خیبرپختونخوا میں صوبائی حکومت کے پن بجلی گھر منصوبے کس حال میں ہیں؟

postImg

سید زاہد جان

postImg

خیبرپختونخوا میں صوبائی حکومت کے پن بجلی گھر منصوبے کس حال میں ہیں؟

سید زاہد جان

قاسم علی، مردان شہر کے رہائشی اور کاروباری شخص ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نے جب خیبرپختونخوا میں بڑی تعداد میں ڈیموں کی تعمیر کا اعلان کیا تو یہاں لوگوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی۔

"پہلے متحدہ مجلس عمل اور اے این پی اور پیپلزپارٹی کی حکومتوں نے بھی ملاکنڈ، لوئر دیر اور چترال میں سمال ڈیمز کی بنیادیں رکھی تھیں لیکن کوئی منصوبہ بروقت مکمل ہوتا نظر نہیں آیا۔ تاہم ہمیں نئی حکومت کے وعدے پورے ہونے کا یقین تھا۔"

مگر قاسم علی کی خوش فہمی زیادہ عرصے تک قائم نہیں رہی۔

وہ کہتے ہیں کہ کئی سال گذرنے کے باوجود ہائیڈل پاور پراجیکٹس کا کوئی پتہ نہیں اور نہ ہی بجلی کی لوڈشیڈنگ میں کمی ہو رہی ہے بلکہ اس بار تو گرمی عذاب بن گئی ہے۔

اب حال یہ ہے کہ خود ایم پی ایز احتجاجوں میں شریک ہیں اور سمجھ نہیں آتا کہ ان بجلی منصوبوں میں تاخیر کیوں ہو رہی ہے۔

ملک میں اگرچہ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت (انسٹالڈ کپیسٹی) 42 ہزار میگاواٹ  سے بڑھ چکی ہے جس میں کلین انرجی (ہائیڈل) کا حصہ صرف 25 فیصد کے قریب ہے، لیکن لوڈ شیڈنگ ختم ہونے کو نہیں آرہی۔ اس لیے بجلی کی پیداوار کے لیے وفاقی حکومت کے ساتھ صوبائی حکومتیں بھی اپنے ذرائع استعمال کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔

خیبر پختونخوا میں زیر تعمیر پن بجلی منصوبے

خیبرپختونخوا میں پن بجلی کے امکانات سب سے زیادہ ہیں اس لیے یہاں پبلک سیکٹر، آئی پی پیز سمیت چار مختلف نوعیت کے ہائیڈل منصوبے تعمیر کیے جا رہے ہیں۔

خیبر پختونخوا انرجی اینڈ پاور ڈیپارٹمنٹ  کی سرکاری ویب سائٹ کے مطابق صوبے میں پبلک سیکٹر (صوبائی حکومت) کے آٹھ ہائیڈل پاور پراجیکٹس زیر تعمیر ہیں جبکہ پیڈو ( پختونخوا انرجی ڈیویلپمنٹ آرگنائزیشن) دو ہزار 249 میگا واٹ کے  15 مزید ہائیڈل پاور پراجیکٹس کی فزیبلیٹی رپورٹس مکمل کر چکا ہے۔

انرجی ڈیپارٹمنٹ بتاتا ہے کہ صوبے میں پرائیویٹ پاور انفرا سٹرکچر بورڈ (پی پی آئی بی) کے زیر اہتمام متبادل اور قابل تجدید توانائی کے منصوبوں پر کا م ہو رہا ہے جن میں سے سات ہائیڈل پراجیکٹ (مجموعی صلاحیت دو ہزار 205 میگا واٹ) تعمیر کے مختلف مراحل میں ہیں۔

خیبر پختونخوا میں پیڈو کی زیرنگرانی پرائیویٹ سیکٹر میں 0.2 سے 28 میگاواٹ تک کی کپیسٹی کے 28 منصوبوں پر کام ہو رہا ہے اور مزید 10 منصوبوں کی فزیبلیٹی رپورٹس کی تیاری جاری ہے۔

مذکورہ پاور پراجیکٹس کے علاوہ خیبر پختونخوا میں واپڈا کے زیر انتظام وفاقی حکومت کے 14 منصوبے مختلف مراحل میں ہیں جن میں سے دیامیر بھاشا، مہمند، گولین گول، کرم تنگی،گومل زام وغیرہ آٹھ ڈیم زیر تعمیر(صلاحیت پانچ ہزار 770 میگاواٹ) ہیں یا ان کی بجال کا کام چل رہا ہے۔

