بارہ سال کے یونس دو دن سے بخار میں تپ رہے تھے۔ دو ساتھی انہیں سہارا دے کر 10 کلومیٹر دور تحصیل ہیڈ کوارٹرز ہسپتال (ٹی ایچ کیو) لے آئے۔
یونس جھل جھاؤ کے نواحی گاؤں نوندڑہ کے رہائشی اور مقامی مدرسے کے طالب علم ہیں۔
'ڈیوٹی' پر موجود ویکسی نیٹر محمد انور نے یونس کا معائنہ کیا اور پرچی پر دوائیں لکھ دیں۔مریض کے ساتھیوں نے بتایا کہا کہ ان کے پاس دوا خریدنے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔
محمد انور نے وہاں موجود ایک اور اہلکار عبدالخالق کی طرف دیکھا، عبدالخالق سٹور سے ایک سیرپ لے آئے اور یونس کو تھما کر انہیں رخصت کر دیا۔
میڈیکل ٹیکنیشن محمد انور، جھاؤ میں 23 سال سےبطور ویکسی نیٹر کام کر رہے ہیں۔ہسپتال میں کوئی ڈاکٹر نہ ہونے کی وجہ سے ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر نے اکتوبر 2022ء میں انہیں ٹی ایچ کیو ہسپتال کا انچارج بنادیا تھا۔
انور نے بتایا کہ کہ ان کے پاس ادویات ختم ہو چکی ہیں اور اِس وقت یہاں صرف فلیجل اور او آر ایس دستیاب ہیں۔
چھبیس سالہ حیات بی بی، گجرو گاؤں سے 21 کلومیٹر فاصلہ طے کرکے آئی تھیں۔ محمد انور نے ان کا 'معائنہ' کیا اور انہیں لگا کہ مریضہ میں ٹی بی کی علامات پائی جاتی ہیں۔ انہوں ںے مریضہ کو ہسپتال کے ٹی بی یونٹ بھیج دیا۔
ٹی بی یونٹ کے انچارج ایکسرے اسسٹنٹ خیر محمد شاہ ہیں۔
انہوں نے بھی حیات بی بی کا 'معائنہ' کیا اور انہیں پانچ روز بعد کی تاریخ دے دی۔
خیر محمد 2007ء سے بطور ایکسرے اسسٹنٹ کام کر رہے ہیں۔ اس سے پہلے وہ اسی ہسپتال میں لیبارٹری سیکشن اور میڈیسن سٹور کے انچارج رہ چکے ہیں۔
ٹی بی یونٹ کو اس سے پہلے ہسپتال ڈسپنسر محمد اسلم چلا رہے تھے۔ ان کا تبادلہ ستمبر 2022ء میں سول ڈسپنسری شندی کر دیا گیا تو یہ شعبہ غیر فعال ہو گیا۔
خیر محمد شاہ نے چند ماہ پہلے ٹی بی سینٹوریم کوئٹہ سے ٹی بی کے پانچ روزہ تربیتی پروگرام میں شرکت کی اور آکر اس یونٹ کو سنبھال لیا۔
خیر محمد بتاتے ہیں کہ ان کے پاس ٹیسٹ مشین اور دوائیں تو موجود ہیں مگر مریضوں کا بلغم سیمپل لینے کے لیے ٹی بی یونٹ کے اندر بنائے گئے واش روم میں پانی کی سپلائی نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے سیمپل نہیں لیے جا رہے۔ " واش روم کی بحالی کام شروع ہونے میں دو چار روز لگ جائیں گے"۔
پوری تحصیل میں ایک بھی ایم بی بی ایس ڈاکٹر نہیں!
