فیصل آباد میں غیرقانونی پارکنگ سٹینڈ: 'کوئی سرکاری محکمہ اس کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے تیار نہیں'۔

postImg

نعیم احمد

postImg

فیصل آباد میں غیرقانونی پارکنگ سٹینڈ: 'کوئی سرکاری محکمہ اس کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے تیار نہیں'۔

نعیم احمد

ایک نِجی تعمیراتی کمپنی کے ملازم عبدالمنان چند ہفتے پہلے کسی کام کے سلسلے میں فیصل آباد کے ریل بازار میں گئے تو انہیں اپنی کار ایک ایسے پارکنگ سٹینڈ میں کھڑی کرنا پڑی جو ضلع کچہری سے تقریباً پانچ سو میٹر دور ہے۔ لیکن جب انہوں نے وہاں متعین ملازم سے پارکنگ کی رسید طلب کی تو انہیں جواب ملا کہ "آپ کو اس کی ضرورت نہیں۔ آپ کی گاڑی یہاں محفوظ رہے گی"۔ 

اپنا کام مکمل کرنے کے بعد جب وہ واپس آئے تو اُس ملازم نے ان سے سو روپے طلب کیے۔ انہوں نے پہلے تو احتجاج کیا کہ کہ یہ رقم بہت زیادہ ہے تاہم بعد میں وہ اس شرط پر پیسے دینے پر رضامند ہو گئے کہ انہیں اُن کی وصولی کی باقاعدہ رسید دی جائے۔ دوسری طرف پارکنگ سٹینڈ کے ملازم کا کہنا تھا کہ وہ رقم تو ضرور وصول کرے گا لیکن رسید کبھی جاری نہیں کرے گا۔

جب عبدالمنان نے رسید کے بغیر ادائیگی کرنے سے انکار کیا تو اس نے ان کی کار کے پیچھے ایک اور کار کھڑی کر کے ان کا راستہ بند کر دیا۔ اس رویے سے تنگ آ کر انہوں نے مقامی اسسٹنٹ کمشنر کے دفتر میں فون کیا تاکہ اس کے خلاف شکایت درج کرا سکیں۔ جواباً انہیں کہا گیا کہ وہ 2015 میں بنائے گئے سرکاری ادارے، فیصل آباد پارکنگ کمپنی، سے رابطہ کریں جس کا عملہ مقامی ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں بیٹھتا ہے۔

اس عملے نے انہیں فون پر بتایا کہ کہ وہ 40 روپے سے زیادہ پیسے ادا نہ کریں کیونکہ سارے شہر میں ایک کار کی پارکنگ فیس یہی مقرر کی گئی ہے۔ اس کے باوجود بھی ملازم کا اصرار تھا کہ انہیں سو روپے ہی دینا ہوں گے کیونکہ، اس کے مطابق، "اس پارکنگ سٹینڈ کا انتظام فیصل آباد پارکنگ کمپنی کے پاس نہیں بلکہ (مقامی وکیلوں کی انجمن) فیصل آباد ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے پاس ہے اس لیے اس کے ریٹ باقی شہر سے مختلف ہیں"۔    

اس کا اصرار اس قدر بڑھا کہ عبدالمنان بالآخر مقامی پولیس سے رجوع کرنے پر مجبور ہو گئے جس نے اپنے اہل کار بھیج کر انہیں پارکنگ سٹینڈ سے کار نکالنے میں مدد دی۔  

حماد احمد نامی ایک مقامی صحافی نے بھی 2020 میں ایک درخواست کے ذریعے وزیرِاعظم کے سٹیزنز پورٹل کو اس پارکنگ سٹینڈ کے بارے میں آگاہ کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کا عملہ "ہمیشہ یہی کہتا ہے کہ بار ایسوسی ایشن یہاں سے وصول کی جانے والی فیس  کے حوالے سے ضلعی انتظامیہ کو جوابدہ نہیں"۔

ان کی شکایت کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ بار ایسوسی ایشن کو پارکنگ سٹینڈ چلانے کا کوئی اختیار نہیں لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ وہ اسے پارکنگ فیس کی وصولی سے روکے۔ لیکن دو سال گزرنے کے بعد اور کئی سرکاری دفتروں میں گردش کرنے کے باوجود ابھی تک ان کی درخواست پر کوئی عمل درآمد نہیں ہوا۔

