'چوہدریوں' کا ضلع گجرات کئی عشروں سے سیاست میں اہم کردار ادا کر رہا ہے جہاں آٹھ فروری کو چار قومی اور آٹھ صوبائی نشستوں پر انتخابات ہوں گے۔
گذشتہ عام انتخابات میں تحریک انصاف اور مسلم لیگ ق اتحادی جماعتیں تھیں اور دونوں نے اس ضلعے میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے تحت امیدوار کھڑے کیے تھے۔ لیکن اس مرتبہ یہاں کے 'چوہدریوں' کا خاندان تقسیم ہے۔
چوہدری شجاعت حسین کی زیر قیادت ق لیگ نے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی ہے جبکہ چوہدری پرویز الہیٰ ایک سال قبل تحریک انصاف میں شامل ہو گئے تھے اور ابھی تک جیل میں ہیں۔
ضلع گجرات میں رجسٹرڈ ووٹرز کی کل تعداد 21 لاکھ 98 ہزار 188 ہیں جن میں 11 لاکھ 58 ہزار 254 مرد اور 10 لاکھ 39 ہزار 934 خواتین ووٹر ہیں۔
الیکشن کمیشن کی ترتیب کے لحاظ سے گجرات کی پہلی قومی نشست این اے 62 سرائے عالمگیر، کھاریاں و دیگر علاقوں پر مشتمل ہے۔ جہاں سے پچھلی بار ن لیگ کے چوہدری عابد رضا نے تحریک انصاف کے چوہدری الیاس کو صرف سات ہزار ووٹوں کی برتری سے ہرایا تھا۔
اس بار ن لیگ نے پچھلے دو انتخابات جیتنے والے عابد رضا اور ق لیگ نے چوہدری وجاہت کے بیٹے موسیٰ الہیٰ کو میدان اتارا ہے۔ یہاں تحریک انصاف کے حمایت یافتہ چوہدری محمد الیاس سمیت 25 امیدوار الیکشن لڑ رہے ہیں۔
اس حلقے میں عابد رضا، موسیٰ الہیٰ اور چوہدری الیاس فرنٹ رنر ہیں۔ عابد رضا کو مقامی جوڑ توڑ، ن لیگ کے ووٹر اور حلقے میں ان کے کرائے گئے ترقیاتی کاموں پر بھروسا ہے۔
چوہدری الیاس کو پی ٹی آئی کے پاپولر ووٹ سے بھر پور امیدیں ہیں اور ان کے حامی انتخابی مہم میں رکاوٹوں کے الزامات کے باوجود جیت کے لیے پرامید ہیں۔
گجرات نئی حلقہ بندیاں 2023
2018 کا قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 68 گجرات 1 اب این اے 63 گجرات 2 ہے
یہ حلقہ جلال پور جٹاں تحصیل کا ہے۔ جلال پور قصبے کو حال ہی میں تحصیل کا درجہ دیا گیا ہے اور اس حلقے میں وہ تمام قصبے اور دیہات شامل ہیں جن کو اس تحصیل کا حصہ بنایا گیا ہے۔
2018 کا قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 69 گجرات 2 اب این اے 64 گجرات 3 ہے
یہ گجرات کا شہری حلقہ ہے۔ جس میں گجرات اور کنجاہ تحصیلوں کے دیہی علاقے بھی شامل ہیں۔ نئی حلقہ بندیوں میں اس حلقے میں چند بڑی تبدیلیاں بھی کی گئی ہیں جیسا کہ شادی وال قانون گو حلقے اور قصبہ دیونہ کے پٹوار موسی کمال، آدو وال، کنجاہ اور جندو وال پٹوار سرکل کو شامل کیا گیا ہے۔ گجرات تحصیل کے قانون گو حلقے دیونہ ایک کے پٹوار سرکل ہریانوالہ اور دیونہ دو کے پٹوار سرکل ماجرا کو نکال دیا گیا ہے۔