پیڈو کا پس منظر

خیبر پختونخوا میں 1986ء میں  'سمال ہائیڈل  ڈیویلپمنٹ آرگنائزیشن' کے نام سے ایک سرکاری ادارہ قائم کیا گیا تھا جس کا مقصد ایسے مقامات کی نشاندھی کرنا تھا جہاں پانی سے بجلی پیدا کرنے کے چھوٹۓ منصوبے لگائے جاسکیں جن کی صلاحیت پانچ میگا واٹ تک ہو۔  اس کا مقصد دور دراز علاقوں میں چھوٹے پن بجلی گھر بنا کر وہاں کی آبادی کو پاور سپلائی برقرار رکھنا تھا۔

1993ء میں اسے خودمختار ادارہ بنا کر اس کا نام 'سرحد ہائیڈل ڈیویلپمنٹ آرگنائزیشن' (سہیڈو) رکھ دیا گیا۔

18ویں آئنی ترمیم کے بعد اسے خیبر پختونخوا انرجی اینڈ پاور ڈیپارٹمنٹ کا حصہ بنا کر اس کانام 'پختونخوا ہائیڈل ڈیویلپمنٹ آرگنائزیشن' رکھ دیا گیا لیکن بعد ازاں 2014ء میں پیڈو ایکٹ کی منظوری کے ذریعے اسے پختونخوا انرجی ڈیویلپمنٹ آرگنائزیشن (PEDO) کا نام دے دیا گیا۔

پیڈو وجود میں آنے کے بعد اس کے اختیارات بڑھا دیے گئے اور پانچ میگا واٹ کے منصوبوں کی حد بھی ختم کر دی گئی۔

پیڈو کو بورڈ آف ڈائریکٹرز (پالیسی بورڈ) اور ایگزیکٹو (انتظامی)کمیٹی کے ذریعے چلایا جاتا ہے۔ پیڈو ایکٹ  کے تحت بورڈ آف ڈائریکٹرز کے چیئرمین، وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا اور وائس چیئرمین صوبائی وزیرتوانائی (بالحاظ عہدہ) ہوتے ہیں جبکہ ایگزیکٹو کمیٹی کے چیرمین چیف ایگزیکٹو پیڈو ہیں۔

صوبے میں کسی بھی مالیت کے پاور پراجیکٹس کی منظوری، تعمیر، جنریٹشن، ان کو ریگولیٹ کرنا، ٹرانسمشن، ڈسٹریبیوشن اور الیکٹرک سروسز کی فراہمی تک کے امور پیڈو کے اختیارات میں شامل ہیں۔

پیڈو کی زیر انتظام ہائیڈل پراجیکٹس

پیڈو ایکٹ کے مطابق صوبے میں پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر یا پرائیویٹ پبلک پارٹنرشپ کے تحت بجلی کے تمام منصوبوں کی نگرانی اسی ادارے کا کام ہے۔

تاہم یہاں صرف پیڈو کے نگرانی میں (صوبائی حکومت کے) زیر تعمیر پبلک سیکٹر پراجیکٹس کا جائزہ لینا مقصود ہے۔

پیڈو کے تحت زیر تعمیر پبلک سیکٹر کے آٹھ ہائیڈل پاور پراجیکٹس کی مجموعی صلاحیت 271.2 میگاواٹ بتائی جاتی ہے جن میں سے تین کو دسمبر 2015ء تک اور باقی پانچ کو 2019ء میں مکمل کیا جانا تھا۔

خیبر پختونخوا اسمبلی میں ایک رکن کے سوال پر 2022ء میں اس وقت کے وزیر توانائی نے بتایا تھا کہ صوبائی حکومت (پیڈو) کے سات پن بجلی منصوبے مکمل ہو چکے ہیں۔

"ان میں ملاکنڈ تھری ہائیڈرو پاور (81 میگا واٹ) ، درال خوڑ( 36.6) سوات، رانولیا (17میگا واٹ) لوئر کوہستان ، شیشی (1.875 میگا واٹ) لوئر چترال ، مچئی ( 2.6 میگا واٹ) مردان، پیہور( 18میگا واٹ) ضلع صوابی اور ریشن ( 4.8 میگا واٹ) ہائیڈل پاور ضلع اپر چترال شامل ہیں۔"

