وہی ہوا جس کا ڈر تھا، جی ون لہسن کی مارکیٹ ٹھس ہوگئی

postImg

وقاص احمد خان

postImg

وہی ہوا جس کا ڈر تھا، جی ون لہسن کی مارکیٹ ٹھس ہوگئی

وقاص احمد خان

پنجاب کے ضلع بھکر کی تحصیل کلور کوٹ سے تعلق رکھنے والے کسان محمد سمیر نے رواں سال دو ایکڑ رقبے پر نارک جی ون نامی لہسن کی فصل کاشت کی ہے۔ جس پر ان کے بقول صرف بیج کی مد میں 50 لاکھ روپے خرچہ آیا ہے۔

لیکن اب انہیں اپنے یہ پیسے ڈوبتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ مارکیٹ میں لہسن کی اس قسم کا کوئی خریدار ہے اور نہ ہی کسان اب اس کو بطور بیج خریدنے کے لیے تیار ہیں۔

"نارک جی ون لہسن" کے  ایک ایکڑ کے لیے 20 من بیج درکار ہوتا ہے۔ محمد سمیر بتاتے ہیں کہ انہوں نے اپنے دو ایکڑ رقبے کے لیے پانچ ہزار سے12 ہزار روپے فی کلوگرام بیج مختلف اوقات میں خریدا تھا۔

محمد سمیر کی طرح عمران علی جن  کا تعلق ضلع بھکر کی ہی تحصیل دریا خان سے ہے۔

وہ بھی پہلی بار تجرباتی طور پر بیج پر 13 لاکھ روپے خرچ کرکے چار کنال یعنی آدھے ایکڑ رقبے پر اس فصل کو لگا کر پچھتا رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اب جب فصل تیار ہوگئی ہے تو انہیں پتہ چلا ہے کہ اس کا تو کوئی خریدار ہی نہیں ہے۔

"اگر کوئی خریدار مل بھی جائے تو وہ بھی اتنے کم پیسے دے رہا ہے کہ اس کے بیج کا خرچ بھی پورا نہیں ہو پائے گا"۔

عمران علی کہتے ہیں کہ اب وہی کسان بطور بیج اسے خریدنے کی طرف آئے گا جس نے پہلی مرتبہ یہ فصل کاشت کرنی ہے اور ایسے کسان بہت ہی کم ہیں۔

این اے آر سی جی ون نامی یہ بیج نیشنل ایگری کلچر ریسرچ کونسل (این اے آر سی) کے سائنس دانوں نے 2018ء میں تیار کیا تھا۔

دو سال اس کی آزمائشی کاشت ہوتی رہی جس کے بعد 2020ء میں حکومت نے اس کی فروخت کی اجازت دے دی۔

این اے آر سی نے اس کی ابتدائی قیمت 500 روپے فی کلو گرام رکھی اور اس کی ایک محدود مقدار تیار کر کے فروخت کے لئے پیش کر دی۔

پہلے سال تو اس کی قیمت میں کافی حد تک استحکام رہا لیکن پھر جب اس کی فصل پک کر تیار ہوئی اور اس نے بہت اچھی فی ایکڑ پیداوار دی تو اس کے نرخ تیزی کے ساتھ اوپر جانے لگے۔

پہلے سال یہ بیج تین ہزار روپے فی کلو گرام کے حساب سے فروخت ہوا تو پھر اگلے سالوں میں اس کی قیمت دس سے 12 ہزار روپے تک پہنچ گئی۔

کاشت کاروں کا کہنا ہے کہ جی ون لہسن کی پیداواری صلاحیت بہتر ہونے کی بنیادی وجہ اس کی پوتیوں کا حجم ہے جو روایتی لہسن کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ پوتیوں کے اندر لہسن کے دانے بھی روایتی لہسن کی نسبت بہت بڑے ہوتے ہیں جن میں سے ہر ایک کا وزن سو گرام یا اس سے بھی زیادہ ہو سکتا ہے۔

عمران علی کہتے ہیں کہ پاکستان میں عام کاشت کئے جانے والے دیسی سفید لہسن کی پیداوار اچھی دیکھ بھال کے ساتھ 60 سے 70 من جبکہ گولڈن فارمی لہسن کی پیداوار 90 سے 100 من فی ایکڑ سے تک رہتی ہے جبکہ نارک جی.ون کی پیداوار ایک عام کاشتکار بھی 180 من سے 200 من فی ایکڑ تک حاصل کر لیتا ہے۔

