
لیکن یہ بات یقینی ہے کہ مودی کے تیسرے اوتار کا ظہور اگر علاقائی پارٹیوں کو دیوار سے لگا کر ہوا تو بھارت کی سیاست یکسر بدل جائے گی۔ اس صورت میں بھی یہ کہنا تو مشکل ہے کہ بھارت بالآخر بی جے پی کے نظریات کے مطابق 'ایک ہندو قوم' بن جائے گا ہاں مگر یہ علاقائی رکاوٹوں سے پاک 'ایک مارکیٹ' ضرور بن جائے گا۔ اور شاید بی جے پی کی مالی معاونت کرنے والے بھارت کے ابھرتے ہوئے سرمایہ داروں کا مقصد بس یہی ہے۔
تاریخ اشاعت 8 مئی 2024