اسمبلی کو بتایا گیا تھا کہ جبوڑی ہائیڈرو مانسہرہ، کوٹو لوئر دیر، کروڑہ شانگلہ، گورکن مٹلتان سوات، لاوی ہائیڈرو لوئر چترال پبلک سیکٹر میں زیرتعمیر ہیں جبکہ مدین ہائیڈرو سوات، گبرال کالام، بالاکوٹ ہائیڈرو مانسہرہ وغیرہ پرائیویٹ سیکٹر (پی پی آئی بی) کے تحت بن رہے ہیں۔

رانولیا ہائیڈرو پاور۔ کوہستان

خیبر پختونخوا کے محکمہ توانائی کی سرکاری ویب سائٹ تصدیق کرتی ہے کہ رانولیا ہائیڈرو پاور، درال خوڑ اور مچئی ہائیڈرو پاور آپریشنل ہیں۔

پیڈو کے مطابق اگرچہ دریائے سوات پر واقع 36.6 میگاواٹ کے درال خوڑ ہائیڈرو  پاور کو 2022ء کے سیلاب شدید نقصان پہنچایا تھا تاہم مرمت کے بعد یہ بجلی گھر 2023 سے پوری صلاحیت کے ساتھ کام کر رہا ہے۔ مردان میں مچئی  کینال پر قائم 2.6 میگا واٹ کا پن بجلی گھر بھی ٹھیک کام کر رہا ہے۔

تاہم پیڈو  رانولیا ہائیڈرو کی الگ کہانی بتاتی ہے۔ پیڈو کی ویب سائٹ کے مطابق لوئر کوہستان میں بنایا جانے والا 17میگا واٹ کا رانولیا  ہائیڈل پاور چار ارب 58 کروڑ 70 لاکھ روپے کی لاگت سے 2017ء میں آپریشنل کر دیا گیا تھا لیکن اگست 2022ء کے سیلاب نے اس پاور ہاؤس کی مشینری اور سٹرکچر کو تہس نہس کر کے رکھ دیا تھا۔

"رانولیا ہائیڈرو پاور پلانٹ تب سے بجلی کی پیداوار کے لیے دستیاب نہیں (بند پڑا ہے)۔ اس پلانٹ کی بحالی کے لیے پیڈو کی جانب سے ایشیائی ترقیاتی بینک سے فنڈنگ کی تجویز بھیجی گئی ہے جو تاحال منظور نہیں ہو سکی۔"

گورکن مٹلٹان ہائیڈرو پاور۔ سوات

رانولیا ہائیڈرو کے بعد سب سے پہلا نام 84 میگاواٹ صلاحیت کے گورکن مٹلٹان ہائیڈرو  پراجیکٹ کا آتا ہے جو سوات کی تحصیل بحرین میں پبلک سیکٹر میں زیر تعمیر ہے۔ یہ منصوبہ 20 ارب 72 کروڑ روپے کی لاگت سے 2020ء میں مکمل ہونا تھا مگر اب اس کی تکمیل کی متوقع تاریخ دسمبر 2024ء بتائی جارہی ہے۔

پیڈو کے مطابق گورکن مٹلٹان پر خیبرپختونخوا حکومت 80 فیصد سرمایہ اپنے وسائل سے لگا رہی ہے۔ تاہم اس منصوبے کی اب تک کی مجموعی فزیکل پراگریس 71 فیصد ہے۔

کوٹو ہائیڈل پاور۔ لوئر دیر

کوٹو ہائیڈل  پاور تیمرگرہ سے سات کلومیٹر شمال میں دریائے پنجکوڑہ پر بنایا گیا ہے جس کی کی نشاندہی پیڈو اور جی ٹی زیڈ جرمنی نے 1992ء میں کی تھی، 40.8 میگاواٹ صلاحیت کا یہ منصوبہ قومی اقتصادی کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی نے 2014ء میں منظور کیا تھا جس کی لاگت تقریباً 14 ارب روپے بتائی جاتی ہے۔

پیڈو کی آفیشل ویب سائٹ کے مطابق کوٹو ہائیڈل پاور پر 97 فیصد کام مکمل ہو چکا ہے ٹرانسمشن لائن بھی تیار ہے مگر اسے آپریشنل نہیں کیا جا سکا۔ تاہم پراجیکٹ کے ذرائع دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ منصوبہ بھی رواں کے اواخر تک فعال ہو جائےگا۔

