یونان کے قریب سمندر میں تارکین وطن کی کشتی ڈوبنے کے المناک حادثہ کو چند ہفتے ہی گزرے ہیں لیکن یوں لگتا ہے کہ لوگوں نے اس واقعے سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور اب بھی بہت سے نوجوان اسی راستے سے یورپ کی جانب غیرقانونی سفر کے لیے تیار ہیں۔
چودہ جون کو پیش آنے والے اس حادثے میں 600 سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے جن میں نصف سے زیادہ تعداد پاکستانیوں کی تھی۔
حادثے میں صرف 82 لوگ زندہ بچ پائے جن میں 12 پاکستانی ہیں۔
گجرات سے 12 کلومیٹر فاصلے پر واقع گاؤں ٹاہلی صاحب کے چند نوجوان بھی اسی کشتی میں سوار تھے جن میں 14 سالہ ابوذر اور ان کے ماموں شہریار کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے۔ لیکن اسی گاؤں سے مزید تین نوجوان مبینہ طور پر اسی ایجنٹ کے ذریعے اٹلی جانے کے لیے روانہ ہو چکے ہیں جس نے ابوذر اور شہریار کو مستقبل کے سنہرے خواب دکھا کر لیبیا اور وہاں سے سمندری راستے سے یورپ پہنچانے کا وعدہ کیا تھا۔
گاؤں کے بیشتر لوگ ان تینوں نوجوانوں کے اس سفر سے آگاہ ہیں لیکن وہ اس بارے میں زیادہ بات نہیں کرتے۔
ٹاہلی صاحب میں کریانہ سٹور چلانے والے اللہ دتہ کا کہنا ہے کہ وہ اور اہل علاقہ دعا کرتے ہیں کہ یہ نوجوان اپنی منزل پر پہنچ جائیں تاکہ ان کے گھروں کے حالات بہتر ہو سکیں۔
"گاؤں کے کئی لڑکے ایجنٹوں کے ذریعے یورپ پہنچ چکے ہیں۔ کشتی کا حادثہ اللہ کی رضا تھی، اس میں ایجنٹ کا کیا قصور؟"
اس حادثے میں گوجرانوالہ کی تحصیل نوشہرہ ورکاں کے قصبہ کڑیال کلاں کے دس نوجوان بھی ہلاک ہوئے۔ اس گاؤں کے سات نوجوان اٹلی جانے کے لیے اس وقت دبئی اور لیبیا میں موجود ہیں۔ اہل علاقہ نے بتایا کہ یہ نوجوان کشتی حادثے کے بعد روانہ ہوئے تھے اور وہ اس واقعے سے آگاہ تھے۔
لوگوں نے بتایا کہ اس حادثے کے بعد مفرور ہو جانے والا ایک ایجنٹ اب بھی اس علاقے کے نوجوانوں کو باہر بھجوانے کا کام کر رہا ہے جو خود خفیہ رہ کر فون کے ذریعے اپنے 'گاہکوں' سے رابطے کرتا ہے۔
مقامی رہائشی امجد حسین نے بتایا کہ حادثے کے اگلے روز متاثرین کے لواحقین کی جانب سے سخت ردعمل اور ایف آئی اے کی پکڑ دھکڑ سے ڈر کر یہ ایجنٹ اپنے گھر کو تالا لگا کر فرار ہو گیا تھا۔
"جس گاؤں کے سو سے زیادہ لڑکے یورپ میں ہوں اور وہ اپنے گھر یورو اور ڈالر بھجواتے ہوں وہاں کے لوگوں کو کیسے قائل کیا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو 'ڈنکی' لگا کر بیرون ملک جانے سے روکیں گے"
تارکینِ وطن کو غیر قانونی طریقے سے دوسرے ملکوں تک لے جانے کے عمل کو مقامی زبان میں ڈنکی لگانا کہا جاتا ہے اور یہ کام کرنے والے ڈنکر کہلاتے ہیں۔ اس طریقے سے لوگوں کو دو راستوں سے بیرون ملک بھیجا جاتا ہے۔
ان میں ایک بلوچستان سے سرحد پار ایران اور پھر ترکی اور یونان کا راستہ ہے۔ یونان پہنچنے کے بعد یہ لوگ سمندری راستے سے اٹلی جانے کی کوشش کرتے ہیں یا زمینی راستے سے مشرقی یورپ میں داخل ہوتے ہیں۔
دوسرے راستے سے جانے والے پہلے لیبیا پہنچتے ہیں اور وہاں سے بحیرہ روم کو عبور کر کے خاص طور پر اٹلی کے راستے یورپ میں داخل ہوتے ہیں۔
