گولاڑچی کے بیشتر کسان اپنی زمینوں کے مالک کیوں نہیں رہے؟

postImg

رضا آکاش

postImg

گولاڑچی کے بیشتر کسان اپنی زمینوں کے مالک کیوں نہیں رہے؟

رضا آکاش

مصطفیٰ ایاز مہیری، بدین کی تحصیل گولاڑچی کے رہائشی ہیں جو گاؤں حاجی چاکر مہیری میں 248 ایکڑ زرعی رقبے کے مالک ہیں۔ جس میں سے ان کی 148 ایکڑ اراضی دیہہ کھاریوں اور 100 ایکڑ دیہہ آگڑی میں واقع ہے۔ لیکن یہ زمین ابھی تک ان کے مرحوم والد کے نام ہے جن کی وفات کو طویل عرصہ بیت چکا ہے۔

وہ تحصیل گولاڑچی اور ضلع بدین کے مال افسروں پر سخت برہم دکھائی دیے۔

انہوں نے بتایا  کہ زمین کی اپنے نام منتقلی اور ریکارڈ کے حصول کے لیے وہ دو سال سے ریونیو دفاتر کے چکر کاٹ رہے ہیں  اور  پچاس ہزار روپے خرچ بھی کر چکے ہیں۔ تاہم ابھی تک یہ دستاویزات بنوانے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔

وہ کہتے ہیں کہ  انہوں  نے اراضی کی تمام قانونی دستاویزات اور متعلقہ کاغذات گولاڑچی ریونیو آفس میں تپیدار (پٹواری)،اسسٹنٹ کمشنر اور مختیار کار (تحصیلدار) کے پاس جمع کرا دیے ہیں مگر انہیں نقل انتقال اور فرد ملکیت جاری نہیں کی جا رہیں۔

"محکمہ مال کے افسروں اور اہلکاروں کی نااہلی کے باعث ہم اپنی ہی جائیداد کے چور بنے ہوئے ہیں۔ ملکیتی دستاویزات کی عدم موجودگی کی وجہ سے ہم نہ صرف اپنی جائیداد فروخت کرنے کے حق سے محروم ہیں بلکہ کاشتکاری کے لیے بینک سے قرضہ بھی نہیں لے سکتے۔"
یہ صرف مصطفیٰ ایاز کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ تحصیل گولاڑچی کے ہزاروں زمیندار اور کسان اسی تکلیف سے گزر رہے ہیں۔

ستائیس دسمبر 2008ء کی شام جب محترمہ بے نظیر بھٹو کو ایک دہشت گرد حملے میں شہید کیا گیا تو ملک بھر میں اس المناک واقعے پر شدید غم و غصہ دیکھنے میں آیا تھا جس کے بعد سندھ بھر کے چھوٹے بڑے شہروں میں مشتعل لوگوں نے نجی اور سرکاری املاک پر حملے شروع کر دیئے تھے۔

 اس رات ضلع بدین میں بپھرے ہجوم نے کئی سرکاری اور غیر سرکاری عمارتوں کو آگ لگا دی تھی۔ اس احتجاج میں تعلقہ ہیڈ کوارٹر گولاڑچی کے ریونیو آفس کو بھی جلا دیا گیا تھا جس کے نتیجے میں یہاں موجود دیگر سرکاری دستاویزات کے ساتھ تحصیل بھر کا ریونیو ریکارڈ بھی راکھ ہو گیا تھا۔

اس آتشزدگی سے تحصیل گولاڑچی کی تمام 14 یونین کونسلوں کے کھاتے دار متاثر ہوئے جن میں گولاڑچی، کھور واہ، خانانی جت، کھور واہ چوک، دبی، جھول، دھادھرکو، کڑیو گھنور، راہوکی، ترائی، احمد راجو ،فتح آباد، گھرہڑی، اور کنڈیاری شامل ہیں۔

 ان یونین کونسلز میں کل 99 دیہات آتے ہیں تاہم 84 کا ریکارڈ مکمل طور پر خاکستر ہو گیا تھا جن میں مخدوم پور، سوڈھکی، ولہار، کھور واہ، نڑبٹ، ڈھانڈھو، پٹیہل، فٹون، چھچھ، بکیرانی، ملکی، میانو کرڑاٹھ، نوحکی، لکھی، گھجھڑی، فتح پور، چاکری جیسے بڑے دیہات شامل ہیں جبکہ 15 دیہات کے ریکارڈ کو جزوی نقصان پہنچا تھا۔

اس واقعے کو 16 سال بیت چکے ہیں جس کے دوران ضلع بدین اور تحصیل گولاڑچی میں کئی ڈپٹی کمشنر، اسٹنٹ کمشنر، مختیار کار آئے اور چلے گئے مگر تباہ شدہ ریونیو ریکارڈ دوبارہ مکمل طور پر بحال نہیں کیا جا سکا۔

