فٹ بال کا نوحہ: لیاری کے ایک نوجوان رول ماڈل کی موت جو خبر نہ بن سکی

postImg

زبیر خان

postImg

فٹ بال کا نوحہ: لیاری کے ایک نوجوان رول ماڈل کی موت جو خبر نہ بن سکی

زبیر خان

25 اپریل کا نیوز میڈیا نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم کے خلاف پاکستان کی فتح کی خبروں سے بھرا ہوا تھا۔ چیختی چلاتی سرخیوں اور چنگھاڑتے اینکروں کے ہنگام میں کھیلوں کی دنیا کی ایک چھوٹی سی خبر اپنی جگہ بنانے کی لاحاصل جدوجہد کر رہی تھی۔

یہ خبر پاکستان کے نامور فٹ بالر منیر آفتاب کی موت کی تھی۔

ان کا انتقال صرف 26 سال کی عمر میں ہوا۔ وہ پاکستان کی انڈر 12، 14، 16 اور انڈر 19 ٹیموں کی قیادت کر چکے تھے۔ اس باصلاحیت کھلاڑی کا انتقال گردوں کے مرض ہوا۔ آخری ایام میں وہ شدید مالی پریشانیوں کا شکار رہے لیکن انہیں سرکاری سطح پر علاج کی سہولت میسر نہ آ سکی۔ انہوں نے سوگواروں میں اہلیہ اور تین کمسن بیٹیاں چھوڑی ہیں۔

منیر آفتاب نے اپنے مختصر مگر شاندار کیریئر میں ملک کے لئے بہت سی کامیابیاں سمیٹیں۔ انہوں نے 2009ء میں بارہ سال کی عمر میں ایران میں ہونے والے انڈر 13 فٹ بال فیسٹیول میں پہلی مرتبہ قومی ٹیم کی قیادت کی۔ جنوبی ایشیاء کی سیف فٹ بال چیمپئن شپ میں نیپال اور انڈیا کے خلاف کامیابیاں ان کے کیریئر کی شاندار فتوحات سمجھتی جاتی ہیں۔

منیر آفتاب کا تعلق کراچی کے علاقے لیاری سے تھا جو فٹ بال کے لیے اپنے جنون کی بنا پر بھی شہرت رکھتا ہے۔ ان کے والد آفتاب بلوچ رکشہ چلاتے ہیں جو خود بھی فٹ بال کے کھلاڑی رہ چکے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ آخری ایام میں زندگی اور موت کی جنگ لڑتے منیر آفتاب اس بات پر نالاں تھے کہ ارباب اقتدار نے ان کی کوئی عملی مدد کرنا تو درکنار ان کا حال تک نہیں پوچھا۔ غصے اور مایوسی کے عالم میں وہ اپنی ٹرافیاں اور میڈل اٹھا کر پھینک دیتے تھے۔

آفتاب بلوچ کے مطابق ان کے لئے محدود مالی وسائل میں اپنے بیٹے کو کھیل کی اچھی تربیت دلانا آسان نہیں تھا لیکن انہوں نے اپنی سی کوشش کی اور منیر اپنی غیرمعمولی صلاحیتوں کی بدولت بہت جلد لیاری کی پہچان بن گیا۔

قومی فٹ بال ٹیم کے سابق کھلاڑی اور نیشنل بینک کی ٹیم کے کوچ غلام شبیر کا تعلق بھی لیاری سے ہے۔ منیر آفتاب کی زیادہ تر کوچنگ انہوں نے ہی نے کی تھی۔

غلام شبیر بتاتے ہیں کہ وہ جونیئر کھلاڑی ہوتے ہوئے پاکستان کی سینئر ٹیم کی طرف سے کھیلے۔ انہوں نے کئی مقابلوں میں گولڈ میڈل جیتے اور تمام قومی جونیئر ٹیموں کے کپتان رہے۔ یہ اعزاز کسی اور کھلاڑی کے حصے میں نہیں آیا۔

منیر آفتاب پہلے کراچی پورٹ ٹرسٹ کی ٹیم کی نمائندگی کرتے تھے۔ غلام شبیر نے انہیں نیشنل بینک کی ٹیم میں منتخب کیا اور ادارے کی ملازمت دلوائی۔

کچھ عرصہ پہلے جب نیشنل بینک نے اپنا کھیلوں کا شعبہ ختم کیا تو بہت سے کھلاڑیوں کی ملازمتیں بھی ختم ہو گئیں۔ اس وقت منیر آفتاب اور دیگر کھلاڑیوں کو بینک سے تیس ہزار روپے تک ماہانہ مشاہرہ ملتا تھا۔

