تھرپارکر: خشک سالی اور قحط میں غریبوں کی مدد کرنے والا درخت گگرال کیوں ختم ہو رہا ہے؟

postImg

جی آر جونیجو

postImg

تھرپارکر: خشک سالی اور قحط میں غریبوں کی مدد کرنے والا درخت گگرال کیوں ختم ہو رہا ہے؟

جی آر جونیجو

جنوری 2010 ء کی بات ہے  تھرپارکر کے علاقے ننگر پارکر میں کچھ غریب لوگ اپنی فریاد لیے سرکاری حکام کے پاس پہنچے۔ ان لوگوں کو شکایت تھی کہ چند با اثر افراد نے انہیں نہ صرف کارونجھر کے پہاڑوں سے 'گگر' جمع کرنے سے روک دیا ہے بلکہ مار پیٹ بھی کی ہے۔ لیکن ان کی بات کسی نے نہ سنی۔

 جھگڑا طول پکڑنے لگا تو ایک غیر سرکاری تنظیم نے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج سید ساغر حسین زیدی کو درخواست دے دی۔ جنہوں نے فریقین کو اپنے دفتر میں طلب کیا اور معاملے کی نگرانی کے لیے کمیٹی تشکیل دے دی تھی۔ کمیٹی کے سربراہ سیشن جج خود تھے اور اس میں رینجر سمیت شہریوں کو بھی نمائندگی دی گئی تھی۔

اس وقت انکشاف ہوا تھا کہ کچھ لوگوں نے 'گگرال' نامی درخت سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ پیداوار(گگر) حاصل کرنے کا ایک عجیب و غریب طریقہ اختیار کر رکھا ہے  جس سے یہ درخت چھ ماہ کے اندر سوکھ جاتا ہے۔

بعد ازاں اس کیس پر بھی دیگر فائلوں کی طرح دھول پڑ گئی مگر یہ فائدہ ضرور ہوا کہ اس درخت کو کاٹنے یا نقصان پہنچانے پر دفعہ 144 کے تحت پابندی لگا دی گئی تھی۔

گگرال یا گگل خودرو جنگلی جھاڑی ہے جو عام طور پر چار/پانچ فٹ اونچی ہوتی ہے اور اگر اس کے ساتھ زیادہ عرصہ چھیڑ چھاڑ نہ کی جائے تو درخت بن جاتا ہے۔ گگرال سے قدرتی طور پر ایک خاص قسم کا گوند نکلتا ہے جس کو 'گگر' کہتے ہیں جو مارکیٹ میں دو سے ڈھائی ہزار روپے کلو بکتا ہے اور زیادہ تر ایکسپورٹ ہوتا ہے۔

ضلع تھرپارکر کے لگ بھگ 20 ہزار مربع کلو میٹر رقبے میں دو لاکھ 39 ہزار ایکڑ اراضی کا شمار جنگلات میں ہوتا ہے۔ جہاں روہیڑو، ببول، کونبھٹ، پھوگ، کنڈی، گگرال سمیت درجنوں اقسام کے درخت اور سیکڑوں جڑی بوٹیاں پائی جاتی ہیں۔ لیکن گگرال تیزی سے کم ہو رہا ہے۔

باٹنی کے پروفیسر عبد الجلیل جونیجو بتاتے ہیں کہ اس پودے کا بوٹینیکل نام 'کومیفورا مکل' ہے اور اس کو مقامی زبان میں گگرال یا گگل پکارا جاتا ہے۔ یہ چھوٹا سا درخت صحرائی اور پتھریلی علاقوں میں ہوتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں صحرائےتھر ، کارونجھرکے پہاڑ اور رن کچھ گگل کے پسندیدہ علاقے ہیں۔تاہم یہ پودا کیرتھر رینج، بلوچستان اور پنجاب کے کچھ علاقوں میں بھی پایا جاتا ہے۔ حالات موافق ہوں تو اس پودے کی اوسط عمر آٹھ سے دس سال ہوتی ہے۔

سائنس ڈائریکٹ جرنل کے مطابق حکماء ہزاروں سالوں سے گگل کو ہائپرکولیسٹرولیمیا(خون میں معمول سے زیادہ کولسٹرول)، ایتھروسکلروسیس(شریانوں کا سخت ہونا)، گٹھیا اور موٹاپے سمیت کئی بیماریوں کے علاج کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اسے جلدی امراض، کینسر اور پیشاب کی خرابیوں کے علاج میں بھی استعمال ہوتا ہے۔

تینتالیس سالہ پریمو کولہی کئی سال تک گگر نکالنے کا کام کرتے رہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ پندرہ بیس سال پہلے یہاں کچھ لوگوں نے بیوپاریوں سے مل کر گگرال کو 'ٹیکہ' لگانا شروع کر دیا تھا۔ وہ ٹیکہ(آکسی ٹوسن) جو شہروں میں بھینس کا دودھ فوری نکالنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

 "ایک دن درخت کو ٹیکہ لگاتے تھے اور دوسرے ہی دن اس کی ساری گگر بابر نکل آتی تھی۔ وہ جمع کر کے ہم بازار میں بیچ دیتے تھے۔ قدرتی طریقے سے گوند تھوڑی تھوڑی نکلتی ہے اور کئی کئی روز کے وقفے کے بعد اکٹھی کرنی ہوتی ہے۔"

