گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں قصور کے سرحدی علاقے گنڈا سنگھ والا میں دریائے ستلج کے کنارے ایک مچھیرے کے جال سے گھڑیال برآمد ہوتا دکھائی دیتا ہے جسے مچھیرے نے باحفاظت پانی میں واپس چھوڑ دیا۔
ماہرین کے مطابق پاکستان میں 'گھڑیالوں کے اس قدیم گڑھ' میں یہ معدوم جانور اس سے پہلے 1985ء میں دیکھا گیا تھا۔
یہ ویڈیو سامنے آنے کے بعد فیصل آباد میں پنجاب وائلڈ لائف ریسرچ سنٹر نے ماہرین کی ایک ٹیم کو اس علاقے میں روانہ کیا۔جس نے مچھیرے کو تلاش کر کے اسے شاباش دی اور سرکاری سطح پر اس کی حوصلہ افزائی کا وعدہ کیا۔
ریسرچ سنٹر کی ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر مصباح سرور کہتی ہیں کہ دریا میں جس جگہ یہ گھڑیال پایا گیا وہ علاقہ چار دہائیاں پہلے گھڑیالوں کا گڑھ تھا لیکن سندھ طاس معاہدے کے تحت جب دریائے ستلج بھارت کے حصے میں چلا گیا تو ناسازگار آبی ماحول کے باعث گھڑیال وہاں سے مفقود ہو گئے۔ ان کے مطابق غالب امکان یہی ہے کہ یہ گھڑیال بھارت سے پاکستان کی حدود میں آیا تھا۔
گھڑیال بھارت سے آیا؟
وائلڈ لائف ریسرچ سنٹر کی تحقیقاتی ٹیم کی ایک اور رکن اور لاہور چڑیا گھر کی ڈائریکٹر کرن سلیم رینگنے والے جانوروں پر تحقیق کرتی رہی ہیں۔ جب انہوں نے اس جگہ کا دورہ کیا تو انہیں ریت پر ایک سے زیادہ گھڑیالوں کے پاؤں کے نشان دکھائی دیے۔ ڈاکٹر کرن نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اس علاقے میں گھڑیال کا جوڑا اور اس کے چھ بچے موجود ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ چند سالوں میں انڈیا نے بڑی مقدار میں دریائے ستلج میں پانی چھوڑا ہے اور غالب امکان یہی ہے کہ یہ گھڑیال بھارت سے ہی پاکستان میں آئے ہوں گے۔
گھڑیال صاف اور آلودگی سے پاک پانی میں پایا جاتا ہے اور گنڈا سنگھ والا میں اس کی موجودگی کا مطلب یہ ہے کہ اس علاقے میں دریائی ماحول بہتر ہوا ہے۔
کرن سلیم سمجھتی ہیں کہ یہ صرف گھڑیالوں کی نسل کے لئے ہی نہیں بلکہ پاکستان میں ستلج کے آبی نظام کے حوالے سے بھی اچھی خبر ہے کیونکہ صاف ماحول اور پانی کا بالآ خر انسانوں کو ہی فائدہ پہنچتا ہے۔
گھڑیال کیوں معدوم ہو گئے؟
کرن سلیم کہتی ہیں کہ ابھی حتمی طور پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ گھڑیال کے بچے پاکستانی علاقے میں پیدا ہوئے تھے۔ تاہم موافق ماحول میں گھڑیال کی نسل تیزی سے بڑھتی ہے اور اگر پاکستانی حدود میں ماحول بہتر ہوا ہے تو ممکنہ طور پر یہ بچے بھی یہیں پیدا ہوئے ہوں گے۔
اس علاقے میں گھڑیال کے ناپید ہو جانے کی وجوہات پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر مصباح سرور کہتی ہیں کہ گھڑیال ساٹھ فیصد سے زیادہ آلودہ اور کم گہرے پانی میں نہیں رہ سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ چار دہائیاں قبل جب دریائے ستلج میں پانی بہت کم ہو گیا تو گھڑیال غائب ہو گئے۔
A #gharial is seen first time in #Pakistan in after three decades. It was thought to be #extinct a video is viral about #fisherman getting it rid from net. It’s critically #endangered according to @IUCNssc redlist. @EuroCrocNetwork @crocodiledunphd pic.twitter.com/GoTXMJFXcz
— Bilal Mustafa FLS (@itswildbilal) May 14, 2023
ان کا کہنا ہے کہ دریا کے کناروں کی ریت گھڑیال کو افزائش نسل میں مدد دیتی ہے۔ یہ اپنے انڈے ریت میں دبا دیتے ہیں جہاں سے کچھ عرصہ کے بعد بچے نکل آتے ہیں۔ تعمیراتی کاموں میں اضافے کے باعث ریت کا استعمال بڑھ گیا ہے اور ریت دریاؤں کے کناروں سے ہی نکالی جاتی ہے۔ چنانچہ ستلج کے کناروں پر ریت نکالنے کی سرگرمیوں میں اضافے سے بھی گھڑیالوں کی زندگی متاثر ہوئی۔
