'افسرشاہی ترقیاتی منصوبوں کو ہمارا قبرستان بنانا چاہتی ہے': گوادر کے لوگ تباہ کن بارشوں پر نالاں

postImg

جاوید بلوچ

postImg

'افسرشاہی ترقیاتی منصوبوں کو ہمارا قبرستان بنانا چاہتی ہے': گوادر کے لوگ تباہ کن بارشوں پر نالاں

جاوید بلوچ

سومار بلوچ کے گھر میں بارش کا اتنا پانی جمع ہوا کہ اس کی چار دیواری کا ایک حصہ ہی نیچے آ گرا۔ وہ اس کے گرنے کی ذمہ داری حکومتی اداروں پر ڈالتے ہیں جو، ان کے مطابق، ان کے گھر سے بارشی پانی بروقت نہیں نکال سکے۔ 

وہ جنوبی بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر کے محلہ گھٹی ڈھور میں رہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ 4 جنوری 2022 کی رات شروع ہونے والی بارش کا پانی ان کے گھر کے اندر جمع ہو کر چاردیواری کی بنیادوں میں رِستا رہا کیونکہ حکومت اس کے اخراج کے بند راستے فوری طور پر کھولنے میں ناکام رہی۔ 

اب اگرچہ بارش کو ختم ہوئے کئی روز گزر چکے ہیں لیکن 45 سالہ سومار بلوچ ابھی تک دیوار کو دوبارہ نہیں بنوا سکے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے پاس اس کام کے لیے درکار رقم موجود نہیں کیونکہ وہ بھیڑ بکریاں بیچ کر مشکل سے روزی روٹی کماتے ہیں۔ چنانچہ ان کا کہنا ہے کہ "میں ابھی تک انتظار میں ہوں کہ کب حکومت کی طرف سے مجھے کوئی مالی امداد فراہم کی جائے گی"۔

فراز بلوچ نامی ایک نوجوان گوادری ماہی گیر بھی اسی مسئلے سے دوچار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے گھر کی چاردیواری بھی جنوری کے پہلے ہفتے میں ہونے والی بارشوں میں گر گئی کیونکہ سرکاری ادارے ان کے محلے میں جمع ہونے والا بارشی پانی فوری طور پر باہر نہیں نکال سکے تھے۔ لیکن سومار بلوچ کی طرح انہیں بھی شکایت ہے کہ ابھی تک حکومت نے انہیں "کوئی مالی مدد فراہم نہیں کی"۔ 

حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کی شکایات ضلع گوادر کے طول و عرض میں عام ہیں۔ حال ہی میں 'گوادر کو حق دو' نامی عوامی تحریک کے پلیٹ فارم سے ہونے والے احتجاجی مظاہروں کی قیادت کرنے والی بزرگ خاتون، ماسی زینب، ان شکایات کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ "جب شہر میں پانی کی نکاسی کا کوئی نظام نہیں ہوگا تو بارشی پانی لوگوں کے گھروں میں ہی تو جمع ہوگا"۔ 

تاہم حکومتی اہلکار کہتے ہیں کہ بارش کی شدت ان کے لیے اتنی غیر متوقع تھی کہ وہ اس سے بچاؤ کے لیے خاطرخواہ انتظامات نہیں کر سکے۔ گوادر کے چیف میونسپل آفیسر افضل شہزادہ نے 18 جنوری 2022 کو گوادر پریس کلب میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے یہی نکتہِ نظر اختیار کیا اور کہا کہ "میرے گمان میں بھی نہیں تھا کہ اتنے بڑے پیمانے پر بارشیں ہوں گی"۔ 

صوبائی محکمہِ موسمیات کے اعدادوشمار ظاہر کرتے ہیں کہ اس سال جنوری کے شروع میں ہونے والی بارشیں واقعی غیر معمولی طور پر شدید تھیں۔ ان کے مطابق ضلع گوادر کی تحصیل پسنی میں ان دنوں میں ایک سو 15 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی جبکہ تحصیل گوادر میں 64 ملی میٹر اور تحصیل اوڑماڑہ میں 60 ملی میٹر بارش ہوئی۔ اس کے برعکس پچھلے کئی سالوں کے سرکاری حساب کتاب کے مطابق جنوری کے پورے مہینے میں ضلع گوادر میں اوسطاً صرف 25.9 ملی میٹر بارش پڑنی چاہیے۔

