حیسکو کے 'ون فائیو' ملازمین، جو کام کے دوران ہلاک یا معذور ہو جائیں تو کوئی خبر نہیں لیتا

postImg

اشفاق لغاری

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

حیسکو کے 'ون فائیو' ملازمین، جو کام کے دوران ہلاک یا معذور ہو جائیں تو کوئی خبر نہیں لیتا

اشفاق لغاری

loop

انگریزی میں پڑھیں

ٹنڈو الہ یار کے چالیس سالہ امداد علی رند پانچ اگست 2023ء کو بجلی کے پول پر کرنٹ لگنے سے دم توڑ گئے۔ وہ چمبڑ شہر کے علاقے پرانی مویشی منڈی میں ٹرانسفارمر مرمت کرنے کے لیے پول پر چڑھے تھے۔ جونہی انہوں نے ٹرانسفارمر سے تاریں (لنک) لگائیں تو انہیں کرنٹ لگ گیا۔

امداد پچھلے 12 سال سے حیدرآباد الیکٹرک سپلائی کمپنی (حیسکو) میں پرائیویٹ ملازم (ریگولر اہلکار انہیں 'ون فائیو سٹاف' کہتے ہیں) کے طور کام کر رہے تھے۔ یہاں سے پہلے وہ بدین کے علاقے ماتلی میں بھی حیسکو کے لیے کام کرتے تھے۔ تاہم یہ معلوم ںہیں ہو سکا کہ انہیں اس کام کی کتنی تنخواہ یا دیہاڑی ملتی تھی۔

 امداد علی چمبڑ کی شاہ لطیف کالونی  کے رہائشی اور چھ بچوں کے باپ تھے۔

ان کے بڑے بیٹے ایاز علی کی عمر 21 سال ہے اور وہ بھی پچھلے دو سال سے حیسکو کے لیے چمبڑ میں (پرائیویٹ ملازم کے طور پر) کام کر رہے ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ حیسکو کے چمبڑ آفس میں صارفین کی جانب سے بجلی کی خرابی ،تار ٹوٹنے یا ٹرانسفارمر و میٹر مرمت کرنے کی جتنی شکایات آتی تھیں۔ان تمام کو دور کرنے کے لیے ان کے والد کو ہی  بھیجا جاتا تھا۔

ایاز خود  بھی حیسکو سب ڈویژن  میں بجلی کے ماہانہ بل بانٹے ہیں۔ انہیں مرمت کا کام ملتا ہے تو وہ بھی کر لیتے ہیں۔ایاز کے چھوٹے بھائی ارشد مزدوری کرتے ہیں۔تاہم دونوں بھائی دیہاڑی دار ہیں۔

ایاز بتاتے ہیں کہ انہیں گھر کا ماہانہ 12 ہزار روپے کرایہ ادا کرنا ہوتا ہے۔ والد کےانتقال پر حیسکو یونین کے عہدیدار اور چند اہلکار آئے تھے جو ڈیڑھ لاکھ روپے امداد دے گئے۔اس کے بعد انہیں کسی نے انہیں نہیں پوچھا۔

پچاس سالہ اللہ جڑیو خاصخیلی ایک ماہ قبل جولائی 2023ء میں وتایو فقیر کی درگاہ کے نزدیک ٹنڈو الہ یار میں کرنٹ لگنے سے جھلس کر ہلاک ہو گئے۔ وہ گیارہ ہزار  وولٹ لائن کے پول پر مرمت کا کام کر رہے تھے کہ بجلی کی تاروں سے آگ لگ گئی۔

اللہ جڑیو کا تعلق ضلع مٹیاری کے گاؤں شاہ پور درپور  سے تھا۔ وہ  30 سال سے حیسکو ملازمین کے ساتھ مٹیاری اور ٹنڈو الہ یار میں کام کرتے تھے۔

الھ جڑیو  کے بھائی سیفل خاصخیلی ٹرک ڈرائیور ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کے بھائی کو حیسکو لائن مین کام پر ساتھ لے گئے تھے اور بھائی کو کھمبے پر چڑھا کر خود کہیں چلے گئے۔ اس پول سے دو مختلف لائنیں گذر رہی تھیں۔ایک لائن بند تھی ۔دوسری کے تاروں سے بھائی کو کرنٹ لگا اور آگ لگ گئی۔

وہ کہتے ہیں کہ اللہ جڑیو کے جسم کا نچلا حصہ مکمل جل گیا تھا۔حیسکو اہلکاروں اور یونین  والوں نے مرحوم کے خاندان کو تین لاکھ روپے دیے مزید مدد  کا وعدہ کیا  جو ابھی تک وفا نہیں ہوا۔

سیفل کے چھوٹے بھائی 28 سالہ مموں بھی مٹیاری میں حیسکو  کے ساتھ کام (پرائیویٹ حیثیت میں) کرتے تھے۔ چار سال قبل پول پر کام کے دوران انہیں بھی کرنٹ لگا اور وہ تین ماہ مختلف ہسپتالوں میں زیر علاج رہنے کے بعد فوت ہوگئے۔