وہ بتاتے ہیں کہ بعد میں گگر نکالنے کے لیے مزید کیمیکل بھی استعمال کیے جانے لگے۔ اب تو ہینگ اور کونبھٹ(ایک اور مقامی درخت) کے گوند کو گرم کرکے آکسی ٹوسن میں مکس کیا جاتا ہے  پھر یہ محلول درخت میں سوراخ کر کے اس کے اندر لگا دیا جاتا ہے۔

پریمو کولہی کا کہنا تھا کہ کچھ لوگ آکسی ٹوسن کے ساتھ کیلشیم کاربائیڈ (عرف عام میں آم پکانے والا مسالہ) اور ٹیرا مائی سن انجیکشن کا بھی استعمال کرتے ہیں۔ اس سے گگر تو دو دن میں نکل آتا ہے لیکن درخت چھ سے آٹھ ماہ میں سوکھ جاتا ہے۔

یوں چند لوگوں کی لالچ گگرال کو لے ڈوبی ہے۔

گگرال کے علاقوں کا کبھی کوئی سروے نہیں کیا گیا اور نہ ہی تھر میں الگ سے اس کی اراضی کا محکمہ ریونیو اور زراعت کے پاس رکارڈ ہے۔ تاہم محکمہ جنگلات کے حکام بتاتے ہیں کہ تقریباً ایک لاکھ ایکڑ پر گگرال ہوتا تھا جو اب 40 سے 45 ہزار ایکڑ رہ گیا ہے۔

مقامی زمیندار بھورا لال جنگلات اور وائلڈ لائف کے ایکسپرٹ ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ گگرال رن کچھ کے قریبی علاقوں میں اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہے۔ شاہد اس کی وجہ زیر زمین نمی ہے یا وہاں ٹیکہ لگنا شروع نہیں ہوا۔ تھر کے دوسرے علاقوں میں یہ درخت خاتمے کے قریب ہے۔

ننگرپارکر میں کارونجھر پہاڑ کے گردونواح، اسلام کوٹ کی چار جنوبی یونین کونسلوں اور ڈیپلو کے علاقے وٹ میں بھی درخت بچے ہوئے ہیں۔

اس صورت حال پر چند سال پہلے جب سماجی کارکنوں اور مقامی تنظیوں نے شور مچایا تو پولیس بھی حرکت میں آئی۔

تھر میں پہلی کارروائی نومبر 2019ء میں کی گئی۔ پولیس نے کلوئی تا نوکوٹ روڈ پر چھاپہ مارا اور 13 بورےگگر لے جانے والے ہریش کولہی اور ڈیوو کولہی کو گرفتار کر لیا تھا۔ دونوں کے خلاف 379 / 427 پی پی سی کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا جو بعد ازاں عدالت سے رہا ہو گئے۔

 دوسری کارروائی میں ڈیپلو پویس نے ملزم ہر یش کمار کو گرفتار کیا لیکن ایک سال بعد 29 نومبر 2022ء کو وہ دوبارہ 16 بوری گگر (گوند) کے ساتھ پکڑے گئے تھے۔

ایک اور کارروائی 17 دسمبر 2022ء کو کی گئی جس میں پولیس نے ڈیپلو کے قریب شمن اور جیٹھو کو دس بوری گگر سمیت گرفتار کیا اور ان پر بھی مقدمہ درج کیا گیا۔

تحصیل اسلام کوٹ میں سات مارچ 2023ء کو محکمہ وائلڈ لائف نے بھی ایکشن لیا جہاں گگر کراچی لے جانے والے افراد کو پکڑا گیا ۔

اسی طرح ڈیپلو پولیس نے گاؤں مٹھڑیو سومرا کے نزدیک چھاپہ مار کر گگر کے اہم ڈیلر محمد خان انڑ کو گرفتار کیا۔جبکہ ان کے ساتھ گاڑی کے مالک اور وڈیرے عثمان لنجو کے بیٹے قربان علی بھی گرفتار کر لیے گئے۔

گوند کے ایک تاجر نے نام نہ لینے کی شرط پر بتایا کہ تھر میں پہلے سات سے آٹھ سو من گگر کا کاروبار ہوتا تھا مگر اب دو سے ڈھائی سو من مال کا لین دین ہوتا ہے۔

"گگر کی بہت مانگ ہے اس لیے سختی کے باوجود لوگ خفیہ طریقوں سے مال کراچی پہنچاتے ہیں"۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

ٹنڈو الہیار: محکمہ جنگلات کی " ٹرمنگ" آدھے آدھے درخت کاٹ کر بیچ دیے گئے

میر محمد جونیجو ڈیپلو کے رہائشی ہیں اور غیر سرکاری تنظیم 'بانہہ بیلی' کے ساتھ گگرال پر کام کر چکے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ تھرپارکر میں گگرال کمیاب ہو چکا ہے۔ یہ بہت قیمتی درخت ہے اور کسی کیمیکل کے بغیر فی پودا سالانہ ایک کلو تک گگر (گوند) دیتا ہے۔
 
