بائیس سالہ سناشلی کماری ضلع نارووال کے گاؤں کوٹلی گجراں میں ہیں۔ ان کا تعلق ہندو برادری سے تعلق ہے۔ وہ صبح شام کی پوجا کے علاوہ اماؤس اور پونم کی عبادت سمیت تمام مذہبی رسومات اپنے گھر میں ہی ادا کرتی ہیں کیونکہ ان کے گاؤں اور اس سے پندرہ کلومیٹر دور تحصیل ظفروال میں کوئی مندر نہیں ہے۔
سناشلی کہتی ہیں کہ ان کا گھرانہ اپنے گاؤں میں مسلمان ہمسایوں کے ساتھ پرسکون زندگی بسر کر رہا ہے اور انہیں مذہبی بنیاد پر کسی طرح کی تفریق کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ لیکن علاقے میں ہندوؤں کے مندر کی غیرموجودگی کے باعث وہ اپنی زندگی کو نامکمل سمجھتی ہیں۔
اسی علاقے سے تعلق رکھنے والی چوبیس سالہ سنبل آریہ کو بھی یہی شکایت ہے۔ وہ پیشے کے لحاظ سے وکیل اور تحصیل بار ظفروال کی رکن ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ناصرف ظفروال بلکہ پورے ضلع نارووال میں ہندوؤں کا کوئی مندر فعال نہیں ہے۔
ضلع نارووال کی تینوں تحصیلوں (نارووال، ظفروال اور شکرگڑھ) کے دیہات میں ہندووں کے متعدد خاندان سالہا سال سے آباد ہیں۔ لیکن ان کے پاس شادی بیاہ، پوجا پاٹ یا دیگر مذہبی رسومات کے لیے کوئی مندر نہیں ہے۔
ظفروال شہر سے ضلع کونسل کے سابق ممبر، ضلعی امن کمیٹی کے رکن اور ہندو برادری کی تنظیم پاک دھرم استھان کمیٹی کے سابق صدر کے رتن لال آریہ کے مطابق ضلع نارووال میں درجنوں خاندانوں پر مشتمل 1,253 ہندو آباد ہیں۔ ضلعے کے شہری اور دیہی علاقوں میں ان کے لیے 45 مندر موجودہ ہیں لیکن یہ لوگ ان سے استفادہ نہیں کر سکتے کیونکہ یہ تمام متروکہ وقف املاک بورڈ کی تحویل میں ہیں اور بورڈ نے ان کی عمارتوں کو کرایہ پر دے رکھا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ظفروال شہر کے پانچوں مندر بہت پہلے بورڈ کے سیالکوٹ سرکل نے نیلامی کے ذریعے کرائے پر دے دیے تھے۔ شوالہ مندر کا رقبہ 27 مرلے ہے جسے 1961ء میں کرائے پر دیا گیا تھا۔ آج بھی ثریا بی بی نامی خاتون کا خاندان سالانہ دو ہزار روپے کرائے پر وہاں رہائش پذیر ہے۔
رتن لال کہتے ہیں کہ وقف املاک بورڈ نے چوک شہیدوں والا کا ایک مندر بوٹا انصاری کوایک ہزار 800 روپے کرایہ پر دے رکھا ہے۔اسی علاقے میں قائم ایک اور مندر میں اچھو قصاب نامی شخص کا خاندان مقیم ہے اور یہ کمرشل علاقہ ہے۔
انہوں نے بتایا کہ محکمہ 'جموں گیٹ مندر' کا غنی گھمن نامی شخص سے دو ہزار روپے سالانہ کرایہ وصول کرتا ہے۔ بوہلی والا مندر اور اس کا کُل ساڑھے77 کنال رقبہ انتہائی زرخیز ہے۔ رواں سال پہلی بار نیلامی میں اس کا سالانہ ٹھیکہ آٹھ لاکھ 60 ہزار روپے مقرر ہوا ہے۔
ہندو مذہبی رہنما پنڈت ترسیم لال بتاتے ہیں کہ ہندوؤں کی شادیاں اور 'پھیرے' مندروں میں ہوتے ہیں مگر ضلع نارووال میں ان کی یہ تقریبات بھی گھروں میں انجام پاتی ہیں۔
