لاہور میں مینارِ پاکستان کے پاس واقع کریم پارک کے علاقے سے تعلق رکھنے والی شفیعہ حسین 20 نومبر 2021 کی صبح 10 بجے جناح ہسپتال کے ہیپاٹائٹس کلینک کے باہر خوفزدہ بیٹھی اپنی باری کا انتظار کر رہی ہیں۔
ایک ماہ قبل انہوں نے اپنے محلے سے اپنے خون کا تجزیہ کرایا تھا جس سے انہیں پتہ چلا کہ انہیں ہیپاٹائٹس سی ہو گیا ہے۔ اب وہ شہر کے اس بڑے سرکاری ہسپتال میں آئی ہیں تاکہ اپنے جسم میں اس بیماری کے وائرس کی مقدار معلوم کر کے اس کے مطابق اپنا علاج کرا سکیں۔ انہیں ڈر لگ رہا ہے کہ کہیں ان کا مرض قابلِ علاج حد سے باہر نہ چلا گیا ہو۔
دراصل انہیں 10 سال قبل پہلی بار پتا چلا تھا کہ ہیپاٹائٹس سی کا وائرس ان پر حملہ آور ہو چکا ہے۔ اس وقت وہ 37 سال کی تھیں اور ایک بیٹے کی پیدائش کے مراحل سے گزر رہی تھیں۔ تاہم اس دوران کیے گئے ٹیسٹوں سے یہ بات سامنے آئی کہ ان کے جسم میں پائے جانے والے وائرس کی مقدار بہت کم ہے اور وہ غیر فعال ہے۔ اس لیے ڈاکٹروں نے انہیں مشورہ دیا کہ ابھی وہ اس کا علاج نہ کرائیں تاکہ دوائیوں کا استعمال سے وائرس کہیں فعال نہ ہو جائے۔
مئی 2021 میں یہ خوابیدہ وائرس بالآخر سر اٹھانے لگا جس کے نتیجے میں ان کے جسم میں ایسی سوزش پیدا ہوئی کہ ان کے لیے کسی بھی قسم کی حرکت کرنا ناقابل یقین حد تک تکلیف دہ عمل بن گیا۔ ان کے معالج نے انہیں بتایا کہ ان کا جگر سکڑنے لگا ہے اور ان کے پیٹ میں ضرر رساں سیال جمع ہو رہا ہے۔ اگلے چھ ماہ میں وہ چلنے پھرنے، کھانے پینے اور سونے سے بھی قاصر ہو گئیں۔
اور پھر چند روز قبل ان کی حالت اس قدر خراب ہو گئی کہ ان کے معالج نے انہیں ہر قسم کی حرکت سے منع کر دیا۔ جب مسلسل علاج سے انہیں کچھ افاقہ ہوا تو اس نے انہیں کہا کہ وہ اپنے جسم میں وائرس کی مقدار معلوم کرنے کے لیے پی سی آر ٹیسٹ کرائیں۔
شفیعہ کے شوہر، حسین شیخ، اپنے خاندان کے واحد برسرِروزگار فرد ہیں۔ وہ اپنے گھر سے لگ بھگ چار کلومیٹر مشرق میں واقع مصری شاہ کے علاقے میں موٹر سائیکلوں کی ورک شاپ پر کام کرتے ہیں۔ چونکہ وہ اپنی بیوی کے علاج کے لیے درکار رقم اور دیگر گھریلو اخراجات پورے کرنے کے لیے دن بھر کام میں مصروف رہتے ہیں اس لیے شفیعہ کو اکیلے ہی اپنا علاج معالجہ کرانا پڑتا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ "نجی ہسپتال والے پی سی آر ٹیسٹ کا پانچ ہزار روپے معاوضہ لیتے ہیں" جو ان کی مالی استطاعت سے باہر ہے۔ اس سے پہلے اکتوبر 2021 میں وہ اپنے محلے میں موجود ایک معالج سے علاج کرانے پر کافی پیسے خرچ کر چکی ہیں۔ ان کے مطابق "اس نے صرف معائنہ کرنے کے عوض مجھ سے 10 ہزار روپے لے لیے جبکہ مزید دو ہزار روپے دوائیوں پر خرچ ہو گئے"۔
لہٰذا وہ بیمار ہونے کے باوجود بسوں اور ویگنوں میں تقریباً 16 کلومیٹر کا سفر کر کے جناح ہسپتال آئی ہیں تاکہ یہاں سے اپنا ٹیسٹ سرکاری قیمت پر سستے داموں کرا سکیں۔ درد کے مارے کراہتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ "پاکستان میں غریبوں کے لیے صحت کی کوئی سہولیات موجود نہیں"۔
