گلگت کے رہنے والے 70 سالہ بزرگ آصف خان کی تمام عمر حکومت سے اپنی زمین کا معاوضہ یا متبادل مانگتے گزر گئی ہے لیکن ابھی تک ان کی بات نہیں سنی گئی۔ اس کے باوجود وہ توقع لگائے بیٹھے ہیں کہ 15 مارچ 2022 کو وفاقی محتسب کی عدالت میں شروع ہونے والی ایک سماعت کے نتیجے میں بالآخر وہ اپنا مطالبہ منوانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
اپنے بچپن میں انہوں نے سن رکھا تھا کہ کس طرح 49-1948 میں گلگت کی انتظامیہ نے ڈھول بجا کر مقامی لوگوں کو اکٹھا کیا اور انہیں بتایا کہ ان کے شہر میں ایئرپورٹ بنایا جا رہا ہے۔ ان کے مطابق یہ اعلان ان کے خاندان کے بزرگوں کے لیے بہت باعثِ تشویش تھا کیونکہ جس جگہ ایئرپورٹ کی تعمیر کی تجویز پیش کی جا رہی تھی اس میں ان کی رہائشی اور زرعی زمین بھی شامل تھی۔ انہیں خدشہ تھا کہ کہیں انہیں اپنے گھر اور کھیت کھلیان چھوڑنے ہی نہ پڑیں۔
یہ خدشہ درست ثابت ہوا۔
ایئرپورٹ کی تعمیر شروع ہوتے ہی آصف خان کے خاندان سمیت 128 مقامی گھرانوں کو کہا گیا کہ وہ اپنی 470 کنال اراضی حکومت کے حوالے کر دیں۔ اس حکم کے نتیجے میں لوگوں نے اپنے بھرے پُرے گھر خالی کر دیے اور اپنی کھڑی فصلیں کھیتوں میں ہی چھوڑ دیں۔ ان میں سے اکثر اپنے رشتہ داروں کے گھروں میں منتقل ہو گئے جبکہ باقیوں کو عارضی طور پر ایک مقامی ہائی سکول اور گلگت کے سرکاری ریسٹ ہاؤس میں رہنا پڑا۔
اس ساری مصیبت کے بدلے میں حکومت نے انہیں 48 روپے فی کنال کے حساب سے صرف ان کی کھڑی فصلوں کا معاوضہ ادا کیا حالانکہ ان کا مطالبہ تھا کہ انہیں ان کے گھروں کے بدلے میں بنے بنائے گھر اور کھیتوں کے بدلے میں آباد زرعی زمین دی جائے۔ آصف خان کہتے ہیں کہ ایئرپورٹ کی تعمیر شروع ہونے سے لے کر اب تک اس کے متاثرین کی تین نسلیں یہ مطالبہ پیش کر چکی ہیں لیکن ابھی تک اس پر کوئی عمل درآمد نہیں ہوا۔
ایک روز بعد شروع ہونے والی سماعت کا ذکر کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ وفاقی محتسب اعجاز احمد قریشی نے گلگت بلتستان کی حکومت کو ہدایت کر رکھی ہے کہ وہ مقدمے کی پیروی کرنے کے لیے اپنا نمائندہ مقرر کرے جو تمام متعلقہ ریکارڈ کے ساتھ ان کے سامنے پیش ہو۔ اگرچہ انہیں امید ہے کہ اس بار اس مقدمے کا کوئی مثبت نتیجہ نکلے گا لیکن ساتھ ہی وہ حکومت کو خبردار بھی کرتے ہیں کہ اب بھی اگر اس معاملے کا کوئی حل نہ نکالا گیا تو اس کے نتائج اچھے نہیں ہوں گے۔ ان کے بقول "ایئرپورٹ کے متاثرین کی موجودہ نسل کا احساس محرومی اس سطح پر پہنچ چکا ہے کہ اسے فوری طور پر ختم نہ کرنے کے نتیجے میں حکومت اور ریاست کو کسی ناخوشگوار صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے"۔
منتظرِ روزِ فردا
پاکستان اور انڈیا کے درمیان 1948 میں ہونے والی پہلی جنگ کے دوران انڈیا کے جنگی جہازوں کی بمباری سے گلگت اور اس کے گردونواح میں کئی افراد ہلاک ہو گئے اور اس علاقے کا باقی پاکستان کے ساتھ زمینی رابطہ بھی منقطع ہو گیا۔ چنانچہ مقامی آبادی کے تحفظ اور اس علاقے میں تعینات فوج کو رسد کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے اس وقت کی حکومت نے گلگت میں ایئرپورٹ بنانے کا فیصلہ کیا۔
اس مقصد کے لیے شہر کے وسط میں ایک ہزار کنال سے زیادہ زمین منتخب کی گئی جس پر گھروں اور کھیتوں کے علاوہ ایک پولو گراؤنڈ اور چند دیگر عوامی سہولتیں بھی موجود تھیں۔ چونکہ دفاعی نکتہ نظر سے ایئرپورٹ کا فوری قیام بہت ضروری تھا اس لیے نومبر 1949 میں اس مقام پر ایک کچے رن وے پر ہی جنگی جہازوں کی آمدورفت شروع کر دی گئی۔
گیارہ سال بعد 60-1959 میں حکومت نے ایئرپورٹ کو جدید شکل دی اور اس کا پکا رن وے تعمیر کیا۔ اس کے متاثرین نے اُس وقت بھی حکومت کو اس کا وعدہ یاد دلاتے ہوئے مطالبہ کیا کہ انہیں ان کے گھروں اور کھیتوں کا متبادل فراہم کیا جائے۔ گلگت کا علاقہ اُن دنوں ایک ریذیڈنٹ کے ماتحت تھا۔ گورنر کے مساوی اس عہدے پر اُس زمانے میں بریگیڈئر حبیب الرحمان نامی ایک فوجی افسر تعینات تھے جنہوں نے فوری طور پر یہ مطالبہ مرکزی حکومت تک پہنچایا۔