لاوی ہائیڈرو پاور۔ چترال

تحصیل دروش میں دریائے ششی پر لاوی ہائیڈل پاور کی تعمیر کے لیے فزیبلیٹی تو 2008ء میں واپڈا نے مکمل کی تھی جس کا سنگ بنیاد 12-2011ء میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ امیرحیدر خان ہوتی نے رکھا تھا۔ مگر اس کی تعمیر کا باضابطہ آغاز پیڈو کی زیر نگرانی 2016ء میں ہوا۔

پیڈو کے مطابق لاوی پاور سٹیشن کی لاگت کا تخمینہ 20 ارب روپے سے لگایا گیا ہے جس پر 30 جون 2023ء تک تقریباً 52 فیصد کام مکمل ہوا تھا۔ تاہم اس پاور سٹیشن کی تکمیل کی نئی تاریخ بھی دسمبر 2024ء ہی دی جا رہی ہے۔

مقامی لوگ بتاتے ہیں کہ اس منصوبے پر جب سے کام شروع ہوا تب سے ہی مختلف وجوہ کی بنیاد پر تعمیرات بار بار روکنا پڑتی تھیں۔

کروڑہ ہائیڈرو پاور۔ شانگلہ

ضلع شانگلہ میں بشام سے 15 کلو میٹر کے فاصلے پر 11.8 میگاواٹ کے کروڑہ ہائیڈرو پاور کی تعمیر دسمبر 2014ء میں شروع ہوئی تھی جس کو 2018ء میں مکمل ہونا تھا۔ لگ بھگ چار ارب 62 کروڑ کی نظرثانی شدہ لاگت تخمینہ کے اس منصوبے کی تکمیلی مدت دسمبر2023ء بتائی گئی تھی۔

پیڈو کی سرکاری ویب سائٹ کے مطابق شانگلہ میں اس پاور ہاؤس کا سول، الیکٹریکل اور سوئچ یارڈ کا کام تقریباً 98 فیصد ہو چکا ہے جبکہ ٹرانسمشن لائن بھی 98 فیصد مکمل ہے۔

تاہم یہاں پیداوار کب شروع ہو گی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

جبوڑی ہائیڈرو پاور۔ مانسہرہ

ضلع مانسہرہ دریائے سندھ کی بائیں ٹریبیوٹری (پہاڑی نالہ) پر 10.2 میگاواٹ کے جبوڑی ہائیڈل پاور کی نشاندہی عشروں پہلے سہیڈو (اب پیڈو)نے کی تھی۔

پیڈو  کا کہنا ہے کہ منصوبے کا فزیکل ورک 100 فیصد مکمل ہو چکا ہے لیکن کنکٹویٹی کے مسائل اور پجلی خریداری کا معاہدہ (ای پی اے/ انرجی پرچیز ایگریمنٹ) نہ ہونے کی وجہ سے اسے فعال نہیں کیا جا سکا۔

بالاکوٹ ہائیڈو پاور پراجیکٹ

ضلع مانسہرہ میں کاغان اور بالا کوٹ کے درمیان دریائے کنہار پر 300 میگاواٹ کا یہ پاور پراجیکٹ ایشیائی ترقیاتی بینک اور ایشیئن انفراسڑکچر انویسٹمنٹ بینک کے قرض سے بن رہا ہے جس کی لاگت کا کل تخمینہ ساڑھے 94 ارب سے زائد بتایا جاتا ہے۔

پیڈو کے مطابق منصوبے کی فزیکل پراگرس ابھی تک تین فیصد کے قریب ہے اور اس کی تکمیل کی مدت دسمبر 2027ء مقرر کی گئی ہے جبکہ ایشیئن انفراسڑکچر انویسٹمنٹ  بینک حتمی تاریخ ستمبر 2028ء بتا رہا ہے۔ تاہم یہ منصوبہ انرجی ڈیپارٹمنٹ کے پبلک سیکٹر پراجیکٹس میں شامل نہیں کیا گیا۔