لاہور سے تقریباً 70 کلومیٹر جنوب مغرب میں واقع شہر ننکانہ صاحب سے تعلق رکھنے والے سبزی فروش منیر احمد کو بھی یہی شکایت ہے۔ وہ جناح ہسپتال کے ہیپاٹائٹس کلینک کے باہر شفیعہ سے کچھ نشستوں کے فاصلے پر بیٹھے ہیں اور کہتے ہیں کہ "میں روزانہ کے حساب سے اجرت کمانے والا مزدور ہوں اس لیے نجی ہسپتالوں میں اپنے علاج کا خرچہ نہیں اٹھا سکتا"۔
ان کا ایک بھتیجا جناح ہسپتال میں نرسنگ اسسٹنٹ کے طور پر کام کرتا ہے۔ ان کے مطابق وہی علاج کرانے میں ان کی مدد کر رہا ہے۔
اگرچہ ان کا کہنا ہے کہ ان کی عمر 45 سال ہے لیکن ان کے چہرے اور ہاتھوں کی جلد جھریوں سے اس قدر بھری ہوئی ہے کہ وہ کہیں زیادہ بوڑھے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ "تقریباً ایک سال پہلے میری آنکھوں، سینے، ہاتھوں اور پاؤں میں شدید جلن محسوس ہونے لگی لیکن مجھے معلوم نہیں تھا کہ میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے"۔
وہ پچھلے چھ ماہ سے مسلسل علاج کرا رہے ہیں جس سے جلن تو ختم ہو گئی ہے لیکن، ان کے بقول، ان کی "جسمانی حالت پہلے سے بدتر ہو گئی ہے"۔ اس لیے اپنے شہر کے ایک ڈاکٹر کے مشورے پر وہ اپنا پی سی آر ٹیسٹ کرانے کے لیے جناح ہسپتال آئے ہیں۔
ان کے ساتھ ہی 47 سالہ فردوس بی بی بیٹھی ہیں۔ وہ لاہور سے 25 کلومیٹر شمال میں واقع قصبے مرید کے سے تعلق رکھتی ہیں اور پچھلے ایک سال سے ہیپاٹائٹس میں مبتلا ہیں۔ 12 سال پہلے ان کی بہن اسی بیماری کی وجہ سے فوت ہوئیں جبکہ پچھلے چھ سالوں میں ان کے دو بڑے بھائیوں کا بھی اس میں مبتلا ہو کر انتقال ہو گیا ۔
وہ تشخیص میں تاخیر اور علاج کے لیے مناسب اور سستی سہولیات کی عدم موجودگی کو ان اموات کا ذمہ دار ٹھہراتی ہیں اور خوف زدہ ہیں کہ کہیں ان کے ساتھ بھی ایسا ہی نہ ہو۔
علاج گاہیں یا انتظار گاہیں؟
شیخوپورہ کے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں واقع پنجاب ہیپاٹائٹس کنٹرول پروگرام کی انتظار گاہ میں 15 سالہ شانزہ ارشد اپنی خالہ کے ہمراہ بیٹھی ہیں۔ ان کے ہاتھ میں ان کی والدہ ثمینہ کی دوائیوں کے نسخے اور طبی معائنے کی پرچیاں ہیں۔
ثمینہ کو پانچ سال قبل ہیپاٹائٹس سی ہوا تھا لیکن اس وقت شیخوپورہ میں اس کا کوئی علاج دستیاب نہیں تھا اس لیے وہ مسلسل چھ ماہ لگ بھگ 60 کلومیٹر کا سفر طے کر کے لاہور کے حجاز ہسپتال نامی ایک خیراتی طبی ادارے سے اپنا مفت علاج کراتی رہیں۔
تین سال پہلے ان کا علاج کرنے والے ڈاکٹر نے انہیں بتایا کہ وہ مکمل طور پر صحت یاب ہو گئی ہیں لیکن اِس سال وہ پھر بیمار ہو گئیں اور مسلسل تھکاوٹ، پٹھوں میں کھچاؤ اور جگر کے ارد گرد شدید درد کی شکایت کرنے لگیں۔ جب انہوں نے شیخوپورہ میں واقع ایک نجی کلینک سے معائنہ کرایا تو انہیں پتہ چلا کہ وہ ایک بار پھر ہیپاٹائٹس سی سے متاثر ہو چکی ہیں۔ ان کی پریشان حال بیٹی سوال کرتی ہیں کہ کیا اس سرکاری ہسپتال میں ان کی والدہ کو درست علاج مِل پائے گا یا نہیں۔
