بلوچستان کے ضلع کوہلو کی شائستہ بی بی پڑھ لکھ کر ڈاکٹر بننا چاہتی تھیں۔ 2020 میں میٹرک کا امتحان اچھے نمبروں سے پاس کرنے کے بعد جب ایف ایس سی کرنے کا وقت آیا تو علاقے میں گرلز کالج نہ ہونے کے باعث ان کے خواب ٹوٹ گئے۔
شائستہ کہتی ہیں ''میری بچپن سے خواہش تھی کہ میڈیکل کی تعلیم حاصل کر کے ڈاکٹر بنوں اور اپنے علاقے کے لوگوں خصوصاً ان عورتوں کے کام آؤں جو گائناکالوجسٹ کے نہ ہونے کی وجہ سے زچگی کے دوران انتقال کر جاتی ہیں۔ تاہم کالج کی غیرموجودگی میں مجھے نہیں لگتا کہ کبھی ڈاکٹر بن پاؤں گی۔''
کوہلو میں شائستہ جیسی سیکڑوں طالبات میٹرک کے بعد تعلیم چھوڑ چکی ہیں یا گھر پر ہی پڑھتی اور پھر پرائیویٹ داخلے بھجوا کر امتحان میں شریک ہوتی ہیں۔ تاہم گھر بیٹھے پڑھنے سے انہیں ویسے نتائج حاصل نہیں ہوتے جو وہ کالج میں پڑھ کر حاصل کر سکتی ہیں۔
2006 میں اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف نے کوہلو کے دورے میں بلوچستان کے لیے خصوصی صدارتی پیکیج کے تحت یہاں گرلز انٹر کالج کی تعمیر کا اعلان کیا تھا۔ اس اعلان کو 17 برس گزر چکے ہیں لیکن کالج کی تعمیر مکمل نہیں ہو سکی۔
کالج میں غیرتدریسی عملہ بہت پہلے بھرتی کر لیا گیا تھا جو ہر ماہ باقاعدگی سے تنخواہیں اور مراعات لے رہا ہے لیکن کالج کی عمارت نامکمل چھوڑ دی گئی ہے اور مستقبل قریب میں یہاں تدریسی عمل شروع ہونے کا دور کوئی امکان نظر نہیں آتا۔
ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر حفیظ اللہ مری بتاتے ہیں کہ 2020 میں انتظامیہ نے لڑکیوں کی تعلیم کے بارے میں ایک سروے کیا تھا جس سے یہ سامنے آیا کہ ضلع بھر میں میٹرک کا امتحان پاس کرنے والی 300 میں سے آٹھ طالبات ہی اگلے درجے میں تعلیم جاری رکھ سکی تھیں۔
کوہلو بلوچستان کے 31 اضلاع میں تعلیمی اعتبار سے آخری درجے پر ہے
انہوں نے کہا کہ لڑکیوں کو ضلعے سے باہر کسی کالج یا ہاسٹل میں بھیجنا مقامی رسم و رواج کے بھی خلاف سمجھا جاتا ہے۔ کئی والدین ایسے ہیں جو مالی مشکلات کے باعث چاہتے ہوئے بھی اپنی بچیوں کو اعلیٰ تعلیم نہیں دلا سکتے۔ کوئٹہ یا ملک کے دیگر بڑے شہروں میں کم آمدنی والے لوگوں کے پاس بھی اپنے بچوں کو سرکاری اداروں میں اچھی تعلیم دلانے کے مواقع ہوتے ہیں لیکن کوہلو جیسے ضلع میں بیشتر لوگوں کے نہ تو مالی حالات اچھے ہیں اور نہ ہی انہیں سرکاری تعلیمی ادارے دستیاب ہیں۔
کوہلو میں لڑکیوں کے لیے اعلیٰ تعلیم کے ادارے نہ ہونے کے علاوہ لڑکے اور لڑکیوں کے لیے پرائمری اور سیکنڈری سکولوں کی بھی کمی ہے۔
2017 کی مردم شماری میں لیے گئے ایک جائزے کے مطابق کوہلو بلوچستان کے 31 اضلاع میں تعلیمی اعتبار سے آخری درجے پر ہے۔ ضلع میں اس وقت لڑکیوں کے 71 پرائمری سکول، 21 مڈل سکول اور 11 ہائی سکول کام کر رہے ہیں۔ ان میں 12 ادارے ایسے ہیں جہاں لڑکے اور لڑکیوں کو اکٹھے تعلیم دی جاتی ہے۔
کوہلو میں تعلیم کے فروغ پر کام کرنے والے ادارے بلوچستان ایجوکیشن فانڈؤیشن کے فوکل پرسن یوسف مری کہتے ہیں کہ ان کا ادارہ پرائمری سطح تک بچوں کو مفت تعلیم فراہم کر رہا ہے۔ ضلع بھر کے دوردراز علاقوں میں بی ای ایف نے 20 سکول قائم کیے ہیں جن میں لڑکیوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے لیکن یہاں طلبہ صرف پرائمری کی سطح تک ہی پڑھ سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
بلوچ طلبا کا تعلیمی حقوق کے لیے ملتان سے لاہور تک پیدل مارچ: 'پاؤں زخمی سہی ڈگمگاتے چلو'۔
بلوچستان ایجوکیشن فاؤنڈیشن کوہلو کی تحصیل کاہان میں پانچ سکول چلا رہی ہے۔ لیکن یہ سکول علاقے کی تمام آبادی کی تعلیمی ضروریات پوری کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ کوہلو رقبے کے لحاظ سے بہت بڑا ضلع ہے اور یہاں چھوٹی چھوٹی آبادیوں کے درمیان بہت بڑا فاصلہ ہے۔ چنانچہ لوگوں کی بڑی تعداد کو ان کے گھروں کے قریب تعلیمی سہولت مہیا کرنا آسان نہیں ہے۔
گرلز ہائی سکول کوہلو کی پرنسپل رابعہ کلثوم نے لوک سجُاگ کو بتایا کہ ان کے سکول میں پہلی سے دسویں جماعت تک کم و بیش 800 طالبات زیرتعلیم ہیں۔ ان میں ہر سال تقریباً 80 طالبات میٹرک کا امتحان پاس کرتی ہیں۔ 2020 میں میٹرک کی تعلیم مکمل کرنے والی طالبات کی تعداد 73 تھی جبکہ 2021 میں یہ بڑھ کر 80 تک پہنچ گئی۔
ان کا کہنا ہے کہ تعلیم میں اچھی کارکردگی کے باوجود ان لڑکیوں کو مزید آگے بڑھنے کے مواقع دکھائی نہیں دیتے۔ پچھلے تین سال میں صرف 30 ایسی تھیں جو میٹرک کے بعد تعلیمی جاری رکھ سکیں۔ انہوں نے بتایا کہ اندازے کے مطابق ہر سال سکول سے فارغ التحصیل ہونے والی صرف پانچ طالبات ہی اعلیٰ ثانوی درجے کی تعلیم مکمل کرتی ہیں۔
تاریخ اشاعت 1 مارچ 2023