مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا 'چھوڑی': ملک میں 'ٹی بی' کی بگڑتی صورتحال، نظام صحت میں آخر مسئلہ کیا ہے؟

postImg

محمد صابرین

postImg

مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا 'چھوڑی': ملک میں 'ٹی بی' کی بگڑتی صورتحال، نظام صحت میں آخر مسئلہ کیا ہے؟

محمد صابرین

اٹک کی 32 سالہ عارف بی بی دو ماہ قبل جب قریبی بنیادی مرکز صحت گئیں تو ڈاکٹروں نے ان کی حالت دیکھ کر فوری طور پر بلغم کا ٹیسٹ کیا۔ رپورٹ آئی تو بتایا کہ انہیں ٹی بی کا مرض لاحق ہو گیا ہے اس لیے وہ علاج کے لیے فوری طور پر دیہی مرکز صحت مگیاں یا تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال پنڈی گھیب چلی جائیں۔

عارف بی بی  کو کچھ عرصہ سے کھانسی کے شدید دورے پڑ رہے تھے۔ان کا رنگ پیلا اور وزن  کم ہو رہا تھا۔ وہ اگلے ہی دن گھر سے پانچ کلومیٹر دور مگیاں کے سرکاری ہسپتال پہنچ گئیں۔

وہ بتاتی ہیں کہ وہاں ان کے چند مزید ٹیسٹ ہوئے اور ڈاکٹر نے علاج شروع کردیا۔ساتھ ہی تنبیہہ کی کہ وہ کسی صورت دوائی کا ناغہ نہیں کریں گی۔ ڈاکٹر نے انہیں یہ ہدایت بھی کی کہ انڈا، دودھ، گوشت اور پھل روزانہ اپنی خوراک کا حصہ بنالیں تو جلد ٹھیک ہوجائیں گی۔

عارف بی بی کی شادی کو دو سال ہوئے ہیں اور فی الحال ان کی اولاد نہیں ہے۔وہ اپنے شوہر جو دیہاڑی دار مزدور ہیں، ان کی والدہ اور چھوٹے بھائی کے ساتھ رہتی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ان کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ روزانہ گوشت اور پھل خرید سکیں۔

 ٹی بی ایک متعدی بیماری ہے جو جسم کے کسی بھی حصے پر اثر انداز ہوسکتی ہے لیکن عام طور پر پھیپھڑوں میں نمودار ہوتی ہے۔درست علاج نہ کیا جائے تو یہ جان لیوا بھی ثابت ہو سکتی ہے۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق 2021 ء میں  ٹی بی سے دنیا بھر میں 16 لاکھ اموات ہوئیں جبکہ ایک کروڑ چھ لاکھ نئے افراد میں یہ بیماری پائی گئی۔ پاکستان بھی اس بیماری سے متاثرہ پانچ بڑے ممالک میں شامل ہے۔

2021 ءمیں پاکستان میں ٹی بی کے تین لاکھ 39 ہزار 256 مریض رپورٹ ہوئے جن میں سے 50 ہزار کے قریب لوگوں کی اموات ہوئیں جو کورونا، ایڈز، خسرہ، ملیریا، یرقان اور السر جیسے امراض سے زیادہ ہیں۔

پاکستان میں رپورٹ ہونے والے کل مریضوں میں 63 فیصد یعنی دو لاکھ آٹھ ہزار 573 پنجاب میں تھے۔ گنجان آباد اضلاع لاہور، فیصل آباد، راولپنڈی فیصل آباد اور گوجرانوالہ میں یہ بیماری زیادہ ہے۔ اس کے بعد اٹک، ننکانہ صاحب، حافظ آباد، گجرات، ناروال اور میانوالی آتے ہیں جہاں سالانہ دو سے چار ہزار تک ٹی بی کیسز رپورٹ ہوتے ہیں۔

اٹک کے سینیئر ڈاکٹر طفیل خٹک کا ماننا ہے کہ ٹی بی پھیلنے کی بڑی وجہ متوازن خوراک کی کمی ہے۔ پسماندہ دیہات میں اس بیماری کی شرح زیادہ ہے۔

ضلع اٹک کی آبادی 22 لاکھ سے زیادہ ہے۔یہاں 20 لاکھ کے قریب لوگ دیہی علاقوں میں رہتے ہیں۔ نیشنل ٹی بی کنٹرول پروگرام کی ویب سائٹ کے مطابق اس ضلع میں صرف 13 مقامات یا ہسپتالوں میں ٹی بی کے ٹیسٹ کی سہولت موجود ہے۔

