گرلز ڈگری کالج، اپر دیر میں تعلیمی شعبے کیوں بند ہو رہے ہیں؟

postImg

سید زاہد جان

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

گرلز ڈگری کالج، اپر دیر میں تعلیمی شعبے کیوں بند ہو رہے ہیں؟

سید زاہد جان

loop

انگریزی میں پڑھیں

سنبل کا تعلق اپر دیر کے ملحقہ علاقے داروڑہ سے ہے۔ وہ گرلز ڈگری کالج اپر دیر میں بی ایس کی طالبہ ہیں۔ سنبل کہتی ہیں کہ انہیں کالج پہنچنے کے لیے ایک گھنٹے کا سفر طے کرنا پڑتا ہے اور ماہانہ ٹرانسپورٹ کی مد میں دس ہزار روپے گاڑی والے کو کرایہ دینا پڑتا ہے۔ اتنی مشکلات کے بعد جب وہ کالج پہنچتی ہیں تو وہاں بغیر کوئی کلاس لیے واپس لوٹنا پڑتا ہے کیونکہ کالج میں استاد ہی موجود نہیں ہیں۔

“ضلع کے دور دراز کے علاقوں جیسا کہ عشیری درہ، داروڑہ، بیبیوڑ اور براول سے طالبات اتنا سفر کر کے آتی ہیں لیکن پچھلے تین، چار سالوں سے ٹیچنگ سٹاف نہ ہونے سے سیکڑوں طالبات کا مستقبل تاریک ہوتا جا رہا ہے”۔

اپر دیر میں قائم گرلز ڈگری کالج دیر،  خواتین کے لیے ضلع میں موجود واحد تعلیمی ادارہ ہے۔ اس کالج کی عمارت کی تعمیر کا آغاز 2001ء میں ہوا تھا جبکہ 2009ء میں اسے فعال کرکے انٹرکی کلاسز کا اجرا کر دیا گیا تھا۔ تاہم گریجویشن کی باقاعدہ کلاسز کا آغاز 2012ء میں کیا گیا تھا۔

 

اس کالج کے قیام سے پہلے، میٹرک کے بعد تعلیم جاری رکھنے کے لیے سیکڑوں میل  دور سوات، مردان یا پشاور کے کالجوں میں داخلہ لینا پڑتا تھا۔ لیکن زیادہ تر لڑکیوں کو اپنی تعلیم ادھوری چھوڑنا پڑتی ہے کیونکہ نہ تو ان کے خاندان انہیں دوسرے شہروں میں بھیجنے پر راضی ہوتے اور نہ ہی وہ اضافی اخراجات برداشت کرنے کے متحمل ہوتے۔

گرلز کالج کی سابقہ طالبہ ارم بانو نے لوک سجاگ کو بتایا کہ جب یہ کالج بنا تب بھی بہت سے والدین اپنی بچیوں کوکالج بھیجتے ہوئے ہچکچاہٹ کا شکار تھے لیکن آہستہ آہستہ وہ بچیوں کی تعلیم کے قائل ہو گئے۔

"کالج کے ابتدائی سالوں میں یہاں بہترین خواتین اساتذہ سمیت تمام تر سہولیات موجود تھیں اور یہاں سیکڑوں طالبات نے داخلہ بھی لیا۔ لیکن رفتہ رفتہ کالج میں مسائل بڑھنے لگے اور ٹیچرز کا ہر آئے دن تبادلہ ہو جاتا۔ یوں کالج کی کارکردگی متاثر ہونے لگی"۔

کالج کی ایک اور طالبہ زہرہ نسیم بی بی نے لوک سجاگ کو بتایا کہ 2013ء کے بعد اپر دیر گرلز کالج کے حالات بگڑنے لگے تھے۔ اس کی وجہ ان کے خیال میں یہ تھی کہ جب تک اس کالج میں دو سالہ بی اے کروایا جا رہا تھا تب تک کالج میں پڑھائے جانے والے مضامین کی تعداد بھی زیادہ تھی۔ جیسا کہ پہلے پولیٹکل سائنس، ریاضی، اردو، زوالوجی، باٹنی، کمپیوٹر سائنس، سوشیالوجی کے مضامین پڑھائے جا رہے تھے لیکن چار سالہ بی ایس کے اجرا کے بعد یہ شعبے بند کر دئے گئے۔

کالج میں چار سالہ بی ایس آنرز کا اجرا تو کر دیا گیا لیکن نہ تو نئے شعبہ جات کا قیام ہوا اور نہ ہی مطلوبہ ٹیچنگ سٹاف کو بھرتی کیا گیا۔ اس وقت بھی کیمسٹری اور اسلامیات کے دو مضامین پڑھائے جا رہے ہیں البتہ کچھ عرصہ پہلے انگریزی کا اضافہ کیا گیا ہے جبکہ باقی فیکلٹیز میں داخلے ہی نہیں کیے گئے اور وہ بند پڑی ہیں۔

جب اس کالج میں کئی شعبے بند ہو گئے تو کچھ طالبات نے مجبوراَ اپر دیر کالج فار بوائز میں داخلہ لے لیا، لیکن بیشتر طالبات، والدین اور خاندان کی جانب سے مخلوط تعلیمی اداروں میں جانے کی اجازت نہ ملنے کی وجہ سے تعلیم چھوڑنے پر مجبور ہو گئیں۔

سردار خان ایک طالبہ کے والد ہیں، وہ کہتے ہیں کہ گرلز ڈگری کالج، اپر دیر میں صرف تین مضامین اسلامیات ، کمیسٹری اور انگلش کے ڈیپارٹمنٹ میں داخلے دیے جا رہے ہیں، اس کے علاوہ دیگر مضامین میں ٹیچنگ سٹاف نہ ہونے کی وجہ سے ان کی صاحبزادی سمیت سیکڑوں طالبات اپنی پسند کے مضمون میں تعلیم جاری رکھنے سے محروم ہیں۔

