ننکانہ صاحب سے 45 کلومیٹر جنوب مشرق میں قصبہ سید والہ(پرانا) صدیوں سے آباد ہے۔ راوی کنارے موجود اس قصبے کو سات عشرے قبل سیلاب نے ڈبو دیا تھا اور اس وقت یہاں مقیم لگ بھگ آٹھ ہزار لوگ بے گھر ہو گئے تھے۔
پاکستان بنے ابھی چند سال ہوئے تھے، حکومت نے ان سیلاب متاثرین کو قریب ہی دو کلومیٹرکے فاصلے پر موجود سرکاری اراضی پر بسانے کا فیصلہ کیا جہاں انہوں نے ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ یہاں سو ایکڑ اراضی پر پانچ ہزار لوگ آباد ہوئے جبکہ باقی علاقہ چھوڑ کر جا چکے ہیں۔
یوں 'نیا سید والہ' آباد ہو گیا جو اب ایک لاکھ سے زائد آبادی پر مشتمل ٹاؤن کمیٹی بن چکا ہے۔
سید والہ کی اسی سرکاری اراضی کے ایک حصے کو چند خاندانوں نے 'بستی علی نگر' کا نام دیا اور یہیں رہنا شروع کر دیا تھا۔
تینتالیس سالہ حاجی قیصر اسی بستی میں پیدا ہوئے تھے اور یہیں جوان ہوئے۔
وہ بتاتے ہیں کہ ان کا خاندان چار نسلوں سے یہاں آباد ہے لیکن 2019ء میں ضلعی انتظامیہ نے سو سے زائد گھروں کی اس بستی کو تجاوزات کے خلاف آپریشن کے نام پر مسمار کر دیا۔ انتظامیہ کا کہنا تھا کہ یہ تمام گھر قبرستان کی اراضی پر قبضہ کر کے بنائے گئے ہیں۔
"جولائی 2019 کی تپتی دوپہر کو ہمارے سروں سے سائبان چھین لیا گیا۔ چار سال بعد بھی ہم چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ جھونپڑیوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ جہاں پانی اور بجلی جیسی بنیادی سہولتیں بھی میسر نہیں ہیں۔"
وہ کہتے ہیں کہ ان کے خاندان 1952ء سے یہاں رہ رہے تھے جبکہ قبرستان بعد میں بنایا گیا تھا۔ آپریشن کے وقت انتظامیہ اور سیاسی رہنماؤں نے یہاں کے مکینوں کو متبادل جگہ دینے کا وعدہ کیا جو آج تک پورا نہیں ہو سکا۔
سید والہ کے رہائشی ریٹائرڈ ٹیچر شیخ ریاض احمد شاہد بتاتے ہیں کہ جڑانوالہ روڈ پر نیا سیدوالہ کا ریکارڈ دفتر پٹوار میں موجود ہے لیکن یہ زمین کبھی لوگوں کے نام منتقل نہیں ہوئی۔
وہ کہتے ہیں کہ الاٹمنٹ کے دوران اسی سو ایکڑ میں سے 32 کنال زمین قبرستان کے لیے بھی مختص کی گئی تھی۔ جس میں سے 12 کنال پر قبرستان ہے اور باقی 20 کنال پر سو کے قریب کچے پکے گھروں پر مشتمل بستی 'علی نگر' کہلاتی تھی۔
بستی کو جب مسمار کیا گیا تو اس وقت یہاں آٹھ سو سے زائد لوگ آباد تھے۔ اگرچہ حاجی قیصر کا دعویٰ ہے کہ یہ زمین بستی کے مکینوں کو الاٹ کر دی گئی تھی۔ تاہم ان کے پاس اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے اور حکام بھی اس دعوے کی تردید کرتے ہیں۔
موضع سیدوالہ کے پٹواری شاہد امین بتاتے ہیں کہ ریکارڈ کے مطابق بستی والی ساری زمین قبرستان کے لیے وقف ہے اور یہ کبھی کسی کو الاٹ نہیں کی گئی۔
اسسٹنٹ کمشنر ننکانہ اللہ توکل وٹو پٹواری کے موقف کی تائیدکرتے ہیں۔ انہوں نے لوک سجاگ کو بتایا کہ یہ زمین قبرستان ہی کی ہے جس پر ان لوگوں نے مختلف اوقات میں گھر بنا لیے تھے۔ "عوامی شکایات پر" 2019ء میں آپریشن کر کے یہ اراضی واگزار کرا لی گئی تھی۔
"ضلعی انتظامیہ نے ان لوگوں کو متبادل جگہ دینے کے لیے ریونیو بورڈ میں کیس بھیجا تھا، مگر مختلف اعتراضات کی وجہ سے یہ کام مکمل نہیں ہو سکا۔"
تاہم انہوں نے اعتراضات کی تفصیل نہیں بتائی۔
