ہندو وراثت کے قانون میں صنفی امتیاز: ایک عورت کی اپنا حقِ وراثت منوانے کے لیے طویل عدالتی لڑائی۔

postImg

مہرین برنی

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

ہندو وراثت کے قانون میں صنفی امتیاز: ایک عورت کی اپنا حقِ وراثت منوانے کے لیے طویل عدالتی لڑائی۔

مہرین برنی

loop

انگریزی میں پڑھیں

موہن لال ساہنی نے 1947 سے کئی سال پہلے سرگودھا شہر میں ایک حویلی بنائی جہاں ان کے تین بیٹے اور ایک بیٹی دو مختلف ماؤں کی اولاد ہونے کے باوجود اکٹھے پلے بڑھے۔ ان کی نواسی سونیا تلریجا کو بھی 1970 اور 1980 کی دہائیوں میں اپنے بچپن کے وہ دن یاد ہیں جب گرمیوں میں وہ اس حویلی اور اپنے آبائی گاؤں سالم جایا کرتی تھیں جو سرگودھا کے قریب لاہور-اسلام آباد موٹروے کے ایک انٹر چینج کے قریب واقع ہے۔

سونیا تلریجا اب دبئی میں مقیم ہیں اور کہتی ہیں کہ "ہر سال دسویں محرم کے موقع پر میرے والدین اور خاندان کے تمام بچے لاہور سے سرگودھا جایا کرتے تھے"۔ ان کے مطابق یہ "ان کے خاندان کی ایک پرانی روایت تھی"۔

موہن لال ساہنی برِصغیر کی تقسیم سے پہلے وکالت کرتے تھے۔ اگرچہ 1967 میں ان کا انتقال ہو گیا لیکن ان کے بچوں اور پوتوں پوتیوں کے درمیان مراسم ان کی وفات کے بعد بھی مضبوط رہے۔ کئی دہائیوں بعد ان کے خاندان میں ایک تنازعے نے اس وقت جنم لیا جب 2006 میں ان کے بیٹے مدن لال ساہنی کی وفات ہوئی۔ 

مدن لال نے شادی نہیں کی تھی تاہم وہ اپنی بہن آشا (جو شادی کے بعد آشا تلریجا کہلانے لگیں) اور ان کے بچوں سے بہت قریب تھے۔ 1986 میں انہوں نے اپنی بہن اور اس کے شوہر کو اس بات پر قائل کرنے میں اہم کردار ادا کیا کہ وہ اپنی بیٹی سونیا تلریجا کو تعلیم کے لیے امریکہ بھیجیں۔

سونیا تلریجا انہیں "ایک روایتی زمیندار" قرار دیتی ہیں جنہیں ان کے متحرک سماجی کردار کے سبب مقامی لوگوں میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔

مدن لال کی والدہ کا نام جانکی دیوی تھا۔ وہ موہن لال کی دوسری بیوی تھیں اور ان کا انتقال اپنے بیٹے کی وفات سے ایک ہی سال پہلے ہوا تھا۔

مدن لال کو اپنی والدہ کے ذریعے اپنے والد کی نصف جائیداد وراثت میں ملی تھی۔ بقیہ نصف جائیداد پہلے ہی موہن لال کی پہلی بیوی سے جنم لینے والے دو بیٹوں کی نرینہ اولادوں کو مل چکی تھی۔ ان دونوں بیٹوں کا انتقال مدن لال سے بہت پہلے 1974 اور 1980 میں ہو چکا تھا۔

مدن لال کی وفات کے بعد آشا تلریجا کو توقع تھی کہ ان کی جائز اور واحد قانونی وارث ہونے کی بنا پر وہی ان کی وراثت کی حق دار ہوں گی تاہم ان کے سوتیلے بھتیجوں برسپتی رام ساہنی اور اقبال بلند ساہنی نے بھی اس جائیداد پر اپنا دعویٰ کر دیا۔ یہ دونوں موہن لال ساہنی کی پہلی بیوی سےجنم لینے والے بیٹوں کی اولاد ہیں۔ ان کا دعویٰ ہندو وراثت ایکٹ مجریہ 1929 میں اپنائے گئے ہندو مذہبی اصولوں پر مبنی تھا۔