حالیہ مردم شماری کے مطابق تحصیل جھل جھاؤ کی آبادی 40 ہزار سے زائد ہے مگر جھاؤ شہر میں بھی کوئی ایم بی بی ایس ڈاکٹر دستیاب نہیں اور نہ ہی کوئی باقاعدہ نجی لیبارٹری ہے۔
تمام نجی کلینکس بھی ٹیکنیشن اور ڈسپنسر چلا رہے ہیں۔
آر ایچ سی جھاؤ کو 2021 ء میں ٹی ایچ کیو تو بنا دیا گیا مگر سٹاف میں اضافہ ہوا نہ ہی بجٹ میں۔
ہسپتال کے ایک کمرے میں مقتول ڈاکٹر شفیع محمد کی تصویر آویزاں ہے۔
وہ 11 سال یہاں اپنے فرائض انجام دیتے رہے۔ اس وقت یہ دیہی مرکز صحت ہوا کرتا تھا جس میں میڈیکل افسروں کی چار اسامیاں تھیں لیکن صرف ڈاکٹر شفیع ہی ڈیوٹی دیتے تھے۔
انہیں 15 دسمبر 2015ء کو انہیں نواحی علاقے لنجار میں نامعلوم افراد نےفائرنگ کرکے قتل کر دیاتھا۔ ڈاکٹر شفیع سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے پولیٹیکل سیکرٹری خیر جان بلوچ کے چھوٹے بھائی تھے۔
موجودہ انچارج ٹی ایچ کیو، محمد انور بتاتے ہیں کہ ڈاکٹر شفیع کے بعد دو ڈاکٹروں کی تعیناتی ہوئی۔ ڈاکٹر نصیر ایک ہفتہ رہے اور ڈاکٹر شہزاد چھ ماہ کے لیے عارضی تعینات کیے گئے تھے۔ وہ مدت مکمل ہونے پر چلے گئے۔2021ء کے بعد سے یہاں کوئی نہیں آیا۔
ہسپتال میں کل 14 کمرے ہیں جن میں چھ، چھ بستروں والے زنانہ اور مردانہ وارڈ شامل ہیں۔ یہاں کوئی مریض داخل نہیں ہے۔ ان بستروں کو کبھی کبھار مریضوں کو ڈرپ لگانے یا عملے کے آرام کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ایمرجنسی وارڈ اس وقت مکمل طور پر بند ہے، "آوٹ ڈور" ہی سب کچھ ہے۔
ٹی ایچ کیو میں سٹاف کی تعداد 16 اہلکاروں پر مشتمل ہے لیکن ان میں سے کوئی بھی ڈاکٹر نہیں ہے۔
سٹاف میں تین ویکسی نیٹر، ایک ایکسرے اسسٹنٹ، ایک ڈینٹل ٹیکنیشن، دو جونیئر کلرک، ایک ملیریا سپروائزر، دو نرسنگ اردلی(وارڈ بوائے)، دو ڈرائیور، ایک ڈسپنسر، ایک خاکروب اور دو دائیاں شامل ہیں۔
ہسپتال میں دستیاب 'دیگر سہولیات'
محمد انور نے کہا کہ دائیاں تربیت یافتہ نہیں ہیں، اس لیے زچگی کیسز کو بھی یہاں ڈیل نہیں کیا جاتا۔ "ہم انہیں 54 کلو میٹر دور آواران، 100 کلومیٹر دور بیلہ، ڈھائی سو کلومیٹر دور حب چوکی یا پھر کراچی بھیج دیتے ہیں"۔
او پی ڈی رجسٹر کے مطابق پچھلے ایک سال کے دوران ہسپتال میں 17 ہزار 163 مریضوں آئے۔
محمد نعیم (ڈینٹل ٹیکنیشن ہیں مگر ڈینٹل یونٹ میں مشینری اور آلات کی عدم دستیابی کے سبب وہ بطور میڈیسن سٹور انچارج کام کر رہے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ "جو تھوڑی بہت دوائیں ہیں وہ پچھلے سال کی بچی ہوئی ہیں۔میڈیسن سٹور گزشتہ پانچ ماہ سے بغیر دوائیوں کے سہارے چل رہا ہے"۔
انہوں نے بتایا کہ ہسپتال کی ضروری ادویہ جیسے ںوویڈیٹ، آگمینٹن، السانک سیرپ اور پیناڈول گولی گزشتہ ایک سال سے دستیاب نہیں۔
ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر محمد عالم زہری نے لوک سجاگ کو بتایا کہ رواں سال ہسپتال کی دواؤں کا بجٹ 30 لاکھ روپے تھا۔ سترہ لاکھ سے پہلی سہ ماہی کی ادویات خریدی گئیں۔مگر پھر کمپنیوں نے سپلائی سے انکار کر دیا کہ خام مال مہنگا ہوگیا ہے۔ موجودہ نرخ پر دوائیں نہیں دے سکتے۔
انہوں نے بتایا کہ اب بجٹ کی باقی رقم فریز ہو چکی ہے۔"آئندہ مالی سال میں دواؤں کی قلت پر قابو پا لیا جائے گی"۔
وہ کہتے ہیں کہ ٹی ایچ کیو کے لیےمیڈیکل سپرنٹنڈنٹ اور سپیشلسٹس سمیت ڈاکٹروں کی 18 اورعملے کی 91 اسامیوں کی تجویز صوبائی حکومت کو بھجوا ئی گئی تھی مگر دو سال بعد بھی منظور نہیں ہوئی۔
ہسپتال میں 'لیبارٹری' نام کا ایک سیکشن بھی موجود ہے جہاں شوگر تک چیک کرانے کی سہولت دستیاب نہیں۔
ملیریا سپروائزر ثناء اللہ کو لیبارٹری اسسٹنٹ کی اضافی ذمہ داری دی گئی ہے۔ ان کی چھٹی کے باعث نرسنگ اردلی(وارڈ بوائے) عبدالخالق اور ٹرینی پرویزیہ ڈیوٹی انجام دے رہے تھے۔
عبدالخالق نے بتایا کہ یہاں صرف ملیریا ٹیسٹ ہوتا ہے مگر ٹیسٹ کٹس اکثر دستیاب نہیں ہوتیں۔انہوں نے بتایا کہ این آر ایس پی نے ملیریا ٹیسٹ کے لیے ایک مائیکروسکوپ فراہم کی تھی۔ مگر ٹیسٹ کے دوران استعمال ہونے والے کیمیکلز ختم ہوگئے تو خورد بین بے کار ہوگئی۔
"نومر 2022ء میں ملیریا کے کیسز زیادہ ہوئے تو این آر ایس پی نے ہسپتال کو ملیریا کٹس مہیا کرنا شروع کر دیں"۔
ریکارڈ کے مطابق اس ماہ این آر ایس پی کی جانب سے 200 کٹس ملی تھیں جو ختم ہوچکی ہیں۔
ہسپتال کی نئی بلڈنگ زیرِتعمیر ہے!