شاہد امین کہتے ہیں کہ تھانہ سیدوالہ کے قریب دو ایکڑ سرکاری اراضی میسر ہے۔ علی نگر کے رہائشیوں کو یہ جگہ دینے کے معاملے پر کچھ پیش رفت بھی ہوئی لیکن پھر اس سلسلے میں پیشرفت نہ ہو سکی۔
" مذکورہ دو ایکڑ زمین 2022ء میں آفتاب نامی شہری نے پانچ سالہ لیز پر حاصل کر لی، وہ اس مد میں مقررہ رقم بھی خزانے میں جمع کرا چکے ہیں۔"
مسلم لیگ ن الزام لگاتی ہے کہ پی ٹی آئی حکومت نے ان کے ووٹرز اور سپورٹرز کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا ہے اور بستی مسمار کرا دی جبکہ تحریک انصاف اس الزام کی تردید کرتی ہے اور ن لیگ پر متاثرین کو متبادل جگہ نہ دینے کا ذمہ دار قرار دیتی ہے۔
سابق ایم پی اے اسلم خاں کھرل 2019ء میں تحریک انصاف تحصیل ننکانہ صاحب کے صدر تھے۔ ان کا تعلق سید والہ سے ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ آپریشن کے بعد اس وقت کے ڈپٹی کمشنر نے بستی کے متاثرین کو نئی جگہ دینے کے لیے کیس بھیجا تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ تحصیلدار نے نئی آبادی کے لیے تھانے کے قریب والی جگہ کی نشاندہی کی تھی۔
"الاٹمنٹ کے لیے 96 کے قریب خاندانوں کی فہرست بھی تیار کر لی گئی تھی۔ مگر حکومت تبدیل ہوتے ہی یہ منصوبہ ختم کرا دیا گیا۔ اب بھی یہاں سرکاری زمینیں خالی پڑی ہیں جن میں سے ان بے گھر افراد کو جگہ دی جانی چاہیے"۔
سیدوالہ کے رہائشی آغا علی حیدر خاں گزشتہ انتخابات میں اسی حلقے سے مسلم لیگ ن کے ایم پی اے منتخب ہوئے تھے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ علی نگر کے باسیوں کو ن لیگ کا ساتھ دینے کی سزا دی گئی۔ اگرچہ زمین قبرستان کی تھی لیکن یہاں لوگ دہاٸیوں سے رہائش پذیر تھے۔ متبادل جگہ دینے کے بعد بھی یہ زمین خالی کرائی جا سکتی تھی۔
یہ بھی پڑھیں
ننکانہ صاحب میں تعمیراتی پالیسی کی عدم موجودگی مذہبی ہم آہنگی کے لیے خطرہ بن گئی
"میں نے بستی کے مکینوں کو بےگھر کرنے کے خلاف اس وقت پنجاب اسمبلی میں بھی آواز اٹھائی تھی لیکن حکومت نے ان سنی کر دی تھی۔ گزشتہ ماہ جب حمزہ شہباز شریف سیدوالہ آئے تھے تو انہوں نے متاثرین کو متبادل جگہ دلوانے کا وعدہ کیا ہے۔"
بورڈ آف ریونیو میں کیس ڈراپ ہونے سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ یہ صرف ایک خواب تھا جو پی ٹی آئی کے سابق ایم این اے نے ان غریبوں کو دکھایا تھا۔ ایسا کوئی منصوبہ شروع ہی نہیں ہوا تو اسے مسلم لیگ ن کی طرف سے کیسے رکوایا جا سکتا ہے؟ وہ وعدہ کرتے ہیں کہ ان کی جماعت پہلی ترجیح میں ان بےگھر افراد کو متبادل جگہ فراہم کرے گی۔
بشریٰ بی بی کے تین بیٹیوں سمیت سات بچے ہیں۔ بستی مسمار ہونے سے یہ خاندان بھی بے گھر ہوا تو کرائے پر مکان لے لیا۔ مگر چند ماہ بعد ہی بشریٰ بی بی کے شوہر تحفیظ الحسن دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے۔اب وہ شدید مالی مشکلات کا شکار ہیں۔
ساٹھ سالہ منظور احمد علی نگر میں پیدا ہوئے۔ وہیں پلے بڑھے اور وہیں اپنے بچوں کی شادیاں کیں۔ جب بے گھر ہوئے تو پانچ ماہ کرائے کے گھر میں مقیم رہے لیکن محدود آمدنی کی وجہ سے ماہانہ پانچ ہزار روپے کرایہ نکالنا مشکل تھا۔ اب وہ ایک جھونپڑی بنا کر رہ رہے ہیں۔
حاجی قیصر کہتے ہیں کہ یہ سب لو گ حکمرانوں کا وعدہ پورا ہونے کے منتظر ہیں کہ کب انہیں متبادل جگہ فراہم کی جاتی ہے؟
تاریخ اشاعت 18 دسمبر 2023