مذہب بمقابلہ آئین

ڈنشا فردون جی مُولا برطانوی ہندوستان میں ایک پارسی قانون دان تھے۔ انہوں نے اس وقت کے ہندوستانی قانون کے کئی پہلوؤں پر متعدد ایسی تحقیقات کیں جن کی اہمیت آج بھی مسلمہ ہے۔ ان کی بہت سی تصنیفات میں شامل مسلم اصولِ قانون اور ہندو قانون پر لکھی کتب کو اب بھی انڈیا اور پاکستان میں رہنے والے مسلمانوں اور ہندوؤں کے عائلی قوانین کی تشریح اور توضیح میں بنیادی مقام حاصل ہے۔ برطانوی راج کے دوران بنائے گئے ہندو وراثت ایکٹ نے انہی کی تشریحات سے جنم لیا جو انہوں نے متاکشرا مکتبہ فکر کے وضع کردہ ہندو قانون کے بارے میں کیں۔

یہ ایکٹ 1947 میں آزادی کے بعد پاکستان کو اسی طرح ورثے میں ملا جس طرح اسے برطانوی ہندوستان سے بہت سے دوسرے قوانین منتقل ہوئے تھے۔ اس کی ایک انتہائی اہم شرط کے مطابق انتقال کر جانے والے کسی ہندو  شخص کے مرد وارثوں کی موجودگی میں اس کی کوئی خاتون وارث اس کے ترکے کے چھوٹے سے حصے پر بھی دعویٰ نہیں کر سکتی۔ فروری 2012 میں پنجاب اسمبلی نے اس ایکٹ میں ترمیم کر کے ہندو متوفین کی بہنوں کو ان کے ترکے سے حصہ دینے کی منظوری دی تاہم وارثوں کی فہرست میں خواتین کا نام مردوں سے کہیں نیچے ہی رہا ۔

چنانچہ جب آشا تلریجا اور ان کے سوتیلے بھتیجوں نے مدن لال ساہنی کے وارثوں کی حیثیت سے ان کی وراثت کا سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کے لیے سرگودھا کی سِول کورٹ میں درخواستیں دیں تو جج نے آشا تلریجا کی درخواست رد کر دی جبکہ برسپتی رام اور اقبال بلند کی درخواستیں قبول کر لیں۔ انہوں نے یہ فیصلہ ہندو وراثت ایکٹ کے مطابق دیا جس کی رو سے کسی ہندو شخص کے ترکے کی تقسیم میں اس کے بھائی کے بیٹوں کا نمبر دسواں جبکہ اس سگی بہن کا نمبر تیرہواں ہوتا ہے۔

اقبال بلند اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ ان کے مرحوم چچا کی سگی بہن کو بھی ان کی جائیداد میں حصہ ملنا چاہیے لیکن وہ کہتے ہیں کہ "میں نے ان سے کوئی امتیازی سلوک نہیں کیا لیکن قانونی تقاضا یہی تھا اور سبھی کو قانون کے مطابق چلنا چاہیے"۔

دوسری جانب آشا تلریجا اس فیصلے سے مطمئن نہیں تھیں اس لیے انہوں نے اسے لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا۔ اپنی درخواست میں انہوں نے لکھا کہ سِول کورٹ نے وارثوں کی فہرست میں ان کے سوتیلے بھتیجوں کو ناجائز طور سے دسواں نمبر دیا کیونکہ ان کے بقول یہ نمبر صرف سگے بھائی کے بیٹے/بیٹوں کو ملتا ہے۔

2011 میں جب آشا تلریجا کی وفات ہوئی تو ان کی بیٹی سونیا تلریجا نے ان کی جگہ یہ مقدمہ لڑنا شروع کر دیا۔

