چالیس سالہ شمع کولھی حیدرآباد کی نیوسبزی منڈی میں مزدوری کرتی ہیں۔ وہ چار بچوں کی ماں ہیں اور ان کے شوہر بھی تعمیراتی شعبے میں مزدوری کرتے ہیں۔
شمع کولھی شہر سے تین کلومیٹر دور محل نما گھروں کے درمیان گاؤں لکھمن کولھی کی رہائشی ہیں۔ 500 افراد پر مشتمل ان کا گاؤں ھالہ ناکہ روڈ پر نصف صدی سے آباد ہے۔ اس علاقے میں اب 300 ایکڑ اراضی پر ایک بڑی ہاؤسنگ سکیم بن چکی ہے۔
شمع کولھی بتاتی ہیں کہ یہاں ہر طرف آم، بیر اور لیموں کے باغات ہوتے تھے۔ پیاز، گنا، ٹماٹر اور گندم سمیت کئی فصلیں اگائی جاتی تھیں جن پر عورتیں اور مرد سب مل کر کام کرتے تھے۔ پھر یوں ہوا کہ زمینداروں نے یہ ساری زمین بلڈر کو بیچ دی۔
"باغات کاٹ دیئے گئے۔ فصلیں ختم ہوئیں تو انہیں مویشی بھی بیچنا پڑے۔ زیر زمین پانی کڑوا ہو گیا۔ ایک تو روز گار گیا اور پھر سبزی، بچوں کا دودھ اور پانی بھی بازار سے خریدنا پڑتا ہے۔ بلڈر کے ملازمین روزانہ آ کر کہتے ہیں کہ گاؤں خالی کر دو۔ اب تمہارے گھر بھی گرا دیں گے۔ اگر ہمیں بیدخل کرنا ہی ہے تو کسی محفوظ جگہ منتقل کر دیں جہاں ہم بے خوف زندگی گزاریں اور کھیتی بھی کر سکیں۔
حیدرآباد شہر کی آبادی 20 لاکھ کے قریب پہنچ چکی ہے۔ یہاں 1980ء سے 2023ء تک حیدر آباد ڈیولپمنٹ اٹھارٹی کی منظوری سے پانچ سو سے زیادہ رہائشی سکیمیں بنائی گئی ہیں۔
شہرکے اطراف اب بھی تقریباً ایک ہزار ایکڑ رقبے پر درجنوں رہائشی کالونیاں بن رہی ہیں۔ ان میں ووھرا ٹاؤن، عباس ٹاؤن، بسم اللہ ٹاؤن، قادر ایونیو، جمیرا پام سٹی، حیدرآباد نیو سٹی، گولڈن ٹاؤن، اسرا ولیج و دیگر شامل ہیں۔
سالہا سال سے آباد 20 سے زیادہ چھوٹے بڑے گاؤں ان رہائشی سکیموں میں گھرے ہوئے ہیں جنہیں خالی کرایا جا رہا ہے۔
گاؤں امید علی لغاری، حاجی بھٹی، شیرمحمد گوپانگ، گاؤں عرس عالمانی و دیگر گوٹھوں کے تقریباً 19 ہزار کے قریب لوگ غیر یقینی صورت حال سے دوچار ہیں۔ کسان اب اپنے گھروں کو بچانے کی آخری لڑائی لڑ رہے ہیں۔
چار سو نفوس پر مشتمل گاؤں امید لغاری 'فضل سن سٹی' نامی رہائشی سکیم کی زد میں آنے والی آبادیوں میں سے ایک ہے۔ اس گاؤں کے رہنے والے سماجی کارکن دوست علی بتاتے ہیں کہ ہاؤسنگ سکیم کی 300 ایکڑ اراضی محکمہ مال (ریونیو) اور محکمہ انہار کی ملکیت تھی۔یہ زمین ایک انہار انجنیئر عبدالعزیز شیخ نے زرعی استعمال کے لیے 99 سالہ لیز پر لی تھی۔ بعد میں اسے محکمہ ریونیو کی منظوری سے بیچ دیا گیا۔ یہاں ایک نہر بھی تھی جو اب ختم ہو گئی ہے اور وہاں پلاٹ بن رہے ہیں۔