2018 کا قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 70 گجرات 3 اب این اے 65 گجرات 4 ہے
یہ حلقہ تحصیل کھاریاں اور لالہ موسی کے علاقوں پر مشتمل ہے۔ نئی حلقہ بندیوں میں اس حلقے میں بہت ساری تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ کھاریاں تحصیل کے صبور قانون گو حلقے کے کچھ پٹوار سرکلز کو شامل کیا گیا ہے، گجرات تحصیل کے منگووال غربی قانون گو حلقے اور منگوال غربی چارج نمبر 27 بھی اب اس حلقے کا حصہ ہے۔ گجرات تحصیل کے مزید دو پٹوار سرکل بھی اب اس حلقے میں آگئے ہیں۔
2018 کا قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 71 گجرات 4 اب این اے 62 گجرات 1 ہے
یہ حلقہ سرائے عالمگیر، کھاریاں تحصیل کے علاقوں پر مشتمل ہے جس میں کھاریاں کینٹ بھی شامل ہے۔ نئی حلقہ بندیوں میں اس حلقے کی جغرافیائی حدود میں یہ تبدیلی آئی ہے کہ کھاریاں تحصیل کے چھ پٹوار سرکلز کو نکال دیا گیا ہے۔
تاہم فائنل ریس روایتی حریف چوہدری الیاس اور عابد رضا کے درمیان متوقع ہے۔ تاہم چوہدری خاندان کی تقسیم اور موسیٰ الہیٰ کے میدان میں ہونے کے باعث چوہدری الیاس کو نقصان بھی ہوسکتا ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی نے اس حلقے میں کسی امیدوار کو نامزد نہیں کیا۔
قومی اسمبلی کے اس حلقے کے نیچے صوبائی نشست پی پی 27 میں مسلم لیگ ن کے ملک حنیف اعوان اور تحریک انصاف کے حمایت یافتہ نعمان اشرف کے درمیان کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔
ملک حنیف اعوان کے حامی اقتدار کی امید اور مستقبل کے منصوبوں پر حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ نعمان اشرف کو پاپولر پارٹی اور پرویز الہی کے دور میں ہونے والے ترقیاتی کاموں سے ووٹ ملنے کا یقین ہے۔
حلقہ پی پی 28 میں اس بار دو بھائی آمنے سامنے ہیں جن میں سے چوہدری شبیر کوٹلہ ن لیگ اور چوہدری شاہد رضا کوٹلہ کو تحریک انصاف کی حمایت حاصل ہے۔ جبکہ پیپلز پارٹی نے اس حلقے میں بھی اپنا امیدوار کھڑا نہیں کیا۔
این اے 63 جلالپور جٹاں، بھاگووال اور ملحقہ علاقوں پر مشتمل ہے جہاں سے گزشتہ الیکشن میں مسلم لیگ ق کے چوہدری حسین الٰہی نے ن لیگ کے نوابزادہ غضنفر علی گل کو شکست دی تھی اور یہاں تیسری نمبر پر تحریک لبیک آئی تھی۔
اب کی بار مسلم لیگ ق کے امیدوار چوہدری حسین الٰہی مسلم لیگ ن کے نوابزادہ غضنفر علی گل اور پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ چوہدری یوسف چھنی کے درمیان کانٹے دار مقابلہ متوقع ہے۔
تاہم مسلم لیگ ق کے چوہدری حسین الٰہی آگے نظر آتے ہیں جنہوں نے اپنے دور اقتدار میں حلقے میں اربوں روپے کے ترقیاتی منصوبہ جات مکمل کروائے۔