نکاسیِ آب کا مناسب انتظام نہ ہونے کے باعث مکانوں کی دیواریں گر گئی۔نکاسیِ آب کا مناسب انتظام نہ ہونے کے باعث مکانوں کی دیواریں گر گئی۔

اداروں کی 'نااہلی'

گوادر کی ضلعی انتظامیہ نے حال ہی میں ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ بارش سے ضلعے کے 47 مختلف مقامات پر سات سو چھ مکانات متاثر ہوئے ہیں جن میں تین ہزار ایک سو 60 افراد رہتے تھے۔ اس رپورٹ کا یہ بھی کہنا ہے کہ بارش کے پیدا کردہ سیلاب کی وجہ سے کئی مقامات پر ندی نالوں کے گرد بنائے گئے حفاظتی بند بہہ گئے اور پانی کے ریلوں کی زد میں آ کر کئی رابطہ سڑکیں ٹوٹ پھوٹ گئیں۔

ان قدرتی آفات نے پسنی تحصیل کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ بارش کے دوران اور اس کے بعد وہاں کے 21 دیہات کا باقی دنیا سے زمینی رابطہ کئی دن منقطع رہا حتیٰ کہ وہاں پھنسے ہوئے لوگوں کو فوجی ہیلی کاپٹروں کے ذریعے راشن، کمبل، پانی اور دیگر ضروری اشیا پہنچانا پڑیں۔ 

حکومتی اہلکاروں کا کہنا ہے کہ عسکری اداروں سمیت کئی سرکاری محکمے مل کر بارش کے متاثرین کی مدد کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ بلوچستان کی صوبائی حکومت نے گوادر اور پسنی تحصیلوں کو آفت زدہ قرار دے کر وہاں سرکاری محصولات اور سرکاری قرضوں کی وصولی بھی روک دی ہے۔  

تاہم گوادر شہر کی حد تک ماسی زینب اس صورتِ حال کی ذمہ داری ترقیاتی منصوبوں پر ڈالتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ "بارشوں نے لوگوں کو اتنا نقصان نہیں پہنچایا جتنا گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور دوسرے حکومتی اداروں کی طرف سے تعمیر کیے جانے والے مختلف ترقیاتی منصوبوں نے پہنچایا ہے"۔ وہ تو یہاں تک کہتی ہیں کہ یہ ادارے ان منصوبوں کو مقامی لوگوں کے لیے "قبرستان بنانا چاہتے ہیں"۔ 

اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ ماضی میں بھی گوادر میں بڑی موسلادھار بارشیں ہو چکی ہیں لیکن وہ شہریوں کے لیے وبالِ جان نہیں بنیں کیونکہ اس وقت شہر میں بڑی بڑی سرکاری تنصیبات اور ان سے منسلک سڑکوں جیسی تعمیرات نہ ہونے کے برابر تھیں۔ وہ گوادر کی بین الاقوامی بندرگاہ اور فش ہاربر کا حوالہ دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ "آج جن جگہوں پر یہ تعمیرات کھڑی ہیں وہ ماضی میں بارشی پانی کی سمندر میں نکاسی کے لیے استعمال ہوتے تھے"۔ 

گوادر کے معروف سماجی کارکن کے بی فراق بھی سمجھتے ہیں کہ ان منصوبوں کا مقصد مقامی لوگوں کی ترقی نہیں بلکہ انہیں "اس قدر تنگ کرنا ہے کہ وہ گوادر چھوڑ کر کہیں اور چلے جائیں تاکہ حکومت سارے شہر میں تجارتی تعمیرات کر سکے"۔

بارش کا پانی جمع ہونے سے حفاظتی بند بہہ گئے اور پانی کے ریلوں کی زد میں آ کر کئی رابطہ سڑکیں ٹوٹ پھوٹ گئیں۔بارش کا پانی جمع ہونے سے حفاظتی بند بہہ گئے اور پانی کے ریلوں کی زد میں آ کر کئی رابطہ سڑکیں ٹوٹ پھوٹ گئیں۔