ایف آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر قیصر بشیر بتاتے ہیں کہ حالیہ چند سال سے سمگلروں نے ایک اور طریقہ اختیار کیا ہے کہ لوگوں کو پاکستان سے قانونی طریقے سے دبئی بھجوایا جاتا ہے جہاں سے آگے وہ غیر قانونی راستہ اختیار کرتے ہیں۔
"گرفتار ہونے والے ایجنٹوں سے تفتیش میں یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ان لوگوں کو دبئی سے مصر اور وہاں سے بذریعہ سڑک لیبیا لے جایا جاتا ہے۔ لیبیا میں بن غازی پورٹ پر انسانی سمگلنگ کا فعال نیٹ ورک موجود ہے جو بڑی کشتیوں کے ذریعے لوگوں کو اٹلی بھجواتا ہے اور سمندری راستے سے اس سفر میں پانچ روز لگتے ہیں"۔
حالیہ دنوں لیبیا کے حکام نے غیر قانونی راستوں سے اپنے ملک میں داخل ہونے اور اٹلی جانے کی کوشش کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی ہے جس میں 16 پاکستانی شہری بھی گرفتار ہوئے جنہیں جیل بھیج دیا گیا ہے۔
تین جولائی کو لیبیا کے ایک شہر میں واقع فارم میں چھپے 237 غیر قانونی تارکین وطن کو حراست میں لیا گیا جن میں پاکستان سے تعلق رکھنے والے بھی بڑی تعداد میں شامل تھے۔
گجرات میں انسانی سمگلنگ پر رپورٹنگ کرنے والے صحافی مرزا عبدالسلام کہتے ہیں کہ یہ کام گجرات کی شناخت بن گیا ہے۔ جو لوگ یورپ پہنچ جاتے ہیں ان کے گھر والوں کی دولت مندی کو دیکھ کر دوسرے بھی اپنے بچوں کو باہر بھیجنے کی کوشش کرتے ہیں۔
غیرملکی خبررساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق 14 جون کے حادثے کے بعد لیبیا میں انسانی سمگلنگ میں ملوث گروہوں کے خلاف کارروائی میں بھی تیزی آگئی ہے۔ پانچ جولائی کو لیبیا کی ایک عدالت نے 11 تارکین وطن کو موت کے منہ میں دھکیلنے کے الزام میں پانچ سمگلروں کو عمر قید کی سزا سنائی۔ ایک اور واقعے میں 24 افراد کو اسی جرم کی پاداش میں جیل بھیجا جا چکا ہے۔
یہ بھی پڑھیں
'پہلے اپنے بیٹے کو ملک سے باہر بھجوانے کے لیے ڈھائی لاکھ روپے دئیے، اب اس کی میت وطن واپس منگوانے کے لیے ساڑھے تین لاکھ روپے'
قیصر بشیر دعویٰ کرتے ہیں کہ یونان میں تارکین وطن کی کشتی کو پیش آنے والے حالیہ حادثے کے بعد انسانی سمگلروں کے نیٹ ورک کو توڑ دیا گیا ہے اور لاہور، گجرات، گوجرانوالہ، فیصل آباد اور شیخوپورہ میں تقریباً 150 مقدمات درج کرکے سو سے زیادہ انسانی سمگلروں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ایف آئی اے کی ٹیمیں اطلاعات کی بنیاد پر کارروائیاں کررہی ہیں۔ ملزموں کی گرفتاری کے لیے ان کے لواحقین کے ساتھ مسلسل رابطہ رکھا جارہا ہے اور روایتی انداز میں چھاپوں کی بجائے ان کی گرفتاری کے لیے لوکیشن چیک کرنے اور کال ڈیٹا ٹریسنگ جیسے جدید طریقے اختیار کیے جا رہے ہیں۔
اس کے علاوہ ایف آئی اے کی ٹیمیں ہوائی اڈوں کی نگرانی بھی کر رہی ہیں اور اگر انہیں کسی پر شبہ ہو کہ وہ دبئی جاکر وہاں سے غیر قانونی طریقے سے لیبیا جانے کا ارادہ رکھتا ہے تو ان کے پاس اسے روکنے کے اختیارات موجود ہیں۔
تاریخ اشاعت 31 جولائی 2023