کرن سلیم، گھڑیال کے معدوم ہونے کی ایک اور بڑی وجہ اس کے شکار کو قرار دیتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مگر مچھ کا چمڑا کئی طرح کی مصںوعات میں استعمال ہوتا رہا ہے۔ اگرچہ اب پاکستان سمیت دنیا بھر میں تجارتی مقاصد کے لئے کسی بھی قسم کے مگرمچھ کا شکار کرنے پر پابندی ہے لیکن گھڑیال کی نسل کو اس سے جو نقصان پہنچ سکتا تھا وہ پہنچ چکا ہے۔
بھارت میں گھڑیال کیوں معدوم نہیں ہوئے؟
بھارت میں بھی گھڑیال کے معدوم ہونے کی وجوہات وہی رہی ہیں جن کا ذکر کرن سلیم نے کیا۔ البتہ بھارت نے 70 کی دہائی میں اسے نہ صرف ان جانوروں کی فہرست میں شامل کیا جن کی نسل کی بقا شدید خطرات سے دوچار ہوتی ہے بلکہ اس کی بحالی کے لیے کوششیں بھی کیں۔
ان کوششوں میں سرفہرست چمبل کے نیشنل پارک کا قیام ہے۔ ساڑھے پانچ ہزار مربع کلومیٹر پر محیط جنگلی حیات کی یہ محفوظ پناہ گاہ بھارت کی تین ریاستوں – راجستھان، مدھیہ پردیش اور اترپردیش ۔ کے سنگم پر واقع ہے۔
گھڑیال کو بھی یہیں امان ملی اور اس کی نسل معدوم ہونے سے بچ گئی۔
بھارتی پنجاب کی حکومت نے دریائی حیات کی بحالی کے ایک پروگرام کے تحت چمبل میں پلنے والے 94 گھڑیالوں کو 2017ء سے 2021ء کے درمیان دریائے بیاس میں امرتسر، ترن تارن اور ہوشیارپور کے مقامات پر چھوڑا۔
گیتانجلی کنور بھارت میں ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ کی اعلیٰ افسر ہیں۔ وہ پنجاب کے اس پروگرام میں شامل تھیں۔ انہوں نے ماحولیات پر کام کرنے والی بھارتی ویب سائٹ ڈاؤن ٹو ارتھ کو بتایا: "ہمارے خیال میں بیاس میں چھوڑے گئے کچھ گھڑیال ہریکے کے راستے ستلج میں چلے گئے ہوں گے جہاں سے کسی ذیلی راستے سے وہ پاکستان جا پہنچے۔ ہریکے سے نیچے دریائے ستلج بل کھاتا ہوا آگے بڑھتا ہے۔"
انہوں نے بتایا کہ گھڑیال پانی کے بہاؤ کے ساتھ ڈھلوان کی سمت تیرنا پسند کرتا ہے اور نوجوان گھڑیال اس میں پیش پیش ہوتے ہیں۔
گھڑیال انسان کا دشمن نہیں
تحفظ جنگلی حیات کے لئے کام کرنے والی تنظیم ہمالین وائلڈ لائف فاؤنڈیشن کے رکن ڈاکٹر انیس الرحمان کا ماننا ہے کہ سرحدی علاقے میں گھڑیال کی موجودگی اس بات کا اشارہ ہے کہ سرحد پار گھڑیال کی نسل بڑھانے کا منصوبہ کامیاب رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں
رزق کا فقدان یا شکاریوں کا خوف: مہاجر پرندہ سیاہ سر دُرسہ ایک سال سے آواران کا مہمان نہیں بنا
انیس الرحمان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں جس جگہ یہ گھڑیال دیکھا گیا ہے وہاں انسانی سرگرمیاں بہت کم ہوتی ہیں اس لئے ایسی جگہ پر گھڑیال کی نسل کو بڑھانے کے اقدامات کئے جانے چاہئیں اور اس سلسلے میں ایک بڑے رقبے کو وائلڈ لائف سینکچوری قرار دینا ضروری ہے جس کے لئے ورلڈ وائلڈلائف فنڈ (ڈبلیو ڈبلیو ایف) کی مدد بھی لی جا سکتی ہے۔
اس کے علاوہ مقامی لوگوں بالخصوص مچھیروں کو سمجھانا ہوگا کہ یہ انسان دشمن جانور نہیں بلکہ یہ تو انسانوں سے ڈرتا اور شرماتا ہے۔ اس لئے اسے غیر ضروری طور پر ہلاک کرنے کے بجائے پانی میں ڈال دینا بہتر ہے۔ تاہم کوئی اس پر حملہ کر دے تو یہ جوابی حملہ بھی کر سکتا ہے۔
انیس الرحمان یہ تجویز بھی دیتے ہیں کہ اس علاقے میں مچھلی کے شکار پر بھی پابندی ہونی چاہئیے۔ جب پانی میں مچھلی کی مقدار زیادہ ہو گی تو آبی آلودگی ختم ہو جائے گی اور ماحولیاتی نظام کی بحالی میں مدد ملے گی۔
ریسرچ سنٹر کی مصباح سرور تجویز کرتی ہیں کہ گنڈا سنگھ والا سے لے کر ہیڈ سلیمانکی تک دریائے ستلج کو وائلڈ لائف سنگچوری قررا دے دیا جانا چاہیے۔ ان کے خیال میں اگر وہاں انسانی مداخلت کم سے کم ہو تو گھڑیال کی نسل دوبارہ بڑھ سکتی ہے۔
تاریخ اشاعت 31 مئی 2023