رحیم یار خان کی بستی نوناری سے تعلق رکھنے والی شمشاد بی بی نے دو سال پہلے بڑے آپریشن کے بعد بچی کو جنم دیا جو پیدائش سے کچھ ہی دیر کے بعد انتقال کر گئی۔ ہسپتال سے ڈسچارج ہونے کے بعد شمشاد اپنے گھر واپس آئیں تو ان کی طبعیت مسلسل خراب رہنے لگی۔ انہوں نے اپنا چیک اپ کرایا تو معلوم ہوا کہ انہیں ہیپا ٹائٹس سی لاحق ہے جبکہ آپریشن سے پہلے انہیں یہ بیماری نہیں تھی۔
بستی نوناری رحیم یار خان کی تحصیل لیاقت پور میں واقع ہے اور شمشاد بی بی کا آپریشن تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال میں ہوا تھا۔ اسی ہسپتال نے ہیپاٹائٹس کے علاج کے لیے انہیں تین ماہ کی ادویات تجویز کی ہیں۔ شمشاد نے یہ کورس مکمل کر لیا ہے اور اب دوبارہ ٹیسٹ کرانے پر معلوم ہو گا کہ انہیں کس قدر افاقہ ہوا ہے۔
ڈھائی سو گھروں پر مشتمل بستی نوناری کی آبادی دو ہزار ہے۔ شہر سے قریب ہونے کے باوجود یہاں زندگی کی بنیادی سہولتیں میسر نہیں ہیں۔ بستی کے زیادہ تر لوگ کاشتکاری اور اینٹوں کے بھٹوں پر مزدوری کرتے ہیں جبکہ بعض کراچی، لاہور اور دیگر شہروں میں محنت مشقت کر کے اپنے خاندانوں کی کفالت کرتے ہیں۔
شمشاد کے شوہر عاصم خان کو خدشہ ہے کہ ان کی اہلیہ کو ہیپاٹائٹس کی بیماری تحصیل ہسپتال لیاقت پور میں بچے کی پیدائش کے دوران آلودہ آلات جراحی کے استعمال سے لاحق ہوئی تھی کیونکہ آپریشن سے پہلے کئے گئے ٹیسٹ میں انہیں ہیپا ٹائٹس نہیں تھا۔
بستی نوناری کے ملازم حسین، رب نواز، محمد رمضان اور ان کی اہلیہ صائمہ بی بی، بشیراں بی بی، خلیل احمد، شکیل، شہباز، شازیہ، شاد بی بی اور عارف سمیت بہت سے لوگوں کو ہیپا ٹائٹس سی لاحق ہے۔ پچھلے دو سال میں ریاض، حمیدہ بی بی، صغراں بی بی، فیض احمد، نزہت بی بی، عبدالعزیز اور چند دیگر لوگ اس مرض میں مبتلا رہنے کے بعد انتقال کر گئے ہیں۔
تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال لیاقت پور میں قائم ہیپاٹائیٹس کنٹرول پروگرام کے تحت چلائے جانے والے ہیپا ٹائٹس کلینک میں اس سال فروری میں 620 افراد کا معائندہ کیا گیا جن میں 49 افراد ہیپا ٹائٹس بی اور 120 ہیپاٹائٹس سی میں مبتلا پائے گئے۔
فروری میں 620 افراد کا معائندہ کیا گیا جن میں 27 فیصد افراد ہیپاٹائٹس میں مبتلا پائے گئے
2022 میں یہاں مجموعی طور پر 6061 افراد نےاپنا معائنہ کراوایا جن میں 530 افراد میں ہیپاٹائیٹس بی اور 1440 افراد میں ہیپاٹائیٹس سی کی تشخیص ہوئی۔
ہسپتال میں اس شعبے کی سربراہ ڈاکٹر اقراء مدثر کہتی ہیں کہ یہ دونوں بیماریاں متاثرہ افراد کے زیراستعمال رہنے والی سرنجوں، بلیڈ، قینچی، نیل کٹر، ٹوتھ برش اور آلات جراحی سے پھیلتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عام خیال کے برعکس ہیپاٹائٹس سی کا پینے کے پانی میں آرسینک یا مرکری کی آمیزش سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