گاؤں عرس عالمانی کے رہائشی علی نواز اب بھی کاشتکاری کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سندھ قانونِ مزارعت کے تحت ہاری کو نوٹس دیئے بغیر زمین سے بیدخل نہیں کیا جا سکتا ۔مگر انہیں آج تک کوئی نوٹس نہیں دیا گیا۔
پچاس سالہ علی نواز دس افراد پر مشتمل خاندان کے اکیلے کفیل ہیں۔انہوں نے بتایا کہ گاؤں کے لڑکے مزدوری کرنے شہر جاتے ہیں تو بلڈرز کے ایما پر راہوکی اور ہٹڑی پولیس انہیں اٹھا لیتی ہے۔
"اہلکار کہتے ہیں کہ گاؤں خالی کرو ورنہ تمہیں سکون سے رہنے نہیں دیں گے۔ہم رشوت دے کر لڑکوں کو چھڑا لاتے ہیں۔ دو مرتبہ ایسا ہو چکا ہے۔"
اسی گاؤں کے پرائمری سکول ٹیچر میر اعجاز بتاتے ہیں کہ چار سال قبل گاؤں خالی نہ کرنے پر حیدرآباد نیو سٹی ہاؤسنگ سکیم کے مالکان عارف بلڈرز کی جانب سے مقامی لوگوں کے خلاف مقدمہ درج کرا دیا گیا تھا۔
وہ بتاتے ہیں کہ یہ مقدمہ ایک سابق فوجی افسر زاہد سومرو نے راہوکی تھانے میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعات کے تحت درج کرایا جس میں محمد عرس عالمانی، خیر محمد، خدا بخش اور کوثر سمیت گاؤں کے 20 نوجوانوں اور کسانوں کو نامزد کیا گیا تھا۔
"گرفتاریاں ہوئیں ہم نے سول کورٹ میں مقدمہ لڑا، گزشتہ سال مقدمہ جھوٹا ثابت ہوا۔ مگر اب گاؤں کا سیوریج بند کر دیا گیا ہے۔ لوگوں نے آواز اٹھائی تو دو جھوٹے مقدمات درج کرا دیئے گئے۔ پولیس گھر پہنچ گئی اور اب بھی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔"
تھانہ راہوکی کے ایس ایچ او عطا محمد کاکا تسلیم کرتے ہیں کہ انہوں نے شکایت پر کارروائی کی تھی۔تاہم وہ کہتے ہیں کہ پولیس نے کسی کسان کو دھمکی نہیں دی۔
ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈویلپرز (آباد) حیدرآباد ریجن کے وائس چیئرمین فراز میمن کا کہنا ہے کہ حیدرآباد میں جب آبادی بڑھنے لگی تو بلڈرز نے لوگوں کی سہولت کے لیے زرعی زمین پر رہائشی منصوبے بنائے۔ کسی نے کہیں پر غیر قانونی قبضہ نہیں کیا بلکہ زمینداروں سے زمینیں خریدی گئ ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ تمام متعلقہ اداروں بشمول سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، حیدرآباد ڈولپمینٹ اتھارٹی اور ٹاؤن پلاننگ سے این او سی لیے گئے ہیں۔ نقشے منظور کرانے کے بعد ہی ہاؤسنگ سکیمیں بنا رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بلڈرز پر کسانوں کی کوئی رقم واجب الادا نہیں ہے۔ اگر کوئی واجبات ہیں تو وہ زمینداروں پر ہوں گے۔
