الائیڈ ہیلتھ سائنسز میں طلباء و طالبات کے داخلوں کی شرح کیوں بڑھ رہی ہے؟

postImg

وسیم خٹک

postImg

الائیڈ ہیلتھ سائنسز میں طلباء و طالبات کے داخلوں کی شرح کیوں بڑھ رہی ہے؟

وسیم خٹک

عائشہ ایمن، ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر کرک کی رہائشی ہیں جنہوں نے حال ہی میں بی فارمیسی ٹیکنیشن (بی کیٹگری کا دو سالہ ڈپلومہ) کورس میں داخلہ لیا ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ ان کے والد چاہتے تھے کہ ان کی بیٹی میڈیکل کے کسی شعبے میں داخلہ لے لیکن مالی مشکلات کے باعث وہ میڈیکل کالج کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے۔

ان کے والد نے انہیں کرک ہی کے الائیڈ ہیلتھ سائنسز کالج میں داخل کرانے کا فیصلہ کیا اور انہوں نے بھی اس پر عمل کرنا بہتر سمجھا۔

 "آج کے دور میں سرکاری نوکریاں سفارش کے بغیر نہیں ملتیں اس لیے ہم نے اپنے وسائل کے مطابق اپنی روزی کمانے کا راستہ تلاش کیا ہے۔ والد کی خواہش ہے کہ میں یہ ڈگری حاصل کر کے ایک چھوٹی سی فارمیسی کھول لوں اور عزت سے دو وقت کی روٹی کماؤں۔ بابا بھی فارمیسی کھولنے میں میری ہر ممکن مدد کریں گے۔"

محمد اسحاق کا تعلق ضلع اورکزئی ایجنسی سے ہےجو خیبر میڈیکل یونیورسٹی کے صوابی کیپمس میں نرسنگ کے طالب علم ہیں۔ انہوں نے بچپن سے ڈاکٹر بننے کا خواب دیکھا تھا۔

وہ بتاتے ہیں کہ ان کے علاقے میں ہسپتالوں کی حالت انتہائی خراب ہے اور مریضوں کو کافی تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ ڈاکٹر بن کر اپنے لوگوں کی خدمت کرنا چاہتے تھے لیکن بدقسمتی سے میڈیکل کالج میں داخلہ لینے میں ناکام رہے جس کے بعد انہوں نے نرسنگ کا فیصلہ کیا۔

محمد اسحاق نے تعلیم کے ساتھ خون عطیہ کرنے والا ( بلڈ ڈونیشن) ایک ادارہ بھی جوائن کر لیا ہے جو تھیلیسمیا کے مریضوں یا دیگر مریضوں کے لیے خیبر پختونخوا کے تمام اضلاع میں کام کر رہا ہے۔

خیبر پختونخوا میں گزشتہ تین سال کے دوران الائیڈ ہیلتھ سائنسز کے کالجوں میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے جہاں صوبہ بھر میں پرائیویٹ کالجز نے بی ایڈ، منیجمنٹ سائنسز، سپورٹس سائنسز کے مضامین چھوڑ کر الائیڈ ہیلتھ سائنسز میں داخلے شروع کردیے ہیں۔ یہاں تک کہ کالجوں کے نام بھی تبدیل کر لیے ہیں۔

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک نجی کالج کے سربراہ کا کہنا تھا کہ لوگ سادہ بی ایس، ایم ایس یا ایم فل کرنے کے بعد بھی بے روزگار پھر رہے ہیں۔ کو ئی ایسی تعلیم تو ہو جس سے کم از کم آدمی روزی روٹی ہی کما لے۔

ورلڈ بینک  کے ذرائع کے مطابق پاکستان میں بے روزگاری کی شرح 2022ء میں 5.60 فیصد تھی جو 2023ء میں بڑھ کر 5.70 فیصد ہوگئی۔ 1986ء سے 2023ء تک ملک میں بیروزگاری کی شرح اوسطاً 5.71 فیصد رہی ہے۔