ان کی عمر 45 سال ہے اور وہ اپنے بچپن کے زمانے کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اُن دنوں گوادر میں چار مختلف جگہوں پر ایسی آبی گزرگاہیں بنائی گئی تھیں جن کے ذریعے شہر کے مختلف حصوں میں پڑنے والی بارش کا پانی خود بخود سمندر میں چلا جاتا تھا۔ لیکن، ان کے مطابق، "اب صورتِ حال یہ ہے کہ ہاربر روڈ اور فش ہاربر کی دیوار کی تعمیر کے نتیجے میں ان چاروں مقامات کو مکمل طور بند کر دیا گیا ہے"۔  

ان کے خیال میں ان مسائل کی ایک اہم وجہ گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے حکام کی "نااہلی" ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس اتھارٹی کے اکاؤنٹ میں اربوں روپے کے فنڈ تو موجود ہیں لیکن "اس کے پاس نہ تو اچھے منصوبہ ساز ہیں اور نہ ہی زمینی حقائق سے واقفیت رکھنے والی قیادت"۔ وہ حال ہی میں اس کی طرف سے شہر کے کئی حصوں میں تعمیر کیے گئے نئے سیوریج سسٹم کو اپنی بات کے ثبوت کے طور پر پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ "بارشوں میں یہ سسٹم مکمل طور پر ناکام ہو گیا"۔ 

ان کے مطابق اس سسٹم کی موجودگی کے باوجود "بارشی پانی کی نکاسی کے لیے فش ہاربر کی دیوار کو دو جگہ سے توڑنا پڑا اور کئی دوسری جگہوں سے پمپ لگا کر پانی نکالنا پڑا"۔ 

کیا منتخب نمائندے گوادر کے مسائل حل کر سکتے ہیں؟ 

گوادر کے چیف میونسپل آفیسر افضل شہزادہ کے مطابق ان مسائل کی وجہ یہ ہے کہ مقامی حکومتی اداروں کے پاس قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے درکار انسانی، مالی اور تکنیکی وسائل موجود نہیں۔

مقامی صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے خبردار کیا کہ مستقبل میں یہ مسائل اور بھی شدت اختیار کر سکتے ہیں کیونکہ "گوادر کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے" لیکن گوادر میونسپل کمیٹی کو ایسے مالی وسائل فراہم ہی نہیں کیے جا رہے جنہیں استعمال کر کے وہ "شہر کو صاف ستھرا رکھنے کے لیے درکار عملہ بھرتی کر سکے اور کوڑے کرکٹ کی تلفی کے لیے جدید مشینری خرید سکے"۔  

انہوں نے یہ انکشاف بھی کیا کہ صوبائی حکومت نے کمیٹی کو گزشتہ آٹھ مہینوں سے سرے سے کوئی رقم نہیں دی "جس کی وجہ سے ہمیں ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی کے علاوہ شہری مسائل کو حل کرنے میں بھی مشکلات پیش آ رہی ہیں"۔

کے بی فراق جیسے مقامی مبصرین افضل شہزادہ سے متفق ہیں کہ میونسپل کمیٹی کے پاس شہر کے ترقیاتی مسائل کو حل کرنے کے لیے پیسے نہیں لیکن وہ اس بات کی نشان دہی بھی کرتے ہیں کہ اس وقت اس میں ایسے منتخب نمائندے بھی موجود نہیں جنہیں شہری مسائل کے حل میں ناکامی پر عوامی ردِ عمل کا خوف ہو۔ اس کے آخری انتخابات 2015 میں ہوئے تھے جن میں منتخب ہونے والے نمائندوں کے عہدوں کی مدت 2019 میں ختم ہو گئی جبکہ مخلتف سیاسی اور انتظامی وجوہات کی بنا پر اس کے نئے انتخابات ابھی تک نہیں ہو سکے۔ نتیجتاً کمیٹی کا انتظام و انصرام مکمل طور پر افسرشاہی کے ہاتھ میں ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