تین سال بعد انہوں نے سرگودھا کی سول کورٹ کے 2008 میں دیے گئے فیصلے کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں ایک نئی درخواست دائر کی۔ تاہم اپنی والدہ کے برعکس انہوں نے یہ درخواست مذہبی بنیاد پر دینے کے بجائے اس میں یہ موقف اختیار کیا کہ پاکستان میں مروج ہندو قوانین اور 1929 کا ہندو وراثت ایکٹ دونوں پاکستان کے آئین سے مطابقت نہیں رکھتے۔

انہوں نے اپنی درخواست میں کہا کہ یہ قوانین محض جنس کی بنیاد پر عورت کو وراثت سے محروم کرتے ہیں جبکہ پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 25 واضح طور پر کہتا ہے کہ "قانون کی نظر میں تمام شہری برابر ہیں اور کسی شخص سے اس کی جنس کی بنیاد پر امتیاز نہیں برتا جا سکتا"۔ انہوں نے آئین کے آرٹیکل 25 (3) کا حوالہ بھی دیا جو ریاست کو "خواتین اور بچوں کے تحفظ کا خصوصی اہتمام" کرنے کو کہتا ہے۔

ان کی درخواست میں مزید کہا گیا کہ اگرچہ آئین کا آرٹیکل 20 یہ کہتا ہے کہ "ہر شہری کو اپنی مرضی کا عقیدہ اختیار کرنے، اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کا حق ہے" تاہم اس کا اطلاق "وراثتی معاملات اور دیگر مروج قوانین پر نہیں ہوتا"۔

لاہور ہائی کورٹ میں سونیا تلریجا کی نمائندگی کرنے والے سینئر وکیل علی سبطین فضلی کا کہنا ہے کہ "آئین کسی بھی طرح کے امتیاز بشمول جنس کی بنیاد پر امتیاز کی اجازت نہیں دیتا۔ اگر کوئی قانون امتیازی نوعیت کا ہے تو اسے ختم کیا جانا چاہیے"۔

انصاف میں تاخیر

انڈیا میں وراثت کا ایک نیا قانون 1956 میں متعاف کرایا گیا جو کسی متوفی شخص کی جائیداد کی تقسیم کے معاملے میں اس کی سگی خواتین رشتہ داروں کو اس کے سوتیلے مرد رشتہ داروں پر فوقیت دیتا ہے۔ اسی طرح 2005 میں انڈیا میں لاگو کیا جانے والا ہندو وراثت (ترمیمی) ایکٹ یہ یقینی بناتا ہے کہ کسی متوفی کا ترکہ اس کی بیٹیوں اور بیٹوں میں برابر تقسیم ہو

لیکن پاکستان میں ایسی کوئی قانونی تبدیلیاں نہیں کی گئیں۔ البتہ 2015 میں وزارتِ انسانی حقوق و اقلیتی امور نے سونیا تلریجا کی پٹیشن پر تبادلہ خیال کے لیے ایک اجلاس ضرور منعقد کیا۔ اس اجلاس میں ایک ہندو تنظیم کے سربراہ ڈاکٹر رمیش کمار ونکوانی اور اس وقت کی حکمران جماعت کے ارکان اسمبلی نے تجویز دی کہ ہندو وراثت ایکٹ میں کوئی بھی تبدیلی لانے کے لیے ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے قانونی اور مذہبی ماہرین سے مشاورت ضروری ہے۔ علی سبطین فضلی کہتے ہیں کہ وزارت نے بعض ہندو ارکان اسمبلی کو ہندو پنڈتوں اور دیگر متعلقہ لوگوں سے مشورہ کرنے کو کہا تاکہ وہ اس قانون میں ترامیم تجویز کریں۔ اس کے بعد اب تک اس معاملے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔

وہ اقبال بلند اور برسپتی رام پر لاہور ہائی کورٹ کے اس حکم کی خلاف ورزی کا الزام بھی عائد کرتی ہیں جس میں اس حویلی کو جوں کا توں رکھنے کو کہا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ حکم انہی کی درخواست پر جاری کیا گیا تھا لیکن اب اس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے حویلی کو فروخت کیا اور گرایا جا رہا ہے۔