اس  تمام صورت حال سے متعلق این اے آر سی کے شعبہ سبزیات کے سائنٹیفک آفیسر سلطان محمود کے مطابق اس میں کوئی شک نہیں کہ جی ون  گارلک اپنی پیداواری صلاحیت کی وجہ سے ایک شاندار قسم ہے، لیکن جب یہ مارکیٹ میں آیا تو اسے سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع پر اس طرح دکھایا گیا کہ اس فصل کو کاشت کرنے والے دنوں میں امیر ہو جائیں گے۔

" اسے ایسے لوگوں نے بھی کاشت کرنا شروع کر دیا جن کا کاشتکاری سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ طلب کی وجہ سے اس بیج کے ریٹس جو این اے آر سی نے 500 روپے فی کلو مقرر کیے تھے وہ 16 ہزار روپے سے بھی تجاوز کر گئے۔ بیج بیچنے والوں نے خوب منافع کمایا۔"

سوشل میڈیا پر جی ون گارلک کے نام سے بہت سارے ایسے پیج بنے ہوئے ہیں جہاں پر دن رات اس کی تشہیر ہورہی ہے۔

سلطان محمود کے مطابق اب صورت حال بدل رہی ہے۔ بیج میں ملاوٹ اور بیج کی مارکیٹ میں طلب کم ہونے کی وجہ سے لوگوں کو وہ قیمت نہیں مل رہی جو بہت اوپر چلی گئی تھی۔

ان کے خیال میں چند مفاد پرستوں نے کسانوں کو بہت سارے خواب دکھائے جس کی وجہ سے انھوں نے بڑھ چڑھ کر اسے کاشت کیا۔

سلطان محمود کے بقول یہ کہنا غلط ہوگا کہ اس فصل کا مستقبل ختم ہوچکا ہے۔ اب تک جی ون گارلک کی قیمت کو اوپر رکھا گیا تھا۔آئندہ سے یہ مارکیٹ میں دوسرے لہسن کی طرح اسی قیمت پر ہی بکے گا اور کسان کو اس کا بیج کم قیمت پر ملے گا۔

" عام لہسن کے مقابلے میں دوگنا پیداوار ہونے کی وجہ سے کسان کو یہ 300 روپے کی قیمت پر بھی زیادہ منافع دے گا۔ جہاں تک ذائقے کا تعلق ہے تو بیشک اس کا ذائقہ مختلف ہے لیکن جس طرح لوگوں نے باقی سبزیاں اور پھلوں کی جدید قسموں کو قبول کر لیا تھا اسے بھی وقت کے ساتھ ساتھ لوگ قبول کر ہی لیں گے"۔

این اے آر سی کے سائنسدانوں کے مطابق اس جدید لہسن کی ورائٹی کا مقصد پاکستان میں لہسن کی پیداوار میں اضافہ کرنا تھا کیونکہ اس سے پہلے مقامی طور پر کاشت ہونے والے لہسن کی پیداوار کم ہونے کی وجہ سے لہسن کی درآمد ملکی خزانے پر اضافی بوجھ کا سبب بن رہی تھی۔جی ون گالک ایک ایسی ورائٹی تھی جو جہاں جسامت میں عام لہسن سے بڑی تھی وہیں اس کی فی ایکڑ پیداوار بھی دیسی یا چائنہ لہسن سے تقریباً دو گنا تھی۔

اقوام متحدہ کے ادراہ برائے خوراک و زراعت کے مطابق 2019ء میں پاکستان نے  75 ہزار سے زائد ٹن لہسن خود پیدا کیا اور 58 ہزار 40 ٹن لہسن درآمد کیا جس پر نو ارب سات کروڑ روپے خرچ ہوئے۔

اسی ادارے کی رپورٹ کے مطابق 2014 ء کے بعد سے پاکستان میں لہسن کے استعمال اور درآمد دونوں میں مسلسل  اضافہ ہو رہا ہے۔

پچھلے سات سالوں میں پاکستان کو اپنی سالانہ ضرورت پوری کرنے کے لیے لگ بھگ 40 فیصد تک لہسن باہر سے منگوانا پڑا ہے۔ پچھلے تین سال میں پاکستان نے لہسن کی خریداری پر اوسطاً سالانہ 12 ارب 81 کروڑ 37 لاکھ روپے خرچ کیے ہیں۔