ان میں ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال اور پانچ تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتالوں کے علاوہ پانچ دیہی مراکز صحت، ایک ڈسٹرکٹ جیل اور ایک فلاحی ادارے کے پاس لیبارٹری کی سہولت ہے۔

ڈاکٹر داؤد ملک ضلع اٹک میں ٹی بی پروگرام کے کوآرڈینیٹر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ضلعے میں ایک ہزار 400 مریضوں کا علاج جاری ہے۔ پچھلے سالوں میں بھی یہ تعداد ڈیڑھ ہزار تک رہی ہے۔

"ضلع بھر میں 800 کے لگ بھگ لیڈی ہیلتھ ورکر گھر گھر جاکر سکریننگ کر رہی ہیں۔ ٹی بی کا مشتبہ مریض نظر آ جائے تو اسے قریبی مرکز صحت جانے کی ہدایت کی جاتی ہے"۔

ڈاکٹر داؤد کہتے ہیں کہ مریض کو چھ ماہ ادویات مفت دی جاتی ہیں۔ فالو اپ سسٹم کے ذریعے یہ یقینی بنایا جاتا ہے کہ مریض باقاعدگی سے دوا کھا رہا ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ ضلع اٹک میں چھ ماہ کے دوران اس مرض کی تشخیص کے لیے 12 ہزار سے زیادہ افراد کی سکریننگ کی گئی جن میں بلغم ٹیسٹ، ایکسرے، ایچ آئی وی اور جینز ٹیسٹ شامل ہیں۔ ڈسٹرکٹ جیل میں بھی 700 قیدیوں کی سکریننگ کی گئی ہے۔

لیکن ڈاکٹر طفیل خٹک کے خیال  میں یہ اقدامات 22 لاکھ کی آبادی کے لیے ناکافی ہیں۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ٹی بی کیسز بہت کم تعداد میں رپورٹ ہوتے ہیں۔

"اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ دیہات میں لوگوں کو طبی مراکز تک پہنچنے کے لیے بہت زیادہ فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے"۔

موضع سینسز 2020 ءکے مطابق اٹک میں زیادہ آبادی والے 405 دیہات میں سے صرف 80 میں بنیادی مراکز صحت اور 55 میں دیہی مراکز صحت کی سہولت ہے۔ ضلعے کی 862 چھوٹی آبادیوں کو اس معاملے میں ہمیشہ نظرانداز کیا گیا ہے۔

ٹی بی کیس رپورٹ کیوں نہیں ہوتے؟

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق پاکستان میں 2020ء میں ٹی بی کے  ممکنہ طور پر  پانچ لاکھ 73 ہزار نئے کیسز سامنے آئے تھے لیکن ان میں صرف دو لاکھ 77 ہزار یعنی 48 فیصد ہی رپورٹ ہوئے۔

اسی طرح 2021 ء میں بھی مریضوں کی کل تعداد چھ لاکھ 11 ہزار تھی لیکن صرف 56 فیصد یعنی تین لاکھ 39 ہزار 256 کیس رپورٹ ہوئے۔

نیشنل ٹی بی کنٹرول پروگرام میں صوبائی سطح کے ایک سینیئر عہدے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ تمام مریضوں تک رسائی میں سب سے بڑا مسئلہ فنڈز کی کمی ہے۔

پنجاب کو ٹی بی کے لیے سالانہ دو سے ڈھائی ارب روپے ملتے ہیں جو مریضوں کی تعداد کے لحاظ سے مونگ پھلی کے دانے کے برابر ہیں جبکہ ایک عام مریض پر پانچ ہزار روپے خرچ ہوتے ہیں۔

لورالائی کے طبی ماہر اور سماجی کارکن ڈاکٹر منیر اقبال کے خیال میں مریضوں تک رسائی میں بڑی رکاوٹ فنڈز کی کمی نہیں بلکہ صحت کا نظام ہے۔

"ہمارے ہسپتال، ڈاکٹر اور طبی عملہ اس بات پر انحصار کرتا ہے کہ مریض ان کے پاس آئیں تو تب وہ علاج کریں گے یہ سراسر غلط ہے۔"

ان کے ماننا ہے کہ ٹی بی کو ختم کرنے کے لیے چین یا انگلینڈ جیسے 'ایکٹو ڈیٹیکٹو سسٹم' کو اپنانا ہوگا جس میں ڈاکٹر گلی محلوں اور دیہات میں جاکر خود مریضوں کو تلاش کرتے ہیں۔

ان کے کہنا ہے کہ  ٹی بی کا ایک متاثر شخص سال میں آٹھ سے 15 نئے لوگوں کو مریض بناتا ہے۔اس لیے اگر کوئی مریض سامنے آئے تو  فوراً اس کے تمام قریبی لوگوں کے ٹیسٹ کرنے چاہئیں۔تب ہی بیماری پر قابو پانا ممکن ہو گا۔