وہ کہتے ہیں کہ اگر گھر کے قریب دو ایکڑ کھیت میں گگرال کے سو پودے بھی لگا لیے جائیں اور اوسط پیداوار نصف کلو فی پودا ملے تب بھی 50 کلو گگر کی آمدنی سوا لاکھ کے قریب ہوگی۔ اس کا بیج بھی مہنگا ہوتا ہے وہ آمدن الگ۔اور جس کھیت میں گگرال ہو وہاں نقصان دہ کیڑے نہیں آتے۔

عالمی ادارے انٹرنیشنل یونیں آف کنزرویشن(آئی این یو سی) نے گگرال کے درخت کو2010ء میں نایاب درختوں میں شمار کیا تھا۔ لیکن رواں سال اسے ریڈ لسٹ میں بھی شامل کر لیا ہے یعنی اب اس کے معدوم ہونے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔

 تھر میں کچھ زمینداروں نے گگرال کو قلم کے ذریعےکاشت کرنے کی کوشش کی تھی لیکن یہ تجربہ کامیاب نہیں ہوا۔ تاہم میر محمد کا کہنا ہے کہ بارش کے دوران بیج بو کر اگایا جا سکتا ہے کیونکہ بارش میں یہ فوراً جڑ پکڑ لیتا ہے۔ پھر اسے پورا سال پانی کی ضرورت نہیں رہتی۔

بھورا لال کے مطابق گگرال فقیر درخت ہے اور یہ سناتن دھرم میں 'پویتر'  (پاک) مانا جاتا ہے۔ جب مندروں میں 'ھون' ہوتا ہے تو گگر کا دھواں شامل کیا جاتا ہے۔ ہندو مسلم سب گگر کو گھر میں رکھتے ہیں اور مویشیوں کو دھواں دیتے ہیں جس سے انہیں بیماری نہیں ہوتی۔

محکمہ وائلڈ لائف کے ڈویژنل ڈپٹی کنزرویٹر میر اعجاز ٹالپر اعتراف کرتے ہیں کہ گگرال کو ٹیکہ لگانے میں مقامی بااثر لوگ شامل ہیں جس سے یہ درخت تیزی سے ختم ہوتا جا رہا ہے۔

 "ہم نے کارروائیاں کی ہیں مگر ان لوگوں کوعدالتوں سے ریلیف مل جاتا ہے۔ ہمارے پاس سٹاف کی کمی ہے۔ اگر ہر تحصیل میں انسپکٹر ہو تو درختوں میں ٹیکوں پر موثر کارروائی ہو سکتی ہے مگر ہماری کوشش ہے جتنا ممکن ہو کارروائی کریں۔"

مقامی کاشتکار ڈیوجی مل کہتے ہیں کہ خشک سالی اور قحط کے برسوں میں گگرال نے غریبوں کی بہت مدد کی۔ یہاں لوگ گگر بیچ کر روٹی کما لیتے تھے۔ لیکن مشکل میں کام آنے والا یہ درخت اب ختم ہو رہا ہے۔

"یہ درخت ہماری روزی اور ہمارے ماحول کا محافظ ہے۔ یہ تھر کے ریگستان کا حسن اور کارونجھر پہاڑ کی خوبصورتی کا بھی سبب ہیں۔"

تاریخ اشاعت 6 جنوری 2024

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

جی آر جونیجو کا تعلق تھرپارکر سے ہے۔ وہ گذشتہ پانچ سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ سیاست، ماحولیات، تعلیم، کلچر، انسانی حقوق اور پسماندہ طبقوں کو درپیش مسائل سے متعلق رپورٹنگ کرتے ہیں۔

thumb
سٹوری

پنجاب حکومت کسانوں سے گندم کیوں نہیں خرید رہی؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاحتشام احمد شامی
thumb
سٹوری

الیکٹرک گاڑیاں اپنانے کی راہ میں صارفین کے لیے کیا رکاوٹیں ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود

سوات: نادیہ سے نیاز احمد بننے کا سفر آسان نہیں تھا

thumb
سٹوری

پسنی: پاکستان کا واحد "محفوظ" جزیرہ کیوں غیر محفوظ ہوتا جا رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceملک جان کے ڈی

پنجاب: فصل کسانوں کی قیمت بیوپاریوں کی

چمن: حکومت نے جگاڑ سے راستہ بحال کیا، بارشیں دوبارہ بہا لے گئیں

thumb
سٹوری

بھٹہ مزدور دور جدید کے غلام – انسانی جان کا معاوضہ 5 لاکھ روپے

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد

ہندؤں کا ہنگلاج ماتا مندر، مسلمانوں کا نانی مندر"

thumb
سٹوری

نارنگ منڈی: نجی سکولوں کے طالب علموں کے نمبر زیادہ کیوں آتے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمعظم نواز

ای رکشے کیوں ضروری ہیں؟

لاہور میں کسان مظاہرین کی گرفتاریاں

thumb
سٹوری

گلگت بلتستان: انس کے سکول کے کمپیوٹر کیسے چلے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنثار علی
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.