خیبرپختونخوا کے ضلع اپر دیر میں سلطان خیل اور پائندہ خیل قبائل نے 'محفوظ' قرار دیے گئے جنگلات کی سروے آف پاکستان اور محکمہ جنگلات کے زیراہتمام باقاعدہ زمینی حدبندی کا کام روک دیا ہے۔
ان قبائل کا دعویٰ ہے کہ یہ جنگلات حکومت کی ملکیت نہیں بلکہ ان کی مالک یہاں صدیوں سے آباد اقوام (قبیلے) ہیں اور اگر حکومت نے ان جنگلات کی حیثیت تبدیل کرنے کی کوشش کی تو وہ مزاحمت کریں گے۔
سروے آف پاکستان اور محکمے کے درمیان 15 اکتوبر 2021 کو ایک یادداشت پر دستخط کئے گئے تھے جس کا مقصد ملاکنڈ ڈویژن کے اضلاع سوات، چترال، شانگلہ اور بونیر کی طرح ضلع اپردیر میں بھی محفوظ جنگلات کی مکمل حد بندی کر کے مختلف اقوام اور لوگوں کی ملکیت کا تعین کرنا تھا۔
ان جنگلات کا مجموعی رقبہ دو لاکھ 89 ہزار ایکڑ سے زیادہ ہے۔
اس سلسلے میں سب ڈیژن واڑی کے مختلف علاقوں میں 61 بلاکس/کمپارٹمنٹس پر 15 فروری 2023 کو کام کا آغاز ہوا اور کارو درہ، جیلاڑ، پاٹاؤ اور کیردرہ میں حد بندی مکمل کر لی گئی۔ تاہم جب نہاگ درہ میں دس جگہوں پر حد بندی کا عمل جاری تھا تو کمپارٹ 17کے سروے کے دوران مقامی لوگوں نے مزاحمت کی اور سروے آف پاکستان کے ٹیم کو مزید کام کرنے سے روک دیا۔
قبائل کیا چاہتے ہیں
سروے آف پاکستان اور قبائل کے مابین یہ تنازع کھڑا ہونے کے بعد سلطان خیل اور پائندہ خیل قبائل نے مشترکہ جرگہ بلاکر عمائدین کی مشاورت سے اعلان کیا کہ وہ اپنے علاقے میں محکمہ جنگلات سمیت کسی ادارے کی مداخلت برداشت نہیں کریں گے اورضلعی انتظامیہ کو اپنے تحفظات اور خدشات کے بارے میں بتائیں گے۔
پچھلے ماہ اسی حوالے سے اپر دیر میں ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں ضلعی انتظامیہ اور محکمہ جنگلات کے حکام کے ساتھ منعقدہ جرگے میں قبائلی عمائدین نے ان جنگلات کی حدبندی کو مسترد کر دیا۔
جرگے کے سربراہ سابق ایم پی اے ملک بہرام خان نے لوک سجاگ کو بتایا کہ انہوں نے ضلعی انتظامیہ کو واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ قبائل ہی ان جنگلات کے اصل مالک ہیں۔
''یہ قدرتی جنگلات ہیں جس کی ان قبائل کے موجودہ لوگوں اور ان کے اجداد نے دیکھ بھال کی ہے۔ یہ جنگلات نہ تو حکومت نے اگائے ہیں اور نہ ہی سرکاری سطح پر کبھی ہمارے علاقوں میں کہیں شجرکاری کی گئی ہے۔''
حکام کے مطابق 1975 میں ریاست دیر کے ملکیتی جنگلات کی باقاعدہ طور پر محکمہ جنگلات کو حوالگی عمل میں آئی تھی
1970 کی دہائی میں قبائل اور سکیورٹی اداروں کے ساتھ مسلح تصادم کے بعد طے پانے والے ایک معاہدے میں جنگلات کی رائیلٹی اور مراعات میں مقامی قبیلوں کا حصہ 80 فیصد اور حکومت کا حصہ 20 فیصد متعین کیا گیا۔ اسی طرح کوہستان دیر کے جنگلات میں مقامی قبائل کو 60 فیصد اور حکومت کو 40 فیصد حصہ ملا۔
ضلعی انتظامیہ اور محکمہ جنگلات کا مؤقف
ضلع اپر دیر کے ڈپٹی کمشنر گوہر زمان وزیر نے اس تنازعے اور قبائلی عمائدین کے ساتھ جرگے کے بارے میں لوک سجاگ کو بتایا کہ سپریم کورٹ کی ہدایات پر محکمہ جنگلات اور سروے آف پاکستان نے اپردیر سمیت ملاکنڈ ڈویژن میں جنگلات کی آن لائن حدبندی شروع کر رکھی ہے۔ اس کے تحت تحصیل واڑی میں 30 سے 35 علاقوں کی حدبندی کردی گئی ہے۔ اس حوالے سے مقامی لوگوں میں غلط فہمی پائی جاتی ہے اور جرگے میں ان کے تحفظات کو سن کر حد بندی عارضی طور پر روک دی گئی ہے۔