دوسری طرف ہسپتال کے ایک سینئر اہل کار کا کہنا ہے کہ اس بیماری کے زیادہ تر مریض ان کے پاس اس وقت آتے ہیں جب ان کے جگر کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ چکا ہوتا ہے اس لیے اکثر اوقات وہ انہیں ہنگامی طبی امداد دینے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے۔
شیخوپورہ ہی میں ایک سستے نجی ہسپتال کے ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد اشرف کا کہنا ہے کہ ان کے شہر میں ہیپاٹائٹس سی کے مریضوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ ان کے بقول پچھلے کئی برس سے وہ ہر روز ہیپاٹائٹس سی کا کم از کم ایک مریض ضرور دیکھتے ہیں"۔
وہ کہتے ہیں کہ اس بیماری کے پھیلنے کے چار بڑے ذرائع غیر صحت مند خون کی منتقلی، آلودہ خوراک، آلودہ پانی اور علاج معالجے کے آلودہ آلات ہیں۔ 2016 میں کیے گئے ایک قومی سروے کے نتائج سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اس کے مریضوں کی ایک بڑی تعداد غیر صحت مند خون لگوانے کی وجہ سے اس کا شکار ہوئی جبکہ دانتوں کی صفائی اور ان کے علاج میں استعمال ہونے والے آلات بھی اس کے پھیلاؤ کی ایک بڑی وجہ کے طور پر سامنے آئے۔
ڈاکٹر محمد اشرف کہتے ہیں کہ طبی آلات کے ضرر رساں استعمال کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ حکومت نے ایسے لوگوں کو طبی مراکز چلانے کی اجازت دے رکھی ہے جو اس کے اہل نہیں۔ وہ اس بات کا بھی شکوہ کرتے ہیں کہ ضلعی انتظامیہ صفائی ستھرائی کی طرف کوئی دھیان نہیں دیتی جس کی وجہ سے روزمرہ کے استعمال کی اشیاء جیسے سبزیاں اور پھل دکانوں میں پڑے پڑے آلودگی کا شکار ہو جاتے ہیں جبکہ سیوریج کا مناسب انتظام نہ ہونے کی وجہ سے کئی زہریلے عناصر زیرِ زمین پانی میں شامل ہو رہے ہیں۔
سرکاری بجٹ: ڈیڑھ ہزار روپے فی مریض
مصر کے بعد پاکستان ایسے ممالک میں دوسرے نمبر پر ہے جہاں پانچ فیصد سے زیادہ آبادی میں ہیپاٹائٹس سی کا وائرس پایا جاتا ہے۔ اسی طرح دنیا بھر میں چین کے بعد اس مرض میں مبتلا لوگوں کی سب سے بڑی تعداد بھی پاکستان میں رہتی ہے۔
یہ اعداد و شمار 2016 میں ایک عالمی طبی جریدے میں شائع ہونے والے مختلف مطالعاتی تجزیات میں سامنے آئے۔ ان مطالعات کے لیے ملک کے چاروں صوبوں میں ایک لاکھ 65 ہزار آٹھ سو 46 ایسے افراد کے خون کا معائنہ کیا گیا جو ان علاقوں سے منتخب کیے گئے تھے جہاں مجموعی ملکی آبادی کا 80 فیصد رہتا ہے۔ اس معائنے کے مطابق سندھ کے ضلع نوشہرو فیروز کی دیہی آبادی میں 28.6 فیصد لوگوں میں ہیپاٹائٹس سی کا وائرس پایا گیا جو کہ پورے ملک میں اس کے مریضوں کی سب سے زیادہ شرح تھی جبکہ ان کی سب سے کم شرح وسطی پنجاب کے ضلع گوجرانوالہ میں دیکھنے میں آئی جہاں آبادی کے 2.3 فیصد حصے میں اس کی نشان دہی ہوئی۔
اسی طرح2017 میں پنجاب ایڈز کنٹرول پروگرام نے صوبے بھر کے 80 مختلف قصبوں میں کیمپ لگائے جن میں 66 ہزار 86 افراد کا معائنہ کیا گیا۔ ان میں سے 17.3 فیصد لوگوں میں ایسی اینٹی باڈیز پائی گئیں جو انسانی جسم کا مدافعتی نظام ہیپاٹائٹس سی کے وائرس کے حملے کے بعد اپنے اندر خود پیدا کر لیتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ کسی نہ کسی وقت اس مرض سے متاثر ہو چکے تھے۔