ان اعدادو شمار میں قابل ذکر بات یہ ہے کہ جی ون بیج کی وجہ سے پچھلے تین سال میں پاکستان میں لہسن کی ریکارڈ پیداوار ضرور ہوئی ہے لیکن اس کے باوجود طلب پوری کرنے کے لیے پہلے جتنا یا اس سے زیادہ مقدار میں لہسن درآمد کرنا پڑا ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

کیا لہسن کا نیا بیج کسانوں کی قسمت بدل دے گا؟

فرزند خان پچھلے 15 سال سے لاہور کی سبزی منڈی میں لہسن اور ادرک کی آڑھت چلا رہے ہیں ان کا خیال ہے کہ جی ون لہسن کھانے کے قابل ہے ہی نہیں کیوں کہ یہ پیاز کی ایک قسم ہے۔

"اس کا ذائقہ بھی اچھا نہیں ہے اور یہ پکاتے وقت بہت زیادہ جھاگ بناتا ہے۔ اس لیے ابھی تک منڈی کی کسی آڑھت پر فروخت ہونے کے لیے نہیں آیا۔ نہ ہی کبھی کسی نے گھریلو استعمال کے لیے یا پھر مصالحہ جات بنانے والی فیکٹریوں نے ڈیمانڈ کی ہے"۔

 ان کا بھی یہی ماننا ہے کہ یہ بیج بیچنے والوں ڈیلروں نے کسانوں کو بہت بڑا دھوکہ دیا ہے۔

فرزند خان تو یہاں تک کہتے ہیں کہ جی ون لہسن کی وجہ سے ملک میں دوسرے روایتی لہسن کے بیجوں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔

مظہر علی سرگودھا میں پھلوں اور سبزیوں کی جدید فارمنگ کے علاوہ کاشتکاروں کو کنسلٹنسی فراہم کرتے ہیں اور زرعی ادویات و آلات کا برینڈ بھی چلاتے ہیں۔

ان کے ماننا ہے کہ جی ون لہسن سراب کے علاوہ کچھ نہیں تھا اور ایک دن اس نے اپنی اصل قیمت کی طرف واپس جانا ہی تھا۔

"عام مشاہدے کی بات ہے کہ ہمارے ہاں لوگ اوور سائز سبزیاں وغیرہ پسند نہیں کرتے۔ ہم پیاز اور دیگر سبزیوں کے متعلق دیکھ چکے ہیں۔ تاہم کوئی بعید نہیں کہ اسے اپنا لیا جائے؟ جہاں تک اسے ایکسپورٹ کرنے کا تعلق ہے تو یہ بھی محض اس کی قیمت کو اوپر لے جانے کے لیے کہانی گھڑی جارہی ہے۔ ہمارے پاس ایکسپورٹ کے لیے اس سے بہتر چیزیں موجود ہیں جب وہ صحیح طریقے سے ایکسپورٹ نہیں ہو پا رہیں تو جی ون لہسن کہاں سے ایکسپورٹ ہوگا؟"

تاریخ اشاعت 8 جولائی 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

وقاص احمد خان کا تعلق بھکر سے ہے. پچھلے سات برس سے درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ علاقائی، سماجی اور سیاسی مسائل سے دلچسپی رکھتے ہیں۔

سوات: نادیہ سے نیاز احمد بننے کا سفر آسان نہیں تھا

thumb
سٹوری

الیکٹرک گاڑیاں اپنانے کی راہ میں صارفین کے لیے کیا رکاوٹیں ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

پسنی: پاکستان کا واحد "محفوظ" جزیرہ کیوں غیر محفوظ ہوتا جا رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceملک جان کے ڈی

پنجاب: فصل کسانوں کی قیمت بیوپاریوں کی

چمن: حکومت نے جگاڑ سے راستہ بحال کیا، بارشیں دوبارہ بہا لے گئیں

thumb
سٹوری

بھٹہ مزدور دور جدید کے غلام – انسانی جان کا معاوضہ 5 لاکھ روپے

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد

ہندؤں کا ہنگلاج ماتا مندر، مسلمانوں کا نانی مندر"

ای رکشے کیوں ضروری ہیں؟

thumb
سٹوری

نارنگ منڈی: نجی سکولوں کے طالب علموں کے نمبر زیادہ کیوں آتے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمعظم نواز

لاہور میں کسان مظاہرین کی گرفتاریاں

thumb
سٹوری

گلگت بلتستان: انس کے سکول کے کمپیوٹر کیسے چلے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنثار علی

خیبر پختونخوا، دعویٰ : تعلیمی ایمرجنسی، حقیقت: کتابوں کے لیے بھی پیسے نہیں

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.