اس کے باوجود اگلے 14 برس اس پر کوئی پیش رفت نہ ہوئی۔
گلگت ایئرپورٹ
بالآخر 1974 میں حکومت نے فیصلہ کیا کہ متاثرین کو گلگت سے تقریباً 20 کلومیٹر مشرق میں واقع پڑی بنگلہ کے مقام پر ایک ہزار ایک سو 44 کنال زمین الاٹ کی جائے گی۔ تاہم یہ زمین دو انتظامی یونٹوں کے درمیان متنازع تھی اس لیے اس کی ملکیت متاثرین کے نام منتقل نہ ہو سکی۔ بعد میں انہیں چھلمش داس نامی جگہ پر متبادل زمین الاٹ کی گئی لیکن اس کی ملکیت پر بھی تنازعہ موجود تھا جس کے باعث اس کا انتقال بھی ان کے نام نہ ہو سکا۔
ایئرپورٹ متاثرین کو درپیش ایک اہم مسئلہ یہ بھی تھا کہ آخر وہ اپنا مطالبہ کن اداروں کے سامنے اٹھائیں۔ 2009 میں گلگت بلتستان میں ایک منتخب مقامی حکومت کے قیام سے پہلے اس علاقے کا انتظام براہِ راست مرکزی حکومت کے باتھ میں تھا لیکن مرکزی پارلیمنٹ میں اس کی ابھی تک کوئی نمائندگی نہیں ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہاں کے لوگوں کے پاس منتخب نمائندوں کے ذریعے اپنا مطالبہ پارلیمنٹ کے سامنے رکھنے کی سہولت موجود نہیں۔ اسی طرح ان کا علاقہ پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں کے دائرہِ اختیار سے بھی باہر ہے۔
اب اگرچہ گلگت بلتستان کی اپنی علاقائی حکومت وجود میں آچکی ہے لیکن اس کے وزیر قانون سید سہیل عباس ابھی بھی کہتے ہیں کہ اس کے پاس متاثرین کے "مسئلے کا کوئی حل موجود نہیں ہے کیونکہ ایئرپورٹ بنانے اور چلانے والا ادارہ، سول ایوی ایشن اتھارٹی، اس کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا بلکہ وفاقی حکومت کے ماتحت ہے"۔
اس ضمن میں ایئرپورٹ متاثرین کو امید کی پہلی کرن اس وقت نظر آئی جب 1980 کی دہائی کے نصف آخر میں گلگت بلتستان کو وفاقی محتسب کے دائرہ کار میں شامل کیا گیا۔ اس تبدیلی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے 1987 میں اس ادارے کو درخواست دی کہ ان کا مطالبہ پورا کیا جائے۔ اس درخواست کی سماعت کرنے کے بعد وفاقی محتسب نے اُسی سال 22 ستمبر کو حکم جاری کیا کہ 90 روز میں انہیں متبادل زمین الاٹ کی جائے۔
لیکن اگلے دو سال اس حکم پر کوئی عمل درآمد نہ ہوا لہٰذا متاثرین نے دوبارہ وفاقی محتسب سے رجوع کیا۔ اس بار ان کی درخواست کی سماعت کے دوران وفاقی وزارتِ امور کشمیر و گلگت بلتستان نے موقف اختیار کیا کہ گلگت بلتستان میں کوئی ایسی سرکاری اراضی موجود نہیں ہے جو انہیں الاٹ کی جا سکے۔
یہ بھی پڑھیں
لوئر دیر میں مکئی کی کاشت پر پابندی: 'فصل نہ لگا سکنے کے باعث لوگ روٹی کو بھی ترس جائیں گے'۔
حکومت کا یہ موقف بھی رہا ہے کہ وفاقی محتسب کو گلگت بلتستان میں ہونے والے ترقیاتی کاموں کے بارے میں سماعت کرنے کا کوئی اختیار نہیں۔ تاہم متاثرین میں شامل مقامی صحافی خالد حسین کہتے ہیں کہ یہ موقف ٹھیک نہیں کیونکہ اس سے پہلے اسی نوعیت کے ایک مقدمے میں پاکستان اور چین کو ملانے والی سڑک، شاہراہ قراقرم، کے متاثرین نے وفاقی محتسب کے ذریعے ہی زرِتلافی وصول کی ہے۔
اسی قسم کے دلائل کو مدِنظر رکھتے ہوئے وفاقی محتسب نے 1989 میں نہ صرف اپنا پہلا فیصلہ برقرار رکھا بلکہ ان سرکاری اہل کاروں کے خلاف کارروائی کرنے کا حکم بھی جاری کیا جو اس کے احکامات پر عمل درآمد کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے تھے۔
اس فیصلے پر بھی اگلے 20 سال کوئی پیش رفت نہ ہوئی۔
2009 میں مرکزی حکومت نے وفاقی محتسب سے اپیل کی کہ وہ اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کریں۔ لیکن انہوں نے یہ اپیل مسترد کرتے ہوئے کہا اسے دائر کرنے کی قانونی مدت بہت پہلے گزر چکی ہے۔
اس سلسلے میں آخری بڑی ہلچل ستمبر 2019 میں دیکھنے میں آئی جب متاثرین نے اپنے مطالبات کے حق میں ایک لانگ مارچ کیا۔ لیکن ماضی کی تمام کوششوں کی طرح یہ مارچ بھی بے نتیجہ ہی رہا۔
تاریخ اشاعت 14 مارچ 2022