اس بات سے شمشاد بی بی کے شوہر عاصم کے خدشات کی تصدیق ہوتی ہے۔
ڈاکٹر اقراء بتاتی ہیں کہ لیاقت پور کے کچے کے علاقوں کے علاوہ چولستان میں بھی ہیپاٹائٹس کے مریضوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ہسپتال میں لوگوں کو اس وائرس کی سکریننگ اور علاج کی بلاتخصیص مفت سہولت فراہم کی جا رہی ہے تاہم لوگوں کو اس مرض اور اس کے علاج بارے میں مقامی سطح پر آگاہی دینے کی ضرورت ہے۔
تحصیل انجمن تاجران کے جنرل سیکرٹری اور بستی نوناری کے رہائشی ممتاز حسین بلوچ بتاتے ہیں کہ نوناری میں ہر سال پانچ سات افراد ہیپا ٹائٹس سی کا شکار ہو کر انتقال کر جاتے ہیں۔ بستی کے مکین نہیں جانتے کہ انہیں یہ بیماری کیوں لاحق ہوتی ہے اور محکمہ صحت نے بھی ابھی تک جانب کوئی توجہ نہیں دی۔ ان کا خیال ہے کہ بستی میں لوگوں کی ان اموات کے پیچھے کہیں نہ کہیں پینے کے آلودہ پانی کا بھی کردار ہے۔
نوجوان ڈاکٹروں کی مقامی تنظیم ینگ الائیڈ ہیلتھ پروفیشنلز ایسوسی ایشن کے چیئرمین قدیر احمد سے جب علاقے میں اس بیماری کے پھیلاؤ کی ممکنہ وجوہات کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ہیپاٹائٹس بی اور سی عمومی طور پر وائرل انفیکشن کا نتیجہ ہوتا ہے تاہم زہریلے اور سیوریج ملے پانی میں شامل مادوں کے بعض اجزا بھی اس بیماری کا سبب بن سکتے ہیں۔
تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال لیاقت پور کے ڈپٹی میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر شاہد اقبال رانا کہتے ہیں اگر بستی نوناری میں ہیپاٹائٹس کی شکایات زیادہ ہیں تو وہاں کے لوگوں کے لیے ہسپتال میں علاج کا خصوصی انتظام کیا جا سکتا جہاں روزانہ پندرہ سے بیس افراد اپنا معائنہ کروا سکیں گے۔
یہ بھی پڑھیں
مہنگا اور غیر معیاری علاج: ہیپاٹائٹس کے غریب مریض سرکاری ہسپتالوں میں خوار۔
ڈپٹی ہیلتھ آفس لیاقت پور کے دفتر میں حفاظتی ٹیکوں کے شعبے کے اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ نذیر رحمانی کا کہنا ہے کہ انتظامیہ نے ہیپاٹائٹس کی روک تھام اور اس کے بروقت علاج کے لیے خاطرخواہ انتظامات کر رکھے ہیں۔ اس سلسلے میں تحصیل لیاقت پور کے پانچ دیہی مراکز صحت اور 28 بنیادی مراکز صحت میں میں بالغ افراد کے لیے ہیپاٹائٹس چیک اپ کی سٹرپس دستیاب ہیں۔
''اگر کسی کا مثبت رزلٹ آ جائے تو اس کا مفت علاج کیا جاتا ہے جو تین ماہ میں مکمل ہو جاتا ہے۔ حفاظتی ٹیکوں کے توسیعی پروگرام (ای پی آئی) میں پیدائش سے لےکر 14 دن کے اندر ہیپاٹائٹس سے بچاو کی "برتھ ڈوز" دی جاتی ہے جبکہ اس پروگرام میں ہیپاٹائٹس کی ویکسین بھی شامل ہے جو پیدائش سے لے کر 18 ماہ کی عمر تک کے بچوں کو لگائی جاتی ہے۔
نذیر کا کہنا ہے کہ ڈپٹی ہیلتھ آفس میں بستی نوناری میں ہیپاٹائیٹس کے پھیلاؤ کے حوالے سے کوئی اطلاع نہیں ہے۔
تاریخ اشاعت 6 اپریل 2023