اقتصادی سروے  آف پاکستان 24-2023ء میں بتایا گیا کہ ملک میں تین سال سے لیبر فورس سروے نہیں کیا گیا۔ آخری سروے 21-2020ء میں ہوا تھا جس کے مطابق پاکستان میں مجموعی لیبر فورس لگ بھگ سات کروڑ 18 لاکھ ہے جس میں سے چھ کروڑ 72 لاکھ لوگ برسرروزگار اور 45 لاکھ سے زائد بیروزگار ہیں۔

یعنی ملک میں بیروزگاری کی مجموعی شرح 6.3 ہے۔

تاہم عالمی مالیاتی فنڈ  ( آئی ایم ایف) نے 2023ء کے اختتام میں پاکستان میں بیروزگاری کی شرح کا تخمینہ 8.5 فیصد لگایا تھا جس کے مطابق اب یہ شرح آٹھ فیصد ہو چکی ہے۔

جبکہ انٹر نیشنل لیبر آرگنائزیشن  (آئی ایل او) کی ستمبر 2023 کی رپورٹ کے مطابق  پاکستان میں بے روزگار افراد ( جو فعال طور پر کام کی تلاش میں ہیں) کی تعداد 56 لاکھ تک ہونے کا امکان تھا اور یہ ڈیٹا آئی ایم ایف کے تخمینے سے ملتا ہے۔

"خواتین میں بے روزگاری کی شرح بلند ترین سطح پر، مردوں سے ڈیڑھ گنا زیادہ یعنی 11.1 فی صد تک ہو سکتی ہے۔"

اقتصادی سروے رپورٹ کے مطابق پاکستان میں پچھلی کئی دہائیوں سے روزگار کی نوعیت تبدیل ہو چکی ہے۔ زرعی شعبہ جو کسی زمانے میں سب سے زیادہ لوگوں کو روزگار دیا کرتا تھا ٹیکنالوجی کے فروغ ( ٹیکنالوجیکل ٹرانسفارمیشن) کے بعد بہت پیچھے چلا (روزگار میں حصہ تقریباً 37فیصد) گیا ہے جبکہ سروسز کے شعبے نے تیزی سے ترقی کی ہے۔

یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ اگرچہ آئین ہر شہری کو تعلیم و صحت کی سہولیات کی فراہمی کی ضمانت دیتا ہے تاہم پاکستان میں ان دونوں  شعبوں کو بھی سروسز سیکٹر میں شمار کیا جاتا ہے۔

عالمی اعدادو شمار پر نظر رکھنے والی بین الاقوامی ویب سائٹ سٹیٹسٹا بتاتی ہے کہ پاکستانی نوجوانوں کی بے روزگاری کی شرح میں  2022ء کے مقابلے میں 2023ء میں بھی کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی اور یہ 9.65 فیصد کے قریب رہی ہے۔

یہ ویب سائٹ واضح کرتی ہے کہ نوجوانوں کی بے روزگاری کی شرح سے مراد 15 سے 24 سال کی عمر کی کل افرادی قوت کا وہ حصہ ہے جو اس وقت کام کے بغیر ہے اور روزگار کی تلاش میں ہے۔ اس میں معاشی طور پر غیر فعال افراد جیسے کل وقتی طلباء یا طویل مدتی بے روزگار افراد شامل نہیں ہیں۔

اقتصادی سروے رپورٹ تصدیق کرتی ہے کہ ملک میں سب سے زیادہ بیروزگاری 15 سے 24 سال تک کے نوجوانوں میں ہے جس کی شرح 11 فیصد سے زائد ہے۔ ان میں لگ بھگ 10 فیصد لڑکے اور ساڑھے 14 فیصد لڑکیاں شامل ہیں۔

"بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ  اور اوورسیز ایمپلائمنٹ کارپوریشن نے 2023ءکے دوران بیرون ملک ملازمت کے لیے جانے والے آٹھ لاکھ 62 ہزار 625 افراد کو رجسٹر کیا جبکہ 2022ء میں آٹھ لاکھ 32 ہزار339 پاکستانی روزگار کے لیے بیرون ملک گئے تھے یعنی باہر جانے والوں میں مجموعی طور پر چار فیصد اضافے کا رجحان دیکھا گیا۔"

ان دو سال میں جانے والوں کا ہنر یا مہارت کے لحاظ سے تقابلی تجزیہ کیا جائے تو 2022 ء کے 20 ہزار 865 کے مقابلے میں 2023 میں 45 ہزار 687 انتہائی ہنر مند (ہائیلی سکلڈ) افراد بیرون ملک روانہ ہوئے۔

"بیرون ملک جانے والے ہائی کوالیفائیڈ اور نیم ہنرمند (سیمی سکلڈ) افراد کی شرح میں بالترتیب 26.6 فیصد اور اور 2.28 فیصد اضافہ ہوا جبکہ غیر ہنرمند افراد کی تعداد بھی8.7 فیصد بڑھی۔ تاہم مجموعی طور پر بیرون ملک رجسٹرڈ ہنر مند کارکنوں کی تعداد تقریباً 33 ہزار  کے قریب کم ہو گئی۔ کیونکہ بین الاقوامی ضرویات کو پورا کرنے کے لیے عالمی معیارات پر پورا اترنا وقت کی ضرورت ہے۔"

سرکاری ریکارڈ کے مطابق خیبر میڈیکل یونیورسٹی نے پچھلے دو سال کے دوران صوبہ بھر میں الائیڈ ہیلتھ سائنسز کے 166اداروں (انسٹی ٹیوٹس) کی الحاق (ایفیلیششن) دیا ہے۔

ان میں نرسنگ پوسٹ آر این، ڈاکٹر آف فزیکل تھراپی، میڈیکل لیب ٹیکنالوجی (ایم ایل ٹی)، ڈینٹل ٹیکنالوجی، ریڈیالوجی، سپیچ اینڈ لینگویج تھراپی، سرجیکل ٹیکنالوجی، ایمرجنسی ٹیکنالوجی، انیستھیزیا، پبلک ہیلتھ، ویژن سائنسز، رینل ڈائلیسز، ہیلتھ ٹیکنالوجی، ڈی پی ٹی، بی پروستھیٹک اینڈ آرتھوٹیکس ودیگر کے بی ایس کے پروگرام شامل ہیں۔

ان اداروں میں ایک اور دو سالہ ڈپلومہ کورسز کے علاوہ پانچ سالہ بی ایچ ایم ایس(بیچلر آف ہومیو میڈیکل سائنس) بھی ہیں۔ خیبر میڈیکل یونیورسٹی نے 16 سرکاری تعلیمی اداروں کو رجسٹریشن دی ہے جو بی ایس کے مختلف پروگرام آفر کرتے ہیں۔

 صوبے کی دو خواتین جامعات، ویمن یونیورسٹی صوابی اور سرحد یونیورسٹی پشاور نے بھی الائیڈ ہیلتھ سائنسز کے لیے مکمل فیکلٹیز بنائی ہیں جہاں بی ایس اور ایم ایس پروگرامز میں داخلے کیے جا رہے ہیں۔

 یونیورسٹیوں میں چونکہ سٹیچیوٹری باڈی ( ضوابط بنانے والا ادارہ) ہوتی ہے اس لیے انہیں خیبر میڈیکل یونیورسٹی سے رجسٹریشن کی ضرورت نہیں ہوتی۔

ان جامعات میں ایم ایل ٹی، ڈائیگناسٹک میڈیکل سونوگرافی، پبلک ہیلتھ، بائیو انفارمیٹکس سمیت دیگر شعبہ جات شامل ہیں جہاں طلباء و طالبات کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے۔