تحصیل گولاڑچی چار لاکھ 16 ہزار ایکڑ رقبے پر مشتمل ہے جس میں محکمہ مال کے پٹواریوں ہیمو کولہی اور علی نواز کھوسو کے مطابق تحصیل کے زرعی رقبے کے کھاتے داروں کی تعداد ساڑھے سات ہزار کے قریب ہے، ان میں سے 80 فیصد کے قریب کاشت کار ریکارڈ جلنے کے باعث متاثر ہوئے ہیں۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس تحصیل کا لگ بھگ ایک لاکھ 75 ہزار ایکڑ رقبہ زیر کاشت ہے۔ جبکہ مقامی سیاسی رہنما امیر آزاد پنہور کے خیال میں زیر کاشت رقبہ زیادہ ہے لیکن سرکاری عملہ مالیہ،آبیانہ خورد برد کرنے کے لیے کم ظاہر کرتا ہے۔

تاہم زرعی بینک زمین گروی رکھے بغیر زمینداروں کو ٹریکٹر وغیرہ جیسی مشینری کے لیے قرضے جاری نہیں کرتا اور نہ ہی کاشت کی تصدیق شدہ دستاویزات کے بغیر کسانوں کو کھاد و بیج کے لیے کوئی رقم دیتا ہے۔

ریونیو ریکارڈ نہ ہونے کے باعث اس تحصیل میں کاشت کاروں کے نقصان کا اندازہ تو کسی نے نہیں لگایا البتہ یہاں کے زرعی ترقیاتی بینک کو اپنے نقصان کا خوب اندازہ ہے۔

زرعی ترقیاتی بینک گولاڑچی برانچ کے منیجر عدنان عزیز ارائیں نے لوک سُجاگ کو بتایا کہ ریونیو ریکارڈ جلنے سے مجموعی طور پر بینک کے منافعے میں 12 کروڑ کی کمی آئی ہے، کیونکہ بینک صرف ان لوگوں کو زرعی پراپرٹی پر قرضے جاری کر رہا ہے جن کی دستاویزات مکمل ہیں۔

"ماضی میں ہمارا زرعی قرضے کا پورٹ فولیو (حجم)  60 کروڑ سے بھی زیادہ تھا مگر اب کم ہو کر مجموعی طور پر 36 کروڑ روپے پر آ چکا ہے۔ یہاں اکثر کسان ریونیو ریکارڈ نہ ہونے کے باعث قرض لینے کی سہولت سے محروم ہیں۔"

بعض جگہ بجلی کا میٹر لگوانے تک کے معاملات میں بھی لوگوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کیونکہ حیسکو قوانین کے تحت بجلی کنکشن کے لیے گھر یا عمارت کی ملکیتی دستاویزات کی ضرورت ہوتی ہے۔

تاہم حیسکو کے ڈائریکٹر پبلک ریلیشنز محمد صادق کبرک کا کہنا ہے کہ جن علاقوں کا سٹی سروے نہیں کیا گیا وہاں گھریلو کنکشن کے لیے یونین کونسل کا جاری کردہ ریزیڈنشل (رہائشی) سرٹیفیکیٹ قبول کر لیا جاتا ہے۔

پچاس سالہ دھنو نوحانی، یوسی راہوکی کے علاقے دیہہ کاکیجانی میں 12 ایکڑ کے کاشت کار ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے ریکارڈ کی درستی کے لیے محکمہ ریونیو کو درخواست دے رکھی ہے مگر کوئی سننے والا نہیں۔

"تپیدار بھاری رشوت لینے کے باوجود ہمیں اپنی زمین کی نقل انتقال اور فرد ملکیت جاری نہیں کر رہے۔ میں 2015ء سے کبھی ریونیو آفس گولاڑچی، تو کبھی ڈی سی آفس بدین اور کبھی بورڈ آف ریونیو حیدر آباد کے دھکے کھا کھا کر تنگ آ گیا ہوں مگر ابھی تک کام نہیں ہوا۔"

اس سلسلے میں آبادگار رهنما جاکھرو نوحانی اور مرزا نذیر بتاتے ہیں کہ انہوں نے ریونیو ریکارڈ کی بحالی اور محکمہ مال کی بد عنوانیوں کے خلاف پچھلے دس سال کے دوران درجنوں احتجاجی مظاہرے اور دھرنے کیے ہیں مگر ان کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔

 صوبائی اسمبلی کے سابق امیدوار اور سماجی رہنما امیر آزاد پنہور کے مطابق 2008ء سے 2013ء تک گولاڑچی میں تعینات ایک قابل اسٹنٹ کمشنر حاجن اجن نے تحصیل کا تمام ریونیو ریکارڈ دوبارہ بنوا لیا تھا،  تاہم ریونیو حکام نے اسے رد کر دیا اور پھر سے ریکارڈ بنانے کا حکم جاری کر دیا تھا جس پر 10 سال بعد بھی عمل نہیں ہو سکا ہے۔

اس ضمن میں موقف کے لیے گولاڑچی کے تحصیلدار ریونیو سجاد صداقت شر سے رابطہ کرنے کی بار بار کوشش کی گئی لیکن رابطہ نہیں ہوا۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

"جدید کاشتکاری اچھی بات ہے لیکن غریب کسان کیا کرے؟"

تاہم اسٹنٹ کمشنر گولاڑچی فہد میر سہتو تصدیق کرتے ہیں کہ 2013ء تک 90 فیصد ریکارڈ مکمل کر لیا گیا تھا مگر اگلے سال یعنی 2014ء میں اس وقت کے سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو حیدر آباد ڈویژن نذر محمد لغاری کی ٹیم نے ضروری دستاویزات مکمل نہ ہونے کا اعتراض لگا دیا تھا۔

"اب ہمارا مختیارکار، پٹواری اور دیگر عملہ تمام دستاویزات کی تصدیق کرنے کے بعد کھاتے دار کی فائل ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ون کو بدین بھیجتے ہیں جہاں سے فائل ویریفیکیشن سرٹیفکیٹ کے ساتھ ہمارے پاس واپس آتی ہے۔ جس کے بعد ہم کھاتے دار کو مالکانہ حقوق کا ساتواں فارم جاری کرتے ہیں۔"

وہ کہتے ہیں کہ ریکارڈ جل جانے اور کھاتےداروں کی جانب سے ضروری کاغذات جمع نہ کرانے کے باعث ریکارڈ بنانے میں تاخیر ہو رہی ہے۔

فہد میر، رشوت یا پیسہ بٹورنے کے سارے الزامات کی تردید کرتے ہیں۔

ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر بدین جاوید احمد ڈاھری بھی تحصیل گولاڑچی کے ریونیو ریکارڈ کی دوبارہ تیاری میں تاخیر کی ذمہ داری کھاتے داروں پر ڈالتے ہیں۔

"کھاتے داروں کی سستی اور عدم دلچسپی کے باعث ریکارڈ کا 60 فیصد کام بھی مکمل نہیں ہوا۔ میں نے یہاں آنے کے بعد 150 رجسٹریاں کی ہیں تاہم لوگوں کے تعاون سے کام میں تیزی کی گنجائش موجود ہے۔"

تاریخ اشاعت 28 مارچ 2024

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

رضا آکاش خانانی بدین سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ گذشتہ پندرہ سالوں سے صحافت سے وابستہ ہیں اور ساحلی علاقوں کے مختلف ماحولیاتی، سماجی، انسانی و ثقافتی مسائل پر رپورٹنگ کرتے ہیں۔

thumb
سٹوری

کوئٹہ شہر کی سڑکوں پر چوہے بلی کا کھیل کون کھیل رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

شاہ زیب رضا
thumb
سٹوری

"اپنی زندگی آگے بڑھانا چاہتی تھی لیکن عدالتی چکروں نے سارے خواب چکنا چور کردیے"

arrow

مزید پڑھیں

یوسف عابد

خیبر پختونخوا: ڈگری والے ناکام ہوتے ہیں تو کوکا "خاندان' یاد آتا ہے

thumb
سٹوری

عمر کوٹ تحصیل میں 'برتھ سرٹیفکیٹ' کے لیے 80 کلومیٹر سفر کیوں کرنا پڑتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceالیاس تھری

سوات: موسمیاتی تبدیلی نے کسانوں سے گندم چھین لی ہے

سوات: سرکاری دفاتر بناتے ہیں لیکن سرکاری سکول کوئی نہیں بناتا

thumb
سٹوری

صحبت پور: لوگ دیہی علاقوں سے شہروں میں نقل مکانی پر کیوں مجبور ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceرضوان الزمان منگی
thumb
سٹوری

بارشوں اور لینڈ سلائڈز سے خیبر پختونخوا میں زیادہ جانی نقصان کیوں ہوتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا

یہ پُل نہیں موت کا کنواں ہے

thumb
سٹوری

فیصل آباد زیادتی کیس: "شہر کے لوگ جینے نہیں دے رہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
thumb
سٹوری

قانون تو بن گیا مگر ملزموں پر تشدد اور زیرِ حراست افراد کی ہلاکتیں کون روکے گا ؟

arrow

مزید پڑھیں

ماہ پارہ ذوالقدر

تھرپارکر: انسانوں کے علاج کے لیے درختوں کا قتل

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.