"ہم اپنی بچیوں کو مخلوط تعلیمی ادارے میں بھیجنا پسند نہیں کرتے۔ ایسا ضلع دیر کی تاریخ میں پہلی بار ہو رہا ہے کہ اپر دیر بوائز کالج میں خواتین بھی داخلہ لے رہی ہیں"۔

ساڑھے نو لاکھ کی آبادی کے ضلع میں، خواتین کی تعداد ساڑھے چار لاکھ سے زیادہ ہے۔ ضلع میں لڑکیوں کے لیے ایک ہی ڈگری کالج ہے جس میں طالبات کی تعداد 600 کے لگ بھگ ہے۔ جبکہ بوائز ڈگری کالج میں لڑکیوں کی تعداد 300 کے قریب ہے۔

لوک سجاگ نے اپر دیر گرلز ڈگری کالج کی پرنسپل سے بارہا رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن ان کی طرف سے جواب موصول نہیں ہوا۔ کالج کے سینئر کلرک کا بھی کہنا تھا کہ انہیں ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے صوبائی ڈائریکٹریٹ کی جانب سے میڈیا کو تفصیلات فراہم کرنے کی اجازت نہیں ہے۔

 تاہم لوک سجاگ کی جانب سے حاصل کردہ دستاویزات کے مطابق گرلز ڈگری کالج دیر میں انٹر اور بی ایس کے کل اکیس (21) مضامین پڑھانے کے لیے 44 منظور شدہ ٹیچنگ سٹاف کی پوسٹ موجود ہیں۔کالج ریکارڈ کے مطابق انٹر کلاسز کے لیے 21 اساتذہ اور بی ایس کلاسز کے لیے 23 اساتذہ کی منظور شدہ پوسٹیں ہیں، جن میں دو گریڈ 20 پروفیسرز ,چھ ایسوسی ایٹ پروفیسرز (گریڈ 19) , نو اسسٹنٹ پروفیسرز (گریڈ 18)  جبکہ 23 لیکچرارز(گریڈ 17 اور 18) شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

میانوالی کے کالجوں میں اساتذہ کی راہ دیکھتے طلبہ اپنے مستقبل سے مایوس ہونے لگے

کالج ریکارڈ کے مطابق 44 میں سے صرف دس خواتین اساتذہ موجود ہیں، جبکہ 34 پوسٹیں خالی پڑی ہیں، جس سے کالج کا تعلمی نظام شدید متاثر ہوا ہے۔

اس وقت صرف تین فیکلٹیز ا نگلش، کیمسٹری اوراسلامیات میں داخلے دیے جا رہے ہیں جبکہ دیگر تمام فیکلٹیز عملاً بند کر دی گئی ہیں۔

گرلز کالج دیر انتظامیہ کے مطابق کالج میں سٹاف کی تعیناتی کا اختیار کالج کے پاس نہیں ہے بلکہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے پاس ہے اور کالج کی جانب سے کمیشن میں کئی بات تحریری درخواستیں بھجوائی گئی ہیں۔ اس کے باوجود کالج انتظامیہ کی جانب سے کالج فنڈز سے عارضی کنٹریکٹ پر پر چند ماہ کے لیے ویزٹنگ ٹیچرز سٹاف کو تعینات کرتے ہیں۔

دیر سے سابق صوبائی وزیر اور تین بار جماعت اسلامی کے رکن صوبائی اسمبلی عنایت اللہ جو کہ حلقہ پی کے 12 سے ایم پی اے اور سابق حکمران جماعت پی ٹی آئی کے صاحبزادہ صبغت اللہ حلقہ این اے 5 اپردیر سے ایم این اے رہ چکے ہیں۔ طالبات کے والدین نے بار بار ان کی توجہ اس مسئلے کی جانب مبذول کرائی لیکن بدقمستی سے ان کی اور انتظامیہ کی عدم دلچسپی کے باعث گرلز ڈگری میں ٹیچنگ سٹاف کی تعیناتی کے مسائل حل نہیں ہو سکے۔

تاریخ اشاعت 17 جنوری 2024

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

سید زاہد جان کا تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع دیر سے ہے اور وہ گزشتہ باٸیس سال سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔

ننکانہ صاحب: کسانوں نے گندم کی کٹائی روک دی

thumb
سٹوری

کیا واقعی سولر پینل کی مارکیٹ کریش کر گئی ہے یا کچھ اور؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

" پنجاب میں آٹے کا بحران آنے والا ہے، حکومت کے لیے اچھا نہیں ہو گا"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceبلال حبیب
thumb
سٹوری

پنجاب حکومت کسانوں سے گندم کیوں نہیں خرید رہی؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاحتشام احمد شامی

سوات: نادیہ سے نیاز احمد بننے کا سفر آسان نہیں تھا

thumb
سٹوری

الیکٹرک گاڑیاں اپنانے کی راہ میں صارفین کے لیے کیا رکاوٹیں ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

پسنی: پاکستان کا واحد "محفوظ" جزیرہ کیوں غیر محفوظ ہوتا جا رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceملک جان کے ڈی

پنجاب: فصل کسانوں کی قیمت بیوپاریوں کی

thumb
سٹوری

بھٹہ مزدور دور جدید کے غلام – انسانی جان کا معاوضہ 5 لاکھ روپے

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد

چمن: حکومت نے جگاڑ سے راستہ بحال کیا، بارشیں دوبارہ بہا لے گئیں

ہندؤں کا ہنگلاج ماتا مندر، مسلمانوں کا نانی مندر"

ای رکشے کیوں ضروری ہیں؟

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.