پچپن سالہ عبداللہ 26 کلومیٹر دور کوٹو گاؤں سے موٹر سائیکل پر شوگر لیول چیک کرانے ٹی ایچ کیو پہنچے تھے مگر انہیں مایوس لوٹنا پڑا۔
وہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے یہاں ٹی ایچ کیو اور نجی کلینک سے ایک ماہ تک علاج کرایا مگر ان کا بخار نہیں اترا، مجبوراً ڈھائی سو کلومیٹر دور حب چوکی جانا پڑا۔
"ڈاکٹر نے ٹیسٹ کرایا تو ذیابیطس تشخیص ہوئی۔ اب بہتر ہوں، حب نہ جاتا تو یہاں بخار ہی کاعلاج کراتا رہتا۔"
پرانی عمارت کے ساتھ ہی ٹی ایچ کیو جھاؤ کی نئی عمارت زیر تعمیر ہے۔
ایگزیکٹیو انجینیر بی اینڈ آر بہرام گچکی کا کہنا ہے کہ لاگت 17 کروڑ ہے، اب تک تین کروڑ 20 لاکھ روپے خرچ ہو چکے ہیں۔
"پلان میں ڈاکٹرز اور سٹاف کے لیے رہائشی کالونی بھی شامل ہے، جون 2024ء تک مکمل ہوجائے گی۔"
یہ بھی پڑھیں
پورے ضلع صحبت پور میں ایک لیڈی ڈاکٹر: 'ایسا نہ ہوتا تو بیٹی کے سر پر ماں کا سایہ سلامت ہوتا'
محقق و بولان میڈیکل کالج کوئٹہ کےسابق پروفیسر ڈاکٹر شاہ محمد مری کا کہنا ہے کہ ڈاکٹروں کو صرف رہائش نہیں، اپنے بچوں کے لیے تعلیم و صحت اور دیگرسہولیات بھی درکار ہوتی ہیں۔ وہ شہر کا پر کشش ماحول چھوڑ کر یہاں دیہات میں کیوں آئیں گے؟
نیشنل پارٹی کے ضلعی صدر اور چیرمین میونسپل کمیٹی آواران عابد حسین کا کہنا ہے کہ ڈاکٹروں کے بغیر محض عمارتیں بنانے اور ہسسپتالوں کی اپ گریڈیشن سے حالات نہیں بدلیں گے۔
"حکومت کو ان علاقوں میں ڈاکٹروں کے لیے پرکشش تنخواہوں اور مراعات پر مشتمل خصوصی پیکیج کا اعلان کرنا چاہیے"۔
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن بلوچستان کے صوبائی صدر ڈاکٹر آفتاب کاکڑ ڈاکٹرز کے دیہی علاقوں میں نہ آنے کی سب سے بڑی وجہ لا اینڈ آرڈر کی مخدوش صورتحال کو قرار دیتے ہیں۔
"ایک تو یہ کہ سیکورٹی کی وجہ سے ڈاکٹرز ان علاقوں میں اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں۔ اس لیے وہ آنا نہیں چاہ رہے دوسرا یہ کہ ان علاقوں میں ڈاکٹرز کے لیے رہائش، بجلی اور دیگر بنیادی سہولیات دستیاب نہیں نہ ہی ہسپتالوں میں میڈیسن اور آلات، اس کے علاوہ جو ڈاکٹر ڈیوٹی پہ نہیں آتا تو ایڈمنسٹریشن کی زمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس کے خلاف کاروائی کرے مگر وہ زمہ داری سرانجام دینے میں ناکام ہوتا ہے۔"
تاریخ اشاعت 20 مئی 2023