''چونکہ دیر سابقہ ریاست ہے اس لئے یہاں کے حالات دوسرے علاقوں سے مختلف ہیں۔ ہم نے مقامی روایات کو ملحوظ نظر رکھنا ہے۔ امید ہے کہ آئندہ ملاقاتوں میں ان مسائل کا حل ڈھونڈ لیا جائے گا۔ حدبندی کا کام صرف واڑی میں نہیں ہو رہا بلکہ کوہستان دیر اور کمراٹ سمیت ضلع بھر میں جاری ہے۔ اس سے جنگلات کا تحفظ ہو گا اور لوگوں کو بھی فائدہ پہنچے گا۔''
محکمہ جنگلات اپر دیر ڈویژن کے ڈسٹرکٹ فاریسٹ آفیسر اعجاز الرحمٰن نے حدبندی تنازعے کے بارے میں بتایا ہے کہ سب ڈویژن واڑی کے 61 علاقوں میں سے 51 کا زمینی سروے مکمل ہو چکا ہے اور دس جگہوں پر سروے کے دوران لوگوں کی مزاحمت پر کام روکنا پڑا ہے۔
قبائلی عمائدین کے مطابق 1970 کے ایک معاہدے کے تحت جنگلات کی رائیلٹی اور مراعات میں مقامی قبیلوں کا حصہ 80 فیصد ہے
محکمہ جنگلات کے حکام 1969 میں ریاست دیر کے پاکستان میں انضمام کے بعد حکومت کے ساتھ اس کے مختلف معاہدوں اور لینڈ کمیشن کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ 1975 میں ریاست دیر کے ملکیتی جنگلات کی باقاعدہ طور پر محکمہ جنگلات کو حوالگی عمل میں آئی تھی۔ حکام کے مطابق اپردیر کے دو فاریسٹ ڈویژنوں میں کل 964 کمپارٹمنٹ ہیں جن میں 402 دیر کوہستان فاریسٹ ڈویژن میں اور 502 اپردیر فاریسٹ ڈویژن میں واقع ہیں۔
اعجاز الرحمٰن کا کہنا ہے کہ اس سے پہلے محفوظ جنگلات کی حدبندی کا سیٹلائٹ سروے ستر کی دہائی میں کیا گیا تھا۔ اس دور میں جاری ہونے والے حکومتی نوٹیفکیشنز میں سابق ریاست دیر کے جنگلات کو حکومت پاکستان کی ملکیت قرار دیا گیا ہے۔ ایسی دستاویزات میں یہ ذکر بھی ملتا ہے کہ تمام محفوظ جنگلات حکومت کی ملکیت ہیں اور ان کی 15 فیصد رائیلٹی مقامی لوگوں کو ملے گی۔
ایسے ہی ایک نوٹیفکیشن میں صوبے کے زیرانتظام قبائلی علاقوں (PATA ) کے تمام جنگلات کو بھی محفوظ قرار دیتے ہوئے وہاں سے پتھر اٹھانے، جنگلاتی پیداوار سے استفادہ کرنے، کاشتکاری، مکانات کی تعمیر اور مال مویشی چرانے سمیت ان کے دیگر مقاصد کے لیے استعمال پر پابندی لگائی گئی تھی۔
یہ بھی پڑھیں
جنگل کی زمین پر بجلی کی پیداوار: رکھ چوبارہ کے باسی اور سرکاری محکمے آپس میں الجھ پڑے۔
دیر کے جنگلات میں درختوں کی غیرقانونی کٹائی پر ضلعی انتظامیہ اور محکمہ جنگلات نے کئی مرتبہ کارروائی کرتے ہوئے ان واقعات کے ذمہ داروں کے خلاف مقدمے درج کرائے اور انہیں جیل بھی بھجوایا ہے۔
واڑی اور کوہستان کے قبائل اور محکمہ جنگلات کے درمیان بہت سے تنازعات ہیں جو کبھی کبھار شدت اختیار کر لیتے ہیں جنہیں حل کرنے کے لیے انتظامیہ کی سرپرستی میں عمائدین کے ساتھ وقتا فوقتآ جرگے جاری رہتے ہیں۔
تاہم اب کے سلطان خیل و پائندہ خیل قبائل نے محکمہ جنگلات کے تمام دعووں کو مسترد کرتے ہوئے ضلعی انتظامیہ کے ساتھ منعقدہ جرگوں میں کہا ہےکہ وہ جنگلوں میں اپنی ملکیت برقرار رکھنے کے لیے آخری حد تک جائیں گے۔
تاریخ اشاعت 25 اپریل 2023