غلام شبیر کے مطابق انہوں نے بینک سے استدعا کی کہ اس قدر معمولی تنخواہ پر کھیلنے والے ان کھلاڑیوں کو فارغ کرنا بہتر پالیسی نہیں کیونکہ اس سے ادارے کو کچھ زیادہ مالی فائدہ تو شاید نہ ہو لیکن بہت سے باصلاحیت کھلاڑیوں کا کھیل ضرور ختم ہو جائے گا۔ لیکن بدقسمتی سے ان کی بات نہیں سنی گئی۔

آفتاب بلوچ کہتے ہیں کہ روزگار ختم ہونے کے باعث ان کا بیٹا ذہنی دباؤ کا شکار ہو گیا۔ اس کا بلڈ پریشر ہائی رہنے لگا جس کا اثر اس کے گردوں پر پڑا جو جلد ہی فیل ہو گئے۔ فٹ بال ہی اس کا اوڑھنا بچھونا تھا اور نیشنل بینک کی نوکری کے بعد اسے کہیں کوئی مناسب ملازمت نہ مل سکی۔

سندھ فٹ بال ایسوسی ایشن کے سیکرٹری رحیم بخش بلوچ کہتے ہیں کہ منیر آفتاب کو بیماری کے دوران سرکاری سطح پر کسی طرح کی مدد دستیاب نہیں تھی۔ اگر کسی نے اس کی کوئی مدد کی تو وہ فٹ بال کے پرستار اور لیاری کے لوگ تھے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

اولمپکس مقابلے: جذبہ جواں، صلاحیت بھرپور لیکن پھر بھی جیت ابھی تک ایک خواب۔

منیر آفتاب کی بیماری کے دوران سابق فٹ بالر شاہد تاج نے ان کی ویڈیو بنائی تاکہ ارباب اختیار کو ان کے بارے میں آگاہی ہو سکے۔ جب یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر مشہور ہوئی تو بہت سی نمایاں شخصیات نے ان کی مدد اور علاج معالجہ کرانے کے وعدے کئے جو کبھی پورے نہیں ہوئے۔

قومی فٹ بال ٹیم کے سابق کھلاڑی اورنگ زیب شاہ میر کہتے ہیں کہ منیر آفتاب کی موت جن حالات میں ہوئی انہیں دیکھتے ہوئے اب لیاری کے نوجوان فٹ بال میں کیریئر بنانے کی امید چھوڑ رہے ہیں۔ منیر آفتاب اس علاقے میں نوجوانوں کے رول ماڈل تھے جن کے کیریئر اور زندگی کے دردناک انجام نے نوجوانوں کھلاڑیوں کو شدید مایوس کیا ہے۔

تاریخ اشاعت 13 مئی 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

محمد زبیر خان کا تعلق ایبٹ آباد سے ہے۔ وہ بی بی سی کے علاوہ مختلف بین الاقومی میڈیا کے لیے کام کرتے ہیں۔ ان کا زیادہ تر کام پاکستان کے سرحدی اور دور دراز علاقوں میں ہے۔ جہاں سے یہ انسانی زندگیوں کی کہانیوں پر کام کرتے ہیں۔

thumb
سٹوری

"اپنی زندگی آگے بڑھانا چاہتی تھی لیکن عدالتی چکروں نے سارے خواب چکنا چور کردیے"

arrow

مزید پڑھیں

یوسف عابد

خیبر پختونخوا: ڈگری والے ناکام ہوتے ہیں تو کوکا "خاندان' یاد آتا ہے

thumb
سٹوری

عمر کوٹ تحصیل میں 'برتھ سرٹیفکیٹ' کے لیے 80 کلومیٹر سفر کیوں کرنا پڑتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceالیاس تھری

سوات: موسمیاتی تبدیلی نے کسانوں سے گندم چھین لی ہے

سوات: سرکاری دفاتر بناتے ہیں لیکن سرکاری سکول کوئی نہیں بناتا

thumb
سٹوری

صحبت پور: لوگ دیہی علاقوں سے شہروں میں نقل مکانی پر کیوں مجبور ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceرضوان الزمان منگی
thumb
سٹوری

بارشوں اور لینڈ سلائڈز سے خیبر پختونخوا میں زیادہ جانی نقصان کیوں ہوتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا

یہ پُل نہیں موت کا کنواں ہے

thumb
سٹوری

فیصل آباد زیادتی کیس: "شہر کے لوگ جینے نہیں دے رہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
thumb
سٹوری

قانون تو بن گیا مگر ملزموں پر تشدد اور زیرِ حراست افراد کی ہلاکتیں کون روکے گا ؟

arrow

مزید پڑھیں

ماہ پارہ ذوالقدر

تھرپارکر: انسانوں کے علاج کے لیے درختوں کا قتل

دریائے سوات: کُنڈی ڈالو تو کچرا نکلتا ہے

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.