عام بیماری 'خطرناک 'کیوں بن رہی ہے

ڈاکٹر منیر اقبال کا کہنا کہ صحت کے  کمزور نظام اور حکومتی عدم توجہی نے  ٹی بی کے معاملے میں پاکستان کو بڑی مصیبت سے دو چار کردیا ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ پاکستان تیزی سے ادویات کے خلاف مزاحمت رکھنے والی  ٹی بی (طبی زبان میں ایم ڈی آر ٹی بی اور ایکس ڈی آر ٹی بی جبکہ دیسی زبان میں بگڑی ہوئی ٹی بی ) کی طرف بڑھ رہا ہے۔

ڈاکٹر منیر  کہتے ہیں کہ غریب لوگ پہلے قریب ہی حکیم یا عطائی کے پاس جاتے ہیں۔حالت خراب ہونے پر سرکاری یا نجی ہسپتالوں میں  آتے ہیں۔کچھ ڈاکٹر بھی ایسے ہیں جنہیں ٹی بی کے علاج کا درست طریقہ کار معلوم نہیں۔

اٹک کی تحصیل حسن ابدال کے نواحی گاؤں ملی پنڈ کی 30 سالہ شکیلہ بی بی، ایم ڈی آر ٹی بی کی مریضہ ہیں وہ بھی پہلے عطائی کے پاس گئی تھیں جو انہیں 16 روز تک ٹائیفائیڈ کی دوا دیتا رہا۔

شکیلہ بی بی کے بھائی کے بقول جب بہن کی حالت زیادہ خراب ہوگئی تو وہ انہیں واہ کینٹ لے گئے جہاں ٹی بی تشخیص ہوئی۔وہاں بھی دوا سے بہتری نہ آئی تو ڈاکٹروں نے راولپنڈی جانے کا مشورہ دیا۔

"سول ہسپتال راولپنڈی کے ڈاکٹروں نے بتایا کہ انہیں تو ایم ڈی آر ٹی بی ہے۔"

اب شکیلہ بی بی دس ماہ سے ہر مہینے دوائی لینے راولپنڈی جاتی ہیں اور قدرے بہتر محسوس کرتی ہیں۔

تحصیل فتح جھنگ کے کمبڑیال گاؤں کے 40 سالہ محمد شکیل پانچ بچوں کے باپ ہیں اور سبزی بیچ کر گھر چلا رہے ہیں۔ان کی بھی کچھ ایسی ہی کہانی ہے۔

وہ کئی روز سے  بیمار تھے اس لیے اٹک سول ہسپتال جا کر معائنہ کرایا۔وہاں ڈاکٹروں نے انہیں شوگر (ذیابیطس) کی دوا دے دی جسے وہ دس ماہ کھاتے رہے۔ پھر راولپنڈی  گئے تو وہاں انہیں بتایا گیا کہ وہ ٹی بی میں مبتلا  ہیں۔

صوبائی ٹی بی کنٹرول پروگرام کے عہدے دار ایم ڈی آر ٹی بی کے بڑھتے کیسز پر نظام صحت  کی خامیوں کا اعتراف کرتے ہیں تاہم ان کا کہنا ہے کہ ٹی بی کا علاج اتنا طویل اور تکلیف دہ ہے کہ لوگ اکتا کر چھوڑ دیتے ہیں۔

"اگر کسی کو صبح نہار منہ بڑی بڑی چھ گولیاں کھانی پڑیں تو اندازہ لگائیں اس کی حالت کیا ہوگی؟ "

ان کے مطابق دوا ادھوری چھوڑنے پر عام ٹی بی ہی 'ملٹی ڈرگ رزسٹنٹ ٹی بی' میں بدل جاتی ہے۔ پھر حکومت کو ایسے مریض کی دوا پر 12 لاکھ سے 18 لاکھ روپے خرچ کرنا پڑتے ہیں۔

عالمی ادارہ صحت بھی اس کی تصدیق کرتا ہے کہ پاکستان عام ٹی بی کے مریضوں کی تعداد کے لحاظ سے 5.8 فیصد کے ساتھ دنیا میں پانچویں نمبر پر ہے۔ جبکہ ایم ڈی آر ٹی بی (ملٹی ڈرگ رزسٹنٹ ٹی بی) کے 7.9 فیصد کیسوں کے ساتھ تیسرا خطرناک ترین ملک ہے۔

ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کراچی کے  پروفیسروں نے 2022 ء میں ایم ڈی آر ٹی بی پر ایک ریسرچ کی جس میں بتایا گیا ہے پچھلے کچھ عرصے سے ایم ڈی آر ٹی بی کے کیسز میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہوا ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

اپر دیر میں ٹائیفائیڈ کی نئی قسم کی وبا: بیماریوں کے خلاف آزمودہ دوائیں بے اثر کیوں ہوتی جا رہی ہیں؟

پاکستان میں 2015 ءسے 2021 ءتک ایم ڈی آر ٹی بی کے رجسٹرڈ مریضوں کی تعداد 33 فیصد تک بڑھ گئی ہے۔ 2015 ءمیں ملک بھر میں ایسے 27 ہزار مریض تھے 2021 ءتک یہ تعداد  36 ہزار تک پہنچ گئی۔ جن میں سے 51 فیصد مریضوں کا تعلق پنجاب سے ہے۔

اس ریسرچ کے مطابق یہ بیماری سنگین اس وقت ہوتی ہے جب ٹی بی کے جرثومے پر ابتدائی چار اینٹی ٹی بی ادویات بے اثر ہو جاتی ہیں۔

ڈاکٹر منیر اقبال کے مطابق پاکستان اب ایم ڈی آر ٹی بی سے بھی آگے ایکس ڈی آر ٹی بی (ایکسٹینسولی ڈرگ رزسٹنٹ ٹی بی) پر چلا گیا ہے جس کا علاج مزید مشکل اور مہنگا ہے۔

عالمی ادارہ صحت نے پاکستان میں 2021 میں ایکس ڈی آر ٹی بی کے 838 مریضوں کی نشاندہی کی ہے۔

ڈاؤ یونیورسٹی کے چند پروفیسروں نے ایکس ڈی آر ٹی بی پر ریسرچ میں 2012 ءسے 2018ء تک کے رجسٹرڈ 184 مریضوں کا مشاہدہ کیا۔

اس ٹیم نے  یہ نتیجہ اخذ کیا کہ 184 مریضوں میں سے 83 (یعنی 45 فیصد) انتقال کرگئے جبکہ 24 (یعنی 13 فیصد) پر علاج کے مثبت نتائج برآمد نہیں ہوئے۔  11(چھ فیصد) مریضوں نے اپنا علاج ادھورا چھوڑ دیا جبکہ 59 (یعنی 32 فیصد) ہی اپنا علاج کامیابی کے ساتھ مکمل کر پائے۔باقی چار فیصد کی تفصیل میسر نہیں آ سکی۔

اس سٹوری میں لاہور سے آصف ریاض نے بھی مدد فراہم کی ہے۔

تاریخ اشاعت 7 جولائی 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

محمد صابرین کا تعلق ضلع اٹک کے گاؤں دکھنیر سے ہے ۔ گزشتہ تین دھائیوں سے انگریزی، اردو اخبارات اور نشریاتی اداروں کیلیے بطور فری لانس جرنلسٹ کام کر رھے ہیں۔

thumb
سٹوری

خیبرپختونخوا میں وفاقی حکومت کے ہائیڈرو پاور پراجیکٹس کس حال میں ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
thumb
سٹوری

ملک میں بجلی کی پیداوار میں "اضافہ" مگر لوڈ شیڈنگ کیوں ہو رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

سولر توانائی کی صلاحیت: کیا بلوچستان واقعی 'سونے کا اںڈا دینے والی مرغی" ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceحبیبہ زلّا رحمٰن
thumb
سٹوری

بلوچستان کے ہنرمند اور محنت کش سولر توانائی سے کس طرح استفادہ کر رہے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشبیر رخشانی
thumb
سٹوری

چمن و قلعہ عبداللہ: سیب و انگور کے باغات مالکان آج کل کیوں خوش ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceحضرت علی
thumb
سٹوری

دیہی آبادی کے لیے بجلی و گیس کے بھاری بلوں کا متبادل کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعزیز الرحمن صباؤن

اوور بلنگ: اتنا بل نہیں جتنے ٹیکس ہیں

thumb
سٹوری

عبدالرحیم کے بیٹے دبئی چھوڑ کر آواران کیوں آ گئے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشبیر رخشانی
thumb
سٹوری

"وسائل ہوں تو کاشتکار کے لیے سولر ٹیوب ویل سے بڑی سہولت کوئی نہیں"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

لاہور کے کن علاقوں میں سب سے زیادہ بجلی چوری ہوتی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود

بلوچستان: بجلی نہ ملی تو لاکھوں کے باغات کوڑیوں میں جائیں گے

thumb
سٹوری

خیبر پختونخوا میں چھوٹے پن بجلی منصوبوں کے ساتھ کیا ہوا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.