پبلک سیکٹر ہائیڈل منصوبوں میں تاخیر کیوں؟

پیڈو کے عہدیداروں سے جب پبلک سیکٹر کے پن بجلی منصوبوں میں تاخیر یا بروقت مکمل نہ ہونے کی وجوہ پوچھی جاتی ہیں تو وہ پرائیویٹ اور آئی پی پیز منصوبوں کے معاملات پر بات شروع کر دیتے ہیں۔ تاہم پیڈو نے سرکاری ویب سائٹ پر ہر پبلک سیکٹر صوبائی  منصوبے کے ساتھ پیش آنے والے مسائل کا کچھ یوں ذکر کیا ہے۔

پیڈو کے مطابق رانولیا ہائیڈرو سے لے کر گورکن مٹلٹان ، کوٹو ہائیڈل پاور، لاوی ہائیڈرو پاور اور کروڑہ ہائیڈرو پاور تک پانچ منصوبوں کو 2022ء کے سیلاب نے کلی یا جزوی طور پر شدید متاثر کیا۔ یہاں تک کہ بعض پراجیکٹس کی ٹنلز اور کچھ کے پاور ہاؤسز تک کے حصے بہہ گئے۔

ابراش پاشا، ہیومین رائٹس ایکٹیوسٹ و سماجی کارکن ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کوٹو پاور پراجیکٹ کی تعمیر معمہ بن چکا ہے جس کے ہیڈ اور چینلز کو سیلاب نے شدید متاثر کیا تھا۔

"کلائمنٹ چینج اور گلئیشر پگھلنے سے دریاوں میں پہلے کی نسبت سیلاب کی شرح میں اضافہ ہوگیا ہے۔ ان پائیڈرو منصوبوں کے ڈیزائن میں اس حقیقت کو نظر انداز کیا گیا تھا جس کا نتیجہ نقصانات اور تاخیر سے خساروں کی صورت میں نکلا۔"

پیڈو کی ویب سائٹ بتاتی ہے کہ چینی انجینیئرز کی عدم دستیابی اور سکیورٹی ایشوز گورکن مٹلٹان ہائیڈرو، کوٹو ہائیڈل پاور، لاوی ہائیڈرو پاور، کروڑہ ہائیڈرو پاور، جبوڑی ہائیڈرو پاور تک پانچ پبلک سیکٹر منصوبوں اور بالاکوٹ ہائیڈو پاور پراجیکٹ کے لیے مسئلہ بنے ہوئے ہیں۔

پیڈو، زمین کے حصول، عدالتی حکم امتناع اور دیگر معاملات کو بھی تاخیر کا جواز بتاتا ہے۔

چترال کے صحافی ظہیر الدین بتاتے ہیں کہ نہ صرف لاوی پراجیکٹ پر کام بند ہے بلکہ گنگورنی سنگور، ریشن ،شیشی کوہ اور گرم چشمہ وغیرہ منی/ مائیکرو ہائیڈل پاور منصوبے بھی مکمل نہیں ہو پائے۔

پیڈو سے دستیاب تفصیلات کے مطابق دیگر 28 منصوبے فزیبیلیٹی کی تیاری وغیرہ کے مراحل میں ہیں۔

ان منصوبوں میں اپردیر میں دریائے پنجکوڑہ پر شڑمائی ہائیڈرو پاور قابل ذکر ہے۔ اس کی فزیبلیٹی رپورٹ 2005ء میں بنائی گئی تھی جس سے 150 میگاواٹ بجلی کی پیداوار کا تخمینہ لگایا گیا تھا لیکن وہاں ابھی تک تعمیر کے کوئی آثار دکھائے نہیں دے رہے۔

اپر دیر سے سابق رکن قومی اسمبلی طارق اللہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے اس اہم توانائی منصوبے کے لیے قومی اسبملی کی فلور سمیت وزرا اور حکومتی عہدیداروں کی بہت منت سماجت کی تھی اور اس کے بعد ہی منصوبے کے لیے فنڈ بھی منظور کرایا تھا۔

"لیکن ابتدائی سروے اور فزیبلٹی رپورٹ کے بعد کام شروع نہیں ہوا اور آئندہ بھی امید نظر نہیں آ رہی۔ اب کام شروع بھی ہوجائے تو اس پر کئی ارب روپے اضافی لاگت آئے گی۔"

پیڈو خیبرپختونخوا کے اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پیڈو کے ذریعے ملاکنڈ میں 81 میگاواٹ کا بجلی گھر، سوات میں 36 میگاواٹ ، صوابی میں 18 میگاواٹ ، چترال میں 12میگاواٹ جبکہ مردان میں 2.6میگاواٹ کے منصوبے مکمل کیے گئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