اٹھائیس سالہ خان محمد ٹنڈو الہ یار کے رہائشی ہیں اور حیسکو کے 'ون فائیو سٹاف' میں کام کر رہے ہیں۔ وہ میٹر اور تار لگانے سے ٹرانسفارمر کی مرمت اورگیارہ ہزار کے وی کے تار جوڑ نے تک تمام کام کرتے ہیں۔ مگر ان کا بجلی کمپنی یا سرکاری مراعات پر کوئی حق نہیں۔

 وہ بتاتے ہیں کہ پہلےاس سب ڈویژن میں حیسکو ملازمین کے ساتھ 50 کے قریب پرائیویٹ لوگ کام کر رہے تھے۔ کرنٹ لگنے سے مسلسل چار ہلاکتوں کے بعد ٹنڈو الہ یار میں صرف 15 پرائیویٹ لوگ رہ گئے ہیں۔

حیسکو کے مطابق اگر کمپنی کا کوئی ملازم دوران ڈیوٹی حادثے میں فوت ہو جائے تو  ورثاء کو 40 لاکھ روپے دیے جاتے ہیں۔ اگر کوئی معذور ہو جائے تو اسے بھی 40 لاکھ ملتے ہیں۔ زخمی ملازم کا علاج پٹیل ہسپتال کراچی سے کمپنی کے خرچ پر کرایا جاتا ہے۔تاہم ون فائیو سٹاف (پرائیویٹ ملازم) کو  ایسا کچھ نہیں ملتا۔

صرف امداد رند، اللہ جڑیو خاصخیلی اور مموں ہی نہیں۔کئی نو جوان نجی ملازم بھی حیسکو میں حادثات کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ان کے خاندانوں کو کسی نے پلٹ کر نہیں پوچھا۔ کبھی کسی ہلاکت پر کوئی مقدمہ بنا نہ ہی حادثے کی تحقیقات ہوئیں۔

حیسکو تین ڈویژنوں حیدرآباد،  میرپور خاص اور نواب شا ہ کے 13 اضلاع میں کام کرتی ہے۔ اس کے کل صارفین کی تعداد 13 لاکھ ہے۔ ان میں گھریلو و کمرشل اور زرعی ٹیوب ویل صارفین وغیرہ تمام شامل ہیں۔

حیسکو کے علاقے کو 17 ڈویژنز  اور 72 سب ڈویژنز  میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ہر  سب ڈویژن میں لگ بھگ  60 اہلکار فیلڈ آپریشنز کے لیے تعینات ہوتے ہیں۔ان کی کل تعداد  تین ہزار 965 ہے جبکہ سیکڑوں اسامیاں  خالی ہیں۔

آل واپڈا ہائیڈرو الیکٹرک ورکرز یونین (سی بی ای) کے مطابق پچھلے ایک سال( جولائی  2022ءسے اگست 2023ء) میں کام کے دوران متعدد حادثات پیش آئے۔ ان میں پانچ ریگولر ملازمین جاں بحق اور 12 زخمی ہوئے ہیں۔

 حیسکو ترجمان  محمد صادق  نے بھی ان اعدادوشمار کی تصدیق کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جاں بحق اور زخمی ہونے والے بیشتر لائن مین تھے۔ زخمی ہونے میں ہاتھ، پاؤں یا دونوں سے محرومی اور جسم کا نچلا حصہ بے کار ہو جانا بھی شامل ہے۔

سی بی اے یونین سمیت کسی کے پاس حیسکو میں کام  کر نے والے نجی ملازمین کے مصدقہ اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں۔ تاہم یونین کے ایک عہدیدار دعویٰ کرتے ہیں کہ حیسکو میں ان کی تعداد ریگولر ملازمین سے تین گناہ زیادہ ہے اور ملک بھر میں ایک لاکھ کے قریب پرائیویٹ افراد ڈسٹری بیوشن کمپنوں میں کام کر ہے ہیں۔

حیسکو ترجمان  کہتے ہیں کہ ادارے  میں کسی پرائیویٹ شخص کا کام کرنا غیر قانونی ہے۔ ایسے لوگوں کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کیا جاتا ہے اور کمپنی ان پر مقدمہ درج کراتی ہے۔

ہو سکتا ہے ترجمان حیسکو لا علم ہوں مگر کمپنی کے آپریشنل افسر سب جانتے ہیں۔ ایک سابق ایس ڈی او برسوں حیسکو میں خدمات انجام دے چکے ہیں۔انہوں نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پرائیویٹ لوگ حیسکو میں ریگولر ملازمین کی طرح کام کر رہے ہیں۔انہیں زیادہ تر لائن مین، لائن سپرنٹنڈنٹ اور میٹر ریڈر اپنے پاس رکھتے ہیں۔ان کی کوئی تربیت ہوتی ہے نہ ہی تعلیم یا عمر کی پابند،  بس کام آنا چاہیئے۔

انہوں نے انکشاف کیا کہ بعض حیسکو ملازمین نوکری پر آتے ہی نہیں۔ایسے لوگوں نے اپنی جگہ ون فائیو سٹاف رکھا ہوا ہے۔بعض اہلکار رات کی ڈیوٹی نہیں کرتے۔ یہ اہلکار بھی اجرت پر پرائیویٹ لوگوں سے ڈیوٹی کراتے ہیں۔

