باجوڑ کی 12 لاکھ آبادی کے لیے لڑکیوں کا واحد کالج پچھلے 20 سال سے سرکاری ہسپتال کی عمارت میں قائم

postImg

مصباح الدین اتمانی

postImg

باجوڑ کی 12 لاکھ آبادی کے لیے لڑکیوں کا واحد کالج پچھلے 20 سال سے سرکاری ہسپتال کی عمارت میں قائم

مصباح الدین اتمانی

ضلع باجوڑ کی تحصیل اتمانخیل سے تعلق رکھنے والے 48 سالہ عبدالرحمن کی صاحبزادی گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج، تحصیل خار میں پہلے سمسٹر کی طالبہ تھیں لیکن انہوں نے پہلے ہی سمسٹر میں اپنا داخلہ کینسل کرا دیا، اب وہ ایک نیم سرکاری ادارے میں کام کرتی ہیں۔

“میں نے اپنی بیٹی کو مجبوراً پہلے ہی سال کالج سے نکالا کیونکہ ان کے زیادہ تر کلاسز خالی ہوتی تھیں اور وہ تدریسی عمل سے بھی بالکل مطمئن نہیں تھی۔"

یہ ضلع کا واحد گرلز کالج ہے، جس کا افتتاح ستمبر 2003ء میں اس وقت کے گورنر لیفٹیننٹ جنرل(ر) سید افتخار حسین شاہ نے ایمرجنسی بنیادوں پر ایک سرکاری ہسپتال کی پرانی عمارت میں کیا تھا۔ 2017ء میں یہاں بی ایس (اسلامیات) اور بی ایس (باٹنی) کی کلاسز کا بھی آغاز کیا گیا، لیکن تعلیمی سرگرمیوں اور تدریس کے معیار سے نہ تو طالبات، نہ ہی سٹاف اور نہ ہی والدین مطمئن نظر آتے ہیں۔

باجوڑ میں زیادہ تر بچیاں میٹرک کے بعد ہی تعلیم کو خیرباد کہہ دیتی ہیں

عبدالرحمن کا کہنا ہے کہ یہاں موزوں سٹاف نہیں ہے اور نہ ہی یہاں میرٹ پر تعیناتیاں ہوتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ باجوڑ کی لڑکیوں میں صلاحیتوں کی کوئی کمی نہیں لیکن یہاں تعلیمی ادارے اور سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ تر بچیاں میٹرک کے بعد ہی تعلیم کو خیرباد کہہ دیتی ہیں اور ان کے خواب ادھورے رہ جاتے ہیں۔

محکمہ تعلیم باجوڑ کی جانب سے فراہم کردہ دستاویز کے مطابق باجوڑ میں لڑکیوں کا ایک ہائیرسیکنڈری سکول، 14 ہائی سکول، 42 مڈل سکول اور 186 پرائمری سکول موجود ہیں، جبکہ یہاں لڑکیوں کی تعلیمی شرح 7.8 فیصد ہے جو مردوں کے مقابلے میں 22 فیصد کم ہے۔

کمیونٹی وولنٹیر نیٹ ورک کے سربراہ عطاء اللہ درانی کہتے ہیں کہ گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج کے زوال کی بنیادی وجہ، مستقل عمارت  کی عدم موجودگی ہے۔موجودہ عمارت جس نقشے پر بنائی گئی ہے، وہ تعلیمی ادارے کا ہے ہی نہیں، یہاں ہسپتال کے مختلف وارڈز کی شکل میں چھوٹے چھوٹے کلاس رومز ہیں، جن میں ایک کلاس کی سیکڑوں بچیوں کو بٹھانا مشکل ہو جاتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ کالج کی بس موجود ہے لیکن اس سے لڑکیوں کو کوئی فائدہ نہیں ہو رہا۔ پورے باجوڑ سے لڑکیوں کو کئی کلومیٹر فاصلہ طے کر کے پبلک یا پرائیویٹ ٹرانسپورٹ میں آنا پڑتا ہے، زیادہ تر معاشی طور پر کمزور والدین ٹرانسپورٹ کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے بھی اپنے بچیوں کو کالج نہیں بھیج سکتے۔

عطاء اللہ درانی کے مطابق کچھ عرصہ پہلے کالج کی لڑکیوں کے لیے پک اینڈ ڈراپ کی سہولت شروع کی گئی لیکن جلد ہی اسے یہ کہہ کر بند کر دیا گیا کہ بس خسارے میں ہے۔

60 فیصد سے زیادہ بچیاں داخلوں سے محروم رہتی ہیں

ضلع باجوڑ میں قائم 14 ہائی سکولوں سے ہر سال 600 سے زیادہ بچیاں میٹرک پاس کرکے اسی کالج کا رخ کرتی ہیں جن میں 60 فیصد سے زیادہ بچیاں داخلوں سے محروم رہ جاتی ہیں۔

گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج خار میں رواں سال فرسٹ ائیر داخلوں کے لیے 400 سے زیادہ امیدواروں نے اپلائی کیا تھا جن میں 220 طالبات کو داخلہ دیا گیا تاہم گنجائش نہ ہونے کی وجہ سے سیکڑوں طالبات خواہش کے باوجود داخلہ لینے میں کامیاب نہ ہوسکیں۔ اس وقت سیکنڈ ائیر میں 215 طالبات زیر تعلیم ہیں جبکہ  بی ایس (باٹنی) میں 128 اور بی ایس اسلامیات میں 124 طالبات داخل ہیں۔

فرسٹ ائیر کی طالبہ مناہل (فرضی نام) نے بتایا کہ چھوٹے کلاس رومز اور زیادہ تعداد کی وجہ سے انہیں امتحانی حال میں بٹھایا جاتا ہے، جہاں نہ تو سب لڑکیوں تک ٹیچرز کی آواز پہنچتی ہے اور نہ ہی شور کی وجہ سے وہ اور دیگر طالبات کچھ سمجھ پاتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امتحانی حال میں پڑھانے کے لیے کالج انتظامیہ نے مائیک کا بندوبست کیا تھا لیکن کچھ ہی دن بعد وہ بھی خراب ہو گیا۔

شماریات (سٹیٹیسٹکس )کی ٹیچر بچیوں کو انگلش پڑھاتی ہیں

ضلع کے واحد گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج خار باجوڑ میں انٹر کے تمام سیکشنوں اور بی ایس کے دونوں پروگرامز کے لیے انگلش کی صرف ایک لیکچرر تعینات ہے۔ بی ایس پروگرام کے لیے تعینات سٹاف میں ایک بھی ایم فل سکالر موجود نہیں ہے۔ بی ایس ریسرچ میتھاڈلوجی میں میں گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ فار بوائز کے کوالیفائیڈ سٹاف کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔

مناہل بتاتی ہیں  کہ کالج میں سٹاف کی کمی کی وجہ سے سٹیٹیسٹکس کی ٹیچر بچیوں کو انگلش پڑھاتی ہیں۔ اس طرح ایک سبجیکٹ کی ٹیچر دوسرا سبجیکٹ پڑھاتی ہے، جس پر ان کو کوئی عبور نہیں اور اس سے نتائج متاثر ہوتے ہیں۔

مالاکنڈ یونیورسٹی کی ویب سائٹ پر موجود معلومات کے مطابق سال 2023ء کے موسم بہار (سپرنگ) سمسٹر کے حالیہ امتحانات میں گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج باجوڑ کے بی ایس چوتھے سمیسٹر کی 36 طالبات میں سے سات فیل ہوئیں جبکہ 12 طالبات پر یو ایف ایم ( نقل) کے کیسز بنائے گئے ہیں۔

مناہل کے مطابق کالج میں پینے کے پانی کا بھی کوئی بندوبست نہیں اور نہ ہی یہاں واش رومز فعال ہے۔ "کالج میں صفائی والے سے لے کر مالی تک سب مرد تعینات ہیں، جو نہ خود اپنا کام کرتے ہیں اور نہ ہی ہم ان کے حوالے سے کوئی شکایت کر سکتے ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ کالج میں پریکٹیکل نہیں کرایا جاتا ہے کیونکہ لیبارٹیاں بند اور وہاں پڑا سامان خراب ہو چکا ہے۔

کالج میں تین لیب اٹینڈینٹ موجود ہیں، جن میں دو خواتین جبکہ ایک مرد شامل ہے۔

کالج میں پرنسپل سمیت خالی اسامیوں کی تعداد 13 ہے

کالج میں موجود سٹاف کی تعداد 21 جبکہ خالی اسامیوں کی تعداد 13 ہے، جس میں پرنسپل کی پوسٹ بھی شامل ہے۔ کالج  کو اب 20 گریڈ پروفیسر کی جگہ 17 گریڈ کی ایک لیکچرر بطور پرنسپل چلا رہی ہیں۔

کالج کے لئے منظور شدہ 19 سکیل کی ایسوسی ایٹ پروفیسر کی چار اسامیوں پر ابھی تک ایک بھی تعیناتی نہیں ہوئی ہے اس طرح 18 سکیل کی اسسٹنٹ پروفیسرز کی نو پوسٹوں میں صرف ایک اسسٹنٹ پروفیسر یہاں تعینات ہے۔