اس حوالے سے خیبر میڈیکل یونیورسٹی کے رجسٹرار انعام اللہ وزیر بتاتے ہیں کہ میڈیکل کالجوں میں داخلہ لینے کے لیے ہر سال 50 ہزار سے زیادہ امیدوار ہوتے ہیں جن میں صرف تین ہزار کے قریب کامیاب ہوتے ہیں۔

"ان تین ہزار میں سے ایک ہزار 700 طلباء و طالبات سرکاری میڈیکل کالجوں میں داخلہ لے لیتے ہیں، باقی ایک ہزار 300 پرائیویٹ میڈیکل کالجوں میں جاتے ہیں۔"

وہ کہتے ہیں کہ میڈیکل کالجوں میں داخلہ حاصل نہ کر پانے والے امیدواروں کی اکثریت الائیڈ ہیلتھ سائنسز کا رخ کرتی ہے جن میں فزیو تھراپی، ایم ایل ٹی، ڈینٹل ٹیکنالوجی، ریڈیالوجی، سپیچ اینڈ لینگویج تھراپی، سرجیکل، ایمرجنسی ٹیکنالوجی، انیستھیزیا، پبلک ہیلتھ، ویژن سائنسز، ڈائلیسز و دیگر شعبہ جات شامل ہیں۔

وہ تصدیق کرتے ہیں کہ خیبر میڈیکل یونیورسٹی نے 16 سرکاری اداروں سمیت 166 ایسے اداروں کو رجسٹریشن دی ہے جو الائیڈ ہیلتھ سائنسز میں ڈگریاں دے رہے ہیں۔ خیبر میڈیکل یونیورسٹی کا کام ان اداروں کے بہتر معیار کو یقینی بنانا اور ان کی رہنمائی کرنا ہے۔

بیورو آف امیگریشن ایڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ  کے مطابق رواں سال جولائی تک تین لاکھ 90 ہزار 119 رجسٹرڈ پاکستانی کارکن باہر جا چکے ہیں جن میں سے 95 ہزار 551 کا تعلق صوبہ خیبر پختونخوا سے ہے، قبائلی اضلاع کے 15 ہزار سے زائد لوگ اس کے علاوہ ہیں۔

یہ اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ بیورو میں کل ایک کروڑ 31 لاکھ سے زائد پاکستانی اوورسیز رجسٹر ہیں جن میں سے قبائلی اضلاع کے چھ لاکھ 52 ہزار افراد کے علاوہ تقریباً 33 لاکھ 56 ہزار لوگ خیبر پختونخوا کے رہائشی ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ بیروزگاری پر قابو پانے اور افرادی قوت کی عالمی مارکیٹ کی ضروریات پوری کرنے کے لیے تعلیمی رحجانات میں تبدیلیاں نظر آ رہی ہیں۔

گیریژن کالج آف الائیڈ ہیلتھ سائنسز کے سربراہ ڈاکٹر حضرت اللہ خٹک اتفاق کرتے ہیں کہ الائیڈ ہیلتھ سائنسز کی بڑھتی مقبولیت کا ایک اہم سبب پاکستان میں بے روزگاری کا مسئلہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

صوابی کی دونوں سرکاری یونیورسٹیوں میں ماس کمونیکیشن کے شعبے کیوں بند ہو گئے؟

"ہم پہلے ایف ایس سی، بی ایڈ اور سپورٹس سائنسز پڑھاتے تھے اور کالج کا نام ' گیریژن کالج آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی' تھا مگر کالج میں داخلے نہ ہونے کے برابر تھے۔ پھر ہم نے اس کا نام 'گیریژن کالج آف الائیڈ ہیلتھ سائنسز' رکھا اور انہی مضامین میں داخلے دے لے رہے ہیں۔"