سابق افسر نے بتایا کہ ون فائیو والے کوصارف سےکم از کم 2 ہزار روپے(بھتہ،رشوت یا کمائی جو بھی نام دیں) ملتے ہیں۔ وہ ایک ہزار کام دلانے والے لائن مین یا لائن سپرنٹنڈنٹ کو دیتا اور باقی  خود رکھتا ہے۔

11 ہزار وولٹ کے تاروں، پول اور ٹرانسفارمر کے کام کی مزدوری  30 ہزار روپے ہوتی ہے تو اس سے سب اچھا کما لیتے ہیں۔ریگولر ملازم رات کی ڈیوٹی  کرنے والے ون فائیو  کو 20 ہزار روپے تک ماہانہ دیتے ہیں باقی وہ صارفین سے کما لیتے ہیں۔

ایس ڈی او کے مطابق ون فائیو (نجی ملازم)کا کوئی کنٹریکٹ یا لیٹر نہیں ہوتا۔ کام کے دوران حادثے  کی صورت میں ورثا پولیس کو رپورٹ نہیں کرتے۔نہ ہی حیسکو کو شکایت یا اطلاع کرتے ہیں۔ حیسکو اہلکار مرحوم کے لواحقین کو سمجھا دیتے ہیں کہ حادثے میں زخمی یا ہلاک ہونے والا خود غیر قانونی کام کر رہا تھا۔

عبداللطیف نظامانی مسلسل پانچویں مرتبہ آل واپڈا ہائیڈرو الیکٹرک ورکرز یونین (سی بی ای) کے صدر منتخب ہوئے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ سب ڈویژنوں میں ملازمین کم ہونےکی وجہ سے ایس ڈی او اور لائن سپرنٹنڈنٹ نجی ملازمین رکھتے ہیں۔ وہ اس عمل کے سخت مخالف ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

لے سانس بھی آہستہ کے نازک ہے بہت کام: جان ہتھیلی پر رکھ کر ڈیوٹی دیتے لائن مین۔

وہ کہتے ہیں کہ نجی ملازمین غیر تربیت یافتہ ہوتے ہیں۔ ان کے پاس آلات اور ضروری سامان بھی نہیں ہوتا۔ بجلی کے کام کے لیے مخصوص لباس اور جوتا تک نہیں پہنتے۔اس سےحادثات کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ نجی ملازمین کا مسئلہ صرف حیسکو کا نہیں بلکہ پورے پاکستان کی  بجلی تقسیم کار کمپنیوں میں پرائیویٹ لوگ کام کر رہے ہیں۔بجلی کے صارفین اور کنکشن بڑھ رہے ہیں مگر کمپنیاں ملازمین کی تعداد میں اضافہ نہیں کرتیں ۔کام کے اضافی لوڈ سے حادثات بھی بڑھ گئے ہیں۔

پاکستان الیکٹرک پاور کپمنی نے حادثات روکنے کے لیے 2017 ء میں بجلی کی تمام تقسیم کار کمپنیوں کو حکم نامہ جاری کیا تھا۔اس میں ان احکامات پر عملدرآمد کی نگرانی ایکسیئن اور ایس ڈی اوز کو سونپی گئی تھی۔ مگر حقائق بتاتے ہیں کہ نگرانوں کے رکھے ہوئے پرائیویٹ ملازم ہی حادثات کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔

تاریخ اشاعت 11 ستمبر 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

اشفاق لغاری کا تعلق حیدرآباد سندھ سے ہے، وہ انسانی حقوق، پسماندہ طبقوں، ثقافت اور ماحولیات سے متعلق رپورٹنگ کرتے ہیں۔

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

thumb
سٹوری

سوات میں غیرت کے نام پر قتل کے روز بروز بڑھتے واقعات، آخر وجہ کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوقار احمد

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

thumb
سٹوری

سندھ زرعی یونیورسٹی، جنسی ہراسانی کی شکایت پر انصاف کا حصول مشکل کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

خیبر پختونخوا، 14 سال گزر گئے مگر حکومت سے سکول تعمیر نہیں ہو سکا

thumb
سٹوری

فصائی آلودگی میں کمی کے لیے گرین لاک ڈاؤن کے منفی نتائج کون بھگت رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

آن لائن گیمز سے بڑھتی ہوئی اموات کا ذمہ دار کون؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

سندھ میں ایم ڈی کیٹ دوبارہ، "بولیاں تو اب بھی لگیں گی"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار

میڈ ان افغانستان چولہے، خرچ کم تپش زیادہ

ہمت ہو تو ایک سلائی مشین سے بھی ادارہ بن جاتا ہے

جدید کاشت کاری میں خواتین مردوں سے آگے

thumb
سٹوری

موسمیاتی تبدیلیاں: دریائے پنجکوڑہ کی وادی کمراٹ و ملحقہ علاقوں کو برفانی جھیلوں سے کیا خطرات ہیں ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.