2014 میں جب گوادر میں پہلی مرتبہ کتاب میلہ لگایا گیا تو اسے اس قدر کامیابی اور مقبولیت حاصل ہوئی کہ بلوچستان بھر میں تواتر سے ایسے میلے منعقد ہونے لگے۔
اِس سال 23 فروری کو گوادر میلے کے دسویں سال بلوچی زبان و ادب پر پینل ڈسکشن، تاریخ، جغرافیہ و آرکیالوجی پر گفتگو، سیاست و سماج پر مکالمہ، دستاویزی فلموں، تھیٹر، محفلِ موسیقی اور آرٹ کی نمائش کو دیکھ کر یہ یہ دعویٰ کرنا مشکل نہیں تھا کہ وقت کے ساتھ اس میلے نے اپنا معیار ناصرف برقرار رکھا ہے بلکہ اس میں کئی گنا اضافہ بھی ہو گیا ہے۔
2020ء اور 2021ء میں کورونا وائرس کی وبا کے باعث گوادر کتاب میلہ منعقد نہیں ہو سکا تھا۔ اس برس جب یہ میلہ شروع ہوا تو بلوچستان کے علاقہ بارکھان میں مقامی سردار کی مبینہ قید میں تین افراد کی ہلاکت کا واقعہ پیش آ چکا تھا۔
میلے کے آغاز پر بارکھان کے مقتولین کی یاد میں دو منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی اور ایک مذمتی قرارداد بھی منظور کی گئی۔
میلے کی افتتاحی تقریب سے سرپرستِ اعلیٰ آر سی ڈی کلب گوادر خدابخش ہاشم، صدر آر سی ڈی کلب ناصر رحیم سہرابی، ایم پی اے گوادر میر حمل کَلمَتی، سابقہ سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکر، وائس چانسلر گوادر یونیورسٹی عبدالرزاق صابر، انجمن ترقی اردو پاکستان کی ڈاکٹر فاطمہ حسن اور بلوچی زبان کے معروف ادیب اے آر داد نے خطاب کیا۔
میلے کے تین دنوں میں پندرہ سے زیادہ سیشن منعقد ہوئے اور دس سے زیادہ کتابوں کی رونمائی ہوئی۔ ان نشستوں میں بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ، مشاہد حسین سید اور ڈاکٹر پرویز ہود بھائی ودیگر لوگ بھی شامل رہے۔ "موجودہ معاشی بحران اور پاکستان کا مُستقبل"، "بلیو اکانومی، پائیدار ترقی اور ساحلِ مکران"، "گوادر، پاکستان اور ارضی معاشی صورتحال"جیسے موضوعات پر گفتگو ہوئی۔
تھیٹر پرفارمنس کے موقع پر خیر جان آرٹ اکیڈمی گوادر نے ڈرامہ پیش کیا۔ تھیٹر شو میں ایک عدالت لگائی گئی جس میں بنیادی منصوبہ بندی میں نقائص کے سبب انسانی جانوں کے زیاں اور ذمہ داروں کے تعین کو موضوع بنایا گیا تھا۔ ایک سیشن میں "قومی میڈیا اور بلوچستان" پر مذاکرے کا انعقاد کیا گیا۔
میلے میں دوسرے روز کا آخری سیشن صرف خواتین کے لیے تھا جس میں یونیورسٹی آف گوادر، گرلز کالج اور گرلز ہائی اسکول کی طالبات کی قابل ذکر تعداد موجود تھی ۔ سیشن میں زیتون عبداللہ، جنت حمید، مہر بلوچ، سمی بلوچ اور گل صبا نے بالعموم بلوچستان اور بالخصوص گوادر میں خواتین کے مسائل پر گفتگو کی۔
میلے میں مصوری اور فوٹوگرافی کی نمائش بھی کی گئی۔ مصوری میں شبینہ سلیم اور صادق حسین کے فن پاروں کی نمائش ہوئی جبکہ فوٹوگرافی میں خیر جان خیرل، طارق فیض اور رحیم عابد کی تصاویر پیش کی گئی تھیں۔
سیشنز کا اختتام اردو اور بلوچی مشاعرے پر ہوا جس میں لوگوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔چیف سیکرٹری بلوچستان عبدالعزیز عقیلی بھی میلے میں شریک ہوئے اورگوادر کتاب میلے کی سالانہ گرانٹ 10 لاکھ روپے سے بڑھا کر 20 لاکھ کرنے کا بھی اعلان کیا۔
اس سال چار روزہ میلے میں ملک بھر سے 29 ناشروں اور کتب فروشوں نے سٹال لگائے۔ میلے میں آٹھ ہزار کے قریب کتابیں فروخت ہوئیں۔
میلے میں کتابوں کے علاوہ برن آرٹ کا سٹال، مصوری اور فوٹوگرافی کے سٹال بھی شامل تھے۔ گوادر کے علاقے پلیری سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں نے مُلا ابابگر کَلمَتی اکیڈمی کی طرف سے بلوچ کلچرل سٹال لگایا جس میں روزمرہ استعمال کی جدید کے ساتھ نایاب و قدیم اشیا بھی رکھی گئی تھیں۔
گوادر کتب میلے کے منتظمین کے مطابق کتاب میلے میں مجموعی طور پر19 لاکھ 60 ہزار روپے کی کتابیں اور پینٹنگ فروخت ہوئیں۔
وہاب مجید جو خود مقامی لکھاری ہیں انہوں نے بک سٹالز کا سروے کرنے کے بعد بتایا کہ بڑے لکھاریوں البرٹ کامیو، فرانز کافکا، فرانز فینن، ارشد محمود، ڈاکٹر مبارک علی، شاہ محمد مری، منیر بادینی، جون ایلیا اور اے آر داد کی کتابیں سب زیادہ فروخت ہوئیں۔ جب کہ مذہبی موضوعات کی کتابیں بہت کم فروخت ہوئی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
تربت میں عطا شاد لٹریری فیسٹیول عام ادبی میلوں سے کیسے مختلف تھا
میلے میں گوادر و مکران کے علاوہ ملک بھر سےلوگوں نے شرکت کی۔ بلوچ کلچر کا اسٹال لگانے والےنوجوان قیوم غنی نے لوک سجاگ کو بتایا کہ اس سٹال کا مقصد نئے نسل کو اس امر سے روشناس کرانا ہے کہ ہمارے آبا و اجداد کیسی زندگی گزارتے تھے اور کون سے اوزار و اشیا استعمال کرتے تھے۔
سبی سے آنے والے عمران ہاڑا نے بلوچی دستکاری کا سٹال لگایا۔ انہوں نے لوک سجاگ کو بتایا کہ انہوں نے جتنی فروخت گوادر میں کی ہے اتنی کسی اور جگہ نہیں ہوئی۔ کراچی سے آئی پروین ناز نے میلے کو کامیاب قراردیتے ہوئے اس رائے کا اظہار کیا کہ خواتین کی شرکت کو بڑھانے اور مزید مؤثر بنانے کی ضرورت ہے۔
تاریخ اشاعت 6 مارچ 2023