کالج میں موجود مسائل اور ان کے حل کے حوالے سے لوک سجاگ نے پرنسپل اور سٹاف کا موقف جاننے کی کوشش کی لیکن انہوں نے اس حوالے سے اپنا موقف دینا سے انکار کر دیا۔

12لاکھ آبادی کے لیے لڑکیوں کا صرف ایک کالج کا ہونا عوام کے ساتھ مذاق ہے

سابقہ ممبر صوبائی اسمبلی سراج الدین خان نے لوک سجاگ کو بتایا کہ گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج کے مسائل کے حل کے لیے انہوں نے کئی بار اسمبلی کی فلور پر آواز اٹھائی ہے اور قرار داد بھی جمع کی ہے کہ 12لاکھ آبادی کے لیے لڑکیوں کا صرف ایک کالج کا ہونا عوام کے ساتھ مذاق ہے لیکن کچھ نہیں ہوا۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

تحصیل مانجھی پور کا واحد ڈگری کالج، صرف دو کلاس روم،'وہ بھی اب گرے کہ تب'

انہوں نے کہا کہ ایسی غفلت سے  تعلیم کی فروغ میں حکومتی دلچسپی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

"اگر ہمیں موقع ملا تو گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج خار کے تمام مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کریں گے"۔

نگراں صوبائی وزیر برائے ٹرائبل افئیر سید عامر عبداللہ نے ضلع باجوڑ کے واحد گرلز ڈگری کالج میں سہولیات کے فقدان پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے لوک سجاگ کو بتایا کہ انہوں نے سیکرٹری ایجوکیشن کو ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ باجوڑ کے گرلز کالج میں بی ایس پولیٹیکل سائنس، بی ایس کمپیوٹر سائنس، بی ایس لاء اور بی ایس زوالوجی کے پروگرام شروع کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے۔

انہوں نے کہا کہ وہ کالج میں جدید سہولیات سے آراستہ معیاری کمپیوٹر لیب بنائیں گے اور یہاں موجود سٹاف کی کمی سمیت دیگر مسائل کے حل میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں گے۔

تاریخ اشاعت 26 جنوری 2024

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

مصباح الدین اتمانی باجوڑ کے تحصیل اتمانخیل سے تعلق رکھنے والے فری لانس جرنلسٹ ہیں۔ وہ زیادہ تر بنیادی انسانی حقوق، خواتین کی تعلیم اور پسماندہ کمیونٹیز کے مسائل کے حوالے سے لکھتے ہیں۔

thumb
سٹوری

میانوالی کی خواتین صحافی: 'شٹل کاک برقعے میں رپورٹنگ کے لیے نکلتی ہوں تو سرکاری اہلکار مجھے ان پڑھ سمجھتے ہیں یا پھر مشکوک'

arrow

مزید پڑھیں

ماہ پارہ ذوالقدر
thumb
سٹوری

قبائلی اضلاع میں بائیو گیس پلانٹس ماحول اور جنگلات کو بچانے میں کتنے مدد گار ہو سکتے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

مصباح الدین اتمانی

بجلی ہو نہ ہو چکیاں چلتی رہتی ہیں

دریائے سندھ کے قدرتی بہاؤ کے حق میں کراچی کے طلبا کا مارچ

thumb
سٹوری

کھیت مزدور عورتوں کے شب و روز: 'میں نے حمل کے آخری مہینوں میں بھی کبھی کام نہیں چھوڑا، اور کوئی چارہ بھی تو نہیں'

arrow

مزید پڑھیں

عثمان سعید

دریائے سندھ سے نہریں نکالنے کے خلاف دریا میں احتجاجی مشاعرہ

thumb
سٹوری

سندھ: سرکاری ورکنگ ویمن ہاسٹلز پر سرکاری اداروں کا قبضہ کون سی سرکار چھڑوائے گی؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

عمر کوٹ میں قومی نشست پر ضمنی الیکشن سے متعلق پانچ اہم حقائق

arrow

مزید پڑھیں

User Faceجی آر جونیجو

خاموش واپسی یا زبردستی اخراج؟ افغان پناہ گزینوں کی حقیقی کہانیاں

سندھ: کینیڈا سے سائنس سمجھانے آیا محمد نواز سومرو

thumb
سٹوری

طویل لوڈ شیڈنگ سے دنیا کی چھٹی بڑی سولر مارکیٹ بننے کا سفر: کیا نئی پالیسی سے 'سولر سونامی' تھم جائے گا؟

arrow

مزید پڑھیں

سجاگ رپورٹ
thumb
سٹوری

انصاف کی راہ میں گھات لگائے راہزن: اپنی جان لینے والے نیسلے ملازم کی کہانی

arrow

مزید پڑھیں

User Faceامین وارثی
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.