حضرت اللہ کے مطابق لوگ تعلیم اس لیےحاصل کرتے ہیں تاکہ روزگار حاصل کر سکیں۔ اب الائیڈ ہیلتھ سائنسز کے فارغ التحصیل طلباء بے روزگار نہیں بیٹھیں گے۔ کچھ شعبوں (ڈپلوما کورسز) میں میٹرک کی بنیاد پر بھی داخلہ مل جاتا ہے اس لیے بھی لوگ الائیڈ سائنسز میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔

"فارمیسی کیٹگری بی سے نوجوان اپنا میڈیکل سٹور کھول سکتے ہیں۔ نرسز کی پاکستان میں بہت کمی ہے اس شعبے کی طرف رجحان میں اضافہ ہوا ہے جنہیں سرکاری اور پرائیویٹ ہسپتالوں میں آسانی سے16 سکیل کی ملازمت مل سکتی ہے۔"

ڈاکٹر حضرت اللہ خٹک کا کہنا ہے کہ الائیڈ ہیلتھ سائنسز کے پروگرام اب مارکیٹ کی ڈیمانڈ ہیں یہ طلباء کو یقینی روزگار فراہم کرتے ہیں اور ان کی تعلیم اور مہارتیں بازار کی ضروریات کے مطابق ہیں۔

سرحد یونیورسٹی پشاور کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر سلیم الرحمان بتاتے ہیں کہ ان کی جامعہ نے الائیڈ ہیلتھ سائنسز کے جو پروگرام متعارف کرائے ہیں ان کے لیے طلبہ و طالبات کو جدید ترین لیبز اور فیکلٹی کی خدمات فراہم کی جاتی ہیں، تاکہ وہ بہترین پروفیشنلز بن سکیں۔

ویمن یونیورسٹی صوابی کی داخلہ انچارج رئیسہ بانو بتاتی ہیں کہ اب زیادہ تر طالبات الائیڈ ہیلتھ سائنسز کے شعبہ ڈائیگناسٹک میڈیکل سونوگرافی، پبلک ہیلتھ، ہیلتھ انفارمیٹکس، فوڈ سائنسز اینڈ نیوٹریشن کی طرف آ رہی ہیں۔ ان شعبوں میں داخلے کی شرح دیگر مضامین کی نسبت بڑھ گئی ہے۔

تاریخ اشاعت 27 اگست 2024

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

وسیم خٹک صحافی اور مصنف ہیں۔ صحافت کا دس سالہ تجربہ رکھتے ہیں اور ویمن یونیورسٹی صوابی میں شعبہ صحافت کے سربراہ ہیں۔

thumb
سٹوری

کھانا بنانے اور پانی گرم کرنے کے لیے بجلی کے چولہے و گیزر کی خریداری کیوں بڑھ رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود

پنجاب: حکومتی سکیمیں اور گندم کی کاشت؟

thumb
سٹوری

ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک کے کاشتکار ہزاروں ایکڑ گندم کاشت نہیں کر پا رہے۔ آخر ہوا کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمحمد زعفران میانی

سموگ: ایک سانس ہی ہم پر حرام ہو گئی

thumb
سٹوری

خیبر پختونخوا میں ایڈز کے مریض کیوں بڑھ رہے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

نئی نہریں نکالنے کے منصوبے کے خلاف سندھ میں احتجاج اور مظاہرے کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار
thumb
سٹوری

پنجاب: محکمہ تعلیم میں 'تنظیم نو' کے نام پر سکولوں کو'آؤٹ سورس' کرنے کی پالیسی، نتائج کیا ہوں گے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد

برف کے پہاڑؤں پر موت کا بسیرا ہے، مگر بچے بھی پالنے ہیں

thumb
سٹوری

سموگ: یہ دھواں کہاں سے اٹھتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceآصف ری ، عبدالل

پرانی کیسٹس،ٹیپ ریکارڈ یا فلمی ڈسک ہم سب خرید لیتے ہیں

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

thumb
سٹوری

سوات میں غیرت کے نام پر قتل کے روز بروز بڑھتے واقعات، آخر وجہ کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوقار احمد
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.