بجلی ہے نہ پانی، مچھلی ہے نہ کاروبار : ہم نے یہ مانا گوادر میں رہیں کھائیں گے کیا؟

تاہم ان مقامی مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ گوادر کے مجموعی انتظامی ڈھانچے میں بہر طور منتخب اداروں کے بجائے غیرمنتخب اداروں کو زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ اس ضمن میں گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی مثال دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ اس کے پاس گوادر میونسپل کمیٹی سے کہیں زیادہ اختیارات اور مالی وسائل موجود ہیں لیکن بنیادی طور پر یہ اتھارٹی صوبائی حکومت کا ادارہ ہے جس کے اہل کار مقامی لوگوں کو جواب دہ ہونے کے بجائے براہِ راست صوبائی کابینہ اور وزیرِ اعلیٰ کے ماتحت کام کرتے ہیں۔ 

شاید اسی لیے گوادر کے شہریوں کو اس سے ہمیشہ بہت شکایات رہتی ہیں جن کا اظہار انہوں نے 14 جنوری 2022 کو منعقد کی گئی ایک کھلی کچہری میں بھی کیا۔ اس موقع پر موجود مقامی لوگوں نے اتھارٹی کے مختلف ترقیاتی منصوبوں پر شدید تنقید کی اور اسے ان کی بہتری کے لیے بہت سے مشورے بھی دیے۔

ان کا خاص طور پر کہنا تھا کہ شہر میں بنایا گیا سیوریج سسٹم نکاسیِ آب کی ضروریات کو پورا نہیں کرتا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کئی دیگر ترقیاتی منصوبے مقامی لوگوں کی زندگیاں بہتر بنانے کے بجائے ان میں دشواریاں پیدا کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔ 

تاہم اتھارٹی کے ڈائرکٹرجنرل مجیب الرحمن قمبرانی نے کھلی کچہری کے شرکا کو یقین دلایا کہ ان کی تنقید اور تجاویز کی روشنی میں نہ صرف سیورج لائن کی بہتری کے لیے کام کیا جائے گا بلکہ دیگر ترقیاتی کاموں کے نقائص بھی دور کیے جائیں گے۔ 

تاریخ اشاعت 27 جنوری 2022

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

جاوید بلوچ کا تعلق گوادر بلوچستان سے اور وہ صحافت کے طالب علم ہیں۔

thumb
سٹوری

زرعی انکم ٹیکس کیا ہے اور یہ کن کسانوں پر لاگو ہوگا؟

arrow

مزید پڑھیں

عبداللہ چیمہ
thumb
سٹوری

پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی، عوام کے تحفظ کا ادارہ یا استحصال کاہتھیار؟

arrow

مزید پڑھیں

سہیل خان
thumb
سٹوری

کھانا بنانے اور پانی گرم کرنے کے لیے بجلی کے چولہے و گیزر کی خریداری کیوں بڑھ رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود

پنجاب: حکومتی سکیمیں اور گندم کی کاشت؟

thumb
سٹوری

ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک کے کاشتکار ہزاروں ایکڑ گندم کاشت نہیں کر پا رہے۔ آخر ہوا کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمحمد زعفران میانی

سموگ: ایک سانس ہی ہم پر حرام ہو گئی

thumb
سٹوری

خیبر پختونخوا میں ایڈز کے مریض کیوں بڑھ رہے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

نئی نہریں نکالنے کے منصوبے کے خلاف سندھ میں احتجاج اور مظاہرے کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار
thumb
سٹوری

پنجاب: محکمہ تعلیم میں 'تنظیم نو' کے نام پر سکولوں کو'آؤٹ سورس' کرنے کی پالیسی، نتائج کیا ہوں گے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد

برف کے پہاڑؤں پر موت کا بسیرا ہے، مگر بچے بھی پالنے ہیں

thumb
سٹوری

سموگ: یہ دھواں کہاں سے اٹھتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceآصف ری ، عبدالل

پرانی کیسٹس،ٹیپ ریکارڈ یا فلمی ڈسک ہم سب خرید لیتے ہیں

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.