گوادر شہر میں ایئرپورٹ روڈ کے ایک حصے کو چوڑا کرنے کا منصوبہ مقامی لوگوں کی پر زور مخالفت اور انتظامیہ کی غیرلچک دار پالیسی کے باعث پچھلے سات سال سے نامکمل ہے۔ اس منصوبے کی زد میں آنے والی زمین کے مالکان اپنے مطالبات کو لے کر احتجاج کرتے چلے آئے ہیں لیکن نہ تو ان کی شنوائی ہوئی ہے اور نہ ہی منصوبے پر کام آگے بڑھ سکا ہے۔
ضلعی انتظامیہ ایئرپورٹ روڈ کے شہدائے جیونی چوک سے مُلا فاضل چوک تک حصے کو چوڑا کرنا چاہتی ہے۔ اس مقصد کے لیے اس نے 34 ہزار 538 مربع فٹ جگہ ایکوائر کی ہے۔ یہ جگہ مقامی لوگوں کی ہے جس پر 170 دکانیں اور چھ گھر واقع ہیں۔ تاہم انتظامیہ ان دکانوں اور گھروں کے مالکان کو جو معاوضہ دے رہی ہے وہ اسے قبول نہیں کرتے۔
گوادر کے رہائشی مراد سالک کے گھر کے دو کمرے، باورچی خانہ، ایک غسل خانہ اور دکان اس سڑک کی زد میں آ رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت نے انہیں اس نقصان کے ازالے کے طور پر صرف بارہ لاکھ روپے معاوضے کی پیشکش کی ہے جبکہ آج کل اتنی رقم میں گھر بنانا تو دور کی بات، زمین خریدنا بھی ناممکن ہے۔
مراد کی طرح حاجی مولا بخش بھی اس سڑک کے متاثرین میں شامل ہیں۔ ان کی ایک دکان سڑک کے توسیعی منصوبے کی نذر ہو رہی ہے۔ حکومت یہ دکان لے کر جو معاوضہ دے رہی ہے وہ انہیں قبول نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ''حکومت یہ تاثر دینا چاہتی ہے جیسے ہم گوادر کی ترقی نہیں چاہتے ۔ ہم شہر کی ترقی کے مخالف نہیں لیکن ہمیں ایسی ترقی نہیں چاہیے جو ہمارا روزگار ہی ختم کر دے۔''
حالیہ دنوں ضلعی انتظامیہ نے سڑک کے اس حصے پر ہر طرح کی تعمیرات روکنے کے لیے لینڈ ایکوزیشن ایکٹ کی دفعہ 9 کے تحت ان دکانوں اور گھروں کے مالکان کو منصوبے پر اعتراضات جمع کرانے کا حکم دیا ہے۔
تاہم یہ انتظامیہ اور متاثرین کے درمیان پہلا رابطہ نہیں بلکہ پچھلے چند ماہ میں ان لوگوں کی ضلعی انتظامیہ اور گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ساتھ کئی ملاقاتیں ہو چکی ہیں۔ متاثرین کا کہنا ہے کہ اِن ملاقاتوں میں انہیں جذباتی طور پر بلیک میل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ وہ ترقی کے مخالف ہیں حالانکہ ان کا مطالبہ صرف یہ ہے کہ انہیں جائز معاوضہ اور متبادل جگہ دی جائے۔
منصوبے کے لیے درکار جگہ پر 170 دکانیں اور چھ گھر واقع ہیں
تیس سالہ عبدالحمید بلوچ مچھلی کے شکار میں استعمال ہونے والے جال، کانٹے اور دیگر سازوسامان بیچتے ہیں۔ سڑک کی تعمیر سے ان کی دکان بھی متاثر ہو رہی ہے جس کی قیمت وہ تیس لاکھ مانگتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ "انتظامیہ نے انہیں جس معاوضے کی پیشکش کی ہے وہ بہت کم ہے اور اس سے زیادہ پیسے تو مالکان کو کرایہ داروں سے ایڈوانس رقم کی صورت میں مل جاتے ہیں"۔ وہ بتاتے ہیں کہ دکانوں کی قیمت طے کرنے کے معاملے پر ان کی اور دوسرے دکانداروں کی ضلعی انتظامیہ اور گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ساتھ کئی ملاقاتیں ہو چکی ہیں جن کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔
انتظامیہ نے منصوبے کی زد میں آنے والی دکانوں کے لیے پانچ ہزار اور گھروں کے لیے تین ہزار روپے فی مربع فٹ معاوضہ طے کیا ہے۔
گوادر میں پراپرٹی کے کاروبار سے منسلک سلیم نور کے مطابق مُلا فاضل چوک اور اس کے اردگرد ایک عام دکان کی قیمت کم از کم چالیس لاکھ تک ہے۔ چونکہ یہ گوادر کا مصروف ترین کاروباری علاقہ ہے اس لیے یہاں پچاس لاکھ روپے سے کم میں دکان نہیں ملتی۔ اس لیے حکومت متاثرین کو دکانوں کی جو قیمت دے رہی ہے وہ بہت کم ہے۔
ضلعی انتظامیہ نے ایک بار پھر متاثرین سے کہا ہے کہ وہ ضلعی آفیسر کے دفتر میں آ کر معاوضے کی رقم وصول کریں جسے متاثرین نے ایک بار پھر مسترد کر دیا ہے۔
بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے ماجد سہرابی متاثرین کے مطالبات کو جائز قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں "اگر نئی سڑک بن جائے تو سبھی کے لیے بہت سی آسانیاں پیدا ہوں گی لیکن گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کو چاہیے کہ وہ متاثرین کے ساتھ سختی سے پیش آنے کے بجائے ان سے منصفانہ سلوک کرے اور ان کے جائز مطالبات تسلیم کیے جائیں"۔
یہ بھی پڑھیں
بجلی ہے نہ پانی، مچھلی ہے نہ کاروبار : ہم نے یہ مانا گوادر میں رہیں کھائیں گے کیا؟
جب اس مسئلے پر گوادر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے چیف انجینئر سید محمد بلوچ سے بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ اتھارٹی نے یہ مسئلہ ضلعی انتظامیہ کے سپرد کیا ہے جسے ڈپٹی کمشنر خود دیکھ رہے ہیں۔ متاثرین کے لیے اعلان کردہ معاوضے کی رقم کا تعین محکمہ ریونیو نے کیا ہے جو کہ ایک جائز قیمت ہے۔ اس کے باوجود متاثرین کے احتجاج پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ وہ سڑک کی توسیع و تعمیر نہیں چاہتے۔
مراد سالک کو خدشہ ہے کہ اس منصوبے کے نتیجے میں وہ اپنا گھر اور روزگار کھو دیں گے۔ وہ غصے کے عالم میں کہتے ہیں "یہاں شہدائے جیونی چوک کے نام پر پہلے ہی ایک چوک موجود ہے۔ شاید اب گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کو شہدا کے نام سے کوئی سڑک بھی چاہیے، اسی لیے وہ ہماری زندگیاں تباہ کرنا چاہتی ہے۔''
تاریخ اشاعت 11 فروری 2023