ان کے مطابق سٹیزنز پورٹل نے ان کی شکایت ڈپٹی کمشنر فیصل آباد کو بھیجی جس نے اسے فیصل آباد پارکنگ کمپنی کو بھیج دیا۔ تاہم اس کمپنی کے اس وقت کے مینیجنگ ڈائریکٹر عامر ذیشان کا کہنا تھا کہ وہ اس پارکنگ سٹینڈ کے خلاف کوئی عملی اقدام نہیں اٹھا سکتے کیونکہ، ان کے مطابق، ایسا کرنا میونسپل کارپوریشن فیصل آباد اور مقامی اسسٹنٹ کمشنر کی ذمہ داری ہے۔ 

دوسری طرف میونسپل کارپوریشن فیصل آباد کے چیف آفیسر چوہدری زبیر حسین کا اب بھی اصرار ہے کہ یہ اُن کے ادارے کا کام نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ اختیار فیصل آباد پارکنگ کمپنی کے پاس ہی ہے کیونکہ، ان کے بقول، اس کے بنانے کا مقصد ہی یہ تھا کہ وہ "شہر میں بنے ہوئے تمام پارکنگ سٹینڈ چلائے اور اگر کہیں کوئی غیر قانونی پارکنگ سٹینڈ بن جائے تو اسے ختم کرے"۔ 

اسی طرح اگرچہ اسسٹنٹ کمشنر سٹی صاحبزادہ محمد یوسف مانتے ہیں کہ ضلع کچہری کے ارد گرد بنایا گیا پارکنگ سٹینڈ غیر قانونی ہے لیکن وہ اسے ختم کرنے کی ہامی نہیں بھرتے کیونکہ، ان کے مطابق، انہیں اس کے خلاف "کارروائی کرنے کے لیے اپنے سینئر افسروں کے احکامات کی ضرورت ہے"۔

حماد احمد نے اپنی درخواست میں مقامی ٹریفک پولیس کو بھی فریق بنایا گیا تھا جس نے اپنے جواب میں محض پارکنگ سٹینڈ کی موجودگی کی تصدیق کرنے پر ہی اکتفا کیا۔ فیصل آباد کے چیف ٹریفک آفیسر تنویر احمد ملک درحقیقت اس معاملے میں خود کو بالکل بے بس محسوس کرتے ہیں حالانکہ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ شہر کی سڑکوں پر موجود تجاوزات یا غیر قانونی پارکنگ سٹینڈ ختم کرنا ان کے دائرہِ اختیار میں شامل ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ "جب تک ضلعی انتظامیہ اس پارکنگ سٹینڈ کو غیر قانونی قرار نہیں دیتی اس وقت تک ہم اس معاملے میں کچھ نہیں کر سکتے"۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ اس طرح کے غیر تسلی بخش جوابات وصول کرنے کے باوجود سٹیزنز پورٹل پر لکھ دیا گیا کہ حماد احمد کا مسئلہ حل ہو گیا ہے۔ اس لیے جب انہوں نے اس پورٹل کو دوبارہ پارکنگ سٹینڈ کے خلاف درخواست بھیجی تو انہیں ڈپٹی کمشنر کے دفتر سے فون کر کے کہا گیا کہ "آپ غیر قانونی مواد پر مشتمل شکایات بھیجنے سے گریز کریں ورنہ سٹیزنز پورٹل پر آپ کی رجسٹریشن معطل کر دی جائے گی"۔

وکلا راج؟

ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن نے رواں سال جنوری میں پارکنگ سٹینڈ سے فیس کی وصولی کا ٹھیکہ دینے کے لیے اخبار میں اشتہار دیا۔ اس اشتہار کی اشاعت کے بعد فیصل آباد پارکنگ کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے رکن رانا فیاض احمد نے ضلعی انتظامیہ کو کہا کہ اس نیلامی کو روکا جائے کیونکہ یہ غیر قانونی ہے۔ ان کا موقف تھا کہ قانون صرف ان کی کمپنی کو ایسا ٹھیکہ دینے کی اجازت دیتا ہے۔ 

لیکن، ان کے مطابق، انتظامیہ نے ان کی بات پر کوئی توجہ نہ دی۔ 

ان کا کہنا ہے کہ "فیصل آباد پارکنگ کمپنی کو اس غیرقانونی ٹھیکے کے خلاف بہت سی عوامی شکایات بھی موصول ہوئیں"۔ اس لیے نیلامی کا عمل مکمل ہونے کے بعد انہوں نے یہ معاملہ اپنی کمپنی کے اجلاس میں بھی اٹھایا تاہم وہ کہتے ہیں کہ "بورڈ کے باقی ارکان اس پر خاموش رہے"۔

ان کے بقول اس خاموشی کی وجہ وکلا کا خوف ہے جس کے باعث "کوئی سرکاری محکمہ اس غیرقانونی پارکنگ سٹینڈ کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے تیار نہیں"۔

اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک سینئر مقامی وکیل بھی کہتے ہیں کہ پارکنگ سٹینڈ کی موجودگی نہ صرف شہر کا انتظام چلانے کے لیے بنائے گئے قوانین کی خلاف ورزی ہے بلکہ یہ لیگل پریکٹیشنرز اینڈ بار کونسلز ایکٹ 1973 کے تحت بھی خلافِ قانون ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس ایکٹ کے تحت بار ایسوسی ایشن اپنے ارکان سے رکنیت فیس لینے اور وکلا کی بہبود کے لیے عطیات وصول کرنے کے علاوہ کوئی کاروباری سرگرمی نہیں کر سکتی۔ ان کے مطابق "یہ قانون بار ایسوسی ایشن کو پارکنگ سٹینڈ کا ٹھیکہ دینے یا اس کا انتظام چلانے کی ہرگز اجازت نہیں دیتا بلکہ اس کے مطابق تو اسے اپنی کینٹین کا ٹھیکہ دینے کا بھی اختیار نہیں"۔ 

ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن فیصل آباد کے دفتر میں کام کرنے والے سپرنٹنڈنٹ محمد شاہد تسلیم کرتے ہیں کہ ان کے ادارے کے پاس پارکنگ سٹینڈ کا انتظام چلانے کے لیے کوئی سرکاری اجازت نامہ موجود نہیں۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ "2019 میں ایسوسی ایشن کے اس وقت کے سیکرٹری روہیل ظفر کینتھ نے اس وقت کے ڈپٹی کمشنر سلمان غنی کو زبانی درخواست کی تھی کہ اس پارکنگ سٹینڈ سے حاصل ہونے والی رقم ایسوسی ایشن کو دی جائے تاکہ وہ اسے وکلا کی بہبود پر خرچ کر سکے"۔ محمد شاہد کے بقول "ڈپٹی کمشنر نے اس درخواست کو زبانی طور پر قبول کر لیا تھا"۔

اگرچہ وہ اس بات سے لاعلمی ظاہر کرتے ہیں کہ پارکنگ فیس کون اور کس حساب سے متعین کرتا ہے لیکن ان کا کہنا ہے کہ اس سے ہونے والی سالانہ آمدنی ایک کروڑ روپے کے لگ بھگ ہے "جس میں سے ہر سال 30 سے 35 وکلا کو ایک لاکھ سے دو لاکھ روپے فی کس امداد دی جاتی ہے"۔  

ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن فیصل آباد کے جنرل سیکرٹری یاسر حیات چٹھہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ پارکنگ فیس مقرر کرنے کے طریقہِ کار سے واقف نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ایسوسی ایشن کے عہدے داروں کا اس معاملے میں کوئی عمل دخل نہیں کیونکہ "فیس مقرر کرنے کا اختیار صرف پارکنگ سٹینڈ کے ٹھیکے دار کے پاس ہے"۔

تاریخ اشاعت 27 مئی 2022

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

نعیم احمد فیصل آباد میں مقیم ہیں اور سُجاگ کی ضلعی رپورٹنگ ٹیم کے رکن ہیں۔ انہوں نے ماس کمیونیکیشن میں ایم ایس سی کیا ہے اور ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں۔

"بلاسفیمی بزنس": پولیس کی تحقیقاتی رپورٹ

thumb
سٹوری

ضلع تھرپارکر خودکشیوں کا دیس کیوں بنتا جا رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

معلومات تک رسائی کا قانون بے اثر کیوں ہو رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد

ریاست خاموش ہے.....

وہ عاشق رسولﷺ تھا مگر اسے توہین مذہب کے الزام میں جلا دیا

وزیراعلیٰ پنجاب کے مسیحی ووٹرز سہولیات کے منتظر

thumb
سٹوری

پانی کی قلت سے دوچار جنوبی پنجاب میں چاول کی کاشت کیوں بڑھ رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceآصف ریاض

سندھ، عمرکوٹ: ایک طرف ہجوم کی شدت پسندی، دوسری طرف مانجھی فقیر کا صوفیانہ کلام

جامشورو پار پلانٹ: ترقیاتی منصوبوں کے سہانے خواب، مقامی لوگوں کے لیے خوفناک تعبیر

سندھ: وزیر اعلیٰ کے اپنے حلقے میں کالج نہیں تو پورے سندھ کا کیا حال ہو گا؟

thumb
سٹوری

لاہور کی چاولہ فیکٹری کے مزدوروں کے ساتھ کیا ہوا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceکلیم اللہ
thumb
سٹوری

جامشورو تھرمل پاور سٹیشن زرعی زمینیں نگل گیا، "کول پاور پراجیکٹ لگا کر سانس لینے کا حق نہ چھینا جائے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.