اس صورتِ حال پر بات کرتے ہوئے پنجاب کے ہیپاٹائٹس کنٹرول پروگرام کے مینیجر ڈاکٹر خالد محبوب کہتے ہیں کہ دراصل پنجاب میں اس مرض میں مبتلا افراد میں اضافہ ہو رہا ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ 2008 میں پاکستان میڈیکل اینڈ ریسرچ کونسل کی طرف سے کرائے گئے ایک جائزے کے مطابق صوبے کی مجموعی آبادی کے 6.7 فیصد میں ہیپاٹائٹس سی کا وائرس پایا گیا تھا جبکہ 2018 میں پنجاب حکومت کی طرف سے کیے گئے جائزے میں اس کی 8.9 فیصد آبادی میں اس کی موجودگی کی نشان دہی ہوئی۔
تاہم عالمی ادارہِ صحت کا کہنا ہے کہ ہیپاٹائٹس سی کے وائرس سے متاثر ہونے والے 95 فیصد لوگ ایسی دوائیوں کے استعمال سے دو سے تین ماہ کے اندر صحت یاب ہو سکتے ہیں جو براہِ راست اس وائرس پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ یہ دوائیاں ہسپتالوں اور ادویہ فروخت کرنے والی دکانوں پر عام دستیاب ہیں اگرچہ ان کی قیمت ہر کسی کی پہنچ میں نہیں کیونکہ ایک مریض کے لیے درکار دوائیوں پر ہزاروں روپے خرچہ آتا ہے۔
ایسے میں ہیپاٹائٹس کے زیادہ تر متاثرین سستے علاج کے لیے حکومت کی طرف دیکھتے ہیں لیکن ڈاکٹر خالد محبوب انکشاف کرتے ہیں کہ ان کا پروگرام اس وقت پنجاب میں موجود ہیپاٹائٹس کے نو لاکھ تصدیق شدہ مریضوں میں سے صرف ایک لاکھ کو مفت علاج کی سہولت فراہم کر سکتا ہے۔ ان کے مطابق "اس وقت پورے پنجاب کے لیے ہیپاٹائٹس سی کے علاج کے لیے ڈیڑھ ارب روپے رکھے گئے ہیں جو ہر نو مریضوں میں سے صرف ایک کا علاج کرنے کے لیے کافی ہیں"۔
یہ بھی پڑھیں
معاشرتی دباؤ: مردوں کے ساتھ جنسی اختلاط کے نتیجے میں ایڈز کا شکار ہونے والے مرد تشخیص اور علاج سے گریزاں۔
ان کا کہنا ہے کہ اس بیماری کی روک تھام کے لیے کیے گئے حکومتی اقدامات ہمیشہ ہی ناقص رہے ہیں۔ اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے وہ عالمی ادارہِ صحت کی اس تجویز کا حوالہ دیتے ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ ایسے ممالک جہاں کی پانچ فیصد سے زیادہ آبادی میں ہیپاٹائٹس کا وائرس پایا جائے ہنگامی حالت کا نفاذ کر کے اس کا فوری علاج کریں۔ لیکن، ان کے بقول، پاکستان کئی سال پہلے یہ حد عبور کرنے کے باوجود اس بیماری کی روک تھام کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کر رہا۔
وہ حال ہی میں شروع کیے گئے پرائم منسٹرز پروگرام برائے ہیپاٹائٹس سی کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگرچہ اس کے تحت 74 ارب 40 کروڑ مختص کیے گئے ہیں (جو پانچ سال میں خرچ کیے جائیں گے) لیکن انہیں "شبہ ہے کہ عملی طور پر اس کا کوئی وجود نہیں" کیونکہ، ان کے مطابق، ماضی میں بھی ایسے کئی منصوبے بنائے گئے ہیں جن پر کبھی عمل درآمد نہیں ہوا۔
اس حکومتی غفلت کی وجہ سے انہیں خدشہ ہے کہ 2030 تک پاکستان میں ہیپاٹائٹس سی سے متاثرہ افراد کی شرح آج کے مقابلے میں تین گنا ہو جائے گی۔
تاریخ اشاعت 29 نومبر 2021