دوسری جانب اقبال بلند کا دعویٰ ہے کہ حویلی کو جوں کا توں رکھنے کا حکم اس کی فروخت کے بعد آیا تھا۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ عدالتی معاملات جیسے بھی ہوں ساہنیوں کی آبائی جائیداد کسی اور کے بجائے ساہنیوں کو ہی ملنی چاہیے۔

سونیا تلریجا کے مطابق اگرچہ اس متنازعہ جائیداد کی قیمت بہت زیادہ ہے لیکن وہ کہتی ہیں انہیں اس کی قیمت سے اتنی دلچسپی نہیں جتنا اس بات کا دکھ ہے کہ ان کی والدہ کو وفات سے پہلے اپنے ہی بھائیوں کے بچوں سے "دغا بازی" کا سامنا کرنا پڑا ۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کی جدوجہد کا مقصد محض ایک خاندانی تنازعہ چکانا نہیں بلکہ یہ پدر شاہی کی بنیاد پر قائم کیے گئے معاشرے کے خلاف ان کی جنگ ہے کیونکہ قانون بنانے والے، جو سبھی مرد ہوتے ہیں، اسی بنیاد پر مذہبی اصولوں کو استعمال کرتے چلے آئے ہیں۔

اپنی پٹیشن کی حتمی سماعت کا طویل عرصے سے انتظار کرنے کے باوجود سونیا تلریجا مایوس نہیں ہیں۔ انہوں نے وزیراعظم کے دفتر (پی ایم او) کو بھی ایک تحریری شکایت بھیجی ہے جس میں انہوں نے اپنے مقدمے پر فوری اور منصفانہ فیصلے کا مطالبہ کیا ہے۔

لیکن اس دفتر سے اب تک انہیں کوئی جواب نہیں ملا۔

یہ رپورٹ لوک سجاگ نے پہلی دفعہ 19 جولائی 2021 کو اپنی پرانی ویب سائٹ پر شائع کی تھی۔

تاریخ اشاعت 16 فروری 2022

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

مہرین برنی نے انگریزی ادب میں بی اے آنرز کیا ہے۔ وہ سیاسی و انتخابی موضوعات پر کام کرتی ہیں۔

خیبر پختونخوا: ڈگری والے ناکام ہوتے ہیں تو کوکا "خاندان' یاد آتا ہے

thumb
سٹوری

عمر کوٹ تحصیل میں 'برتھ سرٹیفکیٹ' کے لیے 80 کلومیٹر سفر کیوں کرنا پڑتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceالیاس تھری

سوات: موسمیاتی تبدیلی نے کسانوں سے گندم چھین لی ہے

سوات: سرکاری دفاتر بناتے ہیں لیکن سرکاری سکول کوئی نہیں بناتا

thumb
سٹوری

صحبت پور: لوگ دیہی علاقوں سے شہروں میں نقل مکانی پر کیوں مجبور ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceرضوان الزمان منگی
thumb
سٹوری

بارشوں اور لینڈ سلائڈز سے خیبر پختونخوا میں زیادہ جانی نقصان کیوں ہوتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا

یہ پُل نہیں موت کا کنواں ہے

thumb
سٹوری

فیصل آباد زیادتی کیس: "شہر کے لوگ جینے نہیں دے رہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
thumb
سٹوری

قانون تو بن گیا مگر ملزموں پر تشدد اور زیرِ حراست افراد کی ہلاکتیں کون روکے گا ؟

arrow

مزید پڑھیں

ماہ پارہ ذوالقدر

تھرپارکر: انسانوں کے علاج کے لیے درختوں کا قتل

دریائے سوات: کُنڈی ڈالو تو کچرا نکلتا ہے

thumb
سٹوری

"ہماری عید اس دن ہوتی ہے جب گھر میں کھانا بنتا ہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.