کمشنر آفس حیدرآباد میں ریونیو سب رجسٹرار بتاتے ہیں کہ کوئی بھی اراضی مالک زرعی زمین کو رہائشی میں بدلنے کے لیے حیدرآباد ڈیولپمنٹ اتھارٹی کو درخوست دے سکتا ہے۔ وہ درخواست ڈپٹی کمشنر کے پاس آتی ہے کیونکہ اس مقصد کے لیے ڈپٹی کمشنر کی منظوری ضروری ہے۔ حیدرآباد میں فی ایکڑ زمین کا نقشہ منظور کرانے کی فیس دو لاکھ روپیہ ہے۔
حکومت سندھ نے تین ماہ قبل صوبے میں 300 ہاؤسنگ سوسائٹیوں کو غیر قانونی قرار دیا ہے ان میں حیدرآباد ضلعے کی 20 سکیمیں بھی شامل ہیں مگر یہاں کام تاحال نہیں رکا۔ ان سکیموں میں المدینہ سٹی، الرحیم سٹی، کوہسار گرین سٹی، غوثیہ ٹاؤن، کوہسار ہیون، سائبان ہاؤسنگ سکیم اور دیگر شامل ہیں۔
صوبائی سیکرٹری زراعت اعجاز احمد مہیسر اتفاق کرتے ہیں کہ جس رفتار سے زرعی زمین پر ہاؤسنگ سکیمیں بن رہی ہیں اس سے فوڈ سیکورٹی کے مسائل درپیش ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے لوک سجاگ کو بتایا کہ زرعی اراضی پر ہاؤسنگ کالونیاں ممنوع قرار دینے کی پالیسی بنانے کے لیے وزیر اعلیٰ سے بھی بات ہوئی ہے۔ اس وقت ایسا کوئی قانون نہیں ہے۔ مستقبل میں لینڈ پالیسی بنا کر ضروری قانون سازی کریں گے۔
گاؤں لکھمن کولھی کی پینتالیس سالہ لالی بھی شمع کولھی کے ساتھ سبزی منڈی میں کام کرتی ہیں۔ وہ اپنے پانچ بچوں کے ساتھ کچے گھر میں رہتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
قیمتی جنگل ہاوسنگ سوسائٹی میں تبدیل ہو رہا ہے
وہ کہتی ہیں کہ ان کے باپ دادا دہائیوں سے یہاں آباد تھے۔ شناختی کارڈ بنوانے جاتے ہیں تو نادرا والے بجلی کا بل مانگتے ہیں۔ یہاں کبھی گیس اور بجلی تھی ہی نہیں تو بل کہاں سے لائیں۔
"زمیندار تو ہمیشہ سے پردیس میں رہتے ہیں۔ یہاں سارا کام 'کمدار' سنبھالتے تھے جن کو ووٹ دیئے تھے وہ بھی ان کا تحفظ نہیں کر رہے۔"
سکول ٹیچر میر اعجاز بتاتے ہیں کہ حیدرآباد شہر سے دس کلومیٹر شمال مشرق میں 'دبی' کا میدان ہے۔ سندھ پر قبضے کے لیے انگریز فوج نے حملہ کیا تو اس کا حکمران ٹالپور خاندان کے ساتھ 24 مارچ 1843 کو یہیں بڑا معرکہ ہوا۔
انگریز فوج جنرل چارلس نیپیئر اور سندھی فوج اپنے سپہ سالار ہوش محمد شیدی کی قیادت میں لڑی۔ ہوش محمد بہادری سے لڑے اور شہید ہو گئے۔ان کا نعرہ 'مرویسوں پر سندھ نہ ڈیسوں' آج بھی لوگوں کی زبان پر ہے۔ انگریز جنرل نے وہاں یادگار بنوائی۔ شہید ہوش محمد کی یادگار بھی وہیں تعمیر کرائی گئی۔ قریب ہی شھید ہوش محمد کا مزار بھی ہے۔
میر اعجاز کہتے ہیں کہ یہ علاقہ بھی اب بلڈرز کی نظر میں ہے جہاں کل کوئی ہاؤسنگ سکیم بن رہی ہو گی۔
تاریخ اشاعت 24 جولائی 2023