اس نشست پر پیپلز پارٹی کے چوہدری شوکت علی، جماعت اسلامی کے محمد مدبر صدیق، تحریک لبیک کے محمود قادری و دیگر امیدوار بھی میدان میں ہیں۔
اس قومی نشست کے نیچے پی پی 29 میں گجرات شہر اور مضافاتی علاقے شامل ہیں جہاں مسلم لیگ ن کے نوابزادہ حیدر مہدی، مسلم لیگ ق کے خالد اصغر گھرال، پیپلز پارٹی کے راجہ محمد ادریس، پی ٹی آئی کی حمایت یافتہ عافیہ نورین سمیت کئی امیدوار قسمت آزمائی کر رہے ہیں۔
یہاں نوابزادہ حیدر مہدی اور چوہدری خالد اصغر گھرال کے درمیان سخت مقابلہ متوقع ہے لیکن عافیہ نورین بھی سرپرائز دے سکتی ہیں۔
این اے 64 گجرات شہر کا حلقہ ہے جو چوہدری برادران کی آبائی نشست ہے اور یہاں سے اکثر وہی منتخب ہوتے رہے ہیں لیکن پرویز الٰہی اور شجاعت حسین کی راہیں جدا ہونے کے بعد یہاں صورت حال بہت دلچسپ ہو گئی ہے۔
اس بار سے اس حلقے میں چوہدری شجاعت کے بیٹے سالک حسین کا پی ٹی آئی کے صدر چوہدری پرویز الٰہی سے متوقع مقابلہ تھا لیکن ان کے کاغذات مسترد ہو گئے تھے۔ جس پر اب پرویز الٰہی کی اہلیہ اور چوہدری ظہور الٰہی کی بیٹی قیصرہ الٰہی پی ٹی آئی کی حمایت یافتہ امیدوار ہیں۔
مسلم لیگ ق سے ایڈجسٹمنٹ کے باعث مسلم لیگ ن نے چوہدری سالک کے مقابلے میں کسی کو ٹکٹ جاری نہیں کیا اور اپنے امیدوار علیم الدین وڑائچ کو آزاد الیکشن لڑنے سے بھی روک دیا۔
گجرات کا یہ ہائی وولٹیج حلقہ لوگوں کی دلچسپی کا مرکز بنا ہوا ہے جہاں انتخابی مہم میں دونوں امیدوار ایک دوسرے کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
قیصرہ الٰہی اپنے شوہر کے جیل میں ہونے اور پی ٹی آئی کی ہمدردی کا ووٹ لینے کی بھر پور کوشش کر رہی ہیں۔ 2018ء میں پرویز الٰہی کے یہ نشست چھوڑنے پر یہاں ضمنی الیکشن میں پرویز الٰہی کے بیٹے مونس الٰہی منتخب ہوئے تھے۔
سیاسی کارکن حفیظ احمد بتاتے ہیں کہ یہاں پر کانٹے کا مقابلہ ہو گا کیونکہ پکڑ دھکڑ اور گرفتاریوں کے باعث گجرات کے بیشتر نوجوانوں کا جھکاؤ پی ٹی آئی کی طرف ہو چکا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اگر پولنگ کے روز ٹرن آؤٹ زیادہ رہا تو قیصرہ الٰہی کامیاب ہو جائیں گی لیکن اگر کم لوگ ووٹ ڈالنے کے لیے نکلے تو قیصرہ الٰہی کو نقصان ہوسکتا ہے۔
اس حلقے میں پیپلز پارٹی نے مبین ارشدکو میدان میں اتارا ہے جبکہ پی ٹی آئی کے منحرف رہنما محمد افضل گوندل، جماعت اسلامی کے ساجد شریف، تحریک لبیک کے چوہدری عبدالکریم اور جے یو آئی کے عبدالرشید وڑائچ بھی میدان میں موجود ہیں۔
یہاں تحریک لبیک کافی ووٹ لے سکتی ہے اگر ایسا ہوا تو اس کا فائدہ ق لیگ کو ہو گا۔