خیبرپختونخوا میں وفاقی حکومت کے ہائیڈرو پاور پراجیکٹس کس حال میں ہیں؟

"سوات میں گبرال ،کالام ،اپردیر میں بریکوٹ، شرینگل، کلکوٹ، شڑمائی، پاتراک اور االماس پر بھی عنقریب کام شروع کرنے کا ارادہ ہے۔ بوری ہائیڈرو پاور پراجیکٹ مانسہرہ پر 94 فیصد کام مکمل ہو چکا ہے جبکہ باقی ماندہ کام رواں سال کے دسمبر تک مکمل کر لیا جائے گا۔"

انجینئر محمد سعید کئی دہائیوں تک ہائیڈل پاور منصوبوں پر کام کر چکے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ملاکنڈ اور ہزارہ ڈویژن میں دریاؤں پر کئی کم لاگت کے بجلی گھر بنائے جاسکتے ہیں لیکن یہاں وسائل کا درست استعمال نہیں ہو رہا۔

انہوں نے کہا کہ کالام میں غیرسرکاری تنظیم ایس آر ایس پی (سرحد رورل سپورٹ پروگرام) نے دو بجلی گھر بنائے ہیں جن سے پورے کالام کو بجلی سپلائی کی جاتی ہے۔ دوسری جانب صوبائی حکومت نے بحرین میں دارل خوڑ کے مقام پر ہائیڈرو پاور تعمیر کرانے کا اعلان کیا لیکن وہ جوں کا توں ہے۔

ہائیڈل پاور کے ایک اور ماہر آجبر خان بتاتے ہیں کہ منی/ مائیکرو ہائیڈل پاور سٹیشنز پر صرف چند لاکھ خرچ آتے ہیں اور ان کے فوائد بہت زیادہ ہیں۔

"چترال، اپردیر، لوئر دیر، سوات، شانگلہ ،بونیر و دیگر اضلاع میں غیر سرکاری تنظیوں اور لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت پچاس/ سو کلوواٹ سے لے کر پانچ میگاواٹ تک کے کئی پن بجلی بنائے ہیں جو کامیابی سےچل رہے ہیں۔ تاہم ایسے کاموں کے لیے حکومتوں کو وسائل برباد کرنے کے بجائے نیک نیتی سے کام کرنا ہوگا۔"

تاریخ اشاعت 6 اگست 2024

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

سید زاہد جان کا تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع دیر سے ہے اور وہ گزشتہ باٸیس سال سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔

thumb
سٹوری

زرعی انکم ٹیکس کیا ہے اور یہ کن کسانوں پر لاگو ہوگا؟

arrow

مزید پڑھیں

عبداللہ چیمہ
thumb
سٹوری

پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی، عوام کے تحفظ کا ادارہ یا استحصال کاہتھیار؟

arrow

مزید پڑھیں

سہیل خان
thumb
سٹوری

کھانا بنانے اور پانی گرم کرنے کے لیے بجلی کے چولہے و گیزر کی خریداری کیوں بڑھ رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود

پنجاب: حکومتی سکیمیں اور گندم کی کاشت؟

thumb
سٹوری

ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک کے کاشتکار ہزاروں ایکڑ گندم کاشت نہیں کر پا رہے۔ آخر ہوا کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمحمد زعفران میانی

سموگ: ایک سانس ہی ہم پر حرام ہو گئی

thumb
سٹوری

خیبر پختونخوا میں ایڈز کے مریض کیوں بڑھ رہے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

نئی نہریں نکالنے کے منصوبے کے خلاف سندھ میں احتجاج اور مظاہرے کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار
thumb
سٹوری

پنجاب: محکمہ تعلیم میں 'تنظیم نو' کے نام پر سکولوں کو'آؤٹ سورس' کرنے کی پالیسی، نتائج کیا ہوں گے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد

برف کے پہاڑؤں پر موت کا بسیرا ہے، مگر بچے بھی پالنے ہیں

thumb
سٹوری

سموگ: یہ دھواں کہاں سے اٹھتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceآصف ری ، عبدالل

پرانی کیسٹس،ٹیپ ریکارڈ یا فلمی ڈسک ہم سب خرید لیتے ہیں

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.