ہندو کمیونٹی کی نمائندہ تنظیم 'پاک دھرم استھان کمیٹی' کے صدر ساون چاند فیصل آباد کے رہائشی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ قیام پاکستان کے بعد ضلع نارووال میں ہندوؤں کے 45 مندر تھے۔ 1965ء اور 1971ء کی پاک بھارت جنگوں اور سانحہ بابری مسجد کے بعد یہاں بھی مندوں کو نقصان پہنچایا گیا ۔
وہ بتاتے ہیں کہ ضلع نارووال میں ہندو برادری نے حکام کو بار بار درخواستیں دیں تو 2013ء میں ظفروال میں ایک کمرے پر مشتمل 'بوہلی مندر ' کی تزئین و آرائش کی گئی تھی۔ لیکن متروکہ وقف املاک بورڈ نے ایک سال بعد ہی مندر کی زمین کسی کو الاٹ کر دی۔
ساون چاند نے بتایا کہ حکومت نے اربوں روپے خرچ کر کے سکھ برادری کو کرتارپور گوردوارے کا تحفہ دیا ہے۔ اگر ظفر وال میں 'بوہلی مندر' ہی بحال کر دیا جائے ہندوؤں کو بہت آسانی ہو گی۔
ڈپٹی کمشنر نارووال محمد اشرف کہتے ہیں کہ مذہبی مقامات کے معاملات سے ضلعی انتظامیہ کا براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہندو برادری کو مندرکے لیے متروکہ وقف املاک بورڈ سے رابطہ کرنا پڑے گا۔
متروکہ وقف املاک بورڈ سیالکوٹ سرکل کے ڈپٹی ایڈمنسٹریٹر تنویر حسین کا دعویٰ ہے کہ ضلع نارووال سے کسی بھی مندر کی الاٹمنٹ اور بحالی کیلئے کوئی درخواست نہیں آئی۔
انہوں نے بتایا کہ ظفروال سے ہندو برادری نے ایک مندر سے ملحقہ زرعی اراضی کے حصول کیلئے درخواست ضروری دے رکھی ہے جس پر کارروائی جاری ہے۔
یہ بھی پڑھیں
گنگا دور اور سندھ سُوکھا: استھیاں بہانے والے ہندوؤں کی مایوسی
رتن لال آریہ مندر سے ملحقہ اراضی کے لیے درخواست دینے کے سرکاری دعویٰ کی تصدیق کرتے ہیں تاہم وہ مندر کی بحالی پر متروکہ املاک بورڈ کے موقف کو نہیں مانتے۔
رتن لال کہتے ہیں کہ وہ خود استھان کمیٹی کے صدر کے طور پر ظفروال میں مندر کی بحالی کے لیے اس وقت کے ڈپٹی مینیجر متروکہ وقف املاک بورڈ، ڈپٹی کمشنر نارووال اور دیگر متعلقہ حکام کو درخواستیں دے چکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کسی مندر کی بحالی میں کوئی قانونی رکاوٹ نہیں ہے۔ اگر رکاوٹ ہے تو وہ افس اور ملازمین ہیں جو ہندو مندروں کی حیثیت تبدیل کر کے دوسرے لوگوں کو الاٹمنٹ کر رہے ہیں۔
پنڈت منگت رام شرما نے الزام عائد کیا ہے کہ متروکہ وقف املاک بورڈ کی ملی بھگت سے مندروں میں لوگوں نے جانوروں کے باڑے اور چارے کے گودام بنا رکھے ہیں۔
تنویر حسین ہندو برادری کے ملی بھگت سے متعلق الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے اصرار کرتے ہیں کہ محکمہ نیلامیوں اور الاٹمنٹ میں تمام قانونی تقاضے پورے کرتا ہے۔
تاریخ اشاعت 11 اگست 2023