پی پی 31 میں مسلم لیگ ق کے چوہدری شافع حسین کا مقابلہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ مدثر مچھیانہ سے ہے جو عمران خان کے ذاتی سکیورٹی انچارج ہیں۔
یہاں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے ق لیگ سے ایڈجسٹمنٹ کے تحت اپنا امیدوار کھڑا نہیں کیا۔
اس حلقے میں زیاد تر بڑی برادریاں اور دھڑے چوہدری شافع کے ساتھ ہیں لیکن شہری حلقہ ہونے کی وجہ سے تحریک انصاف کے بھی کافی حامی ہیں جو باہر نکل کر نعرے تو نہیں لگا رہے لیکن پولنگ سیٹشن پر سرپرائز دے سکتے ہیں۔
اس نشست پر جماعت اسلامی کے چوہدری انصر دھول اور ق لیگ کے منحرف رہنما چوہدری عدیل ارشد سمیت کئی دیگر امیدوار بھی الیکشن لڑ رہے ہیں۔
حلقہ پی پی 32 کنجاہ اور مضافاتی علاقوں پر مشتمل ہے جہاں مسلم لیگ ق کے امیدوار چوہدری سالک حسین کا مقابلہ پی ٹی آئی کے صدر چوہدری پرویز الٰہی سے ہے۔ تاہم پرویز الٰہی کی پوزیشن بہتر بتائی جا رہی ہے لیکن ق لیگ کے حامی اس دعوے کو تسلیم نہیں کرتے۔
یہ بھی پڑھیں
ضلع سرگودھا میں ہائی وولٹیج مقابلے مریم نواز کے مد مقابل کون الیکشن لڑے گا؟
این 65 میں لالہ موسیٰ، ڈنگہ وغیرہ آتے ہیں اور یہ ہائی وولٹیج حلقہ ہے۔ یہ پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما قمر زمان کائرہ کی آبائی نشست ہے جہاں سے وہ اس بار بھی الیکشن لڑ رہے ہیں۔ ان کا مقابلہ مسلم لیگ ن کے چوہدری نصیر احمد سدھ اور پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ وجاہت حسنین شاہ سے ہے۔
گزشتہ الیکشن میں اس حلقے میں پی ٹی آئی کے سید فیض الحسن نے ن لیگ کے چوہدری جعفر اقبال اور پیپلز پارٹی کے قمر زمان کائرہ کو شکست دی تھی۔ اب یہاں قمر زمان کائرہ اور سید وجاہت کے درمیان کانٹے کے مقابلے کی توقع ہے۔
لالہ موسیٰ اور مضافات پر مشتمل صوبائی حلقے پی پی 33 میں پیپلز پارٹی کے ندیم اصغر کائرہ، مسلم لیگ ن کے محمد علی، مسلم لیگ ق کے سید مدد علی شاہ اور تحریک انصاف کے حمایت یافتہ چوہدری عمر لیاقت امیدوار ہیں۔
گزشتہ الیکشن میں یہاں سے تحریک انصاف کے چوہدری لیاقت کامیاب ہوئے تھے لیکن اس بار عمر لیاقت کو ندیم اصغر کائرہ سے سخت مقابلے کا سامنا ہے۔
پی پی 34 ڈنگہ اور کنجاہ قصبات کی آبادیوں پر مشتمل ہے جہاں سے گزشتہ الیکشن میں سے پی ٹی آئی جیتی تھی۔
اس بار یہاں چوہدری ظہور الٰہی کی بیٹی سمیرا الٰہی پی ٹی آئی کی حمایت یافتہ امیدوار ہیں جبکہ مسلم لیگ ن نے میاں طارق محمود، پیپلز پارٹی نے خالد رفیق اور جماعت اسلامی نے معصب لبیب کو میدان میں اتارا ہے۔
اس حلقے میں میاں طارق محمود اور سمیرا الٰہی کے درمیان زور دار مقابلہ دیکھنے کو ملے گا